اشاعتیں

دسمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

چراغ کا بندوبست کر لیجیے!

ظریفانہ شاعری کا ایک بڑا نام، سرفراز شاہد، رخصت ہو گئے۔ وفاقی دارالحکومت کی تہذیبی اور ادبی زندگی کا لازمی جزو تھے۔ ہمیشہ مسکراتے ہوئے! خود نمائی اور خود توصیفی سے نا آشنا! صلاح الدین چلے گئے۔ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے ممتاز رکن! چوہدری محمد علی اور سرتاج عزیز کی روایت کے امین! صوبہ خیبر پختونخوا کے اکاؤنٹنٹ جنرل رہے۔ مسلح افواج اور دفاع کے تمام شعبوں کے حسابات اور آڈٹ کے سربراہ رہے۔ انکسار کے پیکر! وسیع دستر خوان کے مالک! کوئی ڈرائیور، کوئی خاکروب، کوئی خدمت گار ان کے گھر سے کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتا تھا۔ زندگی اپنی پوری بے بسی کے ساتھ سر بزانو بیٹھی ہے۔ سامنے جو انگیٹھی پڑی ہے اس کے انگارے راکھ بن چکے ہیں۔ زندگی کی مجلس سے داستان گو ایک ایک کر کے اٹھ رہے ہیں! موت کے سامنے زندگی کی کوئی ادا، کوئی غمزہ کوئی عشوہ کوئی رنگینی نہیں ٹھہر سکتی! بیٹھے ہوتے ہیں کہ کسی دوست کی مرگ کی خبر ملتی ہے۔ چل رہے ہوتے ہیں کہ کسی اور کے کوچ کا نقارہ سنائی دیتا ہے۔ سونے لگتے ہیں تو فون آتا ہے کہ فلاں کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ سو کر اٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کا کینسر تشخیص ہوا ہے جو آخری...

خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں

چوبیس نومبر2021ء کو جو کچھ ہوا‘ وہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ایک مدت سے ایسا ہو رہا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ تھم نہیں پائے گا۔ ایسا ہوتا رہے گا۔ ہماری زندگیوں میں! شاید ہمارے بعد بھی! کب تک ہوتا رہے گا ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا! یہ نومبر کا چوبیسواں دن تھا۔ کشتی فرانس کے ساحل سے چلی۔ اس نے رودبار انگلستان کو‘ جسے انگلش چینل بھی کہا جاتا ہے‘ پار کر کے برطانیہ کے ساحل تک پہنچنا تھا۔ کشتی کمزور تھی۔ڈوب گئی۔ پچاس میں سے سو مسافر ہلاک ہو گئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ تھے؟ برطانیہ کیوں جانا چاہتے تھے؟ کھلونا قسم کی کمزور جعلی کشتی ہی میں کیوں بیٹھے؟ یہ ستائیس ڈوبنے والے مہاجر‘ اور اس سے پہلے ہزاروں ڈوبنے والے بے گھر افراد‘ ملت اسلامیہ کے رخسار پر ایک طمانچہ ہیں! ایسا طمانچہ کہ انگلیوں کے نشان واضح ہیں۔ یہ عراقی تھے جو بھوک سے‘ افلاس سے‘ مذہبی اور مسلکی تفریق کی اذیت سے‘ موت سے ‘ بھاگ کر یورپ میں پناہ لینا چاہتے تھے۔ ان میں لڑکے تھے۔ جوان لڑکیاں بھی ‘ معمر افراد بھی۔فرانسیسی اور برطانوی حکومتوں کے متعلقہ محکموں نے ان کی لاشیں سمندر کی گہرائیوں سے نکالیں۔ ان پر کفن لپیٹے اور عراق واپس ان کے پس...

