اشاعتیں

فروری, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

……خدا کے لئے یہ نیکر رہنے دو!

پہلے فرغل اُترا۔ پھر صدری! پھر کرتا اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد پاجامہ گیا۔ اب صرف زیر جامہ رہ گیا۔ یعنی نیکر! وہ جو اردو کو انگریزی حروف تہجی میں لکھنے پر مُصر ہیں یعنی رومن اردو! وہ اس نیکر کو بھی اتارنے پر تُلے ہوئے ہیں! خدا کے بندو! رحم کرو! اردو پر رحم نہیں کرتے تو قوم پر رحم کرو! کم از کم اپنے آپ پر تو کرو! اُن سے عبرت پکڑو جو تمہارے شمال میں ہیں اور تمارے شمال مغرب میں ہیں! اپنے آپ کو بے برگ و یار کیوں کرتے ہو؟ اپنی ٹہنیاں اپنے ہاتھوں سے کیوں کاٹتے ہو!انہی ٹہنیوں پر تو تمہارے آشیانے ہیں! اپنے آشیانے اپنے ہاتھوں سے نہ اجاڑو! اپنے بچوں کو‘ اپنی آنے والی نسلوں کو یوں بے گھر نہ کرو! حروفِ تہجی تمہارا گھر ہیں! سکرپٹ ہی تو ایک قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ آج تاشقند اور دو شنبہ‘ خجند اوربخا را‘ سمر قند اور استانبول‘ باکو اور قوینہ کے رہنے والے اپنے اجداد کی قبروں پر لکھے ہوئے کتبے تک نہیں پڑھ سکتے! وہ تو مجبور تھے۔ مقہور اور معتوب تھے! لینن اور سٹالن نے ان کی گردنوں پر پاؤں رکھے۔ کمال اتاترک کی خدمات بہت! گیلی پولی کا معرکہ اس کے سر کا تاج ہے تاہم جدیدیت کی دُھن میں اس نے حکماً اور ...

بیورو کریسی… وزیر اعظم کی خدمت میں چند گزارشات

یہ قصّہ اُن دنوں کا ہے جب سربراہ حکومت کا تعلق ملتان سے تھا۔ ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر صاحب کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر یعنی سفیر تعینات کر دیا گیا۔ ان پروفیسر صاحب کے والد گرامی ایک معروف سیاست دان تھے اور ڈھاکہ کے تھے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے ہنگامے میں وہ مرکز نواز قوتوں کے ساتھ تھے اور متحدہ پاکستان کے حامی؛ چنانچہ بنگلہ دیش حکومت کے نزدیک ناپسندیدہ شخصیت تھے۔ بنگلہ دیش انہی کے صاحبزادے کو بطور سفیر کیسے قبول کرتا؟ چنانچہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی! یہ ایک معمولی سی مثال ہے، اس حقیقت کی کہ ہماری حکومتیں، ہمارے سیاستدان، ہماری سیاسی جماعتیں، بیوروکریسی کے حوالے سے ہمیشہ کوتاہ بیں رہیں! دور اندیشی سے کوسوں دور! ذاتی، گروہی، علاقائی اور جماعتی مفادات، قومی مفاد پر غالب رہے۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی بیرون ملک تعیناتیوں کا مطالعہ کر لیجیے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ جو ڈپٹی کمشنر، ایس پی پروٹوکول ڈیوٹی کے تحت، وزیر اعظم یا صدر کو ہوائی اڈے پر رخصت کرتا رہا، یا اس کا استقبال کرتا رہا وہ بیرون ملک تعیناتی کے لیے منتخب ہوتا رہا۔ اسامی زراعت سے متعلق تھی ...

