اشاعتیں

جولائی, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مغلانی سے ڈیرہ دارن تک

‎نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو سندھ حکومت نے ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا۔ سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں کو وقت گزاری کا نیا عنوان ہاتھ آ گیا ؎ ‎ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ‎نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی ‎اس میں کیا شک ہے کہ اس تعیناتی کی پشت پر اثر و رسوخ کھڑا تھا! مولانا سیاست اور شہرت کے جس مقام پر ہیں‘ اُس کے تناسب سے‘ ایسے کام کیلئے ان کا اشارہ ہی کافی ہے! مگر اس قضیے میں غور و فکر کا بہت سامان ہے! کیا سندھ حکومت نے مولانا کے بھائی کو کے پی سے اغوا کر کے بزورِ شمشیر ڈپٹی کمشنر لگایا؟ اگر وہ کے پی حکومت کے پاس تھے تو سندھ میں کیسے پہنچ گئے؟ دلچسپ پہلو معاملے کا یہ ہے کہ خود تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں سندھ حکومت کے سپرد کیا۔ اس کیلئے یقینا کوئی آرڈر‘ کوئی نوٹی فیکیشن جاری ہوا ہوگا۔ کوئی افسر بھی‘ اپنے طور پر‘ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں نہیں جا سکتا! لطیفہ اس پر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کسی نمائندے نے عدالت جانے کااعلان کیا ہے!! بقول احمد ندیم قاسمی ؎ ‎ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیازِ دشت و گلشن پر ‎گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے‘ برستی ہے برہمن پر ‎سول سروس کے ساتھ یہ زبردست...

کیا آپ نے باجرے کی روٹی کھائی ہے؟

یہ درست ہے کہ کھانے پینے کے لحاظ سے مزے بھی بہت تھے! دن کا آغاز ہم دہی‘ پراٹھوں اور انڈوں سے کرتے تھے۔ شہد ہمیشہ موجود رہتا۔ مکھن اور دودھ اپنی گائے بھینسوں کا ہوتا۔ بکری دوہے جانے کے بعد چھوٹے سائز کی بالٹی ہمارے منہ سے لگا دی جاتی۔ دودھ گائوں میں اس لیے نہیں ابالا جاتا تھا کہ پینا ہے‘ بلکہ اس لیے ابالا جاتا تھا کہ رکھنے سے خراب نہ ہو جائے۔ دن کا کھانا عام طور پر مکھن‘ گھی‘ شکر اور لسی سے کھایا جاتا۔ ان چھوٹے قریوں میں قصاب نہیں ہوتے تھے جو ہر روز گوشت مہیا کریں مگر گوشت کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ فارمی مرغی کا کوئی تصوّر نہ تھا۔ گھر گھر کبوتر خانے تھے۔ ایک روپے میں کبوتر مل جاتا تھا۔ یہ علاقہ شکار کے حوالے سے بہت امیر تھا۔ رشتے کے ایک ماموں افیون کا شوق رکھتے تھے۔ گوشت ان کی خوراک کا لازمی جزو تھا۔ شکار پر جاتے تو ہم ساتھ ہوتے۔ خرگوش اور ہرن کا شکار عام تھا۔ مزے مزے کا‘ پرندوں کا گوشت بھی بہت کھایا۔ بعد میں کچھ معروف افراد نے اس علاقے کو شکار کیلئے خوب خوب استعمال کیا۔ یہ افراد مقامی نہیں تھے مگر مقتدر اور زور آور تھے۔ ان میں سے کچھ اقتدار میں بھی آئے۔ پوری کوشش کی گئی کہ ہرن معدوم ...

