اشاعتیں

نومبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اعتماد کا بحران ہے‘ جناب! اعتماد کا

صرف اڑھائی سال ہی تو ہوئے ہیں! ستر سال کی کثافت دھونے کے لیے کچھ تو وقت دیجیے۔ یہ سب سے زیادہ پیش کی جانے والی دلیل ہے! مان لیا اڑھائی برس کم ہیں! یہ بھی مان لیتے ہیں کہ گزشتہ حکومتیں کرپٹ تھیں! مگر افسوس! مسئلہ یہ ہے ہی نہیں! مسئلہ معیشت کا ہے نہ کرپشن کا! مسئلہ اعتماد کا ہے! سوال یہ ہے کہ کیا اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ دیانت (Integrity) صرف مالی حوالے سے تو نہیں ہوتی۔ اہم ترین پہلو اس ضمن میں یہ ہے کہ کوئی قول کا پکا ہے یا نہیں! کیا اس کی زبان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ایفائے عہد میں اس کی شہرت کیسی ہے؟ یہ وعدے تھے جنہوں نے 25 جولائی 2018ء کے دن اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات کو گھروں سے نکال کر ووٹ ڈالنے والوں کی قطاروں میں لا کھڑا کیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات! جو الیکشن کے دن اس سے پہلے گھروں سے کبھی نہیں نکلے تھے! اگر یہ وعدے نہیں تھے تو کوئی بتائے کہ کیا وجہ تھی؟ یہ وعدے ہی تو تھے میرٹ پر چلنے کے، اصول پسندی کے، دوست نوازی کو ختم کرنے کے، پولیس کو بدلنے کے اور بہت سے دوسرے! مگر ہوا کیا؟ پہلی مثال! وعدہ کیا گیا تھا کہ کابینہ سترہ افراد کی ہوگی! اس وقت کابینہ کے ارکان کی تعداد پچاس سے اوپ...

مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

ہوا سرد ہے۔ تیز اور کٹیلی! خزاں کا دور دورہ ہے۔ تحریک انصاف کے پیڑ کے ساتھ لگے پتے پیلے ہو ہو کر جھڑ رہے ہیں۔ حکومت ایک ٹنڈ منڈ درخت کی طرح کھڑی ہے۔ قابلِ رحم! جڑیں تک خشک ہو رہی ہیں۔ بہار آئی بھی تو مشکل ہے کہ برگ و بار دوبارہ ظاہر ہوں۔ حامیوں میں کون کون رہ گیا ہے؟ ایک وہ جو براہ راست مستفید ہو رہے ہیں یعنی Beneficiaries‘ ان میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں زندگی میں، شاید پہلی بار، کچھ اہمیت مل رہی ہے‘ جیسے ٹائیگر فورس! زمانے کا انقلاب دیکھیے کہ ایک وقت وہ تھا جب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس جماعت پر فریفتہ تھے۔ ٹاپ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان! وہ بھی جو بیرون ملک سے قابل رشک ڈگریاں لیے تھے۔ اور آج! ٹائیگر فورس کے نوجوان! چند ہفتے پہلے انہیں وفاقی دارالحکومت میں جمع کیا گیا۔ ان کے سامنے جس قسم کی تقریر کی گئی، اس سے ان نوجوانوں کی کوالٹی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے! دوسرے وہ جو شخصیت کے اسیر ہیں۔ انہوں نے ہر حال میں حمایت کرنی ہے۔ ایسے حامی نون لیگ اور پی پی پی کے تھیلے میں بھی بہت ہیں۔ پرکھنے کی صلاحیت سے عاری! نظریات سے نہیں، صرف شخصیات سے وابستہ! جب لا جواب ہو جائیں تو ...

لٹمس پیپر

احمد داؤد مرحوم ادیب تو تھا ہی‘ انسان بھی باکمال تھا اور دوست بھی بہت اچھا! اچھا انسان اور اچھا دوست ہونا‘ بعض بلند پایہ ادیبوں اور شاعروں کی قسمت میں نہیں بھی ہوتا ! طلوعِ آفتاب سے پہلے گھنٹی بجتی ‘ باہر نکلتا تو لان کی شبنم آلود گھاس پر احمد داؤد ننگے پاؤں چل رہا ہوتا۔کہتا :یار کپڑے بدل‘ ناشتہ کرنے کشمیری بازار جانا ہے۔ کبھی کبھی ہم بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔ کشمیری بازار کی معروف دکان پر پائے اور کلچے کھاتے۔ کئی بار شیخ رشید کو بھی وہاں ناشتہ کرتے دیکھا۔ جو واقعہ بتانا مقصود ہے وہ دوسرا ہے۔ ایک بار احمد داؤد کے گھر مہمان آئے‘ غالبا سسرالی اعزّہ تھے۔ گھر میں کوئی خاص چیز اُس وقت موجود نہ تھی جو مہمانوں کو پیش کی جاتی۔ وقت بھی کھانے کا تھا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ جیب بھی اُس وقت اُس کی خالی تھی۔ اُس نے اپنی لائبریری سے اچھی اچھی قیمتی کتابیں اٹھائیں ‘ موٹر سائیکل پر پیچھے رکھیں‘ یہ وہ زمانہ تھا جب وفاقی دارالحکومت کے تقریبا ہر سیکٹر میں ایک اولڈ بُک شاپ ضرور تھی۔ جس طرح نئی کتابوں اور سٹیشنری کی بڑی بڑی دکانیں‘ جڑواں شہروں میں کم و بیش ایک ہی خاندان کی ملکیت ہیں ‘ اسی طرح اولڈ بُک شاپ ...

ویل چیئر والا فقیر

ایسا نہیں کہ وہ فرشتہ تھا۔ انسان تھا! گوشت پوست کا بنا ہوا! اس سے غلطیاں بھی ہوئیں! مقصد کے حصول کے لیے اس نے جو طریقہ اپنایا، اس طریقے سے اختلاف بھی رہا۔ صرف اس کالم نگار کو نہیں، بے شمار دوسرے لوگوں کو بھی۔ اس کی زبان پر، اس کے انداز بیان پر بھی اعتراضات رہے! مگر ایک صفت ایسی تھی کہ سب عیوب کو ڈھانپ گئی۔ دل میں حُبِ رسول تھی! موج موج! اس قدر کہ اُس فقیر نے کوئی مصلحت دیکھی نہ ہی کوئی خوف لاحق ہوا۔ دنیاوی مال ومتاع تھا نہ منصب! اُس کا تو جسم بھی پورا نہ تھا‘ لیکن اُس نے رسول کی محبت کا جھنڈا اٹھایا اور لوگوں کو آواز دی۔ یہ حُبِ رسول کا معجزہ تھا، زندہ معجزہ! کہ لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوگئے! فوج در فوج! سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں! اُس نے ثابت کیا کہ حُبِ رسول سے بڑھ کر کوئی شے ایک مسلمان کے لیے اس دنیا میں زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی! ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے اِس جسمانی لحاظ سے معذور فقیر، اِس تہی دست بوڑھے نے، جس کے پاس محل تھا نہ جاگیر نہ کارخانے نہ عہدہ نہ سیاسی چھتری نہ بیرونی پُشت پناہی! جو اچار سے بھی روٹی کھا لیتا تھا لوگوں کو بتایا کہ رسول کی محبت کے بغیر یہ زندگی مٹی کے ایک...

توازن ! خواتین و حضرات ! توازن

سوال تحریک انصاف یا پی ڈی ایم کا نہیں۔ سوال اداروں کا یا حکومت کا بھی نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم ، ایک قوم کی حیثیت سے، انسانیت کے کم سے کم معیار پر پورے اتر رہے ہیں یا نہیں ؟ اس کا جواب ساجدہ احمد نے دیا ہے۔ اور اثبات میں نہیں ، نفی میں دیا ہے! ساجدہ احمد کوئی ان پڑھ، یانیم تعلیم یافتہ، یا قصباتی مائنڈ سیٹ کی خاتون نہیں ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر ہیں۔ عدلیہ کا حصہ ہیں ! ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں ! ملک کے سب سے بڑے قاضی کو کھلے خط میں انہوں نے پچھتاوے کا اظہار کیا ہے کہ کاش صدی کا ربع حصہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرنے کے بجائے وہ گاؤں میں مویشی چراتیں، اُپلے تھاپتیں، کھیتوں میں کام کر کے کاشتکاری میں گھر والوں کی مساعدت کرتیں ! اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرکے، ایک نہایت بلند منصب پر فائز ہو کر انہیں کیا حاصل ہوا؟ گالیاں، بے حرمتی، خوف و ہراس، توہین، پریشانیاں، مصائب ، بدتمیزی، بدسلوکی، مجبوری اور مایوسی ! ( یہ سب الفاظ ڈاکٹر ساجدہ کے مکتوب میں موجود ہیں ) ! خود کشی روا ہوتی تو، بقول ان کے، وہ عدالت عالیہ کی عمارت کے سامنے اپنے آپ کو ختم کر لیتیں ! پریشانی کی انتہا ہے کہ وہ اپنی تع...

ایک شہر جو مسلسل زوال پذیر ہے

سرما کی پہلی بارش برس رہی ہے۔ ہم جیسے لوگ جو وفاقی دارالحکومت میں چوّن سال پہلے اترے تھے‘ اور تب سے اسے مستقر بنائے ہیں‘ ان بارشوں میں اُس اسلام آباد کو یاد کرتے ہیں جو لطافت اور نرمی کا مرکز تھا۔ جس میں پھول ہی پھول تھے۔ جہاں سرما میں پیڑوں کے پتے لہو کی طرح لال ہو جاتے تھے‘ جہاں گرین ایریا اتنا ہی تھا جتنا مکانوں اور دکانوں کا تھا۔ یہ اسلام آباد قاعدے قانون سے عبارت تھا۔ ترقیاتی ادارہ مستعد تھا اور مددگار !صرف دو تین سیکٹر آباد تھے۔ اسلام آباد ہوٹل ( اب ہالیڈے ان) زیر تعمیر تھا۔ صفائی بے مثال تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ایک گرم صبح تھی جب حسبِ معمول آب پارہ سے زیرو پوائنٹ تک اور پھر واپس‘ سیر کی۔ اسی صبح بی اے کا رزلٹ آیا۔ ڈر فیل ہونے کا تھا مگر معاملہ اُلٹ نکلا بالکل اُلٹ ! یہی دارالحکومت تھا جو طالب علموں کے لیے ماں کی طرح آغوش وا کئے تھا۔ یہاں برٹش کونسل کی لائبریری تھی۔ امریکی سفارت خانے کی لائبریری تھی۔ میلوڈی کے پاس پاکستان نیشنل سنٹر کی لائبریری تھی۔ ایک لائبریری سے نکلتے تو دوسری میں چلے جاتے۔ سرما آتا تو جیسے بھاگ جاگ اُٹھتے۔ ہاتھ میں کتاب‘ سامنے پہاڑوں پر بادل‘ شاہ...

To Whom It May Concern

حضور والا! ہم صاف پانی کے بغیر رہ لیں گے! ہم پہلے بھی دریاؤں‘ چشموں اور ندی نالوں کا پانی پیتے رہے ہیں۔ ہم نے وہ زمانے بھی دیکھے ہیں جب گھوڑوں‘ گدھوں پر گھڑے رکھ کر دس دس میل دور سے پانی لایا جاتا تھا۔ ہم نے کیڑوں، مینڈکوں، جونکوں والا پانی پیا۔ ہم نے وہ پانی بھی پیا جس کا رنگ مٹیالا ہوتا تھا، کبھی سرخ، کبھی چائے کی طرح کا! مگر ہم زندہ رہے! بندہ پرور! ہم فاقے کر لیں گے۔ جوار، باجرے اور جو کی روٹی کھا لیں گے۔ چٹنی پر گزر بسر کر لیں گے۔ ہم نے پہلے بھی برے اور کڑے دن دیکھے ہیں۔ ہم ستوئوں، مکی کے بھُٹوں، موٹھ کی پھلیوں اور بھُنے ہوئے چنوں سے بھوک کی آگ بجھاتے رہے ہیں۔ ہم مسور اور ساگ کھانے کے عادی تھے اور پھر اُنہی کی جانب پلٹنے میں ہمیں کوئی عار ہے نہ دقت! ہم بسیار خور ہیں نہ خوش خوراک! ہمیں لذت اور مزے سے کوئی سروکار نہیں! ہم تو قوتِ لا یموت پر جیتے رہے ہیں اور پھر بھی جی لیں گے۔ انواع و اقسام کے پکوانوں سے چھلکتے ہوئے دستر خوان ہماری ضرورت کبھی بھی نہیں تھے۔ جہاں پناہ! ہمیں خوش لباسی کا عارضہ بھی لاحق نہیں! ہم تو اُس سرزمین کے بیٹے ہیں جہاں صدیوں سلے ہوئے کپڑوں کا تصور ہی نہ تھا۔ تہمد ت...

بیچارہ یومِ اقبال

''I have requested CM PK Pervez Khatak to declare 9 Nov Iqbal Day as a public holiday in the province‘‘ (میں نے چیف منسٹر کے پی پرویز خٹک سے کہا ہے کہ صوبے میں نو نومبر کو عام تعطیل کا اعلان کریں)۔یہ ٹویٹ عمران خان صاحب نے سات نومبر 2015ء کو شام پانچ بج کر تیرہ منٹ پر کیا تھا۔ تین منٹ بعد انہوں نے ایک اور ٹویٹ کیا ''اگرچہ میں بہت زیادہ چھٹیوں کا حامی نہیں؛ تاہم یومِ اقبال باقی دنوں سے مختلف ہے‘ فکر اقبال نے نظریہ پاکستان کو عملی شکل دی ہے‘‘۔ یہ تب کی بات ہے جب حکومت نواز شریف کی تھی۔ حکومت نے یومِ اقبال کی چھٹی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو تحریک انصاف کے سربراہ نے فوری ایکشن لیا۔ کے پی میں ان کی حکومت تھی۔ وہاں عام تعطیل کرا دی۔ آج چونکہ عمران خان حکومت میں ہیں‘ اس لیے انہوں نے یومِ اقبال کی چھٹی نہ صرف وفاق میں نہیں کرائی بلکہ اپنے زیرِ اقتدار دونوں صوبوں کو بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ یومِ اقبال بھی ان کے لاتعداد یو ٹرنز کی زد میں آ گیا۔ بیچارہ یومِ اقبال !! وزیر اعظم کا اقبال پر یہ احسان اس لیے نمایاں ہو گیا کہ وہ حکومت میں ہیں۔ ورنہ احسانات اقبال پر ہم سب کے ہیں‘ اور من حیث ...

پے کمیشن… منزل ہے کہاں تیری ؟؟

یہ کسی دیسی ریاست کا واقعہ ہے۔ انگریز کا زمانہ تھا۔ 565 ''آزاد‘‘ ریاستیں تھیں۔ ریاست کا سربراہ‘ راجہ یا مہاراجہ یا نواب‘ سلطنت انگلشیہ کا وفادار اور اس کی پالیسیوں کا پابند رہتا تھا۔ سفید فام حکمران بہت سیانے تھے۔ اندرونی معاملات میں عام طور پر مداخلت نہیں کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک ریاست کا واقعہ ہے۔ پٹیالہ کا یا گوالیار کا یا شاید بڑودہ کا ! مہاراجہ کو بتایا گیا کہ ریاست کا چیف انجینئر چھٹی پر چلا گیا ہے۔ایک ڈاکٹر فارغ بیٹھا تھا‘مہاراجہ نے چیف انجینئر کے منصب پر اُس کی تعیناتی کا حکم دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد چیف انجینئر چھٹی سے واپس آیا تو جج کی پوسٹ خالی تھی۔ چیف انجینئر کو جج لگا دیا۔ غرض ریاست وسائل کی غلط تقسیم (Resource mis-allocation)کا نمونہ تھی۔ گھوڑے کا کام بیل سے لیا جاتا اور بیل کا اونٹ سے۔ یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ ہمارے ہاں بھی تقریباً یہی کچھ ہورہا ہے۔ تازہ ترین مثال اس غلط بخشی کی یہ ہے کہ پے اینڈ پنشن کمیشن کی چیئر پرسن ایک ایسی ریٹائرڈ افسر کو لگایا گیا ہے جن کا مالیات اور حسابات کے میدان میں کوئی تجربہ نہیں۔اس کام کے لیے وزارت ِخزانہ کا تجربہ لازم ہے۔ پے کمیشن کا کا...

از خود نوٹس لینے کی استدعا

منصور کی قسمت اچھی نہیں تھی۔ ساری زندگی محنت کی۔ حلال کمایا۔ دونوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی یہاں تک کہ دونوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں قابل رشک ملازمتیں مل گئیں۔ جب تک منصور اور اس کی بیوی کی صحت ٹھیک رہی، انہوں نے پوتوں اور پوتیوں کا بھی خیال رکھا‘ مگر جیسے ہی بڑھاپا اُس مرحلے میں داخل ہوا جہاں انسان کام کرنے اور کمانے کے قابل نہیں رہتا بلکہ دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے تو دونوں بیٹوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ ہفتے گزر جاتے مگر ماں باپ سے ملنے کی توفیق نہ ہوتی۔ آتے بھی تو مصروفیت کا رونا لے کر۔ کیا کریں دفتر کا کام ہی اتنا ہوتا ہے۔ بچوں کی پڑھائیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دونوں میں سے کسی کو یہ سعادت نصیب نہ ہوئی کہ ضعیف ماں باپ کو اپنے گھر لے جاتا اور خدمت کرتا۔ منصور نے ساری زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کی‘ بیوی کے بچے کھچے زیور فروخت کیے اور جو رقم بنی قومی بچت مرکز (نیشنل سیونگ سنٹر) میں جمع کرا دی۔ ماہانہ نفع آنے لگا تو گھر کا خرچ پوراہونے لگا۔ پھر منصور بیمار ہوا اور روتی سسکتی بیوی کو بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر اُس جہان کو چلا گیا جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔ بیٹے آئے۔ تجہیز و تدفین سے فارغ ہو ...

واپس تو کوئی آیا نہیں!

بینک نے خاتون سے شوہر کا شناختی کارڈ مانگا۔ شوہر کو دنیا سے گئے اکیس سال ہو چکے تھے۔ اکیس سال پہلے جب بیوہ خاتون نے فیملی پنشن کے لیے بینک میں اکاؤنٹ کھولا تھا تو بینک کو مرحوم شوہر کے شناختی کارڈ کی نقل فراہم کی تھی۔ ظاہر ہے وہ نقل بینک کے ریکارڈ میں موجود تھی‘ مگر بینک کے تن آسان اہلکار نے نقل خاتون ہی سے مانگی۔ وہ تو اتفاق تھاکہ خاتون کو مرحوم میاں کا شناختی کارڈ مل گیا۔ اس کے باوجود بینک نے اس کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا۔ بینکوں کا اب یہ وتیرہ عام ہو گیا ہے کہ ہر غلط کام کی ذمہ داری ہیڈ آفس پر ڈال دیتے ہیں۔ ہیڈ آفس سے کون تصدیق کرے۔ خاتون کے عزیزوں نے بینک منیجر سے بات کی، اس نے نیچے والوں پر ذمہ داری ڈالی۔ نیچے والوں نے کہا کہ یہ سب کچھ تو ہیڈ آفس نے کیا ہے۔ بہرطور منیجر نے تسلیم کر لیا کہ غلطی ہوئی ہے۔ اکاؤنٹ بلا وجہ بلاک ہونے سے معمر خاتون کو بے حد تکلیف ہوئی تھی۔ ایسے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں۔ اکثر لوگ بینک منیجر سے بات نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ نہ ہی انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو ریکارڈ مانگا جا رہا ہے وہ ادارے کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ اگر موجود نہیں تو اکیس برس سے پنشن کیسے دے رہے...

نئے ابو لہب

ٹوٹ گئے ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ ہلاک ہو گیا۔ اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا اس کے کام نہ آیا۔ وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا۔ اور اس کی عورت بھی جو ایندھن اٹھائے پھرتی تھی۔ اس کی گردن میں مونج کی رسی ہے۔ ہر زمانے میں ابو لہب پیدا ہوتے رہے۔ ہر زمانے میں ان کے ہاتھ ٹوٹتے رہے۔ ہلاک ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ اقبال پکار اٹھے: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی میکرون کو اندازہ ہی نہیں کہ اس نے اپنی جان پر کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔ کوئی میکرون کو بتائے کہ اس سے کئی گنا زیادہ بڑی سلطنت کے مالک کسریٰ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط ارسال فرمائے۔ حضرت عبداللہ ابن حذافہ (رض) کو ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے پاس بھیجا۔ تکبر نے شہنشاہ کے دماغ کو سُن کر رکھا تھا۔ روئے زمین پر کون تھا اسے للکارنے والا؟ نامہ مبارک کو، میرے منہ میں خاک، اس نے چاک کر دیا۔ یہ اطلاع آپؐ تک پہنچی تو فرمایا: اس کی بادشاہت بھی پارہ پارہ ہو گی۔ بدبخت کسریٰ نے اپنے باجگزار، والئی یمن، باذان کو لکھا کہ یہ کون ہے عرب میں جس نے مجھے ...