………ہر معاملے میں جوتے تلاش کرنے کا عمل

لکھنؤ کی اُس دعوت میں ایک سکھ مہمان بھی تھا۔ میزبان نے ملازم کو بلایا۔ رقم دی اور حکم دیا کہ جا کر بازار سے دہی لے آئو۔ ملازم جیسے ہی کمرے سے نکلا‘ میزبان نے کمنٹری شروع کر دی! کہ اب میرا ملازم کمرے سے باہر نکل کر جوتے پہن رہا ہے۔ اب حویلی سے باہر نکلا ہے۔ اب سامنے والی دکان سے دہی خرید رہا ہے۔ اب واپس آ رہا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہوا۔ اب صدر دروازے سے ہمارے اس کمرے کی طرف آ رہا ہے۔ اب اس نے جوتے اتارے۔ اور یہ لیجیے ‘ آ گیا۔ عین اسی لمحے ملازم کمرے میں داخل ہوا۔ اور دہی کا برتن مالک کی خدمت میں پیش کر دیا۔ سکھ مہمان‘ واپس پنجاب پہنچا تو اس نے بھی احباب کو دعوت پر بلایا۔ لکھنؤ کے نواب کی نقل میں اس نے بھی ملازم کو بلا کر دہی لانے کا حکم دیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی اس نے کمنٹری بھی اسی انداز میں شروع کی کہ اب باہر نکلا۔ اب جوتے پہن رہا ہے۔ اب بازار پہنچا ہے۔ اب دہی خرید رہا ہے۔ اب واپس آ رہا ہے۔ اب جوتے اتار رہا ہے۔ یہ لیجیے ‘ آ گیا۔ مگر ملازم کمرے میں نہ داخل ہوا۔ چند لمحے اور گزر گئے۔ سکھ نے غصّے میں بلند آواز سے پوچھا... اوئے کدھر مر گئے ہو؟ نوکر نے کمرے کے باہر سے جواب دیا... حضور! ابھی ...

دوسروں کی میزبانی پر کب تک انحصار کریں گے؟؟

آزاد ہے! افغانستان آزاد ہے! روسی ہار کر چلے گئے۔ امریکی شکست کھا گئے۔ نیٹو افواج نے دھول چاٹی۔ مجاہد اور غازی سرخرو ہوئے! آزاد ہے! افغانستان کے پہاڑ، افغانستان کی زمین، افغانستان کے کوہ و دشت، سب آزاد ہیں! رہے افغان! تو چالیس لاکھ تو پاکستان میں ہیں! لاکھوں دنیا کے دوسرے ملکوں میں! امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ جاپان سے لے کر کینیڈا کے مغربی ساحل تک‘ جہاں بحرالکاہل کے کنارے خوبصورت ترین بستیاں آباد ہیں۔ افغان بکھرے پڑے ہیں۔ ملک باشندوں سے ہوتے ہیں یا پہاڑوں، درّوں اور خالی مکانوں سے؟؎ زندگی حسنِ بام و در تو نہیں…… چند اینٹوں کا نام گھر تو نہیں مسجد نبوی کے شمالی کنارے پر، بڑے بڑے ہوٹل ہیں۔ ان میں بازار ہیں اور ڈیپارٹمنٹل سٹور۔ ایک نوجوان سے عطر کی سب سے چھوٹی شیشی کی قیمت پوچھی! وہ قندھار کا تھا۔ پوچھا واپس قندھار کب جا رہے ہو؟ کہنے لگا: کبھی نہیں! کبھی بھی نہیں! کیوں؟ وہاں کبھی امن نہیں ہو سکتا!!  پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کے چالیس سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس ''خوشی‘‘ میں ایک خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا! کانفرنس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور وزیراعظم پاکستان ن...

کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟

کوئی ہے‘ جو ہمیں ان قاتلوں سے بچائے؟ اس ملک کی زمین ان وحشیوں سے بھر گئی ہے۔ یہ درندے ہر طرف‘ ہر بستی‘ ہر شہر‘ ہر قریے میں دندنا رہے ہیں! انسان ان کے لیے گاجر مولی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے! زندگی‘ دوسروں کی زندگی‘ ان کے لیے ایک گیند ہے جسے یہ اچھالتے پھر رہے ہیں! کوئی نہیں جو انہیں روکے! ان کی موٹی گردنوں میں پٹہ ڈالے! یہ چوپایوں کی طرح ہیں‘ بلکہ ان سے بھی بدتر! اُولئک کالْاَنَعام! بَلْ ہُمْ اَضَلَ ! چوپائے تو پھر بھی انسانوں پر رحم کر جاتے ہیں۔ بعض تو ان کی جان بچاتے ہیں۔ بلیاں چھوٹے بچوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ کتے جان چھڑکتے ہیں۔ گھوڑا کبھی اُس گھر کا راستہ نہیں بھولتا جہاں اس کا مالک اسے چارہ اور دانہ ڈالتا ہے۔ کبوتر فضاؤں میں دور تک جاتے ہیں مگر سرِ شام اپنے ٹھکانے پر‘ اپنے مالک کے حضور‘ پہنچ جاتے ہیں! مگر اس ملک کے لوگوں کا واسطہ جن وحشیوں سے پڑا ہے‘ وہ جانوروں سے بدتر ہیں! قانون ان کے لیے اُس مٹی کے برابر ہے ‘جو ان کے جوتوں کے نیچے لگی ہے! انسانیت کا ان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا جنگ کے دوران دشمن فوج کے سپاہی کا ہوتا ہے۔ رحم کا لفظ ان کی لغت میں موجود نہیں! کوئی ہے جو ہمیں ان قاتلوں س...

