اشاعتیں

اگست, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مکمل کنفیوژن

افغانستان سے انخلا کے مسئلے میں پاکستان نے جس طرح اپنے آپ کو شامل(Involve )کیا ہے یا جس طرح اسے شامل کیا گیا ہے‘اس کے حوالے سے معاملہ تاحال پیچیدہ اور مبہم ہے۔یوں لگتا ہے کہ حکومت خود بھی واضح نہیں ہے۔ وزارت ِداخلہ کچھ اور کہہ رہی ہے اور وزیر داخلہ کا بیان کسی اور سمت جا رہا ہے۔ رونامہ دنیا کے مطابق‘ وزارتِ داخلہ نے تحریری طور پر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے ''نئے مہاجرین اور غیر قانونی افغان باشندے پاکستان کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اگرچہ یہ کہا ہے کہ افغانستان سے آنے والوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہو گی مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انخلا کے بعد پاکستان آنے والوں کی تعداد کا انحصار امریکہ اور دیگر ممالک پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' امریکہ اور اتحادی جتنے مرضی چاہیں افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے پاکستان میں ٹرانزٹ کی سہولت سے استفادہ کر سکیں گے۔اس معاملے میں تعداد کو سامنے نہیں رکھا جائے گا۔اتحادی جتنے مسافروں کو ٹرانزٹ دینے کی درخواست کریں گے‘ انہیں ویزے جاری کر دیے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں شیخ رشی...

بیگانی شادی میں عبداللہ —ایک بار پھر—دیوانہ

یہ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ شرقِ اوسط کے ایک طاقت ور حکمران نے فرانس میں تعطیلات گزارنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے لیے تین ہفتوں کے قیام کا پلان بنا۔ جیسا کہ ان حضرات کا سٹائل ہے، ایک ہزار قریبی افراد، خاندان کے علاوہ، ساتھ تھے۔ اعلیٰ معیار کے ہوائی جہاز، گراں ترین گاڑیاں، اور دیگر لوازمات، جیسے جہاز سے اترنے کے لیے سنہری سیڑھیاں، سب ساز و سامان ساتھ تھا۔ خاص اور غیر معمولی بندوبست یہ تھا کہ مہمان کی خواہش کے مطابق، بیچ (ساحل) کا ایک بڑا حصہ عام پبلک کے لیے بند کر دیا گیا تاکہ مہمان کی پرائیویسی میں خلل نہ پڑے۔ بزنس کمیونٹی خوش تھی کیونکہ ان کھرب در کھرب پتی مہمانوں نے لاکھوں ڈالر فرانس میں خرچ کرنے تھے۔ پروگرام کے مطابق مہمان پہنچ گئے مگر ساتھ ہی ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرانسیسی سول سوسائٹی نے شدید احتجاج شروع کر دیا کہ بیچ‘ جو ملکیوں غیر ملکیوں سب کے لیے ہے، فرد واحد کی خاطر بند کیوں کر دیا گیا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ شہریوں نے فرانسیسی صدر کو احتجاجی خط بھیجا۔ بالآخر مہمان اور میزبان‘ دونوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مہمان آٹھ دن کے بعد اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مراکش چلا گیا۔ میزبان حکومت نے بیچ کی بندش...

