اشاعتیں

فروری, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم پکی زمین پر نہیں‘ سرکتی ریت پر کھڑے ہیں!

کیا آپ کو یقین ہے کہ کورونا کی ویکسین آپ تک پہنچ جائے گی؟ اور اگر میسر آ گئی تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ جینوئن ہو گی؟ قابلِ اعتماد ہو گی؟ اور اگر بازار سے خریدنا پڑی تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ اصلی ہو گی؟ اور قیمت کے حوالے سے آپ کا استحصال نہیں کیا جائے گا؟ ان سوالوں کے جواب آپ کو بھی معلوم ہیں اور ہمیں بھی! اور یہی اس ملک کی درد ناک ٹریجڈی ہے۔ ہمارے پاؤں پکی زمین پر نہیں، بلکہ ہر لحظہ سرکتی ریت پر ہیں۔ ہمیں کسی بات پر اعتبار نہیں۔ خواہ وہ بات حکومت کی ہے یا نجی شعبے کی۔ ہم ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں شک، گمان اور تذبذب کے سوا کچھ نہیں! نہیں معلوم کہ اگلے ماہ بجلی کا، یا گیس کا‘ بل کتنا آئے گا؟ چولہے میں گیس کا پریشر ہو گا یا نہیں؟ کسی خاص وقت پر بجلی ہو گی یا نہیں؟ جو پٹرول گاڑی یا موٹر سائیکل میں ڈلوا رہے ہیں، اس کی کوالٹی کیسی ہے؟ جو دودھ گوالے سے لے رہے ہیں یا بازار سے ڈبے میں بند دودھ لے رہے ہیں، وہ اصل میں کیا ہے؟ اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کراچی کی فلائٹ وقت پر روانہ ہو گی یا نہیں؟ اور سکردو، گلگت اور چترال کے لیے پرواز کا کتنے گھنٹ...

ہم کس مٹی سے بنے ہوئے لوگ ہیں ؟

ٹرمپ چلا گیا۔ جو بائیڈن آگیا۔ سنا ہے جو بائیڈن کے بہت سے مشیر بھارت نژاد ہیں۔ دیکھیے پاکستان کے ساتھ  نئی امریکی حکومت کیا سلوک کرتی ہے۔ بھارت کو ترجیح دے گی یا پاکستان کو ؟ افغان پالیسی اس نئی حکومت کی کیا ہوگی؟ ایران کے ساتھ کیسا رویہ رکھے گی؟ مشرق وسطیٰ میں  اس کا جھکاؤ کس طرف ہو گا؟   لیکن ان میں سے کوئی مسئلہ بھی میرا مسئلہ نہیں !  سعودی عرب میں ایم بی ایس ( شہزادہ محمد بن سلیمان )  نے بہت سی نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں ۔ قوانین بدلے ہیں۔ ملک ایک خاص دائرے  میں مقید تھا۔ شہزادہ اسے اس قید سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دیکھیے ، آنے والے دنوں میں  کیا ہوتا ہے۔ یمن میں بہت گڑ بڑ ہے۔ عرب اور عجم خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ ترکی کا فیکٹر بھی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کیےجانے ، یا نہ کیے جانے کا رپھڑ الگ ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی  مسئلہ  میرا نہیں !  { نواز شریف  لندن سے آتے ہیں یا نہیں؟ آتے ہیں تو کب ؟ نہیں آتے تو  ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے ؟ پی ڈی  ایم  کا  کیا  مستقبل  ہے ؟ پیپلزپارٹ...

پنشنروں کو زندہ رہنے کا حق ہی کیا ہے

کیا آپ نے اُس پارک کی کہانی سنی ہے جو  رو پڑتا تھا ؟ یہ سرما کا ذکر ہے۔ ہمارے ہاں اس موسم میں دھوپ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ جیسے ہی دن کے دس گیارہ بجتے  ، پارک میں لوگ جوق در جوق آنا شروع کر دیتے ۔پارک کیا تھا، ایک جہان تھا۔ کہیں درختوں کے جھنڈ تھے جن پر ہر رنگ کے طائر بیٹھے ہوئے ہوتے۔کہیں دور دور تک سبزہ تھا جس کے اوپر دھوپ قالین کی طرح بچھ جاتی۔ کہیں بنچ تھے جن پر لوگ باگ بیٹھ جاتے۔ کہیں واک کرنے کے لیے ٹریک تھے  جن پر  پیدل چلنے کے شوقین ، کانوں میں ہیڈ فون لگائے،  سیر کرتے۔  میلے کا سماں ہوتا۔ بچے کھیلتے۔ بھاگتے، ایک دوسرے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ۔ سبزے پر دسترخوان بچھ جاتے۔ کھانے کھائے جاتے۔ معمر حضرات چائے پیتے ہوئے سگرٹ کے کش لگاتے، نوجوان آئس کریم اُڑاتے۔ اسی سنہری دھوپ میں نماز ادا کی جاتی۔ پارک  ایک رونق بھرے شہر  کی طرح لگتا۔ زندگی اپنے پورے جوبن پر ہوتی۔ پھر جیسے جیسے سورج مغرب کی گھاٹی میں اترتا، رونق گھٹنا شروع ہو جاتی۔ لوگ پکنک کا سامان سمیٹنے لگتے۔ سیر کرنے والے گھروں  کا رخ کرتے۔  روِشوں اور  کُنجوں  سے بچوں کو واپس...

