اشاعتیں

جون, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مسائل‘‘ جو ہمیں در پیش ہیں

پٹرول کی قیمت میں یکدم پچیس چھبیس روپے فی لٹر کا اضافہ ہو گیا۔ مگر یہ اصل مسئلہ نہیں! پہلے چینی کے حوالے سے اہلِ خیر نے کروڑوں اربوں کمائے۔ چینی کا ایک بہت بڑا ٹائیکون چارٹرڈ جہاز پر بیٹھ کر ملک سے چلا گیا اور اُس دیار میں پہنچ گیا جو اُس سمیت بہت سوں کے لیے ارضِ موعود (Promised land) ہے۔ پھر پٹرول کی قلت پیدا کی گئی۔ اب قیمت بڑھی ہے تو پٹرول باہر نکلے گا۔ مگر یہ بھی اصل مسئلہ نہیں! ہمارے مسائل اور نوعیت کے ہیں۔ اہم ترین مسئلہ جو قوم کو آج در پیش ہے‘ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن شہید تھا یا نہیں؟ قوم اس مسئلے پر دو واضح گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شہید کہنے والے اور نہ کہنے والوں کی بھرمار ہے! وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سوشل میڈیا پر دونوں گروہ جسمانی طور پر آمنے سامنے نہیں آ سکتے ورنہ خون کی ندیاں بہہ چکی ہوتیں۔ کسان کا بیٹا جو دوسری جنگ عظیم میں بھرتی ہوا تھا‘ بہت سخت تھا۔ کسان کو معلوم ہوا کہ ہٹلر بھی سخت ہے۔ وہ ڈرا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو کیا بنے گا؟  اس نوع کے مسائل ہم چھیڑتے رہتے ہیں۔ کبھی خود! کبھی کسی کی انگیخت پر! تا کہ پٹرول اور چینی جیسے ایشوز پس منظر ہی میں رہیں...

معاملات باہر نہ جائیں

‘‘  یہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال ہے، جس میں وفاقی حکومت کا سربراہ ایک صوبے میں جاتا ہے مگر صوبائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات نہیں کرتا! سیاست اور حکومت... جمہوریت میں جڑواں بہنیں ہیں۔ یہاں مخالفت مستقل ہے نہ موافقت! کسی بھی ایشو پر، اختلاف ہو سکتا ہے! مگر کیا اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی طرح کُٹی کر لی جائے؟ وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہیں۔ ان کا نمائندہ یا نائب، صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے! گورنر نہیں! گورنر تو ریاست کا نمائندہ ہے! حکومت وزیر اعلیٰ چلاتا ہے! اگر وزیر اعظم سندھ جا کر اپنی پارٹی کی کور کمیٹی سے ملتے ہیں اور صرف گورنر سے! اور ان کے پروگرام میں اور تو سب کچھ ہے، صوبائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات کا پروگرام نہیں، تو نرم ترین الفاظ میں بھی اسے سیاسی ناپختگی ہی کہیں گے۔ کئی دیگر معاملات میں خود وزیر اعظم کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ سیاست میں مخالفت دائمی نہیں ہوتی۔ قاف لیگ کے رہنمائوں اور راولپنڈی کے ایک سیاست دان کے بارے میں اُن کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں جنہیں یہاں نقل کرنا مناسب نہیں! مگر یہی حضرات آج موجودہ حکومت کے اتحادی ہیں! اہم اتحادی!! وزیر اعظم اختلافات کو بالائے طاق رکھت...