ٹانگ سُوجی ہوئی ہے

ایبٹ آباد نے مدتوں سے اپنی دلکشی کا اسیر کر رکھا ہے۔ کیا شہر ہے اور کیا اس کے مضافات ہیں! شہر کے ارد گرد پہاڑ! جیسے جنوبی اٹلی کے خوبصورت شہر نیپلز کے ارد گرد! فرق یہ ہے کہ جن پہاڑوں نے نیپلز کو حصار میں لے رکھا ہے ان کی چوٹیوں تک ٹرینیں جاتی ہیں اور بسیں بھی! ایسا کوئی امکان ایبٹ آباد کی قسمت میں نہیں! ہاں یہ ضرور ہو رہا ہے کہ ایبٹ آباد کے نواحی پہاڑوں کو ملیامیٹ کر کے جُوع الارض (Land Hunger) کی تسکین کی جا رہی ہے۔ دوسرے ملکوں نے قدرتی حسن کو سہولیات سے مالا مال کیا کہ سیاح کھنچے چلے آئیں اور ہم قدرتی حسن کو ڈائنامائیٹ سے ختم کر رہے ہیں۔ ایبٹ آباد کو علامہ اقبال کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد ایبٹ آباد میں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ علامہ 1904 میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ ایبٹ آباد کے پہاڑ ''سربن‘‘ کی خوش بختی ہے کہ علامہ کے کلام میں اس نے جگہ پائی اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ ''سر بن‘‘ کا مگر جو بات کہنی ہے اور ہے۔ ایبٹ آباد کے ماتھے کا جھومر شملہ پہاڑی ہے۔ شباب کے زمانے میں پیدل چوٹی تک جایا کرتے تھے۔ پہلی...

کس قدر مضبوط اعصاب ہیں ہمارے ! واہ

بہت شور اٹھا تھا۔ ایک سو پچاس سال پہلے جب سرسیداحمد خان نے کہا تھا کہ اگر انگریز ہمیں جانور سمجھتے ہیں تو درحقیقت ہم ایسے ہی ہیں‘ تو بہت شور اٹھا تھا۔ انہیں کرسٹان تک کہا گیا تھا۔ ڈیڑھ صدی گزر گئی۔ اس طویل عرصے میں کیا ہم انسان بن گئے ہیں ؟ یا جانور کے جانور ہی رہے؟ یا اس سے بھی بد تر ہو گئے ہیں؟ ہم میں سے ہر شخص‘ زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے‘ اس کا جواب جانتا ہے اور خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ یومِ آزادی پر گریٹر اقبال پارک میں جو کچھ ہوا اس کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے نہ کسی کو بتانے کی کہ ہم کیاہیں ؟ انسان یا جانور؟ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ بڑے بڑے دانشور‘ بڑے بڑے لکھاری‘ اصل بات کی طرف نہیں آرہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ واقعہ اچانک نہیں پیش آیا۔ اس کے پیچھے ہماری نسلوں کی محنت ہے۔ ایک عورت پر‘ خواہ وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو‘ پِل پڑنا‘ وحشی ہو جانا‘ اسے نوچنا‘ ایک سوچ ہے‘ ایک رویہ ہے! یہ سوچ‘ یہ رویہ‘ پشت در پشت تربیت کا نتیجہ ہے۔ ان چار سو یا چار ہزار افراد کو ان کے گھروں سے‘ ان کے سکولوں کالجوں سے‘ ان کے گلی ‘ محلوں سے‘ ان کے اعزہ و اقارب سے یہی تربیت دی گئی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ...

افغانستان میں تبدیلی اور ہماری امیدیں

اس میں کیا شک ہے کہ طالبان کی مراجعت ہم عصر تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ طالبان اپنے ملک میں کیا کرتے ہیں؟ ان کی پالیسیاں خواتین، موسیقی اور کھیلوں کے بارے میں کیا ہوں گی؟ وہ حکومت میں کون کون سے گروہ شامل کرتے ہیں اور کون کون سے نہیں؟ ان کی حکومت جمہوری ہو گی یا کچھ اور؟ اسلام کی تعبیر وہ کس طرح کرتے ہیں؟ یہ سب افغانستان کے اندرونی مسائل ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہم یہ دعا بہر طور کرتے ہیں کہ افغانستان میں، جو زخموں سے چور چور ہے، امن ہونا چاہیے۔ وہاں کے عوام خوش اور خوش حال ہونے چاہئیں۔ ہم پاکستانیوں کی دل چسپی، طالبان کے حوالے سے، اُن امور میں ہونی چاہیے جو پاکستان سے متعلق ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ڈیورنڈ لائن 1893 میں دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدے کے تحت کھینچی گئی تھی۔ ایک طرف برطانوی ہند تھا اور دوسری طرف امیر عبدالرحمان خان کا افغانستان! قیام پاکستان سے پہلے افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتا رہا۔ پاکستان وجود میں آیا تو ایک طرف افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی اور ...