تارکینِ وطن ہمارا اثاثہ ہیں

!  نہیں! ہرگز نہیں! دُہری شہریت رکھنے والوں سے ہم وطن کے اندر رہنے والوں کو کوئی کد نہیں، کوئی پرخاش نہیں! بلکہ معاملہ الٹ ہے! ہم تو ان کے مدّاح ہیں! تارکین وطن، خواہ دُہری شہریت والے ہیں یا سنگل شہریت رکھتے ہیں پاکستان اور اہلِ پاکستان کی جان ہیں! ان کی حب الوطنی میں کیا شک ہو سکتا ہے، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ مسلمہ ہے اور ہمارا اثاثہ ہے! وہ ہمیں رقوم بھیجتے ہیں۔ دیارِ غیر میں جو پاکستانی جائے، اُسے سہارا دیتے ہیں۔ وہ اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سڈنی میں ارشد سعید کے ہاں قیام تھا۔ ان کے صاحبزادے بلال کے کمرے میں گیا۔ پوری دیوار پر پاکستان کا پرچم بنا ہوا تھا۔ کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو تو بلال کی جان پر بنی ہوتی ہے کہ پاکستان ہار نہ جائے۔ اور یہ وہ بلال ہے جس کی پیدائش پاکستان کی ہے نہ اٹھان! تو پھر ان کی کیا کیفیت ہو گی جو یہاں پیدا ہونے کے بعد بیرون ملک گئے! میلبورن میں مقیم راولپنڈی میڈیکل کالج کے سابق طلبہ نے اپنی مادرِ درسگاہ کے لیے آلات اور سامان بھیجا۔ دل میں وطن کے لیے سوز نہ ہو تو یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کالم نگار نے ایک چودہ اگست ک...

ایک انوکھی قسم کی امپورٹ

یہ ''قومی انگریزی لغت‘‘ ہے! مقتدرہ قومی زبان (حکومت پاکستان) نے اسے شائع کیا ہے۔ ایڈیشن چھٹا ہے سالِ اشاعت اس ایڈیشن کا 2006 ہے۔ہم نے اس مستند لغت میں دو انگریزی الفاظ کے معانی دیکھنے ہیں۔ پہلا لفظ  Renounce ہے۔ حکومت پاکستان کی چھاپی ہوئی اس لغت میں اس لفظ کا معنی ہے: لاتعلق ہونا‘ دست بردار ہونا‘ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا‘ رد کر دینا‘ پھینک دینا یا نا منظور‘ مسترد کر دینا‘طلاق دے دینا‘ انکار کرنا(صفحہ نمبر 1671) ۔دوسرا لفظ جس کا معنی دیکھنا ہے  Abjure ہے۔ اس کا معنی لکھا ہے: حلفاً دست بردار یا منکر ہونا‘ قسم کھا کر انکار کرنا‘ حلفاً مسترد کرنا‘ باضابطہ انکار کرنا‘ اعترافِ خطا کرنا‘ توبہ کرنا ترک کرنا (صفحہ 4)۔یہ دونوں الفاظ اس لئے اہم ہیں کہ جب کوئی شخص امریکی شہریت لیتا ہے تو وہ ایک حلف اٹھاتا ہے‘ بائبل پر یا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر۔ اپنے اپنے مذہب کے مطابق۔قسم کھا کر مندرجہ ذیل اعلان کرتا ہے: I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I h...

