اشاعتیں

اکتوبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم اہل قریہ

ہم اہلِ قریہ اُن معززین سے مختلف ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں! ہمیں ایک ایک فرد کا پتا ہے کہ کون کس کا فرزند ہے اور کون کس کا برادر زادہ یا خواہر زادہ! ہم جانتے ہیں کہ کس کے آبا کہاں سے آئے تھے؟ کس کے اجداد کیا کرتے تھے؟ ہم کسی سے مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں تو اسے دیکھ کر نہیں، بلکہ اس کے مرحوم والد، دادا اور نانا کے چہرے ذہن میں لا کر مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں۔ ہمیں ایک ایک مرحوم کی قبر کا علم ہے۔ جب قبرستان قبروں سے بھر جاتے ہیں تو ہم نئی زمین پیش کر دیتے ہیں، فروخت نہیں کرتے! ہم حویلیوں اور مکانوں کو ان کے حال سے نہیں، بلکہ ماضی سے پہچانتے ہیں! ہمیں معلوم ہے، کس حویلی کے درمیان کب لکیر کھنچی اور اس سے پیشتر کیا نقشہ تھا۔ دیوار کہاں تھی، دروازہ کہاں تھا، کون سا کمرہ رُو بہ شمال تھا اور کون سا جنوب کی طرف کھلتا تھا۔ مکانوں اور حویلیوں کے یہ معدوم نقشے یا تو ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں یا خوابوں میں! جو کچھ بھی ہو جائے ہمیں خواب پرانی حویلیوں اور مرحوم مکانوں کے آتے ہیں! چچا زاد جب درمیان میں دیوار کھڑی کرتے ہیں تو ہم، سارے اہلِ قریہ روتے ہیں، مگر صحنوں کے درمیان اٹھنے والی اور کمروں اور ب...

دو نحوستیں

جہاں جانا ہے وہاں نہیں جا سکتے۔ مہذب دنیا میں کتنے ملک ہیں جہاں راستے بند ہو تے ہیں؟ شاہراہوں پر قوی ہیکل کنٹینر پڑے ہوتے ہیں۔ بچے کی ولادت کا وقت نزدیک ہے‘ مگر ہسپتال نہیں جا سکتے۔ ہوائی اڈے پر نہیں پہنچ سکتے۔ کمرۂ امتحان میں نہیں پہنچ سکتے۔ جنازے میں شامل ہونا ناممکن ہے۔ تدفین کے لیے میت کو قبرستان لے جانا ناممکن ہے۔ پہلے پتا کیجیے کون سا راستہ کھلا ہے؟ کب تک کھلا ہے ؟ پھر گھر سے نکلیے! اس ملک کے بے زبان شہریوں کے ساتھ یہ ظالمانہ مذاق کب تک جاری رہے گا؟ جس حکومت نے ‘ جس ریاست نے‘ لوگوں کو آرام پہنچانا ہے ‘ وہی ان کے راستے بند کر رہی ہے۔دھرنے دینے والے قانون سے بالا تر ہیں۔ کیوں ؟ کیا راستوں پر قبضہ کرنے والے حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟ اور پھر یہ ظالمانہ مذاق ہر چند ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ کوئی گروہ اٹھتا ہے۔ راستوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس گروہ سے نمٹنے کے بجائے حکومت خود راستوں پر قبضہ کر لیتی ہے۔گویا وہ گروہ اور حکومت اس ضمن میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ٹارگٹ عوام ہیں۔ راستے بند ہونے ہی ہونے ہیں۔ گروہ نے نہ کیے تو حکومت کر دے گی۔ کوئی مذہبی دن ہے تو راستے بند۔ سیاسی سرگرمی ہے...

ہم فرنٹ لائن پر ہیں!

