سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
آج بھی مولانا طارق جمیل کی بالواسطہ مذمت میں ہمارے قابلِ احترام دوستوں کے دو کالم چھپے۔ مذمت نہ سہی، ان کے خلاف تو ضرور ہیں! کسی اور موضوع پر لکھنا تھا۔ ایک اور پے کمیشن تشکیل پایا ہے۔ کچھ معروضات اس کی خدمت میں پیش کرنا تھیں۔ دوست گرامی، سابق سفیر جناب جاوید حفیظ نے آج کے کالم پر بذریعہ فون تبصرہ کیا اور بہت قیمتی اشارات دیئے کہ شرقِ اوسط والوں سے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی امید رکھنا حقیقت پسندی کے خلاف ہو گا۔ مگر ان موضوعات پر کیا لکھنا! نیکو کاروں کی بستی میں ایک گنہگار پھنس گیا ہے۔ ہر ہاتھ نے دستانہ پہنا ہوا ہے۔ ہر ہاتھ میں سنگ ہے۔ ہر قلم کار رسّہ اٹھائے درخت کی شاخ تلاش کر رہا ہے جہاں گنہگار کو لٹکا دے۔ ساری اقلیم میں جیسے آگ لگ گئی ہے۔ ہر نیکو کار کی انا سے زخم رِس رہا ہے۔ مولوی طارق جمیل نے قوم کو جھوٹا کہہ دیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی نا انصافی کوئی نہیں! چھوڑنا نہیں! بچ کر نہ جائے! مولانا نے معافی مانگ لی۔ غیر مشروط معافی! کوئی دلیل دی نہ بحث کی! صرف اور صرف معافی! اس کے بعد متانت کا اور وضعداری کا اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ معاملہ ختم ہو جاتا مگر حملے اور مسلسل ح...