اصل سے نقل تک

جس محترم شخصیت کو جناب ِوزیراعظم نے ملک کے تین چوتھائی حصے کا والی تعینات فرمایا ہے‘ کیا وہ اسے اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا چیف ایڈمنسٹریٹر لگانا پسند فرمائیں گے؟ کیا وہ اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ کوئی ہسپتال ان کی ذاتی دولت سے تعمیر ہو اور اس پر تختی ان کے کسی ملازم کے باپ کی لگا دی جائے؟ نہیں معلوم ان بنیادی اور اہم سوالوں کے جواب ملیں گے یا نہیں؟ مگر مناسب سمجھا کہ بی بی باربرا ٹک مین سے پوچھ لیں۔ باربرا 1912 میں امریکہ میں پیدا ہوئی۔ والد امیر کبیر شخص تھا۔ باربرا کا نانا صدر وُڈ رو ولسن کے عہد میں سلطنتِ عثمانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ باربرا نے دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ممالک دیکھے۔ بہت سی کتابیں لکھیں۔ چین‘ ہسپانیہ‘ میکسیکو‘ عالمی جنگیں۔ سب اس کا موضوع رہے۔ مگر ایک طلسماتی کام جو اُس نے کیا وہ اس کی تصنیف ''مارچ آف فولی‘‘ ہے۔ یعنی حماقتوں کا مارچ! جو اصول باربرا نے اس کتاب میں بتایا وہ قدم قدم پر درست ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں میں! تاریخی واقعات سے باربرا اس نتیجے پر پہنچی کہ فرد اپنی زندگی میں جو فیصلے کرتا ہے‘ وہ عقل مندی کی بنیاد پر کرتا ہے اور حکمت اور...

صراحی تھی ہی ٹوٹی ہوئی

یہ لاہور سے ایک پرانے دوست کا فون تھا۔ کہنے لگا: آج کل تم فلاں صاحب کے ساتھ زیادہ ہی اُٹھ بیٹھ رہے ہو! پوچھا: تم کیوں حساب کتاب کر رہے ہو! کہنے لگا: حساب کتاب نہیں کر رہا‘ صرف متنبہ کرنا تھا کہ اگر وہ صاحب کچھ رقم بطور قرض مانگیں تو نہ دینا۔ یاد آیا کہ ''اُن‘‘ صاحب نے یہ فرمائش کی تھی، خوش بختی یا بد قسمتی سے اُس دن مطلوبہ رقم میسّر نہیں تھی ورنہ پیش کر دیتا۔ یوں بچ گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے اُن صاحب نے یہ شہرت کتنی تگ و دو سے حاصل کی ہو گی؟ یقینا بہت زیادہ تگ و دو سے! ایک دو افراد سے قرض مانگ کر واپس نہ کیا جائے تو شہرت خراب نہیں ہوتی۔ وعدہ خلافی میں مشہور ہونے کے لیے ایسی حرکت بار بار کرنا پڑتی ہے۔ درجنوں دوستوں، رشتے داروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ پھر واپس نہیں کیا جاتا۔ تقاضوں پر تقاضے ہوں تب بھی اعصاب مضبوط رکھ کر بہانے بنانے پڑتے ہیں۔ جو قرض خواہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والے لگیں انہیں کچھ حصّہ واپس کر کے ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔ جو شرفا ہوں انہیں مسلسل جُل دیا جاتا ہے۔ تب کہیں جا کر ایسی شہرت بنتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو متنبہ کرتے پھریں کہ یار فلاں رقم مانگے گا، نہ دینا۔ دو گے تو...

مولانا طارق جمیل کی خدمت میں

  ایک بزرگ سے روایت منسوب ہے کہ بارش میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے میں کیچڑ تھا۔ ایک لڑکا ان کے سامنے پھسلتے پھسلتے بچا۔ آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیٹا دیکھ کر چلو‘ پھسل نہ جانا۔ اس نے آگے سے عرض کیا! حضور! میری خیر ہے! پھسل بھی گیا تو کوئی بات نہیں! آپ اپنا خیال رکھیے‘ آپ پھسل گئے تو آپ کے پیچھے آپ کے پیروکار بھی نہیں سنبھل سکیں گے! حضرت مولانا طارق جمیل کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ ان کی تبلیغ اور تقریر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے۔ یوٹیوب کا سلسلہ تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے شروع ہوا ہے۔حضرت اُس وقت مقبولیت حاصل کر چکے تھے جب آڈیو کیسٹوں کا زمانہ تھا۔ ان کے مواعظ کی کیسٹیں شائقین جمع کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے تھے۔ ویگنوں پر‘ ٹیکسیوں میں‘ نجی گاڑیوں میں‘ ان کیسٹوں کے ذریعے ان کی تقریریں سنتے تھے۔ اب تو یہ کام اور بھی آسان ہو چکا ہے۔ موبائل فون ان کے ارشادات سے ایک عالم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ پھر ان کے اسفار بھی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں وہ تبلیغ دین کے لئے نہ گئے ہوں! دوسرے مسالک کا احترام ان کا خاصہ ہے! وہ فرمایا کرتے ہیں کہ اللہ کی جنت بہت بڑی ہے۔ اس ...

