ہم پکی زمین پر نہیں‘ سرکتی ریت پر کھڑے ہیں!
کیا آپ کو یقین ہے کہ کورونا کی ویکسین آپ تک پہنچ جائے گی؟ اور اگر میسر آ گئی تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ جینوئن ہو گی؟ قابلِ اعتماد ہو گی؟ اور اگر بازار سے خریدنا پڑی تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ اصلی ہو گی؟ اور قیمت کے حوالے سے آپ کا استحصال نہیں کیا جائے گا؟ ان سوالوں کے جواب آپ کو بھی معلوم ہیں اور ہمیں بھی! اور یہی اس ملک کی درد ناک ٹریجڈی ہے۔ ہمارے پاؤں پکی زمین پر نہیں، بلکہ ہر لحظہ سرکتی ریت پر ہیں۔ ہمیں کسی بات پر اعتبار نہیں۔ خواہ وہ بات حکومت کی ہے یا نجی شعبے کی۔ ہم ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں شک، گمان اور تذبذب کے سوا کچھ نہیں! نہیں معلوم کہ اگلے ماہ بجلی کا، یا گیس کا‘ بل کتنا آئے گا؟ چولہے میں گیس کا پریشر ہو گا یا نہیں؟ کسی خاص وقت پر بجلی ہو گی یا نہیں؟ جو پٹرول گاڑی یا موٹر سائیکل میں ڈلوا رہے ہیں، اس کی کوالٹی کیسی ہے؟ جو دودھ گوالے سے لے رہے ہیں یا بازار سے ڈبے میں بند دودھ لے رہے ہیں، وہ اصل میں کیا ہے؟ اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کراچی کی فلائٹ وقت پر روانہ ہو گی یا نہیں؟ اور سکردو، گلگت اور چترال کے لیے پرواز کا کتنے گھنٹ...