اشاعتیں

مارچ, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

صدارتی ایوارڈ ؟ مولانا کو ؟؟

مہنگائی اپنی جگہ‘ اپوزیشن اور حزبِ اقتدار کی باہمی کشمکش اپنی جگہ‘پی ڈی ایم کا انتشار اپنی جگہ‘ اصل مسئلہ جو اس وقت مملکت کو درپیش ہے یہ ہے کہ مولانا کو تمغۂ حسن کار کردگی دے دیا گیا ہے۔آدھی سے زیادہ قوم اس پر پریشان ہے۔ دلوں میں اضطراب پَل رہا ہے۔ جسموں کے اندر روحیں بے چین ہیں کہ یہ کیا نئی بات ہو گئی۔ ایک مولانا کو ‘ ایک صاحبِ دستار و ریش کو‘ جس کا لباس ٹخنوں سے اوپر ہے‘ اتنا بڑا ایوارڈ مل گیا ہے!! حد ہو گئی!! اس سے پہلے بھی مولانا بہت سوں کی دل آزاری کا سبب بنے ہیں۔ ایک فاؤنڈیشن بنا ڈالی تاکہ اس کی آمدنی سے مدارس چل سکیں اور چندہ نہ مانگیں۔ اس پر بھی بہت سوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ تو کیا مدرسے اب ہمارے چندوں کے بغیر چلیں گے ؟ چندہ دینے والوں کا سٹیٹس جیسے اس سے مجروح ہو نے کا خدشہ تھا۔ صرف یہی نہیں ‘ ایک دوبار مولانا کسی لینڈ کروز سے اترتے دکھائی دیے۔اس سے بھی بہت سے دل دُکھے۔ بہت طبیعتیں رنجیدہ ہوئیں۔ بہت پیشانیوں پر لکیریں پڑیں! سچ پوچھئے تو یہ کالم نگار بھی ناخوش ہے! تو کیا اب اس ملک میں مولانا حضرات کی بھی عزت افزائی ہو گی؟ ارے ہم تو انگریز آقاؤں کے وارث ہیں! انہوں نے ہ...

ہر سو سال بعد… (آخری حصہ

''سات اکتوبر کی شام چند مرکزی وزیر قصر صدارت میں جمع تھے اور وہسکی کے ساتھ شغل فرما رہے تھے۔ صدر سکندر مرزا ان کا ساتھ بھی دے رہے تھے اور بار بار گھڑی کی جانب بھی دیکھ رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ تھوڑی دیر میں فوجی دستے اپنے اپنے مقام سنبھالنے کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔ خدا خدا کر کے مہمان آٹھ بجے کے قریب رخصت ہوئے۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب فوجی دستوں کا مارچ شروع ہوا اور ایک گھنٹے کے اندر انہوں نے اپنے اپنے مقررہ مقام سنبھال لیے۔ بارہ بجے شب سے تھوڑی دیر بعد صدر سکندر مرزا کی جانب سے آئین کی منسوخی‘ مارشل لا کے نفاذ اور مارشل لا کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل ایوب خان کے تقرر کا اعلان ہو گیا اور وزارتیں اور اسمبلیاں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں‘‘ ( کتاب: مارشل لا سے مارشل تک‘ مرتبہ: سید نور احمد) میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں غداری کی اور بر صغیر پر انگریزوں کو مسلط کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی کی ذریت سے یہ سکندر مرزا تھا جس نے 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے سو سال بعد 1956-57-58 میں اس ملک کو ایک نئے عذاب سے دوچار کیا اور جمہوریت کے عدم استحکام اور پہلے مارشل لا کے نفاذ میں مرکزی ...

