عید جو کھو گئی
سِن اس وقت کچا تھا۔ یہ گائوں تھا‘ نہ شہر جہاں ہم رہتے تھے۔ قصبہ تھا۔ چھوٹا نہ بڑا۔ بس اتناکہ اس میں بڑا بازار تھا! لڑکوں کا ہائی سکول تھا اور لڑکیوں کا بھی۔ ہسپتال تھا جہاں ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا۔ ایک معمر شخص وہاں ڈسپنسر تھا جسے قصبے والے ''کمپوڈر‘‘ کہاکرتے۔ وہ زمانہ مکسچروں کا تھا۔ نظامِ ہضم درست کرنے کیلئے لال رنگ کا ایک مکسچر عام تھا۔ ذائقہ اس کا کچھ کچھ کھٹا ہوتا۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کررہا تو اسے ''28 نمبر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس ڈسپنسر نے ایک دن مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ میں چوتھی یا پانچویں میں پڑھتا تھا۔ پوچھنے لگا: تم تو پڑھے لکھے گھر سے ہو‘ بتائو بیوی کے بھائی کو کیا کہیں گے؟ جواب میں میں نے ہونّق پن کا ثبوت دیا تو اس نے بتایا: برادرِ نسبتی! ان دنوں گھر میں گلستانِ سعدی سبقاً سبقاً پڑھ رہا تھا۔ بوستانِ سعدی پڑھائی جا چکی تھی۔ برادرِ نسبتی کا لفظ ان میں کہیں بھی نہیں آیا تھا!! اس کے بعد جب بھی ہسپتال جاتا‘ جو ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا‘ تو اُس سے میں خائف ہی رہتا کہ کہیں پھر نہ امتحان لینے بیٹھ جائے! بتانے کی بات جس سے قصبے کا ذکر شروع ہوا‘ وہ میلہ تھا جو عید کے دن شروع ...