اشاعتیں

مئی, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

یہ عبرت کی جا ہے

کوچۂ سیاست سے گذرنے والے جب خود نوشت لکھتے ہیں تو ایک عام پاکستانی کے لیے بھی وہ دلچسپی کا باعث بنتی ہے اس لیے کہ سیاسی خود نوشت اصل میں ملکی تاریخ ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ محترمہ بشریٰ رحمان کی آپ بیتی “ لکھی کو کون موڑے “ خوبصورت کتابیں چھاپنے والے ادارے دوست پبلیکیشنز نے شائع کی ہے۔ دیکھیے، طویل عرصہ ایم این اے رہنے والی بشری رحمان کن واقعات کی گواہی دیتی ہیں۔ :=======( جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم کے حوالے سے ) اس کے بعد اناؤنسر نے میاں نواز شریف کا نام لیا ۔ان کے پاس لکھی ہوئی تقریر تھی۔دو تین فقرے پڑھنے کے بعد وہ مجمعے سے پوچھتے ۔ کیا آپ لوگ ریفرنڈم کے حق میں ہیں ؟ سارا مجمع چلا کر بیک آواز کہتا ہاں ہاں حق میں ہیں۔ پھر دو تین فقرے صدر صاحب کے حق میں بول کر پوچھتے کیا آپ لوگ صدر صاحب کو ووٹ دیں گے؟ پھر پوچھتے ہاتھ کھڑے کر کے بتاؤ کون کون ووٹ دے گا؟ تو سارے مجمعے کے ہاتھ بلند ہو جاتے۔ کم از کم انہوں نے صدر صاحب کو باور کرا دیا کہ ریفرنڈم میں پنجاب کے سب لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ :=========آج صدر جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم کا دن ہے۔ ہماری ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں کہ زنانہ پولنگ سٹیشنز پر جاکر صورت حا...

……مائی لارڈ جناب چیف جسٹس

رمضان کا آخری عشرہ تھا جب امین خان کی والدہ کورونا میں مبتلا ہوئیں اور وہ انہیں ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھا۔ یہ یوسف زئی جوان، دوست ہے اور برخوردار بھی۔ دریائے سندھ کے مشرق میں رہنے والے لوگوں میں سے کم ہی یہ بات جانتے ہوں گے کہ یوسف زئی بہت بڑا قبیلہ ہے۔ کابل سے لے کر اڑیسہ اور بنگال تک پھیلا ہوا۔ بر صغیر میں جگہ جگہ ان کی ریاستیں اور حکومتیں تھیں۔ بریلی، رامپور اور نواحی علاقوں میں آباد مسلمانوں کی اکثریت آج بھی یوسف زئی ہے۔ شاید قبیلے کا اثر ہے کہ امین خان اپنے دفتر میں ہر کلائنٹ کو خود اٹنڈ کرتا ہے۔ اٹنڈ نہیں کرتا، دست گیری کرتا ہے۔ سائل ضرورت مند ہوتے ہیں اور وہ کسی کو اس کا کام کیے بغیر لوٹاتا نہیں۔ جس دن میں اس کے پاس تعزیت کے لیے گیا، اس دن بھی وہ اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف تھا۔ قومی بچت (نیشنل سیونگز) کے اس مرکز میں آنے والے سائل زیادہ تر معمر مرد اور عمر رسیدہ عورتیں تھیں۔ میں دیکھتا رہا کہ کس طرح وہ، ایک نرم اور مہربان لہجے میں، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتا۔ اپنے سٹاف کو ہدایات دیتا۔ کلائنٹس کو اپنے پاس بٹھاتا۔ کاغذات ملاحظہ کر کے ان پر دستخط کرتا۔ عمر رسیدہ لوگ بات ...