بے مقصد زندگی کے مزے

دو بھائی تھے۔ ایک مست ملنگ۔ مرضی سے کام کرتا ۔ جو مل جاتا کھا لیتا۔ فکر نہ فاقہ! کسی کی ماتحتی نہ رعب! دوسرا بھائی سرکار کا ملازم تھا‘ اور شاہ کا مصاحب! مرغن کھانے اڑاتا۔قیمتی لباس پہنتا۔ اس کیلئے اسے کمر پر سنہری پیٹی باندھنا ہوتی اور پہروں بادشاہ کے حضور دست بدستہ کھڑا رہنا ہوتا۔ بھائی کے لیے فکر مندی تو تھی! ایک دن مصاحب بھائی نے آزاد منش بھائی سے کہا: بادشاہ کی نوکری میں کیوں نہیں آ جاتا تا کہ آسودہ حال ہو جائے! اس نے جواب دیا کہ تو میری طرح آزاد کیوں نہیں ہو جاتا تا کہ چاکری کی ذلت سے رہائی پائے‘ اس لیے کہ عقل مندوں نے کہا کہ تلوار سنہری پیٹی سے باندھ کر حضورِ شاہ کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ روکھی سوکھی کھا لی جائے اور آرام سے بیٹھا جائے۔ لوہا کوٹنا، نوکری میں کھڑے رہنے سے بہتر ہے! مگر آج کل سعدیؔ شیرازی کی یہ کہانی بیکار ٹھہرے گی۔ اب کیریئر بنانے کا زمانہ ہے۔ پی آر ہونی چاہیے۔ اس کیلئے دوڑ دھوپ لازم ہے۔ فہرست ترتیب دی جائے کہ ہفتہ رواں میں کس کس سے ملنا‘ کس کس کو ظہرانے یاعشائیے پر بلانا ہے۔کس کس کے گھر آم کا کریٹ یا قربانی کا گوشت یا مالٹوں کی پیٹی بھجوانی ہے۔ صبح اٹھے، ...

عمر میں پچاس سال کا اضافہ

ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ خلقِ خدا نے دیکھا کہ آسمان پر سفید رنگ کے حروف ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک اعلان تھا جو سب کو نظر آ رہا تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہر دیکھنے والے کو یہ اعلان اس کی اپنی زبان میں دکھائی دے رہا تھا۔ اکیسویں صدی میں کیسے کیسے ناقابل یقین واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ کورونا دنیا کے پونے آٹھ ارب افراد کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دے گا اور لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ یہ محیرالعقول واقعہ بھی، جس کا ذکر کیا جا رہا ہے، اسی اکیسویں صدی کا کرشمہ ہے! آسمانوں پر لکھا ہوا اعلان یہ تھا کہ تمہاری زندگی میں پچاس سال کا اضافہ کیا جا سکتا ہے! مگر اس کے لیے ایک شرط ہے۔ اپنی زندگی کے خفیہ گوشے چار افراد کو بتا دو۔ نمبر ایک: بیوی یا شوہر، نمبر دو: پڑوسی، نمبر تین: تمہارا افسر، نمبر چار: تمہارا ماتحت۔ کچھ گھنٹے تو لوگ حیرت سے گنگ رہے! پھر انہوں نے سوچا کہ پچاس سال! پوری نصف صدی! سودا بُرا نہیں! ساٹھ سے اوپر والوں نے تو باقاعدہ جشن منائے۔ اس کے بعد ہر ایک نے دل کڑا کیا۔ پہلے بیوی کو اپنے سارے کرتوت، بے وفائیاں، چھپا کر رکھے ہوئے بینک اکائون...

