اشاعتیں

جولائی, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ساتھ وِیل چیئر بھی رکھی ہے

زمانے کی گردش ایک بار ہسپانوی شہر بارسلونا لے گئی۔ یہ سال کی آخری شام تھی۔ میزبان تین پاکستانی بھائی تھے۔ ان میں سے ایک مجھے بارسلونا کے مرکزی چوک پلازا ڈی کیٹالونا لے گیا۔ ابھی نیا سال شروع ہونے میں تقریباً ایک گھنٹہ رہتا تھا۔ لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے تھے۔ اس چوک کے ارد گرد بے شمار ریستوران، کیفے اور کافی ہاؤس تھے اور سب بھرے ہوئے تھے۔ بڑے کلاک نے رات کے بارہ بجائے تو ہسپانویوں نے اپنی روایت کے مطابق کلاک کے ہر ٹن کے ساتھ ایک انگور اپنے منہ میں ڈالا۔ یہ، اُن کے نزدیک، خوش بختی کی علامت ہے۔ یہ کئی عشرے پہلے کی بات ہے۔ تب سے ان تین بھائیوں سے دوستی ہے۔ کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا۔ وقت گزرتا رہا۔ دو بھائی یورپی یُونین کے قانون کے طفیل انگلستان منتقل ہو گئے۔ جہلم اور گوجرانوالہ کے درمیان واقع جس قصبے سے ان کا تعلق ہے، تعطیلات میں وہاں اپنے ماں باپ کے پاس آتے۔ وقت کی چکی چلتی رہی۔ والد بوڑھے ہوئے اور انتقال کر گئے۔ اب بوڑھی اماں جی تنہا تھیں اور بیٹے‘ دو انگلستان اور ایک ہسپانیہ میں۔ ان بھائیوں نے آپس میں طے کیا کہ تین تین ماہ ہر بھائی اور اس کی بیگم، اماں جی کے پاس رہیں گی۔ یہ سلسلہ کئی برسوں س...

مثالی انصاف کی متعدد صورتیں

وفاقی دارالحکومت میں جس لڑکی کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور قتل سے پہلے جسے آہنی مُکوں کی ضربیں لگائی گئیں‘ اُس کے حوالے سے اگر آپ کا خیال ہے کہ انصاف ہو گا تو آپ کا خیال بالکل درست ہے۔ اس انصاف کی جھلکیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔فرنگی زبان کے مؤقّر روزنامہ کے مطابق‘ عدالت کی کارروائی کے دوران‘ سفید لباس میں ملبوس ایک پولیس اہلکار ملزم کے کان میں سر گوشیاں کرتا رہا۔ جب میڈیا کے نمائندوں نے ملزم سے بات کرنے کی کوشش کی تو ایک اے ایس آئی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ ایک بہت ٹیلنٹڈ(Talented)نوجوان ہے‘‘۔ پولیس کی اس ''غیر جانبداری‘‘ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امید کی روشن کرنیں بس اندھیرا چیرنے ہی والی ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ پولیس نے انصاف کی طرف ایک اور جست بھی لگائی ہے۔ اس نے ایف آئی آر دفعہ 311کے تحت نہیں درج کی۔ اگر اس دفعہ کے تحت ایف آئی آر لکھی جاتی تو معاملہ قابلِ مصالحت نہ ہوتا۔ چونکہ کیس دفعہ 302کے تحت رجسٹر کیا گیا اس لیے قابلِ مصالحت ہے۔ اس دفعہ کا فائدہ یہ ہے کہ مظلوم پارٹی پر دباؤ ڈال کر عدالت سے باہر''مصالحت‘‘ کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے۔ اس ملک میں ...

…اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے

ملبوسات کے بعد خواتین کو زیادہ شوق شاید باورچی خانے کے سامان کا ہوتا ہے۔ فرائی پین، پتیلے، دیگچیاں، برتن رکھنے کے لیے لوہے کی جالی دار مستطیل ٹوکریاں اور نہ جانے کیا کیا۔ ایک زمانے میں لکڑی کا ایک ڈبہ سا ہوتا تھا جس میں خانے بنے ہوتے تھے۔ ان خانوں میں نمک، مرچ، دھنیا، ہلدی وغیرہ رکھی جاتی تھی۔ اسے لُونکی کہتے تھے۔ (یہ لفظ یقینا لُون سے نکلا ہو گا کیونکہ پنجابی اور سندھی میں نمک کو لُون کہتے ہیں) مگر اب ان چیزوں کو رکھنے کے لیے سو طرح کی شیشیاں اور ڈبے بازار میں موجود ہیں۔ کوئی شیشے کی، کوئی پتھر کی، کوئی لکڑی کی اور کوئی پلاسٹک کی! ہم جیسے سادہ لوحوں کو ڈیکوریشن پیس دکھائی دینے والی شے اصل میں نمک دانی ہوتی ہے! چنانچہ بیگم کیش اینڈ کیری سٹور کے اُس حصے میں تھیں جہاں کچن کی متفرقات پڑی تھیں اور میں اُس کارنر میں گھوم رہا تھا جہاں ٹیلی ویژن سیٹ رکھے تھے۔ جو ٹی وی سیٹ سستا سمجھ کر لیا تھا اب خراب تصویر دے رہا تھا۔ سو، کچھ مہینوں سے یہی شغل ہے کہ اچھے برانڈ کی قیمت دریافت کر کے آگے بڑھ جائیں کہ بقول فراق ؎ اپنی خریداری بازارِ جہاں میں ہے سو اتنی ہے جیسے دکاں سے مفلس کوئی چیز اٹھائے پھر رکھ...

ٹرین سروس ! تاشقند سے گوادر تک

اس نے سر پر بڑی سی پگڑی باندھ رکھی تھی۔چہرا سرخ اور بڑا تھا۔ایک عجیب کیفیت اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔ لگتا تھا وہ ابھی ابھی گھوڑے پر ایک طویل سفر کر کے آیا ہے۔ فارسی میں مزاج پرسی کی تو کھِل اُٹھا اور شستہ فارسی میں پوچھنے لگا ''بدخشاں کا لاجورد دیکھو گے ؟‘‘۔ گرم چشمہ کے اس افغان ریستوران میں‘ جس میں میز کرسیاں نہیں تھیں‘اونچے چبوتروں پر دریاں بچھی تھیں‘ بدخشانیوں کے ساتھ قہوہ پیتے ہوئے‘فارسی اور ازبک میں گفتگو کرتے ہوئے‘لاجورد کی قیمت پر جھگڑتے ہوئے اور بدخشاں کے صدر مقام فیض آباد کا مختصر ترین راستہ پوچھتے ہوئے میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولا کہ سنٹرل ایشیا کی جیو پالیٹکس (Geopolitics)کے حوالے سے چترال پاکستان کے لیے بدخشاں کے لعل و زمرد اور لاجورد سے کہیں زیادہ قیمتی ہے مگر افسوس صد افسوس! پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس کا کبھی احساس نہیں ہوا۔ چند سال پہلے تک چترال سال کے چھ ماہ بقیہ پاکستان سے کٹا رہتا تھا۔ برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ عبور کرنا ناممکن تھا۔ چترال کے عوام افغان علاقے نورستان سے ہو کر چترال جاتے تھے۔ خدا خدا کر کے2018ء میں لواری ٹنل بنی اور اب سرما میں بھ...

کبھی اس پہلو پر بھی غور فرمائیے

کمشنر کی سطح کے ایک افسر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاری روا ہے یا نا روا‘ اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی! یوں تو تاریخ بھی ایک عدالت ہی ہے! غیر رسمی عدالت! تاہم تاریخ کی عدالت کا فیصلہ دیر سے آتا ہے! یہ گرفتاری رنگ روڈ سکینڈل کا شاخسانہ ہے جو ہمارا آج کا موضوع نہیں! ہم تو اس گرفتاری کے حوالے سے ایک اور مضمون چھیڑنا چاہتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ عساکرِ پاکستان کا حصہ ہونا ایک نوجوان کے لیے فخر کا باعث ہوتا ہے۔ یہ نوجوان سپاہی ہو یا کیڈٹ‘ دونوں صورتوں میں قابلِ رشک ہوتا ہے۔ اسے عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے! عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج! جسے پوری دنیا کی افواج میں بھی ممتاز مقام حاصل ہے! اس فوج میں لفٹین ہونا پھر کیپٹن‘ میجر‘ کرنل اور بریگیڈیر بننا کوئی معمولی بات نہیں! سخت تربیت کے مراحل پورے کیریئر میں جاری رہتے ہیں! موت ہر شخص کو آنی ہے مگر عساکرِ پاکستان میں جا کر شہادت کی موت حاصل ہونا ایک اعزاز ہے! شہید خود تو شہید ہے‘ شہید کی ماں‘ شہید کا باپ‘ شہید کے بچے اور شہید کی بیوہ کو بھی ہمارا معاشرہ عزت و احترام کا جو درجہ دیتا ہے‘ معاشرے کے دوسرے طبقات کو بہت ...