دیکھتے دیکھتے، ایک نسل ختم ہو جاتی ہے۔ ہم ٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بزرگ قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بزرگی نہیں، دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ حضور! تیار ہو جائیے! آپ کی نسل کے خاتمے کا آغاز ہونے والا ہے۔ پھر نئی صف سے لوگ ایک ایک کر کے جانا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک اور نسل غائب ہو جاتی ہے۔ پھر اگلی نسل کی باری آتی ہے۔ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ایک تہہ ہٹتی ہے۔ دوسری تہہ اوپر آجاتی ہے۔ یہی مدبّرالامر کی تدبیر ہے۔ یہی تقدیر ہے... ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تم کو ایک بچے کی صورت نکال لائے تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔ لاہور میں مرحوم دوست سید آفتاب احمد شاہ کا تعزیتی ریفرنس تھا۔ ان کی صاحبزادی نے کہ کسٹم سروس میں کلکٹر ہیں، اپنے ابو کی اور میری چوّن سالہ دوستی کا مان رکھتے ہوئے بطور خاص اسلام آباد سے بلایا۔ تقریب میں موبائل فو...
دیکھتے دیکھتے، ایک نسل ختم ہو جاتی ہے۔ ہم ٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بزرگ قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بزرگی نہیں، دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ حضور! تیار ہو جائیے! آپ کی نسل کے خاتمے کا آغاز ہونے والا ہے۔ پھر نئی صف سے لوگ ایک ایک کر کے جانا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک اور نسل غائب ہو جاتی ہے۔ پھر اگلی نسل کی باری آتی ہے۔ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ایک تہہ ہٹتی ہے۔ دوسری تہہ اوپر آجاتی ہے۔ یہی مدبّرالامر کی تدبیر ہے۔ یہی تقدیر ہے... ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تم کو ایک بچے کی صورت نکال لائے تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔(مفہوم) (الحج:5) لاہور میں مرحوم دوست سید آفتاب احمد شاہ کا تعزیتی ریفرنس تھا۔ ان کی صاحبزادی نے کہ کسٹم سروس میں کلکٹر ہیں، اپنے ابو کی اور میری چوّن سالہ دوستی کا مان رکھتے ہوئے بطور خاص اسلام آباد سے بلای...

محبت کا دعویٰ کہیں رد نہ ہو جائے

ایک اور بارہ ربیع الاول آیا اور گزر گیا۔ اس بار بھی ہم نے چراغاں کیا۔ جلوس نکالے۔ جلسے کیے۔ حکومت نے یہ دن منایا اور رعایا نے بھی۔ ہاں، یہ کوشش بھی کی گئی کہ ہماری زندگیوں پر اس دن کا کوئی اثر نہ پڑے‘ ہم نے اپنے کسی رویّے کو تبدیل نہیں کرنا‘ فرد ہے یا خاندان یا معاشرہ یا حکومت‘ کسی نے بھی اپنے آپ کو اس راستے پر نہیں چلانا جس کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔ امریکہ میں کچھ تنظیموں نے دنیا بھر کے ملکوں کو قرآن پاک اور رسول اکرمﷺ کی ہدایات کی کسوٹی پر پرکھا اور اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ آئرلینڈ، نیوزی لینڈ اور کچھ اور مغربی ملک، اس ضمن میں مسلمان ملکوں سے کہیں آگے ہیں! انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سسٹم کے لحاظ سے! انفرادی طور پر بھی ہماری اخلاقیات ان ملکوں کے باشندوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ درست کہ شراب عام ہے اور جنسی حوالے سے اُن معاشروں میں افراتفری ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت کچھ ہوتا ہے مگر چھپ کر۔ ہم شراب نوشی کو اور جنسی آزادی کو غلط سمجھتے ہیں اور غلط سمجھنا چاہیے تاہم ہمارا اسلام یہاں پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے ہم اُسے نہیں بڑھنے دیتے۔ کہیں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ صبح کی نماز میں اسلام ہ...

طالبان حکومت… کامیابی کا راستہ کون سا ہے ؟

'' پی آئی اے نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغانستان میں کابل سمیت دیگر شہروں کے لیے فلائٹ آپریشن معطل کر دیا۔اس سے قبل طالبان کی حکومت نے کابل اسلام آباد کرایہ کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے مراسلے میں دھمکی دی تھی کہ کرایہ کم نہ ہونے کی صورت میں پی آئی اے اور افغان ایئر لائن کی کابل فلائٹس پر پابندی لگا دی جائے گی۔ پی آئی اے نے موقف اختیار کیا کہ انشورنس کی قیمت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے پر مجبور ہیں۔ادھر برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے افغانستان کے لیے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن معطل کرنے کی وجہ طالبان کا جارحانہ رویہ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ طالبان کا رویہ اس قدر جارحانہ ہے کہ ایک دن کابل میں منیجر آپریشن کو بندوق کی نوک پر بٹھا لیا اور روزانہ کی بنیاد پر نئی پالیسی متعارف کرا دیتے ہیں۔یہ اقدام پی آئی اے کے آپریشنز میں رکاوٹ بن رہے تھے۔‘‘ یہ خبر گزشتہ ہفتے روزنامہ دنیا میں شائع ہو ئی۔ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ طالبان کی حمایت یا مخالفت کا نہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کو نکالنے کے بع...