مندر

آڈرے ٹرشکے (Audrey Truschke) معروف سکالر اور محقق ہیں۔ نیو یارک کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ابتدا ہی سے مشرقی کلچر، مشرق کی ہسٹری اور مشرقی زبانوں سے دلچسپی تھی۔ سنسکرت پر عبور رکھتی ہیں۔ فارسی، اردو اور ہندی بھی جانتی ہیں۔ مغلوں کی تاریخ پر پڑھا بھی بہت اور لکھا بھی بہت! 2017ء میں انہوں نے اورنگ زیب عالم گیر پر ایک کتاب تصنیف کی۔ ایک سو چالیس صفحات کی اس کتاب پر بھارت میں بہت لے دے ہوئی۔ بی جے پی کے ہم نوائوں کو آڈرے ٹرشکے کی صاف گوئی پسند نہ آئی۔ آڈرے نے دلائل اور حوالہ جات سے ثابت کیا تھا کہ جن چند مندروں کو اورنگ زیب نے گرایا تھا، اس کی وجوہ مذہبی نہیں، سیاسی تھیں اور سکیورٹی سے متعلق تھیں۔ اس کے مقابلے میں جن مندروں کی اس نے کفالت کی، جنہیں جاگیریں، زمینیں اور رقوم دیں، ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پاکستان میں آج کل جو بحث چل رہی ہے، اس کے پیشِ منظر یہ مناسب محسوس ہوا کہ یہ اور کچھ اور معلومات شیئر کی جائیں۔ اس حقیقت کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ برِّ صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت بالعموم، اور مذہبی طبقات بالخصوص اورنگ زیب عالم گیر کو ایک پرہیز گار اور دیانت دار بادشاہ سمجھتے ہ...

قالین اٹھا کر دیکھیے نیچے کیا ہے

ابھی تک آسمان سے پتھر نہیں برسے۔ ابھی تک بادلوں نے آگ نہیں برسائی۔ ابھی تک وہ چاردیواریاں جہاں بیٹیاں محفوظ نہیں‘ زمین کے اوپر موجود ہیں‘ زمین کے پیٹ میں نہیں گئیں! متعلقہ وزیر نے درست کہا کہ ''یہ میرے بچے ہیں! میں ان کی حفاظت کروں گا‘‘۔ یہ اور بات کہ ابھی تک معاملہ جہاں تھا‘ وہیں پڑا ہے! وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ کمیٹی بنا دی گئی! کمیٹی نے رپورٹ دی کہ سکول انتظامیہ نے کمیٹی کے ساتھ تعاون ہی نہیں کیا۔ طالبات سے ملاقات کرائی نہ ڈیٹا فراہم کیا۔ کمیٹی کے بقول سکول انتظامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ وہ طالبات کی ذاتی معلومات شیئر نہیں کر سکتے۔ کون سی ذاتی معلومات ؟ سب کچھ تو طالبات نے سوشل میڈیا پر پوری دنیا سے شیئر کر دیا ہے۔ افراد کے نام‘ ان کی تصویریں ان کے پیغامات‘ سب کچھ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ یہ ''تعلیم‘‘ ایک عرصہ سے دی جا رہی تھی۔ ان افراد کے نام بھی مبینہ طور پر دیئے گئے ہیں جن سے طالبات فریاد کرتی رہیں مگر وہ کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے سرکاتے رہے۔ حکومت ایکشن لینا چاہتی تو کمیٹیوں اور رپورٹوں کے سرخ فیتے میں پڑنے کے بجائے ڈائریکٹ ایکشن لے سکتی تھی! ایک رائے یہ بھی ظاہر ہ...