جو نامہ بر رہے ہیں، ڈر رہے ہیں

کراچی، شہروں کا شہر! پاکستان کے ماتھے کا جھومر! اُس زمانے میں وحشت کے نشانے پر تھا۔ میّت کو تب کفن میں نہیں، بوری میں ڈالا جاتا تھا۔ ڈرل مشین سے دیوار میں نہیں، زندہ انسانی جسم میں سوراخ کیا جاتا تھا۔ تئیس سالہ شاہد بھی اسی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسے بے دردی سے قتل کیا گیا اور لاش دریا میں بہا دی گئی۔ شاہد کا باپ شاعر تھا۔ اس نے معاملہ پروردگار کے سپرد کیا اور آنسو شعروں میں پرو دیے۔ اس شاعر کا نام صابر ظفر ہے۔ بیٹے کی المناک موت پر اس نے جو دردناک شاعری کی اس کے مجموعے کا عنوان 'بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘ رکھا۔ یہ اشعار دیکھیے: وہ مجھے چھوڑ گیا دکھ بھری حیرانی میں/ خاک پر قتل ہوا اور ملا پانی میں ......... میں تو یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا/ تو مری موت پر نہ آئے گا ......... کسی جگہ کا تعین، میں کرنے والا کون جہاں بھی تو اسے رکھے تری رضا کے سپرد سیالکوٹ کی نواحی بستی دولت پور سے تعلق رکھنے والا صابر ظفر بیالیس سال پہلے کراچی آیا تھا۔ سجاد باقر رضوی نے کہا تھا: جس کیلئے اک عمر کنوئیں جھانکتے گزری/ وہ ماہِ کراچی مہِ کنعاں کی طرح تھا کراچی کا چاند سمندر سے طلوع ہوتا ہے اور پھر مسافر کو یوں ...

اعلیٰ سطحی وفد کی ناکامی

ایک عجیب بے برکت اتفاق تھا کہ چار بڑے ملکوں میں بدانتظامی نے بیک وقت ہلّہ بولا۔ انارکی تھی اور ایسی انارکی کہ تاریخ میں اس کی مثال شاید ہی ملے۔ امریکہ ‘ روس‘ برطانیہ اور فرانس ایک ہی وقت میں اس انارکی کا نشانہ بنے۔ وہ جو دنیا پر حکومت کرتے رہے‘ اپنے زعم میں تہذیب سکھاتے رہے اور براعظموں پراپنے اپنے پرچم لہراتے رہے آج چاروں شانے چت گرے ہوئے تھے۔ یہ بد انتظامی‘ یہ انارکی‘ یہ افراتفری‘ یہ نفسا نفسی‘ یہ بدامنی ایک وائرل کی طرح اٹھی۔ سب سے پہلے امریکہ بہادر کھیت ہوا۔ کہاں وہ دن کہ عراق اور افغانستان میں انسانیت اس امریکہ کے ہاتھوں لہو لہان تھی اور یہ کرۂ ارض کا حاکم مطلق بنا پھرتا تھااور کہاں یہ دن کہ کوئی شہر محفوظ نہ تھا۔ جتھے نکلتے‘ غارتگری کرتے اور شہروں کو ویران کر دیتے۔ سکول ‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہو گئیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔ ڈاکٹر کوئی ملتا نہ تھا۔ ہر کوئی جان بچانے کے لیے چھپتا پھرتا تھا۔ بلوائیوں نے بازار لوٹ لیے۔ لاس اینجلس سے لے کر نیویارک تک شاہراہیں جان بچاتے ‘ بھاگتے قافلوں سے اٹ گئیں۔پھر‘ نہ جانے کیسے‘ یہ ابتری برطانیہ پہنچ گئی۔ کہاں وہ دن کہ ملکہ کی ایمپائر میں سورج غ...