ہنگامہ ہے کیوں برپا

بات کا آغاز دادا خان نوری سے کرتے ہیں۔ 1992ء میں جب سوویت یونین کا انہدام ہوا اور ترکستان کی ریاستیں آزاد ہوئیں تو جو پاکستانی پہلے پہل وہاں پہنچے ان میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا۔ معروف صحافی مختار حسن مرحوم نے دادا خان نوری سے ملنے کے لیے کہا۔ تاشقند پہنچ کر مشہور ہوٹل چار سو قیام کیا۔ شہر کی سیر کی اور فارغ ہوا تو دادا خان نوری کو تلاش کیا۔ وہ اس وقت ازبکستان یونین آف جرنلسٹس کے اہم عہدیدار تھے اور بطور ادیب جانی پہچانی شخصیت تھے۔ اس کے بعد وہ کئی بار پاکستان آئے۔ اکثر و بیشتر قیام، غریب خانے ہی پر ہوتا۔ ان دنوں میں جناب اسداللہ محقق کے حضور، انفرادی طور پر، ازبک زبان سیکھ رہا تھا۔ استاد اسداللہ محقق، نمل (نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز) میں تاجکی پڑھا رہے تھے۔ ہفت زبان تھے۔ ازبک مادری زبان تھی۔ روسی، پشتو، فارسی، اردو اور عربی پر عبور تھا۔ دو سال ان سے ازبک پڑھتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد وہ افغانستان واپس چلے گئے۔ سننے میں آیا کہ وہ رشید دوستم کے ایڈوائزر رہے۔ واللہ اعلم۔ ان کی واپسی کے بعد ان سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہو سکا! ایک بار، دادا خان نوری جب غریب خانے پر قیام فرما تھے تو چند دو...

عمر کٹ جائے آنے جانے میں

یہ میری آنکھیں مُند کیوں رہی ہیں؟ یہ خون میں لرزش سی کیوں ہے؟ یہ رگوں میں لہو ہے یا مشعلیں جل رہی ہیں؟ یہ راستہ جس پر گاڑی دوڑ رہی ہے، کیا وہی ہے جس پر اونٹنی اِس کائنات کے مقدس ترین سوار کو لے کر چلی تھی؟ ہمارا کوچوان بتاتا ہے کہ یہ وہی راستہ ہے! یہ رخسار بھیگ کیوں رہے ہیں؟ یہ راستہ ہے یا نور کی لکیر ہے! ہم یہاں رینگ رینگ کر کیوں نہیں چل رہے! ہم ایک ایک کنکر کو، مٹی کے ایک ایک ذرے کو چوم کیوں نہیں رہے! وہ آٹھ دن کا سفر تھا۔ دو بے یار و مددگار راہِ ہجرت کے مسافر اور ایک بدرقہ! چشمِ فلک نے ایسا قافلہ اس سے پہلے دیکھا نہ اس کے بعد! پندرہ صدیاں ہو چکیں۔ کھرب ہا کھرب زائرین اس قافلے کے تتبّع میں، مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ کا سفر کر رہے ہیں۔ قیامت تک کرتے رہیں گے! دنیا کی کوئی لغت، فنونِ لطیفہ کی کوئی صنف، اظہار کا کوئی ذریعہ، ابلاغ کا کوئی ڈھنگ، اُن جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکتا جو زائر کے دل میں اُس وقت ابھرتے ہیں جب وہ مدینۃ النبی میں داخل ہوتا ہے۔ مدینۃ النبی! جس کے درختوں پر پرندے آسمانی ہیں! جس کے کوچوں میں کنکر ہیرے اور پتھر موتی ہیں! جس کی ہوائیں بہشتی ہیں۔ جس کی فضا جنت کو چھو ...

