اشاعتیں

جون, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

فرشتہ جو گھر میں تھا

روتا جاتا تھا اور بات کرتا جاتا تھا۔ بات کر تا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ داڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔ گلا رندھ گیاتھا۔ ہم نے اسے دلاسا دیا مگر سسکیاں تھیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ ہم چار دوست تھے۔ معمّر۔ سارا دن فارغ!شام پڑتی تو قریب کے ایک پارک میں جا بیٹھتے۔ رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔ حالاتِ حاضرہ پر بحث ہوتی۔ ملکی سیاست کو اپنی اپنی عقل کی چھلنی میں چھانتے مگر زیادہ وقت عمرِ رفتہ کو آواز دینے میں گزرتا۔ کبھی بچپن اور سکول کا زمانہ یاد کرتے۔ کبھی اپنے اپنے پروفیشن کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کرتے۔ کبھی پچھتاووں کا شکار ہوتے تو کبھی خوش ہوتے۔ اُس دن شاید پچھتاووں اور ندامتوں کی باری تھی۔ شاہد خاموش تھا۔ یہ بات معمول کے خلاف تھی۔ہم میں سے سب سے زیادہ باتونی اور زندہ دل وہی تھا۔ کریدنے پر اس نے بتایا '' بیٹے کو ایک بزنس ڈیل سے منع کیا تھا مگر وہ نہ مانا۔ ‘‘ تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ ہم نے پوچھا۔ کہنے لگا: اس لیے نہیں رو رہا کہ بیٹے نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ رو اس لیے رہا ہوں کہ وہ سارے مواقع یاد آرہے ہیں جب میں نے ا پنے باپ کا کہا نہیں مانا تھا۔ وہ رو...

انہاں فارسیاں گھر پٹیا

“” ایرانی خفیہ ایجنسی کا نمائندہ حاجی ناصر جو کہ پاکستان میں کاروباری شخصیت بن کر آتا جاتا رہتا ہے، سے رابطہ کیا۔ حاجی ناصر کے ساتھ ایران گیا اور اس نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کرائی۔ ایرانی خفیہ ایجنسی نے میری حفاظت کی ضمانت دی۔ اور بدلے میں مجھ سے معلومات دینے کا مطالبہ کیا جس پر میں راضی ہو گیا۔ ایرانی انٹیلی جنس کو میں نے کراچی میں آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران کے نام اور رہائش گاہوں کی معلومات بھی دیں۔ کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا۔ اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمد و رفت کا بھی بتایا۔ کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی تنصیبات سے متعلق معلومات دینے کا وعدہ کیا۔“ جاسوسی اور غداری کے یہ اعترافات کسی سول یا ملٹری ملازم کے نہیں۔ یہ کسی عام پاکستانی کے بھی نہیں۔ ایسا ہوتا تو یہ اعترافات کرنے والا آہنی گرفت میں ہو تا۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ملک کی سالمیت پر خشخاش کے دانے کے برابر بھی سمجھوتا نہیں کرتے۔ اس ضمن میں کوئی سویلین بچ سکتا ہے نہ کوئی فوجی! یہا...

کیا حارث سکّہ اچھال کر فیصلہ کرے گا؟

حارث میرا بچپن کا دوست ہے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے جب ایک دن وہ غصے میں آ گیا۔ اس سے پہلے میں نے اسے اتنا غضبناک کبھی نہ دیکھا تھا۔ بولے جا رہا تھا۔ جب بھی کوئی کام کرنے لگو، بجلی چلی جاتی ہے۔ تنخواہ ہے کہ بیس تاریخ کو وفات پا جاتی ہے۔ بیس سال ہو گئے ملازمت کرتے، تا حال دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ چھت اپنی ہو جائے۔ سرکاری ہسپتال جائیں تو کتوں‘ بلیوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ پرائیویٹ کلینک جائیں تو کھال کھینچ کر تجوری میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے یار؟ وطنِ عزیز کے بارے میں اس نے نازیبا گفتگو کی۔ دوسرے دن وہ ایک کنسلٹنٹ کے پاس گیا جو امیگریشن کے شعبے میں تھا۔ اس کے بعد حارث گویا ایک گھمن گھیری میں آ گیا۔ اس نے رات دیکھا نہ دن! بارش دیکھی نہ دھوپ۔ گرمی دیکھی نہ جاڑا۔ امیگریشن والا کنسلٹنٹ کہتا: فلاں دستاویز درکار ہے۔ حارث اس دستاویز کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس نے کچہریوں، بینکوں، یونین کونسلوں، تھانوں، اور نہ جانے کہاں کہاں کے چکر لگائے۔ بارہا اپنے آبائی گاؤں گیا۔ پٹوار خانوں کی خاک چھانی۔ چھ ماہ میں اس نے کنسلٹنٹ کے سارے تقاضے پورے کر دیے۔ ڈھیر ساری فیس ادا کی۔ ڈیڑھ سال مزید گزرے اور اسے امری...