… 74 سال

74 سال ایک قوم کی زندگی میں بہت بڑی مدت نہیں مگر اتنی کم بھی نہیں! اور اتنی کم تو ہرگز نہیں کہ کچھ بنیادی مسئلے بھی اس عرصہ میں طے نہ ہو سکتے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم آج تک یہی فیصلہ نہ کر سکے کہ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے دن ہو گی یا اتوار کے دن! ایک ہی بازار میں جمعہ کے دن کچھ دکانیں کھلی ہوتی ہیں اور کچھ بند! اسی طرح اتوار کے دن بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی دکان بند ہو گی اور کون سی کھلی! راولپنڈی میں راجہ بازار اور پرانے شہر کے دوسرے بازار جمعہ کے دن بند ہوتے ہیں‘ مگر صدر میں، جو بذات خود بہت بڑا کاروباری علاقہ ہے، اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے۔ یعنی مکمل کنفیوژن! ذرا سوچیے کیا یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ صدی کا تین چوتھائی حصہ گزرنے کے باوجود جوں کا توں ہے؟ ایک اور زبردست کنفیوژن امریکہ کے حوالے سے ہے۔ ان 74 برسوں میں ہمیں یہی معلوم نہ ہوا کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن! ایک بیوقوفی ہماری یہ ہے کہ ہم ملکوں کو بھی اسی پیمانے سے ماپتے ہیں جس پیمانے سے ذاتی دوستی یا دشمنی کو ماپا جاتا ہے۔ آپ میرے دوست ہیں اور پکے دوست تو دوستی نبھاتے ہوئے اپنا نفع یا نقصان نہیں دیکھیں گے۔ یہ ایک جذباتی رشتہ ہ...

خاتون سیاست دان کا مذاق مت اڑائیے

بنٹا اور سنٹا دو بھائی ہیں ۔دونوں کی شکل میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ ظاہر ہے دونوں کی پرورش، اٹھان، تربیت ایک ہی گھر میں ہوئی ہے۔ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ بنٹا کو ایک بار اس کے باس نے صرف اتنا کہا کہ آپ کام پر توجہ نہیں دے رہے۔ بنٹا کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس نے دو راتیں کرب میں جاگ کر گذاریں۔ پھر اپنی ساری حکمت عملی تبدیل کی۔ ماتحت عملے کی میٹنگ بلائی جہاں کام میں بہتری کی صورتیں سوچی گئیں۔ یہ ساری کوشش نتیجہ خیز ثابت ہوئی یہاں تک کہ باس نے سب کے سامنے بنٹا کی تعریف کی۔ اس پر بنٹا نے شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ اس بہتری کا کریڈٹ اسکی ساری ٹیم کو جاتا ہے۔ میٹنگ کے بعد اس کے ماتحتوں نے اسے مبارک دی تو اس نے کہا کہ آپ سب لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ آپ کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ سنٹا کی شخصیت بالکل مختلف ہے۔ اسے اس کا باس کام میں بہتری کا کہتا ہے تو وہ سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ بھری میٹنگ میں اس کی بے عزتی کی جاتی ہے تو وہ آگے سے ہنستا رہتا ہے۔ دفتر میں بیٹھ کر خوش گپیاں لگا تا ہے۔ اسے بر طرف کر دیا جاتا ہے تو کوئی اور نوکری ڈھونڈ نکالتا ہے۔ غور کیجیے۔ شکلیں ایک جیسی ...

