اشاعتیں

اپریل, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

آج بھی مولانا طارق جمیل کی بالواسطہ مذمت میں ہمارے قابلِ احترام دوستوں کے دو کالم چھپے۔ مذمت نہ سہی، ان کے خلاف تو ضرور ہیں! کسی اور موضوع پر لکھنا تھا۔ ایک اور پے کمیشن تشکیل پایا ہے۔ کچھ معروضات اس کی خدمت میں پیش کرنا تھیں۔ دوست گرامی، سابق سفیر جناب جاوید حفیظ نے آج کے کالم پر بذریعہ فون تبصرہ کیا اور بہت قیمتی اشارات دیئے کہ شرقِ اوسط والوں سے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی امید رکھنا حقیقت پسندی کے خلاف ہو گا۔ مگر ان موضوعات پر کیا لکھنا! نیکو کاروں کی بستی میں ایک گنہگار پھنس گیا ہے۔ ہر ہاتھ نے دستانہ پہنا ہوا ہے۔ ہر ہاتھ میں سنگ ہے۔ ہر قلم کار رسّہ اٹھائے درخت کی شاخ تلاش کر رہا ہے جہاں گنہگار کو لٹکا دے۔ ساری اقلیم میں جیسے آگ لگ گئی ہے۔ ہر نیکو کار کی انا سے زخم رِس رہا ہے۔ مولوی طارق جمیل نے قوم کو جھوٹا کہہ دیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی نا انصافی کوئی نہیں! چھوڑنا نہیں! بچ کر نہ جائے! مولانا نے معافی مانگ لی۔ غیر مشروط معافی! کوئی دلیل دی نہ بحث کی! صرف اور صرف معافی! اس کے بعد متانت کا اور وضعداری کا اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ معاملہ ختم ہو جاتا مگر حملے اور مسلسل ح...

کیا خلیج میں بھارت کے چہرے سے نقاب اُترنے کو ہے؟

آزاد پاکستان میں جب ہم ان جھگڑوں کو رونق بخش رہے ہیں کہ نماز مسجدوں میں پڑھیں یا گھروں میں‘ اور جب مولانا کی دعا پر طول و طویل بحث مباحث ہو رہے ہیں اور جب یہ طے کیا جا رہا ہے کہ قوم جھوٹی ہے یا دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں...تب‘ سرحد پار بھارت میں مسلمان کس قیامت سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ہمیں اندازہ ہے نہ اندازہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے‘ اس لئے کہ ہم آزاد ہیں! یہ دہلی کا مضافاتی علاقہ ہے۔ ایک مسلمان کو ہجوم پیٹ رہا ہے۔ لاٹھیوں اور جوتوں سے مار رہا ہے۔ اس کے منہ‘ ناک اور کانوں سے خون بہنے لگا ہے۔ وہ ایک تبلیغی اجتماع سے واپس آیا ہے۔ حملہ آور کہہ رہے ہیں کہ یہ ''کورونا جہاد‘‘ میں ملوث ہے اور اُس سازش کا حصّہ ہے جس کے تحت بھارتی مسلمان ملک میں کورونا پھیلا رہے ہیں اور ایک منظم پلان کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ہجوم مارتا مارتا اسے ایک قریبی مندر میں لے جاتا ہے۔ یہاں اسے اور مارا پیٹا جاتا ہے اور مجبور کیا جاتا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرے۔ اس کے بعد ہی اسے ہسپتال جانے دیا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر مقامات پر مسلمانوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ انہیں ''کو...