…گلہ جو حرم کو اہلِ حرم سے ہے

جس شہر کو جہانوں کے پروردگار نے آخری رسولﷺ کی ولادت کے لیے منتخب کیا‘ اس میں آج تیسرا دن ہے! ہوا نرم اور لطیف ہے‘ موسم سرد نہ گرم! فضا خوشگوار ہے‘ دل کو طمانیت بخشنے والی! نمازِ فجر کا حرم کی آخری چھت پر اپنا ہی لطف ہے۔ میٹھی میٹھی خنکی! بغیر بازوؤں کا سویٹر پہن لیا جائے تو یہ لطف زیادہ ہو جائے! پھر جوں جوں دن چڑھتا ہے‘ ٹمریچر بڑھتا ہے یہاں تک کہ ظہر کے وقت 27کے لگ بھگ ہو جاتا ہے! مسجد الحرام ایک دنیا ہے! دنیا سے الگ ایک اور دنیا۔ اندر کی آنکھ کھلی ہو تو بہت کچھ دکھائی دیتا ہے۔ وہ نوجوان عورت جو اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ کھڑی زار و قطار رو رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار‘ سامنے بیت اللہ دیکھ کر‘ جذبات قابو میں کم ہی رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہی ہوا۔ ہچکی بندھ گئی! پھر اس کے باپ نے اس کے کاندھے پر دستِ شفقت رکھا اور باپ بیٹی مطاف کی طرف چل پڑے۔ وہ نوجوان جو بوڑھے باپ کی ویل چیئر دھکیل رہا تھا۔ وہ عرب عورت جو جاتے جاتے مسجد کے ملازم کے ہاتھ میں کچھ رقم پکڑا گئی تھی! پانچ چھ برس کا وہ بچہ جو احرام میں ملبوس ایک اور ہی مخلوق لگ رہا تھا۔ وہ بڑھیا جس کی کمر کمان کی طرح دُہری تھی اور طواف کیے جا رہی تھی...

کئی موسم گزر گئے مجھ پر احرام کے ان دو کپڑوں میں

''کوئی تکلیف‘ کوئی مسئلہ‘ کوئی پرابلم ہے تو بتائیے! کچھ چاہیے ہو تو حکم کیجیے۔‘‘ ہمارے دوست عامر شہزاد نے پوچھا۔عامر طویل عرصہ سے اس شہر میں رہائش پذیر ہیں‘ جہاں حضرت عبدالمطلب نے خدا کے گھر کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے‘ حملہ آور سے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا! “شکریہ عامر بھائی! حرم کے بغلی کوچے میں قیام ہو‘ طواف اور سعی کی سکت ہو‘ پینے کے لیے زم زم ہو‘ کھانے کے لیے سکری کھجور‘ ہرے اور سیاہ زیتون اور طباشیر کے رنگ کا سفید براق پنیر ہو تو کم از کم اس زندگی میں اور کیا چاہیے!‘‘ انسان حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا ہے جب آنکھوں کے سامنے ابراہیمؑ کی دعا کی قبولیت کے مناظر دیکھتا ہے! پیغمبر کا معجزہ! ایسا معجزہ نہیں جو صرف آسمانی یا تاریخی کتابوں کے صفحات میں بند ہو! یہ زندہ معجزہ ہے! سامنے برپا ہوتا ہوا! رات دن برپا ہوتا ہوا۔ اس ''وادِِ غیرِ ذِیْ زَرعٍ‘‘ میں‘ اس وادی میں جہاں کھیتی ہے نہ روئیدگی‘ دنیا کی کون سی نعمت ہے جو موجود نہیں! رزق کی افراط‘ اشیائے خوردنی کی بہتات! مالِ تجارت کی ایسی کثرت ہے کہ جس طرح گلیاں اور بازار خلقِ خدا سے چھلک رہے ہیں‘ اسی طرح مال و اموال س...

ہماری آہنی ضرب

دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے لیے یہ ایک نیا پیغام تھا! اچھوتا! جس نے بھی سنا تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا! جسے معلوم ہوا اش اش کر اٹھا۔ تعریف کی۔ ہماری ذہانت اور فطانت کو تسلیم کیا۔ ہمارے دوست چین کو معلوم ہوا تو وہ حیران رہ گیا۔ تائیوان کے حوالے سے ایسی ترکیب اس کے ذہن میں کبھی نہ آ سکی! ہمارے ذہنِ رسا پر اس نے رشک کیا۔ داد و تحسین کے سفارتی پیغام بھیجے! فلسطینیوں نے سنا تو دنگ رہ گئے! وہ بھی ایسا کرتے تو اب تک اسرائیل پارہ پارہ ہو چکا ہوتا۔ یہودی بستیاں نابود ہو چکی ہوتیں! یروشلم پر مسلمانوں کا علم لہرا رہا ہوتا! دنیا بھر میں بکھرے ہوئے فلسطینیوں کا سیروں خون بڑھ جاتا! فلپائن کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک ستارہ تھا! صبح کا ستارہ! روشنی کا پیغام! مورو ایک مدت سے جدوجہد کر رہے تھے مگر کبھی نہ سوچا کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ نسخۂ کیمیا بھی موجود ہے! یہ تو مسلمانوں کی تحریکیں تھیں! غیر مسلموں نے بھی اس جدید، اچھوتی، تدبیر کو آزمانے کا سوچا۔ سکاٹ لینڈ والے اکثر و بیشتر، برطانیہ سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ علیحدہ سکاٹ لینڈ کی تحریک چلانے والے سیاست دانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی ...