پاکستان کیلئے احمد شاہ مسعود کی ’’ خدمات”

وزیر اعظم تو معصوم ہیں۔ مگر کیا سیکرٹری وزارتِ خارجہ کو بھی نہیں معلوم کہ احمد شاہ مسعود کون تھا ؟ احمد شاہ مسعود کے بھائی ولی مسعود نے وزیراعظم عمران خان سے فرمائش کی کہ اسلام آباد کی کسی شاہراہ کو احمد شاہ مسعودکے نام منسوب کر دیجیے۔وزیر اعظم نے ہامی بھر لی۔ چلیے ! اسے رسمی تواضع سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مگر کیا سیکرٹری وزراتِ خارجہ بھی نہیں جانتے تھے کہ بھارت ‘ احمد شاہ مسعود کو فنڈز اسی ولی مسعود کے ذریعے فراہم کرتا تھا؟ کیا وزارتِ خارجہ کا کام صرف یہ تھا کہ تجویز وزارتِ داخلہ کو بھیج دے ؟ کیا وزارتِ خارجہ محض ڈاکخانہ ہے ؟ ارے بھائی! آپ ایک طویل تجربے کے بعد وزارت ِخارجہ کے مدارالمہام مقرر ہوئے ہیں۔ یہ آپ کا فرضِ منصبی تھا کہ وزیراعظم کی خدمت میں فوراً ایک نوٹ بھیجتے جس میں تفصیل سے بتاتے کہ احمد شاہ مسعود آخر وقت تک بھارت کے ساتھ یک جان دو قالب رہا۔ اور جب بھارت کی حکومت نے تاجکستان میں تعینات بھارتی سفیر موتھو کمارسے پوچھا کہ احمد شاہ مسعود کی مدد کر کے بھارت کو کیا ملے گا ؟ تو موتھو کمار نے جواب دیا تھا کہ''احمد شاہ مسعود اُن سے لڑ رہا ہے جن سے ہمیں لڑنا چاہیے !...

ہم شریف لوگ ہیں

پیڑ ہوں تو ان پر پھل بھی لگتے ہیں۔ پھل لگیں تو پتھر بھی آتے ہیں۔ اسی طرح جہاں بیٹیاں ہوں وہاں رشتے بھی آتے ہیں۔ بخت اچھا ہو تو اچھے رشتے آتے ہیں۔ کبھی کبھی ماں باپ خود ہی راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ بہت زیادہ چھان بین! کُرید! عقل مند ماں باپ شرافت دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد روزگار! باقی سب چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں! ہمارے دوست چوہدری رشید بھی ایک بیٹی کے باپ ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بیٹی کو قدرت کا انعام سمجھتے ہیں اور اللہ کی رحمت! کیا بد قسمتی ہے کہ ابھی تک اس معاشرے میں کچھ بد قسمت بیٹی کو بوجھ گردانتے ہیں اور لڑکوں سے کم تر! وراثت میں بیٹی کو حصہ دینے کا وقت آئے تو کہیں گے: اس طرح تو جائیداد غیروں میں چلی جائے گی۔ بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے تو کہیں گے: تم نے کون سی نوکری کرنی ہے۔ جدید سنگا پور کے معمار لی کوان ییو نے سنگا پور کے لوگوں سے کہا تھا: تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں بلند پایہ قوم دوں گا۔ جو بد نہاد، بیٹی کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلاتے کہ کون سی نوکری کرنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم اس لیے نہیں دلوانی چاہیے کہ انہوں نے ملازمتیں کرنی ہیں۔...

ہمارے کلچر میں ایسا شخص کیا کہلاتا ہے؟

پہلا منظر۔ مسافر غرناطہ سے ٹرین میں بیٹھتا ہے۔ ڈبے میں کل تین افراد ہیں۔ مسافر اور ایک یورپی میاں بیوی۔ منزل بارسلونا ہے۔ تقریبا آٹھ نو گھنٹے کا سفر ہے۔ اس دوران میاں بیوی کھانا کھاتے ہیں اور کافی پیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے، وہ مسافر سے مکمل بے نیازی برتتے ہیں۔ مسافر کھانا کھاتے وقت انہیں دعوت دیتا ہے۔ اپنے تھرموس سے چائے بھی پیش کرتا ہے۔ دوسرا منظر۔ قیام یورپ کے دوران، مسافر کی ایک مصور سے دوستی ہو جاتی ہے۔ یہ مصور، سویڈش زبان کا پروفیسر بھی ہے۔ اس کا تعلق سسلی کے دارالحکومت پالرمو سے ہے۔ کئی مہینے ایک دوسرے سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ اچھے خاصے تعلقات بن جاتے ہیں۔ مسافر پالرمو جانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ مصور دوست اپنے گھر ٹھہرانے کی پیشکش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ رہائش کا معاوضہ نہیں لے گا مگر کھانے پینے کے دام دینے ہوں گے۔n تیسرا منظر۔ مسافر، شام ڈھلے، تاشقند سے ٹرین میں بیٹھتا ہے۔ یہ نائٹ ٹرین سمرقند کے راستے بخارا جاتی ہے۔ ڈبے میں مسافر کے علاوہ ایک ازبک فیملی ہے۔ میاں بیوی اور دو بچے۔ سونے کے علاوہ، سارا وقت یہ خاندان مسافر کی ضیافت میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی پھل کھانے پر اصرار کرتے ہیں تو ...

