اشاعتیں

مئی, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

عید جو کھو گئی

سِن اس وقت کچا تھا۔ یہ گائوں تھا‘ نہ شہر جہاں ہم رہتے تھے۔ قصبہ تھا۔ چھوٹا نہ بڑا۔ بس اتناکہ اس میں بڑا بازار تھا! لڑکوں کا ہائی سکول تھا اور لڑکیوں کا بھی۔ ہسپتال تھا جہاں ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا۔ ایک معمر شخص وہاں ڈسپنسر تھا جسے قصبے والے ''کمپوڈر‘‘ کہاکرتے۔ وہ زمانہ مکسچروں کا تھا۔ نظامِ ہضم درست کرنے کیلئے لال رنگ کا ایک مکسچر عام تھا۔ ذائقہ اس کا کچھ کچھ کھٹا ہوتا۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کررہا تو اسے ''28 نمبر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس ڈسپنسر نے ایک دن مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ میں چوتھی یا پانچویں میں پڑھتا تھا۔ پوچھنے لگا: تم تو پڑھے لکھے گھر سے ہو‘ بتائو بیوی کے بھائی کو کیا کہیں گے؟ جواب میں میں نے ہونّق پن کا ثبوت دیا تو اس نے بتایا: برادرِ نسبتی! ان دنوں گھر میں گلستانِ سعدی سبقاً سبقاً پڑھ رہا تھا۔ بوستانِ سعدی پڑھائی جا چکی تھی۔ برادرِ نسبتی کا لفظ ان میں کہیں بھی نہیں آیا تھا!! اس کے بعد جب بھی ہسپتال جاتا‘ جو ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا‘ تو اُس سے میں خائف ہی رہتا کہ کہیں پھر نہ امتحان لینے بیٹھ جائے! بتانے کی بات جس سے قصبے کا ذکر شروع ہوا‘ وہ میلہ تھا جو عید کے دن شروع ...

قائد اعظم دشمنی‘ براستہ سویڈن

قائد اعظم دشمنی اس ملک میں ایک فیشن رہا ہے‘ اب بھی ہے۔ ایک طرف کچھ مذہبی طبقات‘ دوسری طرف نام نہاد ''وسیع الظرف‘‘ حضرات! مگر یہ جیسے بھی ہیں اسی ملک کے باشندے ہیں۔ یہیں رہتے ہیں۔ جو کچھ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس سے ان ہر دو طبقات کی رائے بہت حد تک بدل بھی چکی ہے!8 تاہم قائد اعظم دشمنی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو فصلی بیڑے لیے لیے پھرتے ہیں۔ ساری زندگی کسی اور ملک میں گزاری مگر رومانس کے لیے بھارت! اور دشمنی کے لیے قائد اعظم! ایسے ہی ایک صاحب سویڈن سے آ کر یہاں قائد اعظم دشمن حلقوں میں خوب پذیرائی پا رہے ہیں۔ بھارت کے اینکر انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں گویا ایک طارق فتح ہاتھ آ گیا ہے۔ معروف پاکستان دشمن بھارتی اینکر اروند سہارن کے ساتھ ان صاحب نے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے چھ سات ایپی سوڈ کیے ہیں۔ ایک ایک لفظ‘ ایک ایک فقرے سے گاندھی کی محبت‘ قائد اعظم کے ساتھ بُغض اور تحریک پاکستان سے نفرت امڈ امڈ پڑتی ہے۔ گاندھی کو مہاتما اور قائد اعظم کو جناح کہتے ہیں۔ تکیہ ہائے کلام دو ہیں ''میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے‘‘! کتاب فروشی کے بھی کیا کیا روپ ہیں! دوسرا تکیہ کلام ہے: ...