ہر سو سال بعد …(2

1657ء میں مغلوں کی ہولناک جنگِ تخت نشینی شروع ہوئی۔دو سال تک یہ خونریزی جاری رہی جس نے ہندوستان کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔ ٹھیک ایک سو سال بعدایک اور افتاد آ پڑی۔لارڈ کلائیو اور سراج الدولہ کے مابین لڑائی ہوئی جسے ہم سب جنگِ پلاسی کے نام سے جانتے ہیں۔میر جعفر نے غداری کی۔اس کا نام آج بھی ایک گالی ہے۔ اقبال کا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے ؎ جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگِ ملّت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن میر جعفر اور اس کے جانشینوں کا جو حشر ہوا تاریخ کے صفحوں پر موجود ہے۔اس لڑائی کی تفصیلات میں جائے بغیر ہم اس کے خوفناک نتائج کا ذکر کریں گے۔پلاسی نے لوٹ مار کا ایک دروازہ کھولا جس میں پہلے بنگال کو اور پھر پورے برصغیر کو انگریزوں نے بھنبھوڑ ڈالا اور ہڈیاں تک چبا گئے۔اگلے آٹھ سالوں میں میر جعفر اور اس کی جانشین کٹھ پتلیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ( اُس وقت کے ) پچیس لاکھ پاؤنڈ دیے۔ کلائیو کی ذاتی دولت آج کے حساب سے اربوں تک پہنچ گئی مگر بد ترین نتیجہ پلاسی کی جنگ کا یہ نکلا کہ ایک تجارتی کمپنی عسکری اور سیاسی طاقت میں تبدیل ہو گئی۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے باقاعدہ حکمرانوں میں شامل ہو گئی۔ ...

ہر سَو سال بعد

بادل قسم قسم کی شکلیں بناتے ہیں۔کبھی ہاتھی تو کبھی عفریت بن کر چلنے لگتے ہیں۔ کبھی یوں لگتا ہے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ کبھی کشتیوں کی طرح تیرتے ہیں۔ کبھی پہاڑ بن جاتے ہیں۔ تاریخ بھی بادلوں کی مثال ہے۔ کئی شکلیں بناتی ہے۔ کئی پیٹرن بُنتی ہے۔ کئی سانچے ڈھالتی ہے۔ پھر ان سانچوں میں مستقبل کو فِٹ کرتی ہے۔ ہماری تاریخ نے ایک المناک شکل اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ ہر سَو سال کے بعد بر صغیر کے باشندوں پر بالعموم اور مسلمانوں پر بالخصوص کوئی نہ کوئی بھاری افتاد پڑتی ہے اور ایسا گزشتہ چار سو سال سے ہو رہا ہے۔ جب بھی صدی ستاون سال گزار چکتی ہے‘ تو ایک نہ ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 1657 ء کو دیکھ لیجیے۔ شاہ جہان کا دور نسبتاً استحکام کا دور تھا۔ اچھے بھلے پُر امن دن گزر رہے تھے۔1657ء ہی میں اس کے اقتدار کا تیس سالہ جشن منایا گیا مگر مغلوں کی جھروکہ درشن والی رسم اسے لے بیٹھی۔بادشاہ کے لیے ہر صبح جھروکے میں بیٹھ کر عوام کو اپنا دیدار کرانا لازم تھا۔جہانگیر کی راتیں جن مشاغل میں گزرتی تھیں‘ ان کے پیش نظر اس کے لیے صبح سویرے یہ ڈیوٹی بجا لانا آسان نہ تھا پھر بھی اسے درشن دینا پڑتا تھا۔ یہ ایک طرح کی یقین دہانی ت...

منزل‘ اگر کہیں ہے تو‘ بہت دور ہے

پی ڈی ایم کا کانٹا نکل گیا۔ راستہ صاف ہو گیا! مگر کیا واقعی راستہ صاف ہو گیا؟ یونیورسٹی آف مالاکنڈ کے نئے بلاک کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر شریف اور زرداری خاندان اور ان کی اولاد کا بھرپور تذکرہ کیا۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ میں ان دونوں خاندانوں کو اَمر کرنے کا تہیہ جنابِ وزیر اعظم ہی نے کر رکھا ہے۔ اڑھائی تین سال کے دوران جتنی کوریج حکومت کے طفیل ان خاندانوں کو ملی ہے اتنی شاید تب بھی نہ ملتی اگر یہ دونوں خاندان کسی مشہور بین الاقوامی میڈیا کمپنی کو ہائر کرتے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ان خاندانوں کے بد ترین مخالف بھی دل میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے لگے ہیں کیونکہ مسلسل ایک ہی بات سن سن کو لوگ چڑنے لگے ہیں۔ ہر تذکرے کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد‘ بے حد ہو جائے تو اثر الٹا ہونے لگتا ہے۔ کامیابی دوسروں کی برائیاں کرنے سے حاصل ہوتی ہے یا خود کچھ کر کے دکھانے سے؟ شیر شاہ سوری کو کُل پانچ سال ملے۔ کیا یہ پانچ برس اس نے مغلوں کی برائیاں کرنے میں گزار دیے؟ بابر اگر لودھیوں کی مذمت ہی میں لگا رہتا تو چند ہفتوں میں بھاگ کر کابل پناہ لینا پڑتی۔ پی ڈی ایم کا کانٹا نکل گیا مگر یہ مسائل کا...