عجز صدیوں کا

ممتا بینر جی بنگالی برہمن ہیں۔ کلکتہ یونیورسٹی سے تاریخِ اسلام میں ایم اے کیا۔ پھر ایجوکیشن میں ڈگری لی۔ وکالت کا امتحان پاس کیا۔ مرکز میں وزیر رہیں۔ دس سال سے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ جب سے وزیر اعلیٰ بنی ہیں، تنخواہ نہیں لی۔ اپنی پینٹنگز بیچ کر اور اپنی تصانیف اور میوزک کی رائلٹی پر گزارہ کر رہی ہیں۔ سرکاری گاڑی نہیں استعمال کرتیں۔ آبائی گھر میں رہتی ہیں جو چھوٹا ہے، پرانا ہے اور گنجان آبادی میں واقع ہے۔ مرمت کے دوران بھی اسی گھر میں رہتی ہیں۔ بارش کے دوران اینٹوں پر پاؤں رکھ کر گھر میں داخل ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں ممتا بینر جی ریلوے کی وزیر تھیں۔ واجپائی ان کے گھر گئے تو گھر کی حالت دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے۔ سلیپر پہنتی ہیں۔گاؤں گاؤں پیدل دورہ کرتی ہیں۔ مگر مجھے ممتا بینرجی بالکل پسند نہیں۔ مشرقی جرمنی میں پیدا ہونے والی اینجلا مرکل سولہ سال جرمنی کی حکمران رہیں۔ ان کی نجی زندگی ان کی سرکاری زندگی سے بالکل الگ رہی۔ کبھی کوئی خبر ان کی نجی یا ازدواجی زندگی کے بارے میں باہر نہ آئی۔ ایک ہی رنگ اور ایک ہی سٹائل کا سادہ لباس پہنتی رہیں۔ کسی نے ان کے لباس...

بنگلہ دیش کیوں ہم سے آگے نکل گیا ؟

ہم پانی بلو رہے ہیں! جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے ہم پانی میں مدھانی ڈالتے ہیں اور بلونا شروع کر دیتے ہیں۔ مکھن تو خیر کیا نکلنا ہے‘ کثافت کا ایک گولہ پانی کے اوپر تیرنے لگتا ہے۔کس کا قصور تھا؟ ہمارا نہیں تھا‘ اُن کا تھا۔ اُن کا نہیں‘ ہمارا تھا۔ نہیں‘ دونوں کا تھا۔ آدھا اُن کا‘ آدھاہمارا! ہم نے سبق کچھ نہیں سیکھا! ہم نے سبق سیکھا ہے! ہم نے سبق سیکھا ہے مگر پورا نہیں سیکھا۔ ایک گروہ کہتا ہے: ہم نے سبق سیکھا اور ایٹمی طاقت بن گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے: اگراُس وقت آپ ایٹمی طاقت ہوتے بھی تو کیا کر لیتے؟ مقامی آبادی مخالف ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک گروہ کہتا ہے :ہم نے سبق سیکھا اور اس کے بعد آئین کی حفاظت کی! دوسرا گروہ کہتا ہے: اگر ہم سبق سیکھتے تو مشرقی پاکستان کھونے کے بعد مارشل لا نہ لگنے دیتے! یہ کیسا سبق ہے کہ جس مارشل لا کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا‘ وہی مارشل لا بعد میں بھی لگتا رہا۔ اگر پہلے تئیس سالوں میں تیرہ سال مارشل لا رہا تو بعد کے پچاس برسوں کے دوران بھی بیس بائیس سال آمریت میں گزار دیے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اردو پورے بر صغیر میں سمجھی جاتی تھی اور بنگالی علاقائی زبان تھی۔ دوسرا گ...

ایک قیمتی تحفہ

یہ وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں نے مسلمان ملکوں میں قتل و غارت پھیلا رکھی تھی۔ ان کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک تاتاری دس دس پندرہ پندرہ مسلمانوں کو ہانکتا لے جا رہا ہوتا تھا۔ ایسے ہی دن تھے جب ایک عمر رسیدہ شریف آدمی کو ایک تاتاری نے پکڑ لیا اور غلام کے طور پر فروخت کرنے کے لیے منڈی میں لے گیا۔ ایک گاہک نے دس ہزار اشرفیوں کی پیشکش کی۔ قیدی نے تاتاری کو متنبہ کیا کہ اتنا سستا نہ بیچو‘ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تاتاری خوش ہوا کہ اس سے بھی زیادہ دولت ہاتھ آئے گی۔ اتنے میں ایک اور گاہک نے قیدی کو بھوسے کی بوری کے بدلے میں خریدنا چاہا۔ قیدی نے کہا: بھوسے کی بوری لے لو‘ میری حیثیت تو اس سے بھی کم ہے۔ اس پر تاتاری بھنّا اٹھا اور قیدی کو تہ تیغ کر دیا۔ (بعض روایتوں میں بھوسے کی بوری کے بجائے گھاس کے گٹھے کا ذکر ہے) یہ شہر نیشا پور تھا جو آج کل ایران کے شمال مشرق میں، مشہد سے پچھتر کلومیٹر دور واقع ہے۔ معمر قیدی فریدالدین عطار تھے جو شاعروں کے شاعر اور صوفیوں کے صوفی تھے۔ سال 1221 تھا‘ یعنی دہلی میں قطب الدین ایبک کے تخت نشین ہونے اور سلاطین کا دور شروع ہونے کے تیرہ سال بعد۔ عطار کے قتل ک...