ہم دلدل میں دھنس گئے ہیں

‎رات تھی اور جنگل۔ گھڑ سوار چلا جا رہا تھا۔ پگڈنڈی کے دونوں طرف پانی تھا۔ ایک ٹارچ تھی جس سے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یقین کر لیتا تھا کہ گھوڑا پگڈنڈی ہی پر چل رہا ہے۔ جیسا کہ ایسے مواقع پر ہوتا ہے، کچھ ہی دیر بعد ٹارچ کے سیل ختم ہو گئے۔ چاند بھی چھپ گیا، گھوڑا چلتا رہا۔ پھر یوں محسوس ہوا جیسے گھوڑا قدم رکھتے وقت زیادہ زور لگا رہا ہے۔ پھر اس کے پاؤں دھنسنا شروع ہو گئے۔ سوار ایک وسیع و عریض دلدل میں پھنس چکا تھا۔ اب معاملہ وہی تھا نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن! کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا! ‎ہم بحیثیت ملک ایک دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ ٹارچ میں دیانت، احساس اور عزتِ نفس کے سیل جواب دے چکے ہیں۔ آسمان پر دور دور تک چاند ہے نہ کوئی تارا، اندھیرا ایک افق سے دوسرے افق تک دبیز چادر تان چکا ہے۔ اب کوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ ‎کرپشن کا لفظ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب اس سے ڈر محسوس ہوتا ہے نہ نفرت! زرداری خاندان اور شریف خاندان کے خلاف ا تنے مقدمات بن چکے ہیں اور بھگتائے جا چکے ہیں کہ شمار کرنا شاید ممکن نہ ہو اور سنجیدگی سے یہ مقدمات شمار کرنے ہوں تو باقاعدہ ریسرچ سیل بنانا پڑے گا۔ سیکنڈل کے بعد سیکنڈ...

ہم معصوم ہیں! ہم بچے ہیں

ولیم اور بیگم ولیم ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ کورونا کی وبا نازل ہوئی تو وہ اپنی رہائش گاہ تک محدود ہو گئے۔  کچھ ہی دن بعد ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔ مسز ولیم بے تاب تھی کہ اپنے والدین کو نئی نویلی بیٹی دکھائے مگر سماجی فاصلہ رکھنا لازم تھا؛ چنانچہ اس کے والدین آکر اپارٹمنٹ کے سامنے کمپائونڈ میں کھڑے ہو گئے۔ مسز ولیم بیٹی کو پکڑ کر بالکونی میں آ گئی۔ یوں نانا نانی نے نومولود نواسی کو دیکھا۔ اپنے ہاتھوں کو بوسہ دے کر ہوا میں اچھالا۔ پھر وہ اپنے گھر کو پلٹ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب حکومت ملنے جلنے کی اجازت دے گی تاکہ آکر نواسی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا سکیں‘ اس کی خوشبو کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اس کے ساتھ تصویریں بنوا سکیں۔  لاریسا اور اس کے میاں کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی دو سال کی، دوسری چار سال کی۔ اپنا گھر زیر تعمیر ہے اس لئے چار افراد کا یہ خاندان، لاریسا کے ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے۔ یوں کل ملا کر اس گھر کے چھ افراد ہوئے۔ حکومت کے تازہ ترین اعلان کی رو سے، گھروں سے باہر کی تقاریب میں زیادہ سے زیادہ دس افراد شریک ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ اسی اصول کا ...

کوئی ہے جو وزیراعظم کو بتائے؟

خاتون عمر رسیدہ تھی! مجھ سے اور میری اہلیہ سے بھی زیادہ معمر! نحیف بھی! ہم دونوں نے جہاں تک ممکن تھا، اس کا خیال رکھا۔ جہاز بھرا ہوا تھا۔ کبھی کبھی خوش قسمتی سے دو نشستیں ایک ساتھ خالی مل جاتی ہیں مگر اُس دن یہ لاٹری بھی نہ نکلی۔ عمر رسیدہ خاتون کو کھانا نہ بھایا۔ ایئر ہوسٹس سے کہہ کر دوسرا منگوا کر دیا۔ پندرہ گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ کہنا آسان ہے مگر پندرہ گھنٹے اکانومی کی نشست پر بیٹھنا سزا سے کم نہیں! خاتون جب بھی کروٹ بدلنے کی کوشش کرتی اس کے منہ سے ایک خفیف سی ہائے نکلتی!پندرہ گھنٹے بعد جہاز دبئی کے ہوائی اڈے پر اترا۔ یہاں بارہ گھنٹے کا ٹرانزٹ تھا۔ بارہ گھنٹے یعنی صبح سے شام تک! شاید غالب بھی کسی ایسے ہی ٹرانزٹ میں تھے جب کہا ؎ کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا بارہ گھنٹے بعد اسلام آباد کی پرواز میں بیٹھے۔ مزید ساڑھے تین گھنٹے۔ گویا سڈنی سے اسلام آباد تک تیس گھنٹے کا نسخہ!!سفر کی یہ مدت ''اتحاد‘‘ اور ''ایمیریٹ‘‘ کے جہازوں سے آنے جانے میں ہے۔ اگر تھائی ایئر لائن سے براستہ بنکاک آئیں تو دورانیہ کم ہوگا مگر وہ بھی چھبیس گھنٹے ہو جات...