زندہ قوم کی زندگی کا ایک اور ثبوت

جب سے یہ خبر پڑھی ہے‘ دماغ شل ہے۔ روح کانپ رہی ہے۔ دل قاش قاش ہو رہا ہے۔کیا ہم سیاہ بختی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں ؟ کیا تحت الثریٰ سے نیچے بھی کوئی درجہ ہے؟ کیا دُور آسمان پر‘ ذلت اور ذہنی افلاس ہمارے مقدر میں لکھا جا چکا؟ اگر آج بھی ہمارے حکمران‘ لیاقت علی خان کی طرح ہوتے تو یہ خبر المناک نہ ہوتی؟ مگر جب پچھلے تیس چالیس برسوں کے دوران ہمارے اہلِ اقتدار کے نوکروں کے نوکر بھی ارب پتی ہو چکے تویہ خبر ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور ہماری تہذیبی پستی کا نشان ! ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے صاحبزادے کے گردے فیل ہو چکے ہیں۔ زندگی کے باقی دن‘ جتنے بھی قسّامِ ازل نے لکھے ہیں‘ پورے کرنے کے لیے انہیں ہر ماہ ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے درکار ہیں۔ دونوں بیٹیاں یہ ذمہ داری اٹھا رہی ہیں مگر اب معاملہ ان کی استطاعت سے باہر ہو رہا ہے۔ مدد کے لیے ان کی بیگم نے‘ مجبوراً سندھ حکومت کو خط لکھا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لیاقت علی خان نواب تھے اور بہت بڑی جائداد بھارت میں چھوڑ کر آئے تھے۔ مشہوراور محترم سفیر جمشید مارکر نے اپنی سوانح ( کور پوائنٹ) میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہا...

سِکّہ رائج الوقت

تعلیم تھی، خاندانی نجابت تھی، ذاتی شرافت تھی، اچھی شہرت تھی، مگر اُس کے پلے وہ شے نہ تھی جس کی حکومتی حلقوں میں مانگ تھی۔ یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ اُس نے 'اِن‘ ہونے کی بہت کوشش کی۔ یہ ملک اُس کا بھی تھا۔ وزارتوں، سفارتوں، گورنریوں پر اس کا بھی حق تھا۔ اسے بھی رہنے کے لیے مکان اور مکان کے لیے پلاٹ چاہیے تھا۔ زرعی پلاٹ دھڑا دھڑ بانٹے جا رہے تھے۔ اس نے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارے۔ بالآخر ایک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ ٹاپ لیول تک رسائی رکھتا ہے۔ کسی نہ کسی ذریعے سے اس تک پہنچا۔ آدمی شریف تھا۔ بٹھایا۔ حال احوال پوچھا۔ چائے پلائی۔ پھر اس نے ایک عجیب سوال کیا۔ کیا تم اردن میں رہے ہو؟ ضیاء الحق صاحب جب وہاں تھے، اُس زمانے میں؟ حیرت میں گُم اس نے جواب دیا کہ نہیں! اس کا بھلا اردن میں کیا کام! اس پر اُس شریف آدمی نے ٹھنڈی سانس بھری اور سر کو پہلے بائیں سے دائیں اور پھر دائیں سے بائیں پھیرا۔ پھر اسے سمجھایا کہ جو لوگ اردن میں کسی بھی حوالے سے ضیا صاحب کو ملے تھے، ان کے وارے نیارے ہوئے۔ دوسرا معیار تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کچھ نہ کچھ جہاد کیا ہو۔ اس میں بھی اس کی کارکردگی صفر تھی۔ وہ دیکھتا...

زندگی کا آخری کھانا

یہ گنوار نہیں تھے۔ کسی جنگل سے نہیں آئے تھے۔ ان پڑھ بھی نہیں تھے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کے، دریاں بچھانے والے، کارکن بھی نہیں تھے۔ نہ یہ دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور تھے۔ کسی عرس کے لنگر پر ٹوٹ پڑنے والے خوش عقیدہ عوام سے بھی ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نئی صدی کو بھی دو عشرے ہو چکے۔ اس ملک میں ڈاکٹر اور انجینئر بننا آج بھی سنہری خواب ہے۔ یہ ایک سدا بہار چوائس ہے۔ سارے پیشوں پر فوقیت رکھنے والے دو پیشے! سی ایس ایس بھی خوب ہے۔ عساکرِ پاکستان کا کیریئر بھی جلال و شوکت رکھتا ہے۔ بینک کاری میں بھی آرام سے گزرتی ہے۔ ایم بی اے کا بخار بھی اپنا زور دکھا کر اتر چکا‘ مگر ماں باپ کی بھاری اکثریت آج بھی بچوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتی ہے یا انجینئر! آج بھی ذہین ترین طلبہ و طالبات ڈاکٹری کی طرف جاتے ہیں یا انجینئری کی طرف! اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی کریم کا زیادہ حصہ آج بھی انہی دو شعبوں کا انتخاب کرتا ہے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انجینئر تھے۔ کھانا کھلا تو جو مظاہرہ ملک کی اس کریم نے کیا اس کی وڈیو وائرل ہو چکی ہے اور اب تک، ملک ک...