دہلی سے لاہور تک

''ابھی ہم ڈیوڑھی میں کھڑے مولانا کا کمرہ دیکھ ہی رہے تھے کہ چبوترے سے ایک خاتون بی بی کی آواز آئی۔ میاں کچھ کام ہے؟ ہم نے عرض کیا‘ بی بی! ہم مولانا محمد حسین آزاد کا گھر دیکھنے آئے ہیں‘ وہم نہ کیجیے‘ دیکھ کر چلے جائیں گے۔ اللہ بھلا کرے اس بی بی کا۔ کہنے لگی‘ میاں چائے پیو گے؟ ہم نے کہا‘ کیوں نہ پئیں گے! لیجیے صاحبو! تھوڑی دیر میں ایک نیک دل آدمی تین کپ چائے لے کر زینوں سے اتر آئے۔ واللہ! ہم نے وہ چائے مولانا آزاد کی طرف سے سمجھ کے پی! دیکھیے کیسے مولانا نے تواضع کی۔‘‘ یہ اقتباس علی اکبر ناطق کی تازہ تصنیف 'فقیر بستی میں تھا‘ سے ہے۔ ناطق نے فکشن بھی لکھا ہے‘ شاعری کے مجموعے بھی اُس کے کریڈٹ پر ہیں مگر اس کالم نگار کی رائے میں معرکے کا کام اس کا یہی ہے۔ اس لیے کہ اردو کے بہت بڑے محسن، مولانا محمد حسین آزاد کو ہم بُھلا بیٹھے ہیں۔ نئی نسل تو ان کے نام اور کارناموں سے یکسر بے خبر ہے۔ ہم عصر ادیبوں اور محققین نے بھی ان کی طرف توجہ نہیں کی سوائے جناب اکرام چغتائی کے جن کا مجموعۂ مقالات مطالعۂ آزاد کے عنوان سے 2010 میں شائع ہوا۔ یہ آزاد کے حوالے سے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کی ...

تاجروں کی حمایت میں

تاجر برادری نے ایک بار پھر قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ اللہ اللہ۔ افراتفری اور نفسا نفسی کے اس دور میں ‘ مادہ پرستی کے اس چیختے ‘ چنگھاڑتے‘ بھنبھوڑتے زمانے میں‘ ایسے بے غرض افراد ‘ ایسے دھُن کے پکے لوگ! ایسا پُر عزم طبقہ ! ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی! اقبال نے کہا تھا۔ یقیں محکم ‘ عمل پیہم ! قائد اعظم کی تلقین تھی اتحاد اور ایمان ! پوری قوم میں سے کوئی تو ہے جو اقبال اور قائد کے ان زریں اصولوں پر عمل کر رہا ہے! خدا خوش رکھے تاجر برادری کو ! سب غافل ہیں اور یہ خوش بخت سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں ! اپنے ٹارگٹ کو یہ برادری کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی! ٹارگٹ کیا ہے ؟ پیسہ کمانا! زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ! اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے یہ یکسو ہیں۔ یقین ان کا محکم ہے! عمل ان کا پیہم ہے ! اس کے لیے وہ متحد ہیں ! اسی پر ان کا فیتھ ہے! سبحان اللہ! سبحان اللہ ! یونیٹی ! فیتھ اینڈ ڈسپلن ! اتحاد‘ ایمان اور تنظیم ! اللہ اکبر ! جیسے ہی حکومت نے کہا کہ چھ بجے کاروبار بند کرنا ہو گا ‘ تاجر سیسہ پلائی دیوار بن گئے! اُٹھ کھڑے ہوئے ! احتجاج کیا!حکومت کا یہ حکم ان کے ٹارگٹ ...

