اشاعتیں

جنوری, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خوش آمدید

سچ کہتے ہو! ہم ایسے تو نہ تھے! ہم کبھی ایسے نہ تھے! ہم نے تو ہجرت کر کے آنے والوں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ہمارے گھروں کی دیواروں پر یہ شعر کندہ ہوتا تھا؎ درین خانہ ہر کس کہ پا می نہد قدم بر سر و چشمِ ما می نہد کہ اس گھر میں جو کوئی قدم رکھتا ہے، وہ قدم زمین پر نہیں، ہمارے سر اور ہماری آنکھوں پر رکھتا ہے۔ ہم نے ہجرت کر کے آنے والوں کو کب خوش آمدید نہیں کہا۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے بھائی آئے تو ہم نے کھلی باہوں سے استقبال کیا۔ یہاں تک کہ محکموں کے محکمے ان کے سپرد کر دیئے۔ ریلوے اور پوسٹل کے شعبوں میں انہی کی اکثریت تھی! جائیدادیں خریدیں! بستیاں بسائیں! آبادیوں کی آبادیاں انہی کے نام تھیں!  مغربی پاکستان میں ہجرت کر کے آنے والوں کو ہم نے دلوں میں بسایا، آنکھوں پر بٹھایا۔ رشتے گانٹھے! محبتیں تقسیم کیں! یہاں تک کہ من تو شدم تو من شدی کی صورتِ احوال کو عملاً رائج کیا! تم بھی ہمیں بہت عزیز ہو! تم ہمارے مہمان ہو! اے مہاجر پرندو! اے ہمارے صحرائوں میں پناہ لینے والے مسافرو! اے ہماری جھیلوں کے کنارے اترتے ننھے فرشتو! ہم تمہیں صدقِ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں! ہم تم سے پیار کرتے ہیں! یہ تم...

اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ

کیا آپ نے کسی ایسی یونیورسٹی کا نام سنا ہے جس میں فزکس کا استاد جغرافیہ پڑھا رہا ہو، جغرافیے کا استاد انگریزی ادب پر لیکچر دیتا ہو، سنسکرت کا ماہر عربی زبان پڑھاتا ہو اور اقتصادیات کا پروفیسر مصوری کا درس دیتا ہو! دنیا میں شاید کہیں بھی ایسا تعلیمی ادارہ نہ ہو! ماضی میں نہ حال میں! مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں! اس لیے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا!  مگر ایسا ہمارے ہاں ہو رہا ہے! وزیر اعظم کی کابینہ کو اگر ادارہ مان لیا جائے، جو کہ حقیقت میں ادارہ ہی ہے! تو اس ادارے میں بالکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جو کام پوری دنیا میں نہیں ہوتا وہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ یہاں ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک زمانے میں یہ کالم نگار، بسلسلہ مزدوری مرکزی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا! ایک وفد جاپان بھیجنا تھا۔ دو نام موقع اور کام کی مناسبت سے جاپانی سفارت خانے کو بھیجے گئے۔ پراسیس کافی لمبا تھا۔ سفارت خانے نے یہ نام اپنی حکومت کو ارسال کیے۔ وہاں کئی مراحل سے گزر کر یہ نام فائنل ہوئے۔ جب روانگی میں کچھ ہی دن باقی تھے تو ہمارے وزیر (وزیر ثقافت) نے نادر شاہی حکم دیا کہ ایک نام تبدیل کر کے ایک اور صاحب کا نام بھیجا جائے۔ وزیر صاح...

نہیں! ڈاکٹر عشرت حسین صاحب! نہیں

ہمارے ایک دوست کے صاحبزادے نے اسلام آباد کے مضافات میں دو کنال کا قطعۂ زمین خریدا۔ تعمیر شروع ہوئی تو صاحبزادے ملک سے باہر جا چکے تھے۔ بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے لیے مالک کے دستخط کئی دستاویزات پر ضروری تھے۔ اس کا آسان حل والد نے یہ سوچا کہ قطعۂ زمین، بیٹے کے نام سے اپنے نام پر منتقل کرا لیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت کی کچہری میں گئے۔ یہ کالم نگار ساتھ تھا! متعلقہ عملے نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے لگیں گے! اس پر وضاحت کی کہ زمین کا یہ ٹکڑا اس وقت خریدا ہے نہ کوئی کمرشل سرگرمی ہے، بیٹے کے نام سے باپ کے نام پر منتقل کرانا ہے۔ پچیس ہزار روپے کس بنیاد پر؟ کیا اس کی رسید ملے گی؟ عملے میں جو نسبتاً سینئر کھڑپینچ تھا، اس نے ایک ادائے حاکمانہ سے جواب دیا کہ ''ریٹ‘‘ بتا دیا ہے‘ انتقال کرانا ہے تو کرا لیجیے، نہیں کرانا تو نہ کرائیے۔ ہم لوگ واپس آ گئے۔ دوسرے دن متعلقہ افسر (غالباً ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو) کو فون کیا۔ ان کے معاون (پی اے) نے ''تفتیش‘‘ کی۔ گریڈ پوچھا، تسلی کی کہ ''سائل‘‘ کس عہدے پر فائز ہے‘ پھر اپنے افسر سے بات بھی کرائی، ان کا موبائل فون بھی عنایت کیا۔ افسر...