ایک عقیدت مند کی گزارش

مولانا طارق جمیل صاحب نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ شاید رفعِ شر کے لیے۔ شاید انکسار کے سبب! غلطی کو تسلیم کرنا بڑائی کی علامت ہے۔ اس سے شان میں کمی نہیں‘ اضافہ ہوتاہے! اس میں کیا شک ہے کہ میڈیا نے قربانیاں دی ہیں۔ اس ملک میں صحافیوں نے جان کی بازی لگائی ہے۔ میڈیا کا ایک کردار ہے قومی تعمیر میں۔ سکینڈل بریک کرنے میں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکومتِ وقت کی جہاں حمایت ہوتی ہے وہاں اسی میڈیا پر حکومتِ وقت پر تنقید بھی ہوتی ہے جو آسان کام نہیں! اس میں پرنٹ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کا معیار ریٹنگ ہے۔ ریٹنگ کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سطح سے نیچے آنا پڑتا ہے۔ جبھی تو بعض ایسے افراد کو بھی اینکر حضرات اکثر و بیشتر انٹرویو کے لیے بلاتے رہتے ہیں جو متین کم اور مقبول زیادہ ہیں! رہی مولانا صاحب کی یہ بات کہ ساری قوم یا سارا معاشرہ ہی جھوٹا ہے تو انہوں نے وضاحت کر دی کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمومی رویہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ اس دورِ فتن میں بھی سچ بولتے ہیں اور بول رہے ہیں۔ یوں بھی کُلّیہ یہ ہے کہ جب ہم سو فیصد کہتے ہیں تو مراد نوے پچانوے فیصد ہوتی ہے اور...

وبا کے دنوں میں ٹرالی بیگ کی یاد

‎ٹرالی بیگ ڈھونڈ رہے تھے۔ ہم دونوں میاں بیوی ایک ایک بازار میں، ایک ایک دکان میں! چھوٹے سائز کا ٹرالی بیگ جو ایک تین سالہ بچے کے لیے موزوں ہو، مل نہیں رہا تھا! ‎ٹرالی بیگ کا شوق موصوف کا، اُس وقت سے ظاہر تھا جب مشکل سے دو سال کے تھے۔ جب بھی ایئر پورٹ پر جاتے، کسی نہ کسی مسافر کے ٹرالی بیگ کو دھکیلنا شروع کر دیتے۔ کچھ ماہ اور گزرے تو ہینڈل سے پکڑ کر کھینچنا شروع ہو گئے۔ سفر کے ارادے سے ہم گھر والے نکلنے لگتے تو ایک نہ ایک ٹرالی بیگ کے در پے ہو جاتے کہ اسے میں لے کر جائوں گا۔ ہلکا ہوتا تو کھینچ لیتے۔ بھاری ہوتا تو خوب زور لگاتے۔ ایئر پورٹ پر ایک بار یہ بھی ہوا کہ ایک مسافر کا ٹرالی بیگ پکڑا اور اسے چلاتے چلاتے کافی دور نکل گئے۔ مسافر کو پتہ چلا نہ ہم گھر والوں کو۔ جیسے ہی نظر پڑی، واپس لے آئے۔ مسافر سے معذرت کی تو وہ ہنس پڑا۔ ‎یہ شوقِ فراواں دیکھ کر ایک دن ہم دونوں نے باہمی مشورہ کیا کہ حمزہ کے لیے ایک چھوٹا ٹرالی بیگ ہونا چاہئے جو اس کا اپنا ہو، آسانی سے اِدھر اُدھر لے جا سکے۔ یوں شوق بھی پورا ہو اور ایک اعتبار سے اس کے کام بھی آئے!  ‎اس ارادے سے اُن دن گھر سے چلے۔ کہاں ملے گا؟ کوئی...

علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی خدمت میں ادب کے ساتھ

بات گھبرانے کی بھی ہے اور فخر کرنے کی بھی! یہ کیسا وقت آن پڑا کہ بے دینی اور اسلام دشمنی کی لہر‘ عالم اسلام تک آ پہنچی! دشمن کے ایجنٹ ہمارے ملکوں میں گھس آئے۔ کسی نے ایک لبادہ پہنا‘ کسی نے دوسرا! ہم پہچان ہی نہیں سکتے کہ کون کیا ہے! کورونا کے نام پر ترکی سے لے کر مصر تک‘ ایران سے لے کر مراکش تک‘ ہماری مسجدیں بند ہو گئیں اور تو اور علما نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ مسلمانوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ اذان میں حیَّ عَلی الصٰلواۃ کے بجائے صلوا   فی  بیوتکم کے الفاظ ادا کئے جا رہے ہیں۔ جامعہ ازہر مصر کی سپریم کونسل نے بھی فتویٰ دے دیا کہ نماز باجماعت اور نمازِ جمعہ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے! سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے بھی ہدایت کر دی کہ تراویح اور عیدالفطر کی نمازیں گھروں میں ادا کریں اور یہ کہ تراویح سنّت ہے فرض نہیں اور یہ کہ نبی اکرمﷺ تراویح کی نماز گھر پر بھی ادا فرماتے تھے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق سعودی علماء سپریم کونسل نے بھی مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ایسے ملکوں میں رہ رہے ہیں‘ جہاں کورونا کا حملہ جاری ہے تو وہ نماز اور تراو...

صدر اور وزیراعظم کا استحصال کیوں کیا جا رہا ہے؟

‎سردار جی ولایت سے ہو کر آئے تو مرچ مصالحہ لگا کر وہاں کی رنگینیوں کی خوب خوب داستانیں سنائیں۔ آخر میں کہا کہ معاملہ وہاں بھی وہی ہے جو یہاں لدھیانہ میں ہے۔ ‎اس حکومت میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو پہلے ہوتا آیا ہے ع ‎طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ‎تبدیلی کا خواب بکھر چکا۔ جڑیں تبدیل ہوئیں نہ تنا! وہی شاخیں‘ وہی زاغ و زغن! وہی برگ و بار! اس دیار کا بخت بھی عجیب ہے! گلاب دکھا کر دھتورا دیا جاتا ہے! عہد و پیمان بلبل سے ہوتا ہے آواز بُوم کی سنائی دیتی ہے!؎ ‎میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں ‎مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں ‎ایک وفاقی سیکرٹری گزشتہ ہفتے جس دن ریٹائر ہوئے‘ ٹھیک اسی دن ان کی نئی تعیناتی کے آرڈر جاری ہو گئے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر لگ گئے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ معمول کی سرکاری کارروائی ہے تو آپ کو حقیقتِ حال کا علم نہیں!  ‎فیڈرل پبلک سروس کمیشن وہ بلند ترین آئینی ادارہ ہے جو وفاقی حکومت کو نئے ملازمین مہیا کرتا ہے۔ سی ایس ایس کے تحریری امتحان‘ انٹرویو اور تمام مراحل کا مالک و مختار یہی ادارہ ہے! اس کے علاوہ بھی تمام وفاقی محکموں کی افرادی قوت کے لی...

ہمارے ملک کی انفرادیت قائم رہنی چاہئے

بغیر کسی سیاسی جرم کے یہ جو گھر میں نظر بندی (ہائوس اریسٹ) ہے اس سے دماغ پر اثر پڑ رہا ہے۔ بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آ رہیں! سوچ رہا ہوں‘ ڈاکٹر کے پاس جائوں یا کسی بابے کے پاس جو تعویذ دے اور پڑھ کر کچھ پھونکے۔ یہ محبت تو ہے نہیں کہ کوئی دوا، کوئی تعویذ، کوئی منتر کارگر نہ ہو! مختار صدیقی کہہ گئے ؎ پیر، فقیر، اوراد، وظائف اس بارے میں عاجز ہیں ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا یا یہ کہ؎ مسجد میں دیا جلا چکی میں تعویذ سب آزما چکی میں یہ محبت نہیں، روزمرہ کے مسائل ہیں جنہیں سمجھنے سے ذہن انکار کر رہا ہے۔ مثلاً یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ صدرِ مملکت کو وزیراعظم صاحب کوئی ڈیوٹی کیسے سونپ سکتے ہیں۔ صدر نے جو فرائض سرانجام دینے ہیں، وہ آئین میں درج کر دیئے گئے ہیں! اور یہ بات تو بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی جو صدرِ مملکت نے خود ارشاد فرمائی ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان نے مجھے بطور چیئرمین آئی ٹی ٹاسک فورس کے فروغ کا ٹاسک سونپا ہے‘‘ کیا صدر مملکت، وزیراعظم کے ماتحت ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کل زرتاج گل صاحبہ یا شفقت محمود صاحب کوئی ٹاسک وزیراعظم کو سونپ دیں! یعنی بازی بازی ب...

