خوش آمدید
سچ کہتے ہو! ہم ایسے تو نہ تھے! ہم کبھی ایسے نہ تھے! ہم نے تو ہجرت کر کے آنے والوں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ہمارے گھروں کی دیواروں پر یہ شعر کندہ ہوتا تھا؎ درین خانہ ہر کس کہ پا می نہد قدم بر سر و چشمِ ما می نہد کہ اس گھر میں جو کوئی قدم رکھتا ہے، وہ قدم زمین پر نہیں، ہمارے سر اور ہماری آنکھوں پر رکھتا ہے۔ ہم نے ہجرت کر کے آنے والوں کو کب خوش آمدید نہیں کہا۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے بھائی آئے تو ہم نے کھلی باہوں سے استقبال کیا۔ یہاں تک کہ محکموں کے محکمے ان کے سپرد کر دیئے۔ ریلوے اور پوسٹل کے شعبوں میں انہی کی اکثریت تھی! جائیدادیں خریدیں! بستیاں بسائیں! آبادیوں کی آبادیاں انہی کے نام تھیں! مغربی پاکستان میں ہجرت کر کے آنے والوں کو ہم نے دلوں میں بسایا، آنکھوں پر بٹھایا۔ رشتے گانٹھے! محبتیں تقسیم کیں! یہاں تک کہ من تو شدم تو من شدی کی صورتِ احوال کو عملاً رائج کیا! تم بھی ہمیں بہت عزیز ہو! تم ہمارے مہمان ہو! اے مہاجر پرندو! اے ہمارے صحرائوں میں پناہ لینے والے مسافرو! اے ہماری جھیلوں کے کنارے اترتے ننھے فرشتو! ہم تمہیں صدقِ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں! ہم تم سے پیار کرتے ہیں! یہ تم...