ایک اور سولہ دسمبر

مادھو نے یہ کینٹین ‘ ٹھیک ایک سو سال پہلے‘1921ء میں شروع کی۔یہ وہی سال ہے جب ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 1905ء کی تقسیمِ بنگال ‘ قیامِ پاکستان کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ مشرقی بنگال اور آسام کو‘ جہاں مسلم اکثریت تھی‘ الگ صوبہ قرار دیا گیا۔ ڈھاکہ اس صوبے کا صدر مقام تھا۔ یہ تقسیم مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔ انہیں ترقی کے مواقع ملنے تھے۔ مگر کانگرس اور دیگر ہندو لیڈروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ انہوں نے تقسیم کے خلاف ایک منظم مہم چلائی اور بالآخر 1911ء میں انگریز سرکار نے یہ تقسیم منسوخ کر دی؛ تاہم مسلمانوں کی علیحدگی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ نواب سر سلیم اللہ کی قیادت میں مسلمانوں کے وفد نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔یہ وہی نواب سلیم اللہ ہیں جنہوں نے1906ء میں مسلم لیگ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔نواب صاحب نے اپنی جائداد سے چھ سو ایکڑ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے وقف کیے۔ مغربی بنگال کے ہندو طنز سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ مادھو نے یونیورسٹی حکام کی اجازت سے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے کھانے پینے کا بندو بست شروع کیا اور پھر مادھو کی کینٹین‘ یونیو...

خشک پتے ‘ مری غیرت کے اصول

سرما آتا ہے تو دل کا ہر تار گٹار بن جاتا ہے۔اسلام آباد میں یوں بھی خزاں ہمیشہ دلکش رہی ہے۔ بہت سے درختوں کے پتے سرخ ہو جاتے ہیں۔ بالکل لہو کی طرح۔ نظریں ان سے ہٹانے کو دل نہیں کرتا۔ جھڑی لگی ہو تو اس کا اپنا مزا ہے۔لڑکپن میں جب شادی اور نوکری‘ دونوں سے آزاد تھے تو رضائی اوڑھ کر‘ آگ تاپتے ہوئے کتابیں پڑھنے میں کتنا مزا آتا تھا۔ ڈاکٹر ژواگو اور'' گان وِد دی وِنڈ‘‘ جیسے ناول ایسی ہی سردیوں میں پڑھے۔تب گلوبل وارمنگ کا فتنہ برپا نہیں ہوا تھا۔دار الحکومت کی شاہراہوں پر صبح سویرے منجمد پانی کے صاف شفاف ٹکڑے عام نظر آتے تھے۔ بارش میں سٹریٹ لائٹس لرزتی دکھائی دیتی تھیں۔ ہم ان لوگوں میں سے تھے جنہیں سرما میں جاں بخش مشروب اور گراں قدر خشک میوے میسر نہیں تھے مگر ہم سرما سے امرا کی نسبت کہیں زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے۔ہم تو یہ حسرت بھی کرتے تھے کہ کاش اس شہر پر برف گرتی اور ہم اُس انگریزی اور روسی ادب کا زیادہ مزا لیتے جس میں برفباریوں کے تذکرے تھے۔ سرما کے تین رنگ ہیں اور تینوں دلکش ! تیز دھوپ ہو تو چارپائی پر دراز ہو کر غنودگی کے دریا میں غوطے کھانے کا کیا ہی لطف ہے۔ اس سے پہلے اگر گھنی لس...