ہاتھ پر ہاتھ دھرے

 معروف ازبک ادیب اور صحافی ،دادا خان نوری ،   اس کالم نگار کے مہمان تھے۔ صبح اٹھا تو سیر کے لیے جا چکے تھے۔  واپس آئے تو سخت برہم !  دادا خان اردو میں کام چلا لیتے ہیں۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی زبان کا بہت بڑا شعبہ ہے۔ وہیں ہندی سیکھی۔ اس لحاظ سے اردو بھی بول لیتے ہیں، اگرچہ  اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے! کہنے لگے “ آپ پاکستانی عجیب ہیں! ہر گھر کے سامنے ،  پیچھے ، دائیں ، بائیں زمین ہے اور بیکار پڑی ہے ۔ ثمر دار پودے نظر آئے نہ سبزیاں۔  ساری زمین بیکار جا رہی ہے۔ آپ کیسے لوگ ہیں ؟”   ان کی خدمت میں عرض  کیا   کہ حضور!   ہم ایسے ہی ہیں۔ اور ہماری اس “ صفت” کا ذکر  آپ کے ہم وطن ظہیرالدین بابر صاحب بھی کرتے تھے۔   دادا خان کو اچنبھا ہوناہی تھا۔ غصہ بھی ان کا بجا تھا۔  ان کے ہاں ، بلکہ ساری وسط ایشیائی ریاستوں میں ، تقریبا” ہر گھر پھلوں میں خود کفیل ہے۔ گھر کے درمیان واقع صحن درختوں اور پودوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ، جسے حَولی کہتے ہیں۔ اخروٹ، سیب، آڑو ،خوبانی ، کے درخت لازم ہیں۔ سیب اور اخروٹ  ، عام طور پر، ناشتے کا جزو ہیں۔ہم...

…یہ بھی وہی ہیں

لکھ لکھ کر قلم گھِس چُکے۔ رِم کے رِم کاغذ کے سیاہ ہو چکے۔ روشنائی اتنی خرچ ہو چکی کہ چہروں پر ملی جاتی تو جتنی تعداد کالے دلوں کی ہے، اتنے ہی سیاہ رُو میسر آ جاتے! ٹائپ کر کر کے انگلیوں کی پوریں دُکھنے لگیں۔ غالب نے کہا تھا: ع انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا زمانہ اتنا بدل چکا کہ اب انگلیاں لکھنے ہی سے نہیں، ٹائپ کرنے سے بھی فگار ہوتی ہیں۔ آئی پیڈ کی سکرین پر نظریں جماتے جماتے، آنکھیں تھک گئیں‘ کاندھے درد کرنے لگ گئے‘ مگر افسوس! اس ساری کاوش، اس تمام جدوجہد کا نتیجہ صفر ہے۔ منڈیوں کی رونق میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی۔ بولیاں لگ رہی ہیں۔ آوازیں دی جا رہی ہیں: تیس کروڑ... تیس کروڑ... تیس کروڑ۔ ایک آواز آتی ہے: چالیس کروڑ۔ نیلامی والا اب کہتا ہے: چالیس کروڑ... چالیس کروڑ... چالیس کروڑ! ایک اور ہاتھ فضا میں بلند ہوتا ہے: پچاس کروڑ۔ یہاں تک کہ معاملہ ستر کروڑ تک جاتا ہے۔ نیلامی والا ہتھوڑا مارتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ ستر کروڑ پر سودا طے ہو گیا! یہ نیلامی میں بکنے والے، مکان نہیں‘ پینٹگز نہیں‘ فرنیچر نہیں‘ انسان ہیں۔ انسان بھی عام انسان نہیں، معززین ہیں۔ معززین بھی وہ جو ارب پتی اور کھرب ...