گریبان تو ہماری قمیضوں میں بھی لگے ہیں

آفرین ہے ہم مسلمانوں پر اور شاباش ہے ہم پاکستانیوں کو۔ کہ ان حالوں بھی‘ عبرت کا نشان نیو یارک اور لندن ہی کو قرار دے رہے ہیں۔ جیسے ہم خود دودھ سے دُھلے ہیں! وہ پانچ انگلیاں نظر نہیں آ رہیں جو ایک انگلی دوسروں کی طرف کرتے ہوئے‘ اپنی طرف ہوتی ہیں! یہ وقت خود احتسابی کا تھا! اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کا! اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کا! طعن و تشنیع کا نہ تھا! بہادر شاہ ظفر کہاں یاد آ گیا ؎ نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا خبر آئی ہے کہ بادشاہ جزیروں میں چلے گئے۔ خلقِ خدا کو ساحلوں کے اُس طرف چھوڑ کر۔ کہ تم جانو اور تمہاراخدا۔ ہم تو اپنے محلات میں بند ہوئے۔ استنبول میں موت ہوئی۔ یوں کہ جسم کے اعضا تک نہ ملے۔ ایسا کسی مغربی ملک میں ہوتا۔ اگر ہوتا۔ تو حشر سے پہلے حشر برپا ہو جاتا! لیکن ہم تو پکے بہشتی ہیں۔ پوتّر !! ہم جو کچھ کریں‘ درست ہے۔ سارے گناہ‘ تمام بدمعاشیاں بحرِ اوقیانوس کے مشرقی اور مغربی کناروں پر ہیں۔ ساری عیاشیاں بحرالکاہل کے ساحلوں پر ہیں۔ یہ عذاب بھی اُنہی پر آیا ہے! ؎ ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط...

کورونا کی جنگ… پانچ رکاوٹیں

کسی ملک کی صورت حال سمجھنا ہو تو اسے ایک خاندان تصوّر کیجیے! خاندان میں کوئی بیمار ہو جائے تو اصل ذمہ داری اس کے علاج و نگہداشت کی خاندان کے سربراہ پر پڑتی ہے۔ خاندان کے سربراہ پر یہی نہ واضح ہو کہ کس ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے‘ کس ہسپتال کا رخ کرنا ہے‘ ادویات کہاں سے لینی ہیں‘ پرہیز کیا کیا کرانی ہے‘ تو مریض کا‘ یوں سمجھیے اللہ ہی حافظ ہے! جس قدر بھی اس ضمن میں غور کیا جائے‘ وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی کہیں بھی واضح نہیں نظر آتی! اہم ترین فیصلہ یہ کرنا تھا کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں! کبھی یہ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا۔کبھی نیم دلی سے لاک ڈائون کرانے کی بات کی گئی‘ کبھی لاک ڈائون کے نقصانات کا ذکر کیا گیا۔ سب سے بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ دیہاڑی دار طبقہ کہاں سے کھائے گا؟ گویا دیہاڑی دار طبقے کو اُس موت کے منہ میں ڈال دیا جائے جو کوروناکے جلو میں چلی آ رہی ہے! بجائے اس کے کہ اس طبقے کو کورونا سے بچا کر‘ گھروں میں رکھا جائے اور خوراک وہاں پہنچائی جائے‘ اس طبقے کو مزدوری کے نام پر باہر بھیج دیا جائے۔ کورونا کا شکار ہوا تو دیہاڑی کا مسئلہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا! تادمِ تحریر‘ پوری دنی...