ہمارے عزائم اور ہماری حالت

خارجہ محاذ پر کامیابیاں جاری ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع نے سانحۂ سیالکوٹ پر جو پُر مغز اور حکمت بھرا بیان دیا ہے، سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سکیورٹی، جناب سارتھ ویرا سیکارا، نے اس پر ہمارے وزیر صاحب سے معذرت کا مطالبہ کیا ہے! داخلی محاذ پر کامیابیاں اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کس کی تعریف کی جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ سرکار کے تحت جو پرائمری اور ہائی سکول چل رہے ہیں، ان کا ذکر تو رہنے ہی دیجیے کہ دیواریں ہیں تو چھتیں نہیں اور چھتیں ہیں تو پڑھانے والے نہیں! اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں واقع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے امور پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ کسی فرد یا کسی نجی ادارے یا کسی نیم سرکاری تنظیم کی طرف سے ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر یہ رپورٹ پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے (1) اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ڈین اور صدر شعبہ کی کئی اسامیوں پر تعیناتیاں متعلقہ قوانین کو پامال کر کے کی گئی ہیں۔ (2) کئی تعیناتیاں تا حکم ثانی کی گئی ہیں حالانکہ مدت کا تعین لازمی...

کچھ تذکرے الگ نوعیت کے—4-

''جناح ایونیو (ڈھاکہ) میں ہماری خاص پسندیدہ جگہ بے بی آئس کریم تھی۔ جب کبھی ہوسٹل وارڈن کی رضا مندی اور اپنی قسمت کے ستارے مل جاتے تو ہم وہاں جانے کا پروگرام ضرور بنا لیتے تھے۔ بے بی آئس کریم میں ہماری نظر ہر دفعہ ایک نوجوان پر ضرور پڑتی تھی جو ہمیشہ دور کونے میں خاموشی سے بیٹھا ہوا پایا جاتا تھا۔ وہ شخص کافی خوش شکل تھا۔ آنکھیں بھوری تھیں۔ دبلا پتلا اور خوش لباس تھا۔ عجیب بات ہے کہ وہ شخص آئس کریم کھانے کے بجائے بس چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا۔ شاید وہ وہاں کا منیجر تھا‘ یا شاید نہیں کیونکہ ہم نے کبھی اسے انتظامات کرتے یا گاہکوں سے بات کرتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ نرگس نے کہا: یہ کوئی پراسرار آدمی ہے۔ میں نے جواب دیا: ممکن ہے بے چارہ بولنے سے قاصر ہو۔ انہی دنوں پاکستان میں ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تھا اور پاکستان کے چند شہروں میں تجرباتی سٹیشن بنائے گئے تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن ڈھاکہ کے پائلٹ پروگراموں کا نشریاتی سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ مختصر دورانیہ کی ان نشریات میں اردو، بنگالی اور انگریزی کی خبریں پیش کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ بنگالی اور کبھی کبھار اردو نغمے بھی نشر کیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ...

ہمارا زرعی فارم

بہت خواہش تھی کہ ہمارا بھی ایک زرعی فارم ہو۔ جب دیکھتے تھے کہ ہمی جیسے کئی افراد بڑے بڑے فارموں کے مالک ہیں‘ پھل اور اناج اگاتے ہیں‘ پھر فروخت کر کے روپیہ کماتے ہیں‘ جانور پالتے ہیں‘ پرندے رکھتے ہیں‘اور فارم کے اندر ہی بڑی بڑی رہائشگاہیں بنا کر مزے سے رہتے ہیں تو سچی بات ہے‘ رشک آتا تھا؛ چنانچہ ہم نے ایک بڑا سا قطعۂ زمین حاصل کیا۔یہ بنجر تھا۔ اس میں ہل چلایا۔ پتھر اور چٹانیں ہٹائیں۔ زمین کے نیچے سے پانی نکالا۔ نہریں کھودیں۔ پودے اور گھاس لگائی۔ ثمر دار درخت لگائے۔ اناج کی فصل اگائی۔ مویشی لا کر رکھے۔ ان مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے۔ پھر خوبصورت پرندے اور دلکش جانور منگوائے۔مور‘ تیتر‘ آسٹریلین طوطے‘ ہرن اور نہ جانے کیا کیا! دور و نزدیک سے بچے آتے۔ پرندوں اور جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ ہم نے ملازموں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ بچوں سے پیار کیا جائے اور ان کے خور و نوش کا بندو بست کیا جائے۔ چند ہی برسوں میں ہمارے فارم نے خوب ترقی کی۔ گندم کی پیداوار ہر سال بڑھنے لگی۔ کھا کر اور احباب کو پیش کرنے کے بعد بھی منڈی میں فروخت کرنے کے لیے پھل وافر بچتے۔ اڑوس پڑوس کے زرعی فارموں کے مالکا...