نانو گھر

ادھر پیکنگ شروع ہوئی ‘ اُدھر سراسیمگی اُس پرسوار ہو گئی!کبھی کمرے کے اندر ‘ کبھی باہر ! بے چینی صاف جھلک رہی تھی! اس بار اس کا قیام زیادہ دن رہا۔جتنے دن رہا‘ بے حد خوش! ایک تو یہ گھر ‘ اُس کے اپنے گھر سے زیادہ فراخ تھا۔ یہ کشادگی اسے خوب راس آتی تھی۔ کمروں ‘ برآمدوں اور لاؤنج میں بھاگتا پھرتا۔ محبوب مشغلہ اس کا بالائی منزل پر جانا تھا۔ پہروں غائب رہتا۔ ہم سب کو معلوم ہوتا کہ اوپر گیا ہوا ہے۔ پوری منزل کی باقاعدہ تلاشی لیتا۔ لائبریری‘ خوابگاہیں‘ رسوئی‘ ایک ایک کا جیسے معائنہ کرتا۔پھر نیچے آتا۔ کبھی میری گود میں ‘ کبھی نانو کی گود میں ! ایک عجیب بات اس کی یہ نوٹ کی گئی کہ جتنی دیر میں تلاوت کرتا‘ چپ چاپ پاس بیٹھا رہتا۔ سنتا رہتا۔ جیسے ہی تلاوت ختم ہوتی ‘ اُٹھ کر باہر نکل جاتا۔ کبھی میری طبیعت اداس یا پریشان یا خراب ہوتی تو میں بیٹھک میں جا بیٹھتا تا کہ کچھ دیر تنہا رہوں۔ پانچ دس منٹ ہی گزرتے کہ مجھے ڈھونڈتا ہوا وہاں پہنچ جاتا۔ میرے موڈ کو دیکھتا کہ میں خاموش بیٹھا ہوں‘ پڑھ لکھ نہیں رہا تو یہ بھی خاموشی سے پاس والی کرسی پر یا صوفے پر بیٹھ جاتا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھتا۔ اگر میں...

-کے لیے ہی کچھ کہہ دیجیے Face Saving

گلیوں محلوں میں عورتیں جھگڑتی ہیں تو ایک خاص تکنیک استعمال کرتی ہیں! یہ تکنیک منجنیق کا کام کرنے کے علاوہ لڑائی کو طول دینے کے کام بھی آتی ہے۔ تکنیک یہ ہے کہ الزام کا جواب نہیں دینا‘ اپنی صفائی نہیں پیش کرنی! اس کے بجائے، الٹا، فریق مخالف پر جوابی الزام عائد کرنا ہے۔ ایک عورت دوسری کے میاں پر الزام لگاتی ہے تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ اس کے میاں پر زیادہ بھیانک الزام لگا دو! ہمارے سیاست دانوں نے بھی ہمیشہ یہی تکنیک استعمال کی۔ الزام لگا تو اس پر شرم محسوس کی نہ حیا‘ الٹا جوابی الزام داغ دیا۔ ایک فریق نے سرے محل کا الزام لگایا تو الزام کا انکار کیا نہ اقرار! بس جواب میں لندن اپارٹمنٹس کا الزام لگا دیا۔ اپنا دفاع کسی نے نہ کیا۔ گویا وتیرہ، عملاً یہ رہا کہ ہاں! میں نے ایسا کیا ہے تو تم نے بھی تو یہ کیا ہے! عمران خان صاحب جب اس سیاسی دنگل میں داخل ہوئے تو انہیں یہ فائدہ تھا کہ کبھی حکومت میں نہیں رہے تھے۔ الزام لگا سکتے تھے۔ ان پر الزام نہیں لگ سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ دوسروں کو دیکھ چکے ہیں، اب انہیں آزمانا چاہیے۔ بیس بائیس سال ان کی سیاست الزامی سیاست ہی ر...