شہرت کا آسمان یا پستی کی انتہا

اودھ اور حیدر آباد کی خود مختار ریاستوں کے درمیان کشمکش چل رہی تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ کشمکش کیوں تھی؟ پالیسیاں اور اہم انتظامی امور تو انگریز آقائوں کے ہاتھ میں تھے۔ ہر ریاست میں ایک انگریز نمائندہ موجود رہتا جو جملہ امور کی کڑی نگرانی کرتا اور ایک ایک بات سے کلکتہ کو باخبر رکھتا۔ تو پھر یہ کشمکش کیوں تھی؟ جب کہ بارڈر بھی مشترک نہ تھا۔ ترجیحات کا اندازہ لگائیے کہ یہ کشمکش ایک باورچی کے لیے تھی۔ یہ نظام حیدر آباد کے پاس تھا۔ شہرت اس کی ماش کی دال پکانے کے لئے تھی۔ گویا یہ ماش کی دال کا سپیشلسٹ تھا۔ بالآخر لکھنؤ کو فتح نصیب ہوئی اور باورچی حیدر آباد سے آ گیا۔ پست ذوق اور عامیانہ مزاج کی یہ صرف ایک مثال ہے‘ ورنہ ان غلام نوابوں کے دن رات اسی نوع کی کارگزاریوں میں گزرتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے۔ یہ بھی ہوا کہ ایک نواب نے دوسرے کی دعوت کی۔ مہمان نے کوفتہ لیا تو اصل میں وہ مٹھائی تھی۔ یہی حال باقی ڈشوں کا تھا۔ قورمہ تھا یا بریانی‘ سبزی تھی یا دال، سب مٹھائیاں تھیں۔ یوں مہمان کو شکست دی گئی۔ اس مہمان حکمران نے بھی بدلہ لیا۔ سائنس یا علم کے میدان میں نہیں، بلکہ دس...

سرکاری ملازم… قابلِ رحم مخلوق

سو پیاز اور سو کوڑے! یہ محاورہ صورت حال پر پوری طرح صادق نہیں آتا مگر اور کوئی محاورہ یاد نہیں آ رہا... سرکاری ملازمین کے احتجاج کو حکومت وقت نے جس طرح ہینڈل کیا اس پر آفرین کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! پہلی حکومتیں ہر سال، نئے بجٹ میں، دس فی صد کے لگ بھگ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیتی تھیں؛ اگرچہ یہ اضافہ، افراط زر کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا تھا جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ! مگر ملازمین اور پنشنروں کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہو جاتی تھی اور وہ خاموشی سے اگلے بجٹ کا انتظار شروع کر دیتے تھے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین اور پنشنروں کو بجٹ میں در خور اعتنا نہ جانا اور یہ بھی فرض کر لیا کہ یہ بے مثل ''حسن سلوک‘‘ ملازمین ہضم کر لیں گے کہ کیڑے مکوڑوں کی اہمیت ہی کیا ہے! اسے اہل اقتدار کی سادہ لوحی کہیے یا بے نیازی یا کوتاہ بینی! دوسری طرف گرانی کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا۔ یہاں تک کہ برداشت سے باہر ہو گیا۔ آخر کار اسی حکومت کو جو دس فی صد اضافے کی روادار نہ تھی، پچیس فی صد اضافہ ماننا پڑا۔ درمیان میں پنڈی والے شیخ صاحب کا جارحانہ اور دھمکی آمیز لب و لہجہ آڑے...

مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو

گاڑی بائیں طرف مُڑی۔ اب میں صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ پر تھا۔ دارالحکومت کا آئی ایٹ سیکٹر کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ سرکاری ملازموں کی اچھی خاصی تعداد یہاں رہائش پذیر ہے۔ اس لیے اسے بابو نگر بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی اسے وی آئی پی سیکٹر کا نام دیا جاتا ہے۔ محل وقوع پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان ہے۔ یوں بہت سے لوگ یہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ کے ایک طرف پارک ہے۔ دوسری طرف مکانات ہیں۔ گراں بہا اور بڑے بڑے مکانات۔ بہت سے تاجر بھی انہی مکانوں میں رہتے ہیں۔ ویسے تاجر تو سونے کے مکانوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ کسان کے بچے کے لیے گُڑ بہت کشش رکھتا تھا۔ یہی اس کی مٹھائی تھی اور یہی چاکلیٹ! ایک دن باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ بادشاہ کا قافلہ گزرا۔ کسان نے کہا: بیٹے دیکھو بادشاہ کے گھوڑے پر زین سونے کی ہے۔ بچے کے نزدیک گُڑ سونے کی نسبت زیادہ قیمتی تھا۔ کہنے لگا ابّا! بادشاہ کا کیا ہے وہ تو گُڑ کی زین بھی بنوا سکتا ہے! تو ہمارے تاجر بھائی (سب نہیں) سونے کے مکانوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ ہاں ایف بی آر کے ڈر سے نہ رہیں تو اور بات ہے! صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ سے بائیں طرف مُڑ گیا۔ اب م...

سازش ظاہر ہو کر رہتی ہے

فرید کی قسمت ہی ایسی تھی۔ گھر میں سوتیلی ماں اور باہر ٹھوکریں ! کبھی جونپور   میں قسمت آزماتا کبھی بہار میں ! { کشاکش کے اسی  پُر آشوب دور میں زمانے کی گردش نے اسے بابر کے دربار میں  پہنچا دیا! ایک دن دسترخوان بچھا تھا۔ جیسا کہ اس عہد میں بادشاہوں کے ہاں دستور تھا،  دسترخوان  پر بہت لوگ  ہوتے، درجنوں، بیسیوں اور بعض اوقات سینکڑوں !! مہمان بھی، عمائدین و امرا بھی اور عام درباری بھی۔  قاب میں گوشت تھا۔ کچھ مؤرخ کہتے ہیں مچھلی تھی ، کچھ کی روایت ہے کہ گوسفند یا گائے کا گوشت تھا جو سخت تھا۔فرید نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر خنجر نکالا اور گوشت کے اس بڑے ٹکڑے کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تبدیل کردیا۔              بابر، ظاہر ہے اونچی مسند پر تشریف فرما تھا۔ نظریں اس کی عقابی تھیں اور فکر، دوررس!اس نے یہ غیر معمولی منظر دیکھا، پھر فرید کی شخصیت کا جائزہ لیا ، پھر ایک نتیجے پر پہنچا اور اپنے  وزیر  کو  سرگوشی میں حکم دیا کہ اس افغان کی نگرانی کی جائے کہ  یہ خطرناک ہے! یہی وہ لمحہ  تھا جب فرید  نے بھی بابر کو...

سنتا جا شرماتا جا

یہ جو قانون  ہے   “  بڑی مچھلیاں  چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں “   اس کا  درست ترین نفاذ اگر دیکھنا ہے تو پاکستان میں  دیکھیے ۔ کوئٹہ میں ایک بڑی مچھلی ،  فُل سپیڈ  پر پجارو   چلاتی ہوئی آئی۔ آگے بڑا چوک تھا۔ چوک کے درمیان ٹریفک کا سپاہی  کھڑا، ڈیوٹی دے رہا تھا۔  پجارو تیر کی طرح آئی اور اس چھوٹی مچھلی کو  روندتی ہوئی گذر گئی۔ اب یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس میں  مدعی  ریاست  تھی۔ کیونکہ  چھوٹی مچھلی  ریاست کی طرف سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔  گویا ریاست کی نمائیندہ تھی۔ مگر مسئلہ سائز کا تھایعنی  حجم کا۔ جب قانون یہ ہے کہ بڑی مچھلی نے چھوٹی مچھلی کو کھانا ہے تو  کون سی ریاست ؟ کہاں کی ریاست ؟  بڑی مچھلی  کو کچھ دن کے لیے  محبوس رکھا گیا ۔ اس کے بعد پھر وہی کچھ ہؤا جو ہوتا آیا ہے! اس کے بعد وہی مچھلی جو  کوئٹہ میں چھوٹی تھی، وفاقی دارالحکومت میں بڑی مچھلی بن کر ظاہر ہوئی۔  پولیس کے چار  اہلکاروں نے ایک چھوٹی مچھلی کو  درجنوں گولیوں سے بھون دیا۔ کچ...