ایوان سے قبرستان تک

یہ دو خبریں ہیں بالکل مختلف ! پہلی خبر یہ ہے کہ ہمارے معزز ایوانِ بالا نے ‘ جسے ہم سینیٹ کہتے ہیں‘ رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں ‘ یعنی گزشتہ سال یکم جولائی سے لے کر اس سال جنوری تک‘ ایک ارب 23 کروڑ سے زیادہ کے اخراجات کیے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: اعزازی تنخواہیں( یعنی نارمل تنخواہوں کے علاوہ اعزازیے) پانچ کروڑ 37 لاکھ روپے۔ کھانے کی مد میں‘ پانچ کروڑ بائیس لاکھ روپے۔ اوور ٹائم‘ چھیانوے لاکھ روپے۔ نئی گاڑیاں‘ آٹھ کروڑ دس لاکھ روپے۔سفری ( ٹریولنگ) الاؤنس‘دو کروڑ تریسٹھ لاکھ روپے۔پٹرول‘ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے۔گریڈ بیس تا بائیس کے افسران کا مونیٹائزیشن الاؤنس‘ ایک کروڑ سے زائد۔ بیرونی ممالک کے دورے‘ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے۔فرنیچر اور اشیا‘ایک کروڑ بیاسی لاکھ روپے‘ تفریح اور تحائف‘چھ لاکھ انتالیس ہزار روپے۔بیرونی ممالک سے آنے والے وفود کے انتظامات‘ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے۔ یہاں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گریڈ بیس تا بائیس کے افسروں کے مونیٹائزیشن الاؤنس پر جو ایک کروڑ سے زیادہ کا خرچ ہوا ہے یہ کیا ہے۔ کچھ سال پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بیس‘ اکیس اور بائیس گریڈ کے افسران سرکاری گاڑی...

یہ باغی نہیں تھے، جُوسف تھے

عالم دین، استاد بھی تھے۔ اس روز بھی وہ حسب معمول سبق پڑھا رہے تھے۔ شاگرد زمین پر نصف دائرے کی صورت میں کتابیں کھولے بیٹھے تھے۔ استاد گرامی بہت آرام دہ حالت میں، Relaxed ہو کر تشریف فرما تھے۔ دستار اتار کر ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ شاگرد فقرہ پڑھتا تھا۔ استاد اس کے رموز و اسرار کھولتے جا رہے تھے۔ مضامین بادل کی طرح برس رہے تھے۔ ایک ایک نکتہ کئی کئی اسرار لیے تھا۔ فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، لٹریچر، صاحب علم کے حضور جیسے دست بستہ کھڑے تھے۔ شاگرد ہمہ تن گوش تھے۔ کچھ ساتھ ساتھ لکھتے جا رہے تھے۔ کچھ محویت کے ساتھ سن رہے تھے۔ اچانک مسجد کا دروازہ کھلا۔ ایک طویل قامت، وجیہ شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں خوبصورت عصا تھا۔ سفید عمامے پر طُرّہ، رُو بہ فلک تھا۔ قیمتی چغہ زیب تن تھا۔ پہلی نظر ہی میں وہ ایک بہت زیادہ پڑھا لکھا شخص لگتا تھا۔ ایک علامہ! ایک عالم! اس نے حمام سے کوزہ بھرا اور اُس ناند کے کنارے بیٹھ کر وضو کرنے لگا جس پر بیٹھ کر وضو کیا جاتا تھا۔ استاد‘ جو پڑھا رہے تھے، بھانپ گئے کہ یہ شخص ضرور عالم ہے۔ اُس زمانے میں، جس کی ہم بات کر رہے ہیں، یہ رواج تھا کہ جب ک...