جس کا کام اُسی کو ساجھے

سب سے پہلے پروفیسر صاحب کی ہخدمت میں حاضر ہوا''جناب! اس ملک کے دانشور ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ سیاست پر اور اسمبلیوں کی ممبری پر‘ کچھ خاندانوں کی نسل در نسل اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی سیاست میں آنا چاہیے تاکہ اس خاندانی اجارہ داری کا خاتمہ ہو سکے۔ آپ کی خدمت میں درخواست ہے کہ اپنے صاحبزادے کو سیاست میں لائیں! ہمیں سیاست میں علم و فضل اور نیک نامی کی ضرورت ہے‘‘۔پروفیسر صاحب نے چائے کا کپ محبت سے پیش کیا۔ ان کا جواب واضح تھا''آپ کی پیشکش کا شکریہ! مگر جوڑ توڑ اور عوامی رابطے‘ ہمارے ضمیر میں نہیں! میں نے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی اور ساری عمر یونیورسٹی میں پڑھایا۔ اپنے بیٹے کیلئے میں اُس کی پیدائش سے لے کر آج تک ایک ہی خواب دیکھتا آیا ہوں کہ وہ آکسفورڈ یا کیمبرج میں جائے۔ وہاں کی لائبریریوں میں بیٹھے‘ پی ایچ ڈی کرے اور واپس آ کر پروفیسر لگے‘‘۔ پھر میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔''مولانا! سیاست میں علما کے چند خاندان نسل در نسل چلے آ رہے ہیں! التماس ہے کہ اپنے صاحبزادے کو الیکشن میں حصہ لینے کا حکم دیجئے‘‘۔مولانا قالین پر...

2023ء

پہلا مشیر: مبارک ہو عالی جاہ! ہماری شرحِ نمو منفی چار سے ترقی کرتے کرتے صفر پر پہنچ گئی ہے۔ امید ہے کہ ہماری حکومت میں اگلے دس برسوں کے دوران یہ دو یا تین تک پہنچ جائے گی! دوسرا مشیر: جہاں پناہ! چینی کا نرخ تین سو روپے سے کم ہو کر دو سو اسّی ہو گیا ہے! ہم عوام کو مہنگائی کے جبڑوں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو رہے ہیں! یہ سب آپ کی دوراندیشی اور مستقبل بین پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ تیسرا مشیر: حضور! پٹرول کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔ ہر بڑے شہر‘ یعنی لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ پشاور وغیرہ میں کم از کم ایک پٹرول پمپ ضرور پٹرول مہیا کرے گا! اسی طرح ہر ضلع میں ایک پٹرول پمپ یہ فرض ادا کرے گا۔ پہلے تو تجویز یہ تھی کہ دو یا تین متصل اضلاع کیلئے ایک پٹرول پمپ ہو‘ مگر عوام کی سہولت کیلئے اب ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ایک پٹرول پمپ پر پٹرول لازماً دستیاب ہوگا۔ چوتھا مشیر: اس سے ماحولیات کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ درخت لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی! صرف دس فیصد گاڑیاں اور بسیں چل رہی ہیں۔ لوگ پیدل چلتے ہیں یا گھوڑا گاڑیوں پر۔ حضور تاریخ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مغلوں کے زمانے میں گھوڑوں‘ گھوڑا گاڑیوں اور ...

ترازو تو کہیں اور ہے!!

دل گرفتگی کا عالم ہے! ہاتھ قلم سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہے اور قلم خیالات سے! قومیں گرتی ہیں! یہاں تک کہ پاتال آ جاتا ہے تو رُک جاتی ہیں! مگر ہم، بحیثیت قوم، پاتال پر آ کر بھی رُک نہیں رہے! نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں! اخلاق، شائستگی، شرافت، سب کچھ ختم ہو گیا ہے! دلیل گالی سے شروع ہوتی ہے۔ گالی پر ختم ہوتی ہے! طعن و تشنیع، دشنام طرازی، لُچپن، جوتم پیزار! اور یہ سب ان کا حال ہے جن کا شمار پڑھے لکھوں میں ہو رہا ہے! ناخواندہ ان سے بدرجہا بہتر ہوں گے! اس میں شک نہیں کہ گنتی کے چند شرفا اس عامیانہ طرزِ گفتگو کے جبراً عادی ہو چکے مگر کبھی کبھی صدمہ اس طرح آتا ہے کہ پیس کر رکھ دیتا ہے! ایک شریف انسان ہے۔ سیاست سے بھی تعلق ہے۔ ایک عرصہ سے اخبارات میں لکھ بھی رہے ہیں۔ اس کالم نگار سے ان کا تعارف ہے نہ ملاقات۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک فریاد پوسٹ کی کہ لاہور کے نجی ہسپتال کورونا کے مریضوں سے لاکھوں روپے ایڈوانس مانگ رہے ہیں۔ اس پر ایک کمنٹ یہ تھا : ''اوئے لعنتی! ہسپتال کا نام بھی بتا‘‘! زیادہ شرمناک بات یہ کہ کسی نے اپنے کمنٹ میں اس طرزِ تخاطب کی مذمت کی نہ بیزاری کا اظہار!! ایک دن اور ایک...