اگر آسمان سے پتھر برسنے لگ جائیں

  پاسپورٹ کی رینکنگ سے لے کر بد عنوانی کی فہرست میں ایک سو چوبیسواں نمبر حاصل کرنے تک، پاکستان اس وقت تنزّل کی جس دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے، آپ کے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ کرپشن؟ بُری گورننس؟ ناخواندگی؟ کم فی کس آمدنی؟ شرحِ نمو میں کمی؟ ٹیکس چوری؟ گھٹتی برآمدات؟ یا کچھ اور؟آخری تجزیے میں کوئی ایک یا دو وجوہ نہیں، بہت سی وجوہ کو تسلیم کرنا پڑتا ہے‘ لیکن اگر آپ کو ایک ہی وجہ بتانے کے لیے کہا جائے تو آپ کیا کہیں گے؟ میں نے تو جواب سوچ لیا ہے! اور وہ ہے لیڈرشپ کا آسمان سے اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ تک کا سفر! یہ سفر قائد اعظم سے شروع ہوتا ہے جو دیانت میں آسمان پر تھے۔ پھر نواب لیاقت علی خان کو دیکھیے۔ یہ حضرات اقتدار میں آنے سے پہلے بر صغیر کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے‘ مگر حکومت میں آنے کے بعد ان کی امارت کا گراف نیچے گر گیا۔ جس محمد علی جناح نے 1916ء میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا محل خریدا تھا اور پھر اپنی محنت کی حلال کمائی سے، ایک شہری کی حیثیت سے، ایسی کئی جائیدادیں خریدیں، وہ پاکستان کا حکمران بنا تو مہنگی جُرابیں دکان دار کو واپس کرا دیں۔ کرنال کے جاگیردار، لی...

قائد اعظم سے لے کر اینجلا مارکل تک

گفتگوکے لحاظ سے لوگوں کی تین اقسام ہیں۔  پہلی قسم وہ ہے جن سے بات چیت  کرنے کے لیے کچوکے دینے پڑتے ہیں۔ مشکل سے کسی بات کا جواب دیتے ہیں جو اکثر و بیشتر نامکمل ہوتا ہے۔ اگر پوچھیں کہ ملازمت کہاں کر رہے ہیں تو جواب دیں گے دفتر میں !  علاج کس سے کرا رہے ہیں ؟ ڈاکٹر سے ! بیٹے کی شادی کہاں کی ہے ؟ لڑکی والوں کے ہاں ! کئی ضمنی سوال کرنے پڑتے ہیں تب جا کر مطلوبہ  انفارمیشن ہاتھ آتی ہے۔  ایسی کفایت شعار گفتگو کا عارضہ بعض نامعقول بچوں کو بھی ہوتا ہے! آج سکول میں کیسا دن گذرا ! ٹھیک گذرا! تمہارے دوست کی برتھ ڈے پارٹی کیسی رہی ؟ اچھی رہی ! کبھی نہیں بتائیں گے کہ کتنے دوست نہیں آسکے ! کھانے میں کیا کیا تھا۔ کس نے گیت گایا یاکیا کیا کھیل تماشا ہؤا۔ ماں باپ منہ کی کھا کر چُپ ہو رہتے ہیں! اور دوسرے بچے سے بات چیت شروع کر دیتے ہیں جو ایک ایک بات تفصیل سے بتاتا ہے یا بتاتی ہے ! دوسری قسم اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے ! بلکہ اذیت رساں! یہ وہ حضرات ہیں جو اپنی آواز سننے کے  شائق   ہوتے ہیں! بہت زیادہ شائق! یہ مونو لاگ کرتے ہیں یعنی خود کلامی ! ان سے بات شروع کرنا اوکھلی ...

چانکیہ اور میکیاولی

چانکیہ کوتلیہ  ٹیکسلا میں پیدا ہؤا۔  یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین  ساڑھے تین سو سال پہلے کی بات ہے ۔ اُس زمانے میں ٹیکسلا کی یونیورسٹی  کرۂ ارض کی چند بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی۔بڑے بڑے فاضل اساتذہ اور اپنے عہد کے مانے ہوئے سکالر یہاں پڑھاتے تھے۔ چانکیہ نے بھی یہاں پڑھایا۔ پھر وہ اُس زمانے کے عظیم بادشاہ چندر گپت موریہ  کا  مشیر اور وزیر اعظم رہا۔  کہا جاتا ہے کہ موریہ سلطنت کے قیام اور عظمت کی پُشت پر چانکیہ ہی کی دانش و فراست تھی۔  { چانکیہ کی شہرت کی اصل وجہ اُس کی شُہرۂ  آفاق  تصنیف “ ارتھ شاستر “  ہے ۔ یہ کتاب کیا ہے ایک انسائکلو پیڈیا ہے۔ قانون۔ سیاست، فنِ حکمرانی ،  سفارت کاری، سب کچھ اس میں موجود ہے۔ چانکیہ کی بدقسمتی کہ اس کی مجموعی شہرت ایک چالاک اور زمانہ ساز دانشور کی ہے۔ اس کا نام آتے ہی ذہن  فریب کاری  ، عیاری اور حیلہ گری   کی طرف چلا جاتا ہے۔ مثلا” خارجہ امور کے حوالے سے اس کا نظریہ یہ ہے کہ پڑوسی ملکوں کو دشمن سمجھو۔ اور پڑوسی ملکوں  کے پڑوسیوں کو  دوست جانو یعنی دشمن ...