اسرائیل بمقابلہ مسلم ممالک کا انتشار

خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں نہ خواب فروخت کرنے پر! تاہم اس بات کا، بظاہر، کوئی امکان نہیں کہ آنے والے پچاس یا سو سالوں میں مسلم ممالک اسرائیل کا کچھ بگاڑ سکیں۔ یہ پچاس یا سو سال کا  اس لیے لکھا ہے کہ اسے ثابت کرنا آسان ہے۔ انیسویں صدی کے سفرنامے پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ 1847ء میں یوسف کمبل پوش کا سفرنامہ یورپ شائع ہوا۔ 1870ء میں سر سید احمد خان برطانیہ گئے اور وہاں کا احوال لکھا۔ پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جتنا فرق تعلیم، معاشرت، اقتصادیات، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اس وقت کے یورپ اور ہم مسلمانوں میں تھا، آج، سو ڈیڑھ سو سال کے بعد، یہ فرق زیادہ تو ہوا ہے‘ کم نہیں ہوا‘ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کئی مسلم ممالک کی نسبت، کچھ حیثیتوں میں، زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اس پر قیاس کیجیے کہ باقی ممالک کتنے پیچھے ہیں جبکہ اسرائیل معاشی اعتبار سے اور ٹیکنالوجی میں کم از کم عرب ممالک سے کوسوں آگے ہے۔ اگر گزشتہ سو‘ ڈیڑھ سو برسوں میں ہم جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں تو آئندہ پچاس یا سو سالوں میں کون سے پر نکل آئیں گے؟ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ 'جیڑھے اِتھے بھیڑے، او لاہور وی بھیڑے! یعنی جو...

اے اہلِ فلسطین !!

کوئی فلسطینیوں کو سمجھائے کہ ہم ابھی مصروف ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ہم اُن مصیبتوں سے غافل ہیں جو ہمارے فلسطینی بھائیوں پر ٹوٹ رہی ہیں۔ ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہم ان دردناک لمحات میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری جانیں ان پر نثار۔ مگر عملی طور پر ہم کچھ نہیں کر سکتے اس لیے کہ ہم مصروف ہیں۔ فلسطینی بھائیو ! روتی سسکتی بہنو ! چیختے چلاتے فلسطینی بچو! یقین جانو ہم ابھی بہت مصروف ہیں۔ ہم نے ابھی کچھ ضروری امور سرانجام دینے ہیں۔ ابھی ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ ہم میں شیعہ کون ہیں اور سُنی کون ہیں ؟ ابھی ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا سنیوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور کیا شیعہ کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے ؟ ابھی ہم نے یہ طے کرنا ہے کہ نماز میں ہاتھ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے اور ہاتھ باندھنے والے اور نہ باندھنے والے اور۔ آمین اونچی کہنے والے اور آمین اونچی نہ کہنے والے اچھے مسلمان ہیں یا بُرے اور مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟ ابھی ہمارا واعظ فخر سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہے۔ ہم ان زیادہ اہم مسائل سے فارغ ہو لیں تو فلسطینیو ! اے مظلوم فلسطینیو! تمہارے لیے کچھ سوچی...

ایک اہم قومی ایشو … چند تجاویز

والدین شکوہ کرتے ہیں کہ آج کل کے بچوں کو کچھ سمجھانا ایک مشکل کام ہے مگر سچ پوچھیے تو مشکل ترین کام آج کل کی حکومتوں کو سمجھنا سمجھانا ہے۔ اس اپنی حکومت ہی کو دیکھیے۔ ابتدا میں تو اس کی پالیسیاں درست تھیں اور اقدامات حوصلہ افزا! بزدار صاحب کو وزیر اعلیٰ تعینات کر کے دلوں کو مسخر کر لیا گیا۔ افرادی قوت کے بہترین استعمال Right person for the right job کی یہ ایسی مثال تھی کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی تحسین کی گئی۔ کابینہ میں جب ایک ڈاکٹر صاحب کو بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے چنا گیا تو اس انتخاب کو بھی ملک کے اندر اور باہر بہت سراہا گیا۔ وجہ ظاہر تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے گزشتہ حکومتوں میں بھی یہی ذمہ داری نبھائی تھی‘ مگر کام اس قدر اطمینان سے کرتے ہیں اور تفصیل سے کہ کسی حکومت میں بھی اصلاحات کی پٹاری سے برآمد کچھ نہیں ہوتا کہ حکومت بدل جاتی ہے۔ اس حکومت میں یہی کام انہوں نے پھر الف سے شروع کیا۔ تین برس ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ بہت ہی تاریخی قسم کی اصلاحات لے کر آئیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ پانچ سال اس کام کے لیے کم پڑیں۔ امید واثق ہے کہ حسبِ معمول‘ اگلی حکومت میں‘ جس کی بھی ہوئی‘ یہی کام ایک بار پھر ا...