سرکاری ملازم: مُکا بازی کا بہترین ہدف

فروری کے وسط میں کورونا کی مصیبت آ چکی تھی۔ یہ پانچواں مہینہ ہے۔ ان پانچ مہینوں میں بجلی کی سپلائی معطل نہیں ہوئی‘ گیس بند نہیں ہوئی‘ ٹیلی فون کام کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ موجود رہا اور موجود ہے! سرکاری ہسپتال برابر کام کر رہے ہیں۔ ہر یکم کو لاکھوں وفاقی اور صوبائی ملازمین کو تنخواہیں موصول ہو رہی ہیں۔ عسا کر جہاں جہاں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ ان کی ہر یونٹ کو تنخواہ وہیں پہنچائی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک پولیس مسلسل موجود ہے۔ دونوں سرکاری بینک‘ سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوئے۔ ڈاکخانے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وزارت خزانہ سے لے کر ایف بی آر تک سب نے بجٹ کی تیاری میں رات دن ایک کیا۔ اضلاع اور تحصیلوں میں سرکاری اہلکار ڈیوٹیاں سر انجام دیتے رہے۔ اب یہ جو کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازم گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں‘ تو پھر ریاست کے یہ تمام کام‘ کون انجام دیتا رہا؟ کیا یہ تمام امور جِنّات کے سپرد ہیں یا سبز پوش ملنگ دفتروں ‘ ہسپتالوں‘ شاہراہوں‘ بینکوں میں آ کر فرائض سنبھالے رہے؟  ہم میں سے اکثر کو معلوم ہے کہ ''پنچنگ بیگ‘‘ کیا ہے! جو نہیں...

بہت پہلے یہ گھر ایسا نہیں تھا

حکیم شفائی‘ شاہ عباس صفوی کا پرسنل فزیشن تھا‘ اور با کمال شاعر! ایک روایت کے مطابق وہ صائب تبریزی کا استاد بھی تھا! اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طبابت نے اس کے علم و فضل کو ماند کر ڈالا اور شاعری اس کی طبابت کو پیچھے چھوڑ گئی! طب اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ یہی روایت وسط ایشیا اور ایران و خراسان سے مسلم ہندوستان میں در آئی۔ حکیم مومن خان مومن اس روایت کی درخشاں مثال تھے۔ باپ دادا‘ شاہی اطبا میں شامل تھے۔ مومنؔ نے شاعری بھی کی اور طبابت بھی! اور اس میں کیا شک ہے کہ شاعری کے آگے طبابت ماند پڑ گئی! اپنے تخلص کا بھی خوب خوب استعمال کیا؎ مومنؔ تم اور عشقِ بتاں! اے پیر و مرشد خیر ہے یہ ذکر اور منہ آپ کا! صاحب! خدا کا نام لو شفیق الرحمن بھی ڈاکٹر تھے۔ ایسے ڈاکٹر کہ ادب پر چھا گئے اور چھائے رہیں گے! حماقتیں‘ مزید حماقتیں‘ دجلہ! شگوفے! ایک سے ایک بڑھ کر! شیطان‘ روفی اور حکومت آپا جیسے لازوال کردار تخلیق کیے! زبان ایسی کہ ہر عمر کے لوگ پڑھیں اور حظ اٹھائیں! ہمارے ہم عصروں میں ڈاکٹر آصف فرخی نے ادب میں خوب نام پیدا کیا۔ اعلیٰ پائے کے تراجم کیے۔ ادبی پرچہ نکالا۔ ادبی میلوں کو رواج دیا۔...