اس نوے فیصد میں کہیں آپ بھی تو شامل نہیں؟؟

میرے ساتھ ایک دوست تھے جن کے لیے زیادہ چلنا مشکل تھا۔ ان کا حکم تھا کہ گاڑی سے انہیں دکان کے بالکل سامنے اتارا جائے‘ مگر دکان کے سامنے کیسے اتارا جاتا؟ وہاں تو ایک بڑی سی قیمتی گاڑی پارک تھی۔ وفاقی دارالحکومت کا نقشہ جس نے بھی بنایا تھا، اچھا ہی بنایا تھا۔ بعد میں اس ماسٹر پلان کے ساتھ جو بیتی، اس کے بعد وہ ماسٹر تو رہا یا نہیں، پلان بالکل نہیں رہا۔ ہر مارکیٹ کے لیے وسیع و عریض پارکنگ ایریا مختص کیا گیا تھا‘ مگر، کم ہی لوگ اس پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں۔ عین دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کریں گے تاکہ کم سے کم چلنا پڑے کہ زیادہ چلنے سے تنورِ شکم میں جو نہاری، پائے یا پراٹھے دھنسے ہیں، ہضم نہ ہو جائیں۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کا بس چلے تو دکان کے اندر بھی موٹر سائیکل لے آئیں۔ یہاں یہ بتانا نا مناسب نہ ہو گا کہ کچھ مارکیٹوں میں پارکنگ ایریا کو ہڑپ کر لیا گیا ہے۔ اس لوٹ مار میں دکان دار اور ترقیاتی ادارے کے اہلکار، دونوں فریق برابر کے شریک ہیں۔ ایک دکان کے سامنے ، پارکنگ ایریا میں کپڑے کا سٹال لگا تھا۔ سٹال والے سے تفصیل پوچھی تو اس نے بلا چون و چرا بتایا کہ جس ...

ہم آخری چھ میں ہیں

ہم آخری چھ میں ہیں! آخری چھ میں ہمارے ساتھ اور کون کون ہے ؟ پہلے چھ والے کون ہیں؟ ہم آخری چھ میں کیوں ہیں ؟ پہلے چھ میں کیوں نہیں ؟ آخری چھ میں ہمارے دیگر پانچ ساتھی صومالیہ‘ یمن‘شام‘عراق اور افغانستان ہیں! پہلے چھ میں جاپان‘ سنگاپور‘ جنوبی کوریا‘ جرمنی‘ اٹلی اور فن لینڈ ہیں۔ یہ مقابلہ جس میں ہم سب سے پیچھے رہ جانے والوں میں شامل ہیں‘ گھوڑ دوڑ کا ہے نہ بیلوں کی دوڑ کا! کتوں کی لڑائی ہے نہ مرغوں کی! یہ بسنت کی پتنگ بازی بھی نہیں! یہ پاسپورٹوں کا مقابلہ ہے۔ پاسپورٹوں کی ریس ہے۔ اس مقابلے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ضعیف پاسپورٹ کس کس ملک کا ہے اور طاقتور پاسپورٹوں کے خوش بخت مالکان کون ہیں ؟ طاقتور پاسپورٹ وہ ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ ممالک کھلی بانہوں اور ہنستے چہروں کے ساتھ استقبال کرتے ہیں ! اول تو ویزے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر ویزا درکار بھی ہے تو آمد پر فوراً دے دیا جاتا ہے۔ جاپانی پاسپورٹ‘ تازہ ترین سروے کی رُو سے دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ ہے۔ جاپانی باشندے 193ملکوں میں ویزے کے بغیر داخل ہو سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تکلف ہو بھی تو بس اتنا کہ کچھ ملکوں میں جہاز سے اترنے کے بعد ویزا دے دی...