مجرم ریاست ہے یا شہری؟

نئے سال کی ڈائری خریدنا تھی۔ اس کے لیے بازار گیا تو یہ واقعہ پیش آیا۔ اب تو یہی ہے کہ گھر ہی سے نہ نکلا جائے۔ گوشۂ عافیت میں بیٹھے رہیں تو ان تھپیڑوں سے بچ جائیں جو باہر نکل کر‘ دائیں بائیں سے پڑتے ہیں! چند دن ہوئے ایک دوست سے پوچھا کیسی گزر رہی ہے! کہنے لگے ریٹائرڈ لائف سے لطف اندوز ہو رہا ہوں! سُن کر تعجب ہوا۔ کہا‘ تم تو پابندیٔ وقت اور دیگر اصولوں کے حوالے سے سخت اور طبعاً ''انگریز‘‘ واقع ہوئے ہو! تو اس معاشرے میں جہاں کوئی اصول ہے نہ پابندیٔ وقت جیسی کوئی چڑیا‘ لطف اندوز کیسے ہو رہے ہو؟ اُس نے جواب میں جو فارمولا بتایا اسے سن کر چودہ طبق روشن ہو گئے! کہنے لگا‘ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اپنے آپ کو اچھی طرح سمجھا لیتا ہوں کہ میاں! اب تیار ہوجاؤ! ٹریفک کی چیرہ دستیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ دکاندار بدتمیزی کریں گے‘ ہر شخص جھوٹ بولے گا۔ قطار میں کھڑے ہو گے تو کوئی آ کر قطار بندی کی ایسی تیسی کر دے گا پھل والا چن چن کر خراب پھل ڈالے گا۔ گاڑی پارک کرنے لگو گے تو زُوں سے ایک اور گاڑی آ کر وہاں کھڑی ہو جائے گی۔ دکان سے باہر نکلو گے تو تمہاری گاڑی کے عین پیچھے کوئی اور گاڑی کھڑی ہ...

اونٹ کے ساتھ کوہان تو ہو گی

اُس بچے کی کہانی ہم سب نے بارہا سنی ہے جس کی دعوے دار دو عورتیں تھیں۔ دونوں ماں ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ منصف نے فیصلہ کیا کہ بچے کو کاٹ کر دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، تاکہ دونوں کو ایک ایک حصہ مل جائے۔ ایک نے فیصلہ مان لیا۔ دوسری نے کہا کہ خدا کے لیے ایسا نہ کرو‘ سارے کا سارا بچہ دوسری عورت ہی کو دے دو! یہی اصل ماں تھی! حزبِ اختلاف کی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ چین میں موجود طلبہ کو واپس لایا جائے۔ یہ حُبِّ علی نہیں، بغضِ معاویہ ہے! اگر حزبِ اختلاف ان طلبہ سے سچی ہمدردی رکھتی تو یہ مطالبہ کبھی نہ کرتی۔ حکومت کا فیصلہ، کہ یہ طلبہ چین ہی میں رہیں گے اور اس مرحلے پر واپس نہیں آئیں گے، ایک صائب فیصلہ ہے! جس ملک میں پولیو ٹیموں کے عملے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا جائے، اُس ملک کی مجموعی فضا کا اندازہ کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! ہم کسی بھی ایمرجنسی کے لیے کبھی تیار نہیں پائے گئے۔ سیلاب کو لے لیجیے۔ ہر سال آتے ہیں اور ہر سال ہمارا وہی حال ہوتا ہے جو پہلے سال تھا۔ کوئی پیش بندی کبھی نہیں ہوئی۔ ہاں حکمران فوٹو سیشن کا اہتمام کراتے رہے۔ پانی کا مسئلہ دیکھ لیجیے! کتنے ڈیم بنے؟ ح...