بہت کچھ آپ کے اپنے اختیار میں ہے

چوہدری صاحب پرانے دوست ہیں۔ فرسٹ ایئر سے لے کر بی اے فائنل تک ہم کلاس فیلو رہے۔ پھر میں مرکزی حکومت کے سکالرشپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی چلا گیا اور وہ ایم اے کرنے پنجاب یونیورسٹی۔ ان کے بڑے بھائی کو گردے کا عارضہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹر نے خراب گردہ نکالنا تھا مگر لاپروائی کی بنا پر جو گردہ تندرست تھا‘ اسے باہر نکال مارا۔ مریض جاں بحق ہو گیا۔ ایک اور دوست کے ‘جو ملتان سے ہیں‘ قریبی عزیز کو ایسی دوا دی گئی جو اپنی مدتِ عمر پوری کر چکی تھی۔ مریض کو ری ایکشن ہوا۔ ہولناک ری ایکشن! ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ دونوں مواقع پر متعلقہ ڈاکٹروں اور متعلقہ ہسپتالوں کا مؤقف ایک ہی تھا کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ یہ ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے۔ جن ملکوں کو ہم ترقی یافتہ یا قانون پسند کہتے ہیں‘ وہاں کم سے کم سزا یہ ہوتی ہے کہ ڈاکٹر کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے‘ وہ پریکٹس نہیں کر سکتا۔ عدالتی کارروائی اور بھاری زرِ تلافی کے معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ پوری پوری حکومتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پالیسی وضع کرنے والے وزیروں کو عدالتیں یوں بے نقاب کرتی ہیں کہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ جس طرح ل...

………مزاحیہ کلپ بدستور بھیجتے رہیے

کالم نوکری کے فضائل پر لکھنا تھا! گائوں کی بے باک الّہڑ دوشیزہ نے تو نوکری کی مذمت کی تھی تیری دو ٹکیاں دی نوکری وے میرا لاکھوں کا ساون جائے  مگر اب نوکری وہ نوکری نہیں رہی۔ اب اس میں اعلیٰ درجات کی نوکریاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ٹھاٹھ باٹ، پرچم بردار لمبی، جہازی سائز کی کاریں! ذرا سے اشارے پر دوڑتا سٹاف! رشک آور محلات! ہر شہر میں پروٹوکول! ہر چینل پر کوریج، ہر اخبار میں تصویر! مگر نوکری پھر بھی نوکری ہی ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے: نوکری پیو دی وی چنگی نئیں‘ یعنی نوکری باپ کی ہو پھر بھی نوکری ہی ہے! کہنے کو تو نوکر سب برابر ہیں۔ نائب قاصد بھی سرکار کا اسی طرح نوکر ہے جیسے اس کا سپریم باس جسے سیکرٹری کہا جاتا ہے۔ جو نوکری کی اصل نوعیت سمجھتے ہیں وہ اپنے نائب قاصد کا تعارف بھی کولیگ کے طور پر کراتے ہیں۔ ایک نائب قاصد کہا کرتا تھا کہ میں دورے پر جاتا ہوں تو سیکرٹری صاحب کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں! وزارت بھی نوکری ہی ہے۔ اعلیٰ ترین درجے کی نوکری! بلکہ اعلیٰ ترین درجے سے ایک درجہ کم کی نوکری! وزارت سے پہلے کتنا شاندار تاثر ہوتا ہے! مرنجاں مرنج! صلح جُو! کبھی کسی کے خلاف بیان دیا نہ کسی کا نام ل...