کون سے اعداد و شمار میں لپیٹو گے

کیا دلکش وادی تھی اور کیا بہار آفریں فضا تھی! چاروں طرف پہاڑ۔ پہاڑوں کی ترائیوں پر سیب کے درخت۔ گھاس سے بھرے میدان میں بکریاں چر رہی تھیں۔ دونوں طرف چشمے تھے۔ ان سے بہتے پانی کی مترنم آواز جیسے جادو جگا رہی تھی۔ ایک درخت کے نیچے گڈریا پتھروں سے ٹیک لگائے بانسری بجا رہا تھا۔ اس کا کتا پاس بیٹھا‘ آنکھیں مُوندے یوں بیٹھا تھا جیسے بانسری سے نکلتے ہوئے زیر و بم کو سمجھتا ہو ! اور کیا عجب! واقعی سمجھتا ہو۔ انسان کو کیا معلوم اس کے علاوہ دیگر حیوانات کو قدرت نے کیا کیا صلاحیتیں اور کیسے کیسے دماغ عطا کیے ہیں۔ گڈریا اپنی زندگی آرام سے گزار رہا تھا۔ جیسا بھی تھا‘ کسی کا محتاج نہ تھا۔ اس کی بکریاں تھیں جن سے وہ امیر تھا۔ اس کا کتا تھا جو دکھ درد میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔ اس کی چراگاہیں تھیں‘ سبزہ زار تھے‘ پہاڑ تھے‘ درخت تھے‘ پھل پھول تھے‘ پانی کی فراوانی تھی۔ وہ شام و سحر پروردگار کا شکر ادا کرتا تھا۔ مگر شومئی قسمت ! ہائے افسوس! ایک دن وہ آن پہنچا! اُس دوپہر ‘ وہ درخت کے سائے میں نیم دراز تھا جب ایک مہنگی‘ جہازی سائز کی لینڈ کروزر چراگاہ کے کنارے آکر رکی۔ اس میں سے ایک جوان اترا‘ پچیس تیس کے پیٹ...

……میں کیا چاہتا ہوں؟

مجھے آج تک نہیں معلوم ہوا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ کس بات پر خوش ہوتا ہوں اور کس پر مغموم ہوتا ہوں؟ دُکھ کی بات ہے کہ اسلامو فوبیا کے ایک مریض نے‘ ایک دہشت گرد نے کینیڈا میں ایک پورے مسلمان خاندان کو روند کر شہید کر ڈالا۔ اس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے‘ مگر میں اس حقیقت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں کہ کینیڈا کے ہزاروں غیر مسلم شہریوں نے اس دہشت گردی کی مذمت میں جلوس نکالا اور سات کلو میٹر چلے۔ ایسے احتجاجی جلوس وہاں کے کئی شہروں میں نکالے گئے۔ قومی ٹیلی وژن پر اذان نشر کی گئی۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ  “اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ کینیڈا میں نسل پرستی اور نفرت کا وجود نہیں ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہسپتال میں پڑے ہوئے بچے کے سامنے ہم اس قتل و غارت کی کیا تشریح کریں گے؟ ہم ان خاندانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلامو فوبیا کوئی چیز نہیں!” اور پولیس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ  “ڈرائیور نے جان بوجھ کر اس خاندان کو مارا کیونکہ وہ مسلمان تھے‘ یہ ناقابل بیان نفرت کا شاخسانہ ہے اور اسلاموفوبیا کا! مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔” میری سم...

History Made Easy

کچھ   سوال   ہر   امتحان   میں   ضرور   پوچھے   جاتے   ہیں۔   مغل   سلطنت   کے   زوال   کے   اسباب   کیا تھے؟   ایسٹ   انڈیا   کمپنی   کے   پاؤں   کیسے   جمے؟   انگریزوں   کی   حکومت   کیسے   قائم   ہوئی؟ آپ   کا   کیا   خیال   ہے؟   کیا   اسباب   تھے؟   درسی   کتابوں   میں   کچھ   اسباب   رٹائے   جاتے   ہیں۔   رہے مؤرّخ   تو   سب   نے   اپنی   اپنی   ڈفلی   بجائی   ہے۔   انگریز   مؤرخ   اپنا   نقطہ   نظر   پیش   کرتے   ہیں،   ہندو اپنا !  مسلمانوں   کی   لکھی   ہوئی   کتابیں   تعداد   میں   نسبتاً   کم   ہیں۔   ان   کا   موقف   الگ   ہے   مگر   آج   ہم آپ   کے   لیے   تاریخ   کا...