آدم بو، آدم بو

مسئلہ یہ نہیں کہ ہجوم گردی یہاں انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے اور ایک عرصہ سے ہلاک کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طاقت ور کو سزا نہیں ملتی خواہ وہ قتل ہی کیوں نہ کر دے۔ اور ہجوم یہاں طاقت ور ہے۔ ہجوم ہو یا ریاست، جاگیردار ہو یا پولیس، پلوٹوکریسی (دولت شاہی، دھَن راج) کا رکن ہو یا قانونی ماہرین یا کسی سامراجی قوت کا نمائندہ، یہ سب اس ملک میں قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد سزا سے بچ جاتے ہیں! بچ نہیں جاتے، بچائے جاتے ہیں۔ ان طاقت ور عناصر کو، کوشش کر کے، جدوجہد کر کے، قانون کی گرفت سے بچایا جاتا ہے۔ کوئی ایک مثال بھی شاید نہ ملے جس میں کسی طاقت ور عنصر کو سزا ملی ہو۔ ماضی قریب ہی کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ کوئٹہ میں ایک سردار نے ٹریفک پولیس کے سپاہی کو جان بوجھ کر، دن کی روشنی میں، مار دیا! کچھ بھی نہیں ہوا۔ کراچی میں جاگیردار کے بیٹے نے نوجوان کو گولی مار دی۔ سزائے موت تو دور کی بات ہے، طاقت ور عناصر جیل میں بھی جائیں تو ان کے کمرے فائیو سٹار ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں ایک فیوڈل کے صاحبزادے نے سولہ سالہ یتیم بچے کو ہلاک کر دیا۔ کوئی سزا نہیں ملی۔ وفاقی دارالحکومت میں طاقت ور پولیس نے اسامہ ستی کو گولیوں س...

معاشی خود مختاری رُول آف لا کی سگی بہن ہے۔

“ بھائی میں اس ملک کو چھوڑ کر جارہا ہوں اور کوشش کروں گا کہ فیملی کے لیے مجھے نہ آنا پڑے۔میں اپنی فیملی کو کسی کے ساتھ بلوالوں گا۔اس ملک میں رہنا میرے حساب سے اپنے آپ کو سزا دینے کے برابر ہے۔کیونکہ جس ملک میں انسان کی سلامتی نہیں،جس ملک میں انسان کے پیسے کی سلامتی نہیں، جس ملک میں انسانیت کی سلامتی نہیں اس ملک میں رہنا بیکار ہے۔ اوورسیز پاکستانیز !  ( ہاتھ جوڑتے ہوئے) خان صاحب کے کہنے پر پلیز مت آئیے گا۔ہمارے پی ایم صاحب کہہ تو دیتے ہیں کہ  We are welcoming  Overseas Pakistanis but you are not welcome in Pakistan. Stay where you are. Please never think to come back to Pakistan and invest your money in Pakistan. Thank you very much. “ آپ اوور سیز پاکستانیوں کو کیوں منع کر رہے ہو بھائی ؟” “ میں خود اوورسیزپاکستانی ہوں۔میں چار سال پہلے یہاں آیا تھا۔اپنے ملک میں رہنے کے لیے۔ غلطی ہو گئی سر! ( کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) بہت بڑی غلطی ہو گئی جس کا خمیازہ بھی بھگت لیا۔ یہ گفتگو ایک صاحب کی ہےجو کراچی کی متنازعہ عمارت کے متاثرین میں سے ہیں۔ وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔  تا دم تحریر ا...