خوش گمانیاں

''پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘۔ اس خوش گمانی میں ہمیں بچپن ہی سے ڈال دیا جاتا ہے جس کا حقائق کی دنیا سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ اگر ملک زرعی ہوتا تو ہم اناج اور دیگر اشیائے خوردنی میں خود کفیل ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ کبھی ہم گندم درآمد کرتے ہیں کبھی چینی۔ بھارت سے ہم نے پیاز تک خریدے۔شہد خالص ملنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کوئی سچا اور مخلص دوست! بازار میں شہد کے جو مقامی برانڈ دستیاب ہیں انہیں خریدتے وقت شاید ہی کسی کو یقین ہو کہ یہ خالص ہو گا۔ دودھ کی جو صورت حال ہے سب کو معلوم ہے۔ نیوزی لینڈ کا دودھ بھی بازار میں دیکھا گیا ہے۔ رہے انسٹنٹ ملک کے ڈبے اور پیکٹوں میں بند دودھ، تو وہ بھی پکار پکار کر بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ بچوں کا دودھ الگ درآمد کیا جاتا ہے۔ گوشت بھی زراعت ہی کا حصہ ہے۔ اس میدان میں ہم گدھے تک کا گوشت بیچ اور کھا چکے۔ رہی کپاس تو اس کی پیداوار ماضی کی نسبت 34‘35 فی صد کم ہو چکی ہے۔ صنعت کار کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے جو مقامی کپاس سے پندرہ فی صد زیادہ مہنگی ہے۔ روز افزوں ہاؤسنگ سوسائٹیاں، زیر کاشت رقبے کو کم سے کم تر کر رہی ہیں۔ ریئل اسٹیٹ مافیا...

مجید امجد سے ایک ملاقات

جب سے پاکستان ریاست مدینہ کی راہ پر چلنا شروع ہوا ہے کالم نگار اپنے طور پر اس امر کی تفتیش کر رہا ہے کہ ریاست اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے یا نہیں۔ ریاست مدینہ میں بھوکوں اور قلاشوں کی ذمہ داری حکمران وقت پر تھی۔ خلفائے راشدین خود روکھی سوکھی کھاتے تھے مگر فکر اس بات کی کرتے تھے کہ عوام کس حال میں ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ عید کے دن جَو کی سوکھی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ زمانۂ قحط میں ایک دن حضرت عمرؓ کے پاس گھی والی روٹی آئی۔ آپؓ نے ایک اعرابی کو شریک طعام کیا۔ جس طرف گھی تھا اس طرف سے وہ بڑے بڑے نوالے کھانے لگا۔ آپؓ نے اسے کہا: معلوم ہوتا ہے تم نے گھی کبھی نہیں کھایا۔ اس نے کہا: ہاں میں نے فلاں تاریخ سے لے کر آج تک گھی یا تیل نہیں کھایا اور کسی کو کھاتے دیکھا بھی نہیں۔ آپؓ نے اسی وقت قسم کھائی کہ جب تک قحط ہے وہ گھی اور گوشت نہیں کھائیں گے۔ اپنی اس قسم کی اتنی پاس داری کی کہ چہرے کا رنگ سیاہ پڑ گیا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو خوف آنے لگا کہ آپ کہیں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ ایک دن غلام نے بازار میں گھی اور دودھ بکتا دیکھا تو چالیس درہم میں خرید لیا۔ آ کر آپ کو بتایا کہ ...