جہاں پناہ! حل ایک ہی ہے

نہیں! جناب وزیر اعظم آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ نہیں! عالی جاہ! آپ ایسا نہیں کر سکتے! دو دن پہلے پی آئی اے کے سربراہ نے آپ کو بریفنگ دی! اور بتایا کہ قومی ائر لائن کو ہر مہینے، چھ ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے! دو ارب ماہانہ صرف اُن ساڑھے چودہ پندرہ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کے کھاتے میں دیئے جا رہے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں! ہمیں نہیں معلوم ائر لائن کے سربراہ نے آپ کو بتایا ہے یا نہیں کہ فی جہاز پانچ سو ملازم پالے جا رہے ہیں جبکہ دوسری ائر لائنوں میں ڈیڑھ سو سے تین سو افراد فی جہاز کام کر رہے ہیں۔ یہ تین سو ملازم فی جہاز بھی صرف ایک آدھ ائر لائن میں ہیں۔ اکثریت کا تناسب دو سو افراد فی جہاز سے کم ہے!ہمیں نہیں معلوم موجودہ سربراہ نے آپ کو حقائق سے اس طرح آگاہ کیا یا نہیں جس طرح چار سال پہلے، اُس وقت کے چیئرمین مسٹر اعظم سہگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہیں جو ائر لائن کو یرغمال بنائے ہیں۔ ''اگر ہم احتساب کے حوالے سے صحیح نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو اگلا اقدام کرنا ان تنظیموں کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے‘‘ یہ ال...

جہاں پناہ! حل ایک ہی ہے

نہیں! جناب وزیر اعظم آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ نہیں! عالی جاہ! آپ ایسا نہیں کر سکتے! دو دن پہلے پی آئی اے کے سربراہ نے آپ کو بریفنگ دی! اور بتایا کہ قومی ائر لائن کو ہر مہینے، چھ ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے! دو ارب ماہانہ صرف اُن ساڑھے چودہ پندرہ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کے کھاتے میں دیئے جا رہے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں! ہمیں نہیں معلوم ائر لائن کے سربراہ نے آپ کو بتایا ہے یا نہیں کہ فی جہاز پانچ سو ملازم پالے جا رہے ہیں جبکہ دوسری ائر لائنوں میں ڈیڑھ سو سے تین سو افراد فی جہاز کام کر رہے ہیں۔ یہ تین سو ملازم فی جہاز بھی صرف ایک آدھ ائر لائن میں ہیں۔ اکثریت کا تناسب دو سو افراد فی جہاز سے کم ہے!ہمیں نہیں معلوم موجودہ سربراہ نے آپ کو حقائق سے اس طرح آگاہ کیا یا نہیں جس طرح چار سال پہلے، اُس وقت کے چیئرمین مسٹر اعظم سہگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہیں جو ائر لائن کو یرغمال بنائے ہیں۔ ''اگر ہم احتساب کے حوالے سے صحیح نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو اگلا اقدام کرنا ان تنظیموں کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے‘‘ یہ ال...

ایس او پی

کہانی وہی ہے پرانی۔ کئی دفعہ سنائی گئی! کئی بار سنی گئی۔ اس ملک کی قسمت! کہ ہر بار سنانا پڑتی ہے ہر بار سننا پڑتی ہے! صبح سب سے پہلے جو شخص شہر کے دروازے سے اندر داخل ہوا‘ وہ فقیر تھا! اسے‘ فارمولے کے تحت‘ بادشاہ بنا دیا گیا۔ اس نے فقیرانہ لباس اتار کر شاہانہ لباس زیب تن کیا مگر اپنے امور میں خوب عقل مند تھا۔ گدڑی اور لاٹھی چھپا کر رکھ لی۔ پھر اسے بتایا گیا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ اس نے حلوہ بنوایا۔ ہر خبر کے ساتھ حلوہ بنواتا تھا۔ جب حالات قابو سے باہر ہو گئے‘ تو اس نے گدڑی اوڑھی۔ عصا پکڑا اور یہ کہہ کر چلتا بنا کہ تم جانو‘ تمہارا کام! مرو یا جیو! میں نے تو دو دن حلوہ کھانا تھا! موت گھر گھر دستک دے رہی ہے! ریاست کی صرف لاتعلقی ہوتی تو اور بات تھی! ریاست تو یوں لگتا ہے حملہ آور کے ساتھ ہے! کوئی پوچھے کہ پارک کھولنے کی اس نازک وقت میں کیا مجبوری تھی؟ یہ جانتے ہوئے کہ عوام کی کثیر تعداد ان پڑھ ہے اور لاپروا! ملنگوں اور مزاروں کے زیر اثر لاکھوں افراد کورونا کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کر رہے‘ ایسے میں پابندیاں سخت کرنے کی ضرورت تھی!مگر پارکوں کی کسر رہتی تھی! وہ بھی کھول دیئے گئے! ایک بے ...