پارلیمانی طرزِ حکومت میں تو یہی کچھ ہوگا

بزرجمہر رپورٹ کے تجزیے کر رہے ہیں، سبسڈی کے لغوی اور اصطلاحی معنوں پر بحث کر رہے ہیں، پنجاب اور سندھ گورنمنٹ کے موازنے کر رہے ہیں، انڈیا کی سبسڈی کی مثالیں دے رہے ہیں۔ کبھی وفاقی حکومت کو الزام دے رہے ہیں‘ کبھی صوبائی کو! جبکہ مسئلے کی جڑ کہیں اور ہے! بیماری زیادہ خطرناک ہے۔ صرف خون کے ٹیسٹ سے نہیں، خون کے کلچر کیلئے بھی لیبارٹری والوں کوکہنا ہوگا! گزشتہ حکومت میں ایک بات ہر روز کہی جاتی تھی بلکہ ایک ایک دن میں یہ فرمان کئی بار یاد دلایا جاتا تھا کہ کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے نہ کرو! کہاں گئی آج یہ نصیحت؟ آج بھی کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے ہے، صنعت کاروں کی مٹھی میں ہے! آج اس فرمان کی یاد کسی کو نہیں آ رہی؟ کیوں؟ کیا یہ اصول کہ تاجروں کے حوالے کاروبارِ حکومت نہ کرو، صرف اُس وقت قابلِ عمل ہوگا جب سربراہ حکومت تاجر یا صنعتکار ہو؟ وزیروں، مشیروں کی اکثریت تاجروں پر مشتمل ہو تو سب ٹھیک ہوگا؟ ای سی سی سے لے کر شوگر بورڈ تک، سب وہی لوگ کرسیوں پر براجمان ہیں جن کے کارخانے ہیں، جن کی فیکٹریاں ہیں۔ جن کے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات ہیں! انسان ہیں! فرشتے نہیں! سوال یہ اٹھتا ہے کہ فیصلے...

بیچارہ ‘ ناکام ! شکست خوردہ

کل شام کو اس نے پیغام بھیجا کہ ملنا چاہتا ہے ۔ پہلے تو میں ڈرا کہ اس مکروہ شخصیت کی طرف سے یہ سندیسہ خطرے کی گھنٹی ہے‘ مگر پھر تجسس ہوا کہ آخر مجھے ہی کیوں یاد کیا ہے؛ چنانچہ دل کو مضبوط کیا اور مقررہ جگہ پر پہنچ گیا۔ تیاری میں نے پوری کی تھی ‘ ہاتھوں پر دستانے تھے ‘ منہ پر ماسک ‘ ریستوران کا جو گوشہ اس نے بتایا تھا وہاں اور کوئی نہ تھا‘ بیٹھا ہی تھا کہ السلام علیکم کی آواز آئی۔ پوچھا: کہاں سے بول رہے ہو‘ کہنے لگا: اس مسئلے میں نہ ہی پڑو تو تمہارے لیے بہتر ہے ۔ بہر طور تمہارے اطمینان کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ تمہاری میز سے چار میزیں چھوڑ کر جو میز ہے اس پر دھری پیالی کے دستے پر بیٹھا ہوں ۔ جس گاہک نے اس سے چائے پی اسے میں لاحق تھا‘ اس کے ہاتھ سے دستے پر منتقل ہوا ۔اور اب یہیں سے بات کر رہا ہوں۔  میرے خوف میں اضافہ ہوااور جھنجھلا کر کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اپنا مکروہ محل ِوقوع تو بتا دیا اب یہ بھی بتاؤ کہ مجھے تم نے کیوں بلایا ہے ؟ کیا لاحق ہونے کا ارادہ ہے ؟ نہیں ! ایسا کوئی ارادہ نہیں‘ تمہاری عمر پرترس کھائے دیتا ہوں ۔تمہارا نام نہاد تعلق چونکہ میڈیا سے ہے اس لیے تمہارے توسط سے اپنی ن...