کیا وزیر اعظم یہ حکم جاری کریں گے ؟

نہیں! اس معاشرے میں یہ ناممکن ہے ! اس معاشرے میں مرد عورت کو کبھی اس قابل نہیں سمجھے گا کہ بغیر اجازت اسے ہاتھ نہ لگائے۔ عورت کا قتل‘ مار پیٹ‘ ریپ‘یہاں ہوتا رہے گا۔ کوئی ایسی چِپ ایجاد ہوئی ہے نہ ہو گی جو پاکستانی بلکہ جنوبی ایشیا کے مرد کے دماغ میں لگائی جائے تو وہ عورت کو چیز نہیں بلکہ انسان سمجھنے لگ جائے۔ آپ اس معاشرے میں عورت کی تذلیل کا اندازہ لگائیے کہ رشتہ کرنے کے لیے اسے باقاعدہ دیکھا اور پسند یا ناپسند کیا جاتا ہے جیسے وہ فرنیچر کا آئٹم ہو۔ دیکھنے اور پسند یا ناپسند کرنے کے بے شمار باعزت طریقے بھی موجود ہیں مگر یہاں باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں۔ جس معاشرے میں اسوارہ‘ کاروکاری اور ونی آج بھی رائج ہیں‘ جہاں لڑکی پیدا ہونے پر سوگ منایا جاتا ہے‘ جہاں نرس لڑکی کی پیدائش کا بتاتے ہوئے ڈرتی ہے کہ بد سلوکی کا ہدف نہ بنے‘ جہاں بچی کی پیدائش پر‘ اسی وقت‘ ہسپتال ہی میں‘ طلاق دینے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہوں‘ جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ بیگمات بھی بیٹوں کی دوسری شادیاں کراتی ہیں کہ پہلی بیوی تو بیٹیاں ہی جن رہی ہے‘ جہاں‘ اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہوا ت...

زہرجو پھیل چکا ہے

تو کیا دولت کے نشے میں چُور، متکبر لوگ، ہماری خواتین کے سر، جسم سے الگ کرتے رہیں گے؟ اصل سوال یہ ہے کہ قاتل کون ہے؟ ظاہر میں تو قاتل وہ بگڑا ہوا امیر زادہ ہے جس نے یہ لرزہ خیز، گھناؤنا، وحشت ناک اور مہیب جرم کر کے اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر دیا ہے‘ مگر وہ تو ظاہری قاتل ہے۔ اصل قاتل وہ ہے جس نے اس معاشرے کو یہ ظاہری قاتل دیا ہے۔ اصل قاتل وہ ہے جس نے مقتولہ کے والد کو مبینہ طور پر بتایا تھا کہ ''نور میرے بیٹے کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔ جسے مبینہ طور پر ملازمین نے دو بار ہولناک صورت حال سے مطلع کیا مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی، جسے اس کے بیٹے نے بھی مبینہ طور پر بتایا کہ میں لڑکی کو قتل کر رہا ہوں مگر یہ بھی اس کے نزدیک کوئی اہم بات نہ تھی۔ تو یہ شخص کس برتے پر قتل کو ایک عام، معمولی واقعہ سمجھ رہا ہے؟ اس کا بیٹا کس برتے پر فساد فی الارض کا مرتکب ہو رہا ہے؟ دولت! مال! بے تحاشا مال! بے تحاشا دولت! یہ اُس کی دولت ہی ہے جس کی وجہ سے پورے پاکستان کو خدشہ ہے کہ ملزم چھوٹ جائے گا! ایسے شخص کا واحد علاج یہ ہے کہ اسے اپنی دولت کے استعمال سے روک دیا جائے۔ یہ علاج اسلامی فقہ کے پانچوں بڑے مک...