صرف نام ہی کافی ہونا چاہیے تھا

صرف نام ہی کافی تھا! علائو الدین خلجی کا صرف نام ہی کافی تھا! پاکستان سے کئی گنا بڑی سلطنت! کاریں نہ جہاز! تار برقی نہ ای میل! وٹس ایپ نہ ٹیلی فون! مگر جو ریٹ علائو الدین مقرر کرتا تھا‘ سلطنت کے ہر شہر ‘ ہر قصبے ‘ ہر منڈی‘ ہر بازار میں وہی ریٹ چلتا تھا۔ ہر جنس کی قیمت مقرر تھی! ہر بازار کی اطلاع بادشاہ کو پل پل پہنچتی تھی! جب حکمران کی نیت صاف ہو‘ تو فضائیں اور ہوائیں بھی اس کی مدد کرتی ہیں! اس کے انصاف کی خبر خوشبو کی طرح پھیلتی ہے! دور افتادہ قریوں کے تاجر بھی جانتے تھے کہ کم تولنے کی صورت میں‘ کم تولنے والے کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ لیا جائے گا جتنا اس نے کم تولا ہے۔ انصاف کی خوشبو ہوتی ہے تو دہشت بھی! مظلوم کے لیے خوشبو! ظالم کے لیے دہشت! خلجی کے دور حکومت میں قیمتوں کا استحکام حیرت انگیز تھا! آج تک حیرت انگیز ہے! شیر شاہ سوری کا زمانہ بھی آج کی مواصلات سے چھلکتی دنیا سے سینکڑوں سال پہلے کا تھا۔ بابر چار سال آگرہ سے حکومت کرنے کے بعد 1530ء میں دنیا چھوڑ گیا۔ دس سال ہمایوں نے جوں توں کر کے کاٹے۔ 1540ء میں سوری نے زمام سنبھالی! پانچ سال اسے ملے۔ صرف پانچ سال! ان پانچ برسوں میں وہ خو...

پردے میں رہنے دو، پردہ نہ اٹھاؤ

…  صاف پتہ چل رہا تھا کہ مریض کی حالت نازک ہے! بہت نازک! منہ اور ناک میں ٹیوبیں لگی ہوئی تھیں، ہاتھ کے راستے، سٹینڈ پر لٹکی بوتل میں سے دوا جسم میں جا رہی تھی۔ سر کی جانب دیوار کے ساتھ متعدد آلات نظر آ رہے تھے جن پر بلڈ پریشر، دل کی رفتار اور نہ جانے کیا کیا دیکھا جا سکتا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ سانس مشکل سے چل رہا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے اس حالت میں مریض کے قریبی اعزہ کیا کر رہے ہوں گے؟ بیٹے، بیٹیاں، بیوی، بھائی بہن، ماں باپ! یقینا محوِ دعا ہوں گے۔ بارگاہِ ایزدی میں گڑگڑا رہے ہوں گے کہ رحیم و کریم پروردگار شفا بخش دے۔ اگر ہسپتال میں کوئی مسجد ہو گی تو وہاں جا کر کوئی بیٹا یا بھائی سجدہ ریز ہو گیا ہو گا! کوئی ڈاکٹر کے پاس کھڑا، امید کا چراغ آنکھوں میں جلائے، کچھ پوچھ رہا ہو گا! ماں اور بیوی صدقے پر صدقہ دے رہی ہوں گی! مگر آہ! ہم میں سے کچھ اتنے بے درد اور پتھر دل ہیں کہ اس حالت میں بھی، اپنے جاں بلب باپ، ماں یا چچا کی فوٹو کھینچتے ہیں۔ پھر اس فوٹو کو فیس بک کی سولی پر چڑھاتے ہیں اور وہاں اپیل کرتے ہیں کہ یہ حالت ہے میرے پیارے کی، دعا کرو... پھر غضب خدا کا اُس پر ''لائیک‘‘ آ...