ڈاکٹر صاحب ! غلطی آپ کی اپنی تھی

اگر کوئی کرشمہ برپا ہو جائے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے ملاقات ہو تو لگی لپٹی رکھے بغیر‘ ان سے صاف صاف بات کی جائے۔  انہیں کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب! غلطی آپ کی اپنی تھی! آپ سائنسدان بنے ہی کیوں؟ آپ کامیڈین بنتے! پھر آپ دیکھتے کیا عوام‘ کیا خواص‘ کیا حکومتیں‘ سب آپ کو اہمیت دیتے۔ آپ اٹھارہ سال نظر بند رہے‘ آپ کامیڈین ہوتے تو لوگوں نے اتنا شور مچانا تھا کہ چند ماہ بعد ہی آپ رہا ہو جاتے۔ آپ بیمار ہوتے تو حکومتیں آپ کو علاج کیلئے کروڑوں روپے دیتیں۔ جہاز منگوائے جاتے کہ آپ کو یورپ یا امریکہ بھیج کر علاج کرایا جائے۔ آپ بطور کامیڈین وفات پاتے تو میڈیا پر کہرام بپا ہو جاتا۔ صدر مملکت آپ کے پسماندگان کے پاس جا کر فاتحہ پڑھتے۔ آپ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ یہاں ملک کو دشمن سے بچانے والوں کی قدر نہیں ہوتی‘ یہاں ہنسانے والوں کی قدر ہوتی ہے۔ آپ نے اپنا پروفیشن ہی غلط چنا! یا آپ کھلاڑی بنتے۔ کروڑوں میں کھیلتے۔ میچ فکس کرتے اور کراتے۔ قوم آپ کو سر پر بٹھاتی۔ بڑے بڑے مبلغ آپ کے پیچھے پیچھے پھرتے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جس دن میچ ہوتا ہے اس دن عملاً مملکت کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ایک ای...

ڈاکٹر لطیف کی واپسی

بہت سمجھایا تھا مگر ڈاکٹر لطیف نہ مانا۔ بعض لوگوں پر جب ایک جنون سوار ہو جاتا ہے اور سوئی ان کی ایک جگہ اٹک جاتی ہے تو کوئی دلیل بھی، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، انہیں قائل نہیں کر سکتی۔ یہی حال ڈاکٹر لطیف کا تھا۔ ادھر 2018 کے انتخابات کا نتیجہ نکلا، ادھر اس نے واپسی کی ٹھانی۔ خدا کا بندہ اچھا بھلا وینکوور میں رہ رہا تھا۔ دنیا کے چند بہترین شہروں میں سے ایک شہر۔ جب بھی، رہنے کے لحاظ سے، دنیا کے بہترین شہروں کی درجہ بندی ہوتی ہے تو ویانا، وینکوور اور میلبورن ٹاپ پر آتے ہیں۔ وینکوور کا کیا کہنا! جگہ جگہ سمندر شہر کے اندر آیا ہوا ہے۔ ریاست کا نام ہی بی بی سی ہے یعنی بیوٹی فُل برٹش کولمبیا۔ کشمیر کے بارے میں کہتے تھے: اگر فردوس بر روئ زمین است  ہمین است و ہمین است و ہمین است  کشمیر میں تو سارا حسن فطرت کا تھا مگر برٹش کولمبیا کے اس بے مثال شہر میں انسان نے بھی فطرت کے حسن کو چار چاند لگائے ہیں۔ یہیں ڈاکٹر لطیف ایک عرصہ سے پریکٹس کر رہا تھا۔ چوٹی کا میڈیکل سپیشلسٹ تھا۔ عزت بھی تھی۔ پیسہ بھی تھا۔ حقوق بھی تھے۔ سکیورٹی بھی تھی۔ بہت سمجھایا کہ ابھی اتنا بڑا فیصلہ نہ کرو۔ ابھی تی...

فرشتے لے چلے سوئے حرم تابوت میرا

مسلم   دنیا   میں   یہی   ہوتا   آیا   ہے ‘  اور   شاید   یہی   ہوتا   رہے   گا۔   یہ   جو   آج   اچھل   اچھل   کر   دعوے   کیے   جاتے   ہیں   کہ   فلاں   مسلمان   سائنسدان نے   یہ   ایجاد   کیا   اور   فلاں   کی   یہ   دریافت   تھی،   تو   ساتھ   یہ   بھی   تو   وضاحت   کرنی   چاہیے   کہ   ان   سائنس   دانوں   کا   انجام   کیا   ہوا۔   الکندی کو   پیٹا   گیا   اور   اس   کی   لائبریری   ضبط   کر   لی   گئی۔   ابن   رشد   کو   قرطبہ   سے   نکال   دیا   گیا   اور   ایک   چھوٹے   سے   گاؤں   میں   رہنے   پر   مجبور کیا   گیا۔   اس   کی   کتابیں   نذر   آتش   کر ...