مبارک ہو جناب وزیراعلیٰ، مبارک ہو

سب سے پہلا فون جو وزیراعلیٰ کو آیا وہ صدر ٹر مپ کا تھا! احساسِ کمتری کا یہ عالم تھا کہ صدر ٹرمپ سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہکلا ہکلا کر بول رہے تھے۔ مبارک باد دی۔ وزیراعلیٰ کی قسمت پر رشک کیا۔ ان کے خیال میں یہ واقعہ اپنی مثال آپ تھا۔ دوسرے ملکوں کے متعلق تو بقول صدر ٹرمپ، انہیں زیادہ معلومات نہ تھیں مگر کم از کم امریکہ کی اڑھائی سو سالہ تاریخ میں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد ٹیلی فون کالوں کی قطار لگ گئی۔ ہر بادشاہ، ہر صدر، ہر وزیر اعظم، ہر وزیر خارجہ مبارکباد دے رہا تھا۔ وزیراعلیٰ کے مجوزہ سرکاری اجلاس‘ کانفرنسیں، ملاقاتیں سب منسوخ کرنا پڑیں۔ بین الاقوامی سفارت کاری کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت سے رابطہ کیا گیا اور وزارت خارجہ کا ایک سینئر افسر مع عملہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں تعینات کرانا پڑا۔ تاریخ میں ایسے قابلِ فخر واقعات کم ہوئے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی اور بات ہے۔ عروج کے عہد میں دنیا بھر سے سفیر قسطنطنیہ میں واقع ''بابِ عالی‘‘ میں حاضر ہوتے تھے۔ خورجینوں میں قیمتی تحائف اور زربفت میں لپٹے مودبانہ خطوط! وہ زمانہ لد چکا۔ اب نیا زمانہ تھا۔ یہ قابلِ رشک مقام ...

The World is no more the Same

عبداللہ صاحب یاد آ رہے ہیں! یہ ملازمت کے درمیانی عرصہ (مِڈکیریئر) کی بات ہے۔ اگلی ترقی کیلئے تربیتی کورس لازم تھا۔ ساڑھے چار ماہ کا یہ تربیتی کورس کراچی کرنا تھا یا لاہور یا پشاور! اسلام آباد سے پشاور نزدیک ترین تھا؛ چنانچہ پشاور کا انتخاب کیا۔ اس میں قدرت کی مصلحت تھی۔ تربیتی کورس بھی ہو گیا‘ ترقی بھی مل گئی‘ مگر کورس کا اصل حاصل عبداللہ صاحب سے ملاقات تھی۔ وہ ان اکابر میں سے ہیں جن سے راہ و رسم زندگی کی راہیں تبدیل کر دیتی ہے؎ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں وہ ان رجالِ خیر سے ہیں جن سے مل کر زندگی گزارنا نہیں زندگی بسر کرنا آ جاتا ہے۔ ڈی ایم جی کے افسر رہے۔ ڈی ایم جی کے افسر تو بہت ہیں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے، مگر عبداللہ صاحب، سول سروس کے اس گروپ کیلئے خود باعثِ اعزاز تھے۔ ملازمت اپنے ڈھب سے کی۔ بے خوف اور بے نیاز ہو کر! فارسی شعروادب پر مکمل دسترس! انگریزی زبان کے غضب کے مقرّر! ہمارے تربیتی کورس کے دوران محمدعلی کلے نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ہمارے ادارے میں بھی آئے۔ عبداللہ صاحب نے تقریر کی۔ ایسی کہ سننے والوں کو یاد ہی نہ رہا ک...