مجھے میرے دوستوں سے نہیں، غیروں سے بچاؤ

ایک غریب، بے نوا شاعر سے بادشاہ کسی بات پر ناراض ہو گیا۔ یہ بادشاہ بھی بالکل اللہ لوک تھے۔ مُوڈی! پل میں تولہ پل میں ماشہ! ذرا سی بات بری لگی تو مینار سے گرانے کا حکم دے دیا یا ہاتھی کے پاؤں تلے لٹا دیا۔ کبھی کسی کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی۔ کبھی کسی کو پوست کا عرق پلوا پلوا کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خوش ہوئے تو منہ موتیوں سے بھر دیا۔ کسی کو سونے میں تلوا دیا۔ کسی کو گاؤں کے گاؤں جاگیر میں عطا کر دیے۔ کسی کو شوگر مل لگوا دی۔ کسی کو دو پلاٹ الاٹ کر دیے کہ ایک کو بیچ کر دوسرے پر مکان تعمیر کر لو۔ کسی کو مشیر لگا دیا تو کسی کو سفیر! کسی کو چیف سیکرٹری سے ہٹایا تو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگا دیا، کسی کو وزارت سے ہٹایا تو پارٹی کا بڑا عہدہ دے دیا۔ ہمارے تو گورنر بھی مغل بادشاہوں سے کم نہیں۔ سول ایسوسی ایشن کا سربراہ چننے کے لیے ڈھنڈورا پیٹا گیا یعنی اشتہار دیے گئے۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کا انٹرویو ہوا۔ اس کے بعد گورنر صاحب کے سیکرٹری کو تعینات کر دیا گیا جو درخواست دہندگان میں تھے نہ انٹرویو دینے والوں میں۔ پہلے تو کہانیاں سنی تھیں کہ فلاں ریاست کے بگڑے ہوئے نواب یا...

نہیں! محترمہ! نہیں

ہمارے دوست نصیر نے دوسری شادی کیا کی، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ پورا خاندان دشمن ہو گیا۔ اپنی اولاد اور پہلی بیوی کی مخالفت تو مول لینا ہی تھی، دور کے رشتے دار بھی بے بھاؤ کی سنانے لگے۔ یہ فقرہ تو عام ہی سنائی دیتا ''ہنستی بستی عورت کا گھر اجاڑ دیا‘‘۔ ایک دن جب میں بھی ان کے ہاں موجود تھا، یہ قصہ دوبارہ چھِڑا۔ نصیر کی سالی نے‘ جو اس وقت وہاں موجود تھی‘ مجھے طعنہ دیا: آپ کے دوست نے میری بہن کا گھر اجاڑ دیا‘ مرد ذات کبھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ یوں تو شاید طرح دے جاتا مگر مرد ذات والی بات کا جواب دینا ضروری تھا۔ نصیر کی سالی کو سامنے بٹھایا اور کہا کہ اس معاملے میں عورت ذات بھی برابر کی شریک ہے۔ کیا شادی کرنے والی عورت کو نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک دوسری عورت کو دُکھ دے گی؟ کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ دوسری بیوی بن کر جا رہی ہے؟ اگر دوسری شادی سے گھر اجڑتا ہے تو عورت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ اسی طرح وراثت کے معاملات کا سروے کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ملیں گے۔ ماں بھی نہیں چاہے گی کہ جائیداد میں بیٹیوں کو ان کا جائز حصہ دیا جائے۔ اکثر و بیشتر یہ عورت ہی ہوتی ہے جو بیٹ...