درانتی

‎گھٹا دیکھ کر عاشق اور کسان دونوں خوش ہوتے ہیں یا اداس! ‎عاشق تو شہروں میں بھی  پائے جاتے ہیں‘ مگر کسان کے مسائل شہر والوں کو نہیں معلوم!  ‎گندم کٹ چکی ہے۔ کچھ کاٹی جا رہی ہے۔ ابھی ابھی فون پر گائوں بات ہوئی۔ بارش ہو رہی ہے اور موسلا دھار ہو رہی ہے۔ گندم کھڑی ہو یا کٹی ہوئی‘ بھیگ جائے تو اسے سکھانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے کم از کم چار پانچ دن کی تیز دھوپ درکار ہوگی۔ اس کے بعد ہی تھریشنگ ہو سکے گی۔ یہ بارانی علاقوں کی بات ہو رہی ہے۔ خشک کیے جانے کے باوجود گندم کی کوالٹی اور مقدار... دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان بہر طور پہنچ چکا ہے۔ ‎تھریشنگ کا لفظ لکھتے وقت دل میں کسک اٹھی ہے۔ وہ جو اقبالؔ نے کہا ہے: ؎ ‎ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت ‎احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات  ‎تو اس کا صحیح مفہوم کوئی ہمارے جیسا دیہاتی ہی پا سکے گا۔ بہت سے لوگوں کے لیے شہر اور ایسی بہت سی باتیں ترقی کے خلاف ہیں۔ اس زمانے میں رہنا! اور مشینوں اور آلات کے خلاف بات کرنا! عجیب نہ لگے تو کیا لگے! ‎ہم جو گائوں سے آ کر شہر میں بسے‘ ہماری یادوں کے خزانے تو اُس وقت سے مربوط ہیں جب گندم کاٹنے کی مشین تھی نہ بھ...

پے کمیشن‘ چند گزارشات

''نجی شعبہ بہت سے لائق مرد اور عورتیں لے اُڑا۔ اس سے حکومت نقصان میں رہے گی‘‘۔ جدید سنگاپور کے معمار لی کوان یئو نے پتے کی یہ بات جان لی تھی کہ حکومتی اہلکاروں کی معاوضے‘ نجی شعبے کے برابر نہیں ہوں گے تو ٹیلنٹ کا بہائو نجی شعبے کی طرف ہوگا۔ اس نے بیوروکریسی کی تنخواہیں اتنی بڑھائیں کہ سنگاپور کے نوجوان ہارورڈ سے ایم بی اے کرنے کے بعد سیدھا حکومتی سیکٹر میں آنے لگے۔ جب اعتراض ہوا تو لی کوان یئو کا جواب صاف تھا:...''پبلک سیکٹر میں معاوضے کم کرنے سے حکومت نا اہل ہو جائے گی۔ اثاثوں کی قدر و قیمت گر جائے گی۔ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی اور ہماری خواتین دوسرے ملکوں میں جا کر میڈ اور آیا بننے پر مجبور ہو جائیں گی۔‘‘لی اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ تنخواہیں بڑھانے کے بعد اس نے سرکاری اہلکاروں پر واضح کر دیا کہ اب کرپشن کرنے کا جواز ہے نہ کسی کو چھوڑا جائے گا۔ آج سنگاپور ترقی یافتہ ہے اور کرپشن سے پاک بھی!! پاکستانی حکومت نے سرکاری ملازموں کے معاوضوں پر غور کرنے کیلئے پے کمیشن تشکیل دیا ہے۔ ایک اور پے کمیشن!! ارکان میں افسر شاہی کی نمائندگی ہے اور نجی شعبے کی بھی۔ فائنل رپورٹ کب تیار ہو...