اتحادیوں کے غمزے عشوے

‎سوال یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کو حکومت گرا کر حاصل کیا ہوگا؟ ‎اس امر کا امکان صفر ہے کہ عمران خان ''اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے راضی ہوں گے۔ ہار ماننا ان کی سرشت میں نہیں! اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائیں گے۔ اس صورت میں کیا ضمانت ہے کہ اتحادی جماعتوں کو پھر اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی؟ کیا خبر کون نئی حکومت بنائے گا! یہ بھی ممکن ہے کہ اتحادیوں کو اِس وقت جو کچھ حاصل ہے‘ نئے انتخابات کے بعد اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں! ‎مسلم لیگ ق اس وقت کسی گھاٹے میں نہیں! پنجاب عملاً اُس کی جیب میں ہے۔ پرویز الٰہی صرف صوبائی اسمبلی کے  ‎سپیکر ہی نہیں‘ اور بھی بہت کچھ ہیں! پنجاب کی بیورو کریسی سے ان کے دیرینہ روابط تازہ ہو گئے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ناصر درانی اگر اُس وقت پیش منظر سے غائب نہ بھی ہوتے تو قاف لیگ کی موجودگی میں پنجاب بیورو کریسی کا رُخ وہ مقصدیت کی طرف کبھی نہ موڑ سکتے اور کچھ عرصہ بعد اپنی ناکامی کے پیش نظر ہٹ جاتے۔ ایک کمزور اور غیر مؤثر وزیراعلیٰ قاف لیگ کی لیڈر شپ کو خوب راس آ رہا ہے۔ رہا وفاق تو اگرچہ ایک ہی وزارت ان کے پاس ہے ‘مگر وہ وزارت ...

ظلِّ الٰہی

فاتحہ پڑھ کر قبرستان سے نکل رہا تھا کہ ایک مخنی سی آواز نے چونکا دیا ''مجھے بھی ساتھ لے چلو‘‘۔ حیران ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک قبر بالین سے کھلی ہوئی تھی۔ ایک مردہ اندر سے جھانک رہا تھا۔ اُس کے سر پر تاج تھا۔ کتبہ دیکھا تو محمد شاہ رنگیلا کا نام لکھا تھا۔ میں فوراً کورنش بجا لایا اور عرض گزار ہوا۔ ''عالی جاہ! جو حکم آپ کا‘‘۔ آپ باہر نکلے۔ چغہ درست کیا۔ فرمانے لگے ''بھائی! مرے ہوئے دو اڑھائی سو سال ہو گئے‘ سوچا تمہاری دنیا دیکھ آئیں! سنا ہے بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہمارے زمانے میں نہیں تھا۔ سنا ہے سڑکوں پر دوڑنے والی مشینیں ہیں‘ ہوا میں اڑن کھٹولے ہیں! نام و پیام سمندر پار والوں سے بھی کرنا ہو تو چند ثانیے لگتے ہیں! متحرک تصویروں والا ڈبہ ہر گھر میں موجود ہے‘ جس سے آوازیں بھی نکلتی ہیں!‘‘ ظلِّ الٰہی کو لیے گھر آیا۔ تمام اہلِ خانہ نے جھُک کر فرشی سلام کیے۔ آپ لائونج میں صوفے پر تشریف فرما ہوئے‘ سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔ ٹک ٹاک لڑکیوں کا شہرۂ آفاق پروگرام آن ائر تھا۔ بادشاہ سلامت نے پوچھا؛ بھئی یہ کیا قصہ ہے؟ نہ چاہتے ہوئے بھی سارا قصہ سنانا پڑا۔ حکمِ حاکم تھا۔ کیا کرت...

اب گاؤں میں بھی کیا رہ گیا ہے

بہت دنوں بعد گائوں جانا ہوا۔ زخم ہرے ہو گئے! پپڑی جمے زخموں کو ناخن سے کھرچنے میں جو درد انگیز لذت نصیب ہوتی ہے، وہ ملی! ؎ نہ پوچھ حال مرا، چوبِ خشکِ صحرا ہوں لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا قحط الرجال کا یہ عالم ہوا ہے کہ ہم جیسے بھی بزرگوں میں شمار ہونے لگے! کم ہی افراد گائوں میں رہ گئے ہیں جنہیں ہم چاچا یا ماما کہہ سکیں! ہمارے پڑوسی حاجی محمد ایک سو چار برس کی عمر پا کر کوچ کر گئے۔ گائوں کے واحد وکیل ملک عبداللہ رخصت ہو گئے۔ ہم فاتحہ خوانیوں کیلئے رہ گئے!  رخصت تو بہت کچھ ہو گیا۔ وہ گائوں ہی نہ رہا جس میں‘ میں پلا بڑھا تھا۔ وہ دستار پوش، تہمد باندھنے والے گم ہو گئے جو راتوں کو چراغوں کی روشنی میں رقص کرتے تھے۔ جو راتوں کو کسی خوف کے بغیر سفر