دنیا کی امامت ہمارے کاندھوں پر ہے

پہلے بھارت کی بات کرتے ہیں۔ تکبر کے آسمان سے نیچے اُترنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پورے بھارت کو ہندو بنا کر چھوڑنا ہے۔ جو نہیں بنے گا اسے رہنے کا حق نہیں۔ کینسر کا علاج گئو موتر سے کرنا ہے۔ گائے پر ہاتھ پھیرنے سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ گائے ذبح کرنا تو دور کی بات ہے بکرے کا گوشت بھی جس گھر میں پایا گیا اسے جلا کر راکھ کر دیا۔گجرات میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔ آسام میں ہزاروں کو شہریت ہی سے بے دخل کر دیا۔ تکبر مآب جناب ادتیا ناتھ یو پی کے چیف منسٹر بنے تو قیامت برپا کر کے رکھ دی۔صدیوں سے جو نام شہروں کے چلے آرہے تھے‘ مسلم دشمنی میں انہیں تبدیل کرنا شروع ہو گئے۔ مدرسوں کو حکم دیا کہ ترنگا لہرائیں اور ثقافتی آمیزش کی طرف قدم بڑھائیں۔ امیت شاہ اپنے آپ کو بھارت کا نہیں‘ پوری دنیا کا وزیر داخلہ سمجھنے لگے۔دہلی میں فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا۔ مودی ڈھاکہ گئے تو بڑ ہانکی کہ بنگلہ دیش بنانے میں ان کا بھی کردار تھا۔ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں۔ ہر کوئی دعویدار بن جاتا ہے۔ پہلے کانگرس نے اور پھر بی جے پی نے ایک ایک بھارتی کے دل میں پاکستان دشمنی کا زہر اُتارا۔ ایک واقعہ یاد...

پٹاخہ ہر حال میں بجے گا

ارے بھئی! ہمیں ان معاملات میں کیوں گھسیٹتے ہو۔ہمارا آخر حکومت سے یا سیاست سے کیا تعلق ہے ! ہمیں اس سے کیا غرض کہ ایف آئی اے کا سابق سربراہ کیا کہتا ہے اور کیوں کہتا ہے۔ سچ کہتا ہے یا بے پر کی اُڑاتا ہے۔ ہمیں اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ مشیر اور وزیر کیا موقف رکھتے ہیں۔ ہم تو گاؤں کے سیدھے سادے لوگ ہیں۔ اپنے کھیتوں اور مویشیوں ہی سے فراغت نہیں۔ گندم کی کٹائی ہو رہی ہے۔ ایک پل کی فرصت نہیں۔ اوپر سے بھوری گائے بیمار ہے۔ دو دن سے اس نے اپنے لاڈلے بچھڑے کی طرف بھی نہیں دیکھا۔ بھوسے کا پچھلا سٹاک ختم ہو رہا ہے۔ دیکھیے آگے کیا صورت حال بنتی ہے اور گندم کا کیا نرخ لگتا ہے۔ گرانی اتنی ہے کہ بھینس رکھنا ہاتھی رکھنے کے برابر ہو گیا ہے۔ چارے کی قیمت آسمان تک جا پہنچی ہے۔ اب تو ہمارا اصلی نسلی کتا' کلائیو ‘ بھی ریوڑ کے پیچھے چلتا ہے تو منہ جھکا کر‘ سیکنڈ ہینڈ انداز میں ‘ بُجھا بُجھا سا ! جیسے مہنگائی کے متعلق ہی سوچ رہا ہو! وہ بھی زمانے تھے جب اس کڑکتی دھوپ میں محبوب یاد آتا تھا اور فضا میں ماہیا گونج اٹھتا تھا ۔ حُقے دیاں نڑیاں نیں پھُلا وے گلاب دیا دھُپاں ڈاڈیاں چڑھیاں نیں مگر اب افراتفری...