……کیا کھویا ہے‘ کیا پایا ہے؟

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے ؟ یعنی افغانستان کے معاملے میں...؟ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہو گا کہ کیا امریکہ ہم سے خوش ہے ؟ کیا افغان حکومت ہم سے خوش ہے ؟ کیا طالبان ہم سے خوش ہیں؟ اور کیا افغان عوام ہم سے خوش ہیں ؟ پاکستان نے جس امریکہ کی خوشنودی کی خاطر تن من دھن وار دیا‘ اُس امریکہ نے ہر فیصلہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا۔ ہمارے وزیر اعظم سے ابھی تک امریکی صدر نے بات ہی نہیں کی۔ (ویسے امریکی الیکشن سے پہلے وزیر اعظم نے بھی اپنا وزن ٹرمپ صاحب کے پلڑے میں ڈال دیا تھا) امریکہ نے اس حقیقت پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایکشن لیتے وقت پاکستان کو مکمل تاریکی میں رکھا گیا تھا۔ افغان حکومت کی پاکستان سے مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک مضمون لکھا ہے۔ ذرا لہجہ دیکھیے'' اگر پاکستان طالبان کی حمایت اختیار کرتا ہے تو پاکستان افغان قوم کی دشمنی مول لے گا اور اپنے آپ کو اُن بہت سے معاشی فوائد سے محروم رکھے گا جو امن اور علاقائی ارتباط کا ثمر ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی اعتبار سے اچھوت بن جائے گا کیونکہ امریکی انخلا کے ب...

رات بھر میں بے پَروں کے پر نکل آئیں گے کیا ؟؟

تلخ نوائی………… شام ہو رہی تھی۔ اسے دریا کے پار جانا تھا اور دریا ابھی دور تھا۔ اس نے تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ اتنا تیز جیسے بھاگ رہا ہو۔ ہانپتاہوا دریا کے کنارے پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ آخری کشتی جا چکی ہے مگر ابھی آواز کی رسائی میں ہے۔ اس نے پوری قوت سے کشتی والوں کو پکارا۔ کندھے پر رکھی جانے والی چادر کو اونچا کر کے ہوا میں بار بار لہرایا۔ آخر کار کشتی والوں تک اس کی درخواست پہنچ گئی۔ ملاح نے کشتی کو واپس کنارے کی طرف پھیرا۔کچھ دیر میں کشتی کنارے آلگی۔ وہ سوار ہونے کو تھا کہ رُک گیا۔ اس نے کشتی میں سوار مسافروں اور ملاح سے کہا ''دوستو! معاف کرنا۔ میں اس کشتی میں سوار نہیں ہوں گا‘‘۔کشتی والے بھونچکے رہ گئے۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو اس نے وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔ بس مسلسل معذرت کرتا رہا۔ کشتی والوں نے اسے لعن طعن کی اور واپس سفر پر چل نکلے۔ آدھے راستے میں کشتی ڈوب گئی۔ کچھ مسافر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ کچھ تیرتے ہوئے‘ کچھ کسی تختے سے چمٹے ہوئے واپس کنارے آلگے۔ انہوں نے اس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ یا شیخ! آپ ہمارے مر شد ہیں! آپ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آپ نے اپنی روحانی طاقت ...

پاکستان پوسٹ بمقابلہ کوریئر سروس

قومی ایئر لائن ‘ ریلوے اور سرکاری سٹیل مل جو ''بے مثال‘‘ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور جس طرح دھڑا دھڑ '' منافع'' کما رہے ہیں ‘ اس کا حال تو ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔آج ایک اور سرکاری ادارے پاکستان پوسٹ یعنی محکمہ ڈاک کا حال بھی سن لیجیے۔ ان سطور کے لکھنے والے کو اوسطاً تین سے چار کتابیں اور رسالے ہر روز وصول ہوتے ہیں یعنی ایک ماہ میں تقریباً ایک سو کے لگ بھگ۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جاتی ہے کہ کتاب پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھیجی گئی ہے یا نجی کوریئر کمپنی کے ذریعے! دیکھا یہ گیا ہے کہ پچھتر‘ اسی فیصد کتابیں ارسال کرنے والے کوریئر سروس استعمال کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے ؟ یہ وجہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔حکومت ‘ خاص طور پر ہماری حکومت‘ جو بھی ہو اور جس پارٹی کی بھی ہو‘ بزنس نہیں کر سکتی۔ سست روی وہ بھی انتہا درجے کی!سرخ فیتہ‘ افسرشاہی کا مجرمانہ تغافل ‘ ناقابلِ رشک بے نیازی! ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والا رویہ ! یہ سب کچھ بزنس میں قابل قبول نہیں ہو تا۔ بزنس کا اصول ہے کہ گاہک ہمیشہ درست ہوتا ہے مگر جب کاروبار سرکار کر رہی ہو تو پھر گاہک رعایا...