…ایسا نہ ہو مولانا کا نام بھی

مولانا صاحب کے کاروبار شروع کرنے والا مسئلہ ٹاک آف دی ٹاؤن بن چکا ہے جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، کچھ تبصرے موافقت میں تو کچھ مخالفت میں آ رہے ہیں۔ سیاست کی طرح کاروبار میں بھی مذہب کا استعمال اس معاشرے کے لیے کوئی انوکھی چیز نہیں۔ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ دنیا میں آج تک کوئی غیر اسلامی یا مسیحی یا یہودی یا ہندو شہد نہیں دیکھا گیا۔ ایسی اصطلاحات شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں؛ تاہم ہمارے ہاں ''اسلامی شہد‘‘ بیچا جاتا ہے۔ اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے کیا مولانا صاحب کا تجارتی برانڈ بھی اسی قبیل کا کاروبار ہے؟ کیا یہ بھی مذہب کو بزنس کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے؟ سچ پوچھیے تو ہے تو سہی۔ مولانا کے لاکھوں عقیدت مند والہانہ طور پر اس برانڈ کی طرف لپکیں گے‘ مگر مولانا کو شک کا فائدہ دینا پڑے گا‘ اس لیے کہ وہ اسے اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لیے نہیں لانچ کر رہے۔ ان کا تعلق، ماشااللہ، ایک خوشحال گھرانے سے ہے۔ ارادہ ان کا نیک ہے۔ وہ مدارس کو زکوٰۃ اور چندے کی بیساکھی سے ہٹا کر اپنے پَیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کارو...

“ میں نہ مانوں “ والا رویّہ

جتنے مضبوط اعصاب ہم مسلمانوں کے بالعموم اور ہم پاکستانیوں کے بالخصوص واقع ہوئے ہیں ‘ کم ہی کسی کے ہوں گے! یہ ایک تقریر تھی جو وڈیوپر میں نے سنی‘ مگر افسوس تقریر پر نہیں‘ اُن بیشمار کمنٹس پر ہوا جو ناظرین اور سامعین نے نیچے دیے تھے۔ کس کس سے بحث کریں گے اور کس کس کو سمجھائیں گے ! ۔ تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں حضرت یہ سمجھا رہے تھے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے والی بات میں کوئی حقیقت نہیں۔ دلیل ایسی تھی کہ سن کر سکتہ طاری ہو جائے۔ ہنسی آجائے یا گریہ طاری ہو جائے۔فرمایا کہ جہاں تک ہسپانیہ اور بغداد کے زمانۂ عروج کا تعلق ہے تو اُس زمانے کی سائنسی ایجادات میں مسلمانوں کا کنٹری بیوشن اور مسلمانوں کی کامیابیاں مسلمہ ہیں۔ جغرافیہ تھا یا الجبرا‘ ستارہ شناسی تھی یا میڈیکل سائنس‘ قیادت ہر شعبے کی مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں تھی۔ رہا موجودہ دور تو بقول ان کے‘ سائنسی کامیابیاں تمام دنیا کے لوگوں کی مشترکہ ہیں۔ برہانِ قاطع جو اس کے حق میں انہوں نے پیش کی یہ تھی کہ امریکی ادارہ ''ناسا‘‘ ( نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن ) جو خلائی ریسرچ اور پروگراموں ...

تو پھر یہ لیجیے

کچھ قارئین نے شکوہ کیا ہے کہ روتے دھوتے ہی رہتے ہو، کبھی کوئی خوش ہونے والی بات بھی لکھ دیا کرو۔ سو، آج ایک روح افزا قسم کا کالم پیش خدمت ہے۔ ڈسکہ میں اول تو کچھ ہوا ہی نہیں، اور اگر کچھ ہوا ہے تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ اور یہ ہوائی تو کسی دشمن نے اڑائی ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ حکومت کا وعدہ تھا کہ اداروں کو مضبوط کرے گی۔ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہو رہا ہے تو یہ تو حکومت کی کامیابی ہے۔ سہرا تو اسی حکومت کے سر ہی بندھے گا کہ اس کے زمانے میں الیکشن کمیشن نے اتنا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور حزب اقتدار نے اس فیصلے کو برضا و رغبت قبول کر لیا۔ یوں بھی موجودہ حکومت کے تھیلے میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ کون سا وعدہ ہے جو اس نے پورا نہیں کیا۔ حسب وعدہ کابینہ کی تعداد سترہ سے اوپر نہیں ہونے دی گئی۔ وزیر اعظم نے اپنے کسی دوست کو اقتدار کے نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ ملک کے ذہین ترین، قابل ترین، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دان کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران مقرر کیا۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے عہد کیا تھا، پی ٹی وی کا ماہانہ ٹیکس، جو بج...