اشاعتیں

اکتوبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک لیجنڈ جو ہمارے درمیان موجود ہے!

دارالحکومت   کی   جس   بستی   میں   کالم   نگار   رہ   رہا   ہے   اُس   بستی   کو   یہ   اعزاز   حاصل   ہے   کہ   اردو   شاعری   کے   حوالے   سے   دو   بڑی   شخصیتیں یہیں   قیام   فرما   ہیں۔   افتخار   عارف   اور   انور   مسعود ! فارسی   زبان   و   ادب   کے   توسط   سے   والد   گرامی   مرحوم   کی   بھی   علیک   سلیک   جناب   انور   مسعود   سے   تھی۔   دونوں   فارسی   کے   استاد تھے۔   اس   حقیر   سے   بھی   انور   مسعود   شفقت   سے   پیش   آتے   ہیں۔   حقیقت   یہ   ہے   کہ   اگر   وہ   نہ   بھی   متعارف   ہوتے   تو   کالم   نگار   کے   لیے یہی   کافی   تھا   کہ   اس ...

تارکین ِوطن اور موجودہ حکومت

نیویارک سے لے کر پرتھ اور سڈنی تک تارکینِ وطن دوستوں سے جب بھی بات ہو تی ہے یہی تاثر ملتا ہے کہ تارکینِ وطن کی بھاری اکثریت موجودہ حکومت کے حوالے سے ابھی تک پر امید ہے۔ وہ کوتاہیاں تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا مؤقف وہی ہے جو وزیر اعظم کا ہے یعنی وقت دیجیے۔ صبر کیجیے۔ کچھ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کی ٹیم کا قصور ہے۔ کچھ بدستور گزشتہ حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کورونا کی وبا حملہ آور نہ ہوتی تو معاملات بہت بہتر ہو چکے ہوتے۔ سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کالم نگار سمیت تمام لکھنے والے‘ تمام پڑھنے والے‘ بلکہ یوں کہیے کہ تمام پاکستانی‘تارکین وطن سے محبت کرتے ہیں ‘ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور جغرافیائی دوری کے باوجود انہیں اپنے جسم کے حصے کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہیں پاکستان کے سفیر ہیں۔ دامے‘ درمے ‘ سخنے‘ جس طرح بھی ممکن ہو پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔اردو کی انہوں نے بستیاں بسائی ہوئی ہیں اور نامساعد حالات کے باوجود اپنی زبان اور اپنے کلچر کے ساتھ وابستہ رہنے کی پوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ‘ پاک...

سر سید ایئر پورٹ اسلام آباد

راجہ ٹوڈر مل 1550ء میں پیدا ہوا۔ کچھ کہتے ہیں چونیاں ضلع لاہور کا تھا۔ کچھ اودھ کا بتاتے ہیں۔ یتیم تھا اور مفلس‘ مگر ٹیلنٹ اتنا تھا کہ اکبر اعظم نے اسے پوری سلطنت کا وزیر خزانہ مقرر کیا۔ اس سے پہلے شیر شاہ سوری نے روہتاس کے قلعے کی تعمیر کی نگرانی اسی کے سپرد کی تھی۔ جنگوں میں بھی بڑے بڑے معرکے سر کیے مگر اصل کارنامہ اس کا مالیات میں تھا۔ پٹواری سسٹم جو آج بھی جاری ہے، اسی نے شروع کیا۔ زرعی پیداوار کا سروے کیا۔ ٹیکس کی شرح مقرر کی۔ ماپ تول کے پیمانے فکس کیے۔ لگان کے حوالے سے صوبوں کو سرکار اور سرکار کو پرگنوں میں بانٹا۔ یہ سب اس کے کارنامے ہیں مگر ایک کارنامہ اس نے ہندوؤں کی ترقی کے لیے ایسا سرانجام دیا کہ اس کا ذکر بطور خاص لازم ہے۔ راجہ ٹوڈر مل جان گیا تھا کہ ترقی کا راستہ وقت کے ساتھ چلنے میں ہے نہ کہ رجعت پسندی میں۔ اس نے دھوتی اتار پھینکی اور وہی لباس اپنا لیا جو ترک امرا پہنتے تھے۔ وہ ایک مستقبل بین شخص تھا۔ اسے نظر آ رہا تھا کہ مغل حکومت جلد جانے والی نہیں۔ کاروبار مملکت کی زبان فارسی تھی۔ ہندو فارسی سے نا بلد تھے اور کتراتے بھی تھے۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ ترقی کرنی ہے اور عہدے ...

آٹا گوندھنا ہے اور ہِلنا بھی نہیں

تصویر
!  اس نے لبنان چھوڑا اور 2002ء میں جرمنی پہنچ گیا۔ اس وقت اس کی عمر بائیس برس تھی۔ اس نے میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد وہ لبنان واپس نہ آیا‘ وہیں، جرمنی ہی کے ایک کلینک میں ملازمت شروع کر دی۔ 2012ء میں اسے جرمنی آئے ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ اس نے جرمنی کی شہریت کے لیے درخواست دائر کر دی۔ اگلے آٹھ سال مختلف مراحل طے کرنے میں گزر گئے۔ تمام مغربی ملکوں کی طرح جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی طویل عرصہ درکار ہے۔ کئی قسم کے ٹیسٹ ہوئے۔ ان ٹیسٹوں میں اس نے خاصے اچھے نمبر لیے۔ پھر جرمنی کے ساتھ وفا داری نبھانے کے حلف پر دستخط کیے۔ لکھ کر دیا کہ وہ انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، جب تمام مراحل طے ہو جاتے ہیں تو شہریت دینے کی ایک رسمی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس میں درخواست دہندگان کو اکٹھا بلا لیا جاتا ہے۔ اب ان سے زبانی حلف لیا جاتا ہے۔ سب اپنی اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاتے ہیں کہ اپنے نئے ملک کے وفا دار رہیں گے۔ اس کے آئین اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جنگ میں بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔ اس کی ثقافت، رسم و رواج وغیرہ کا احترام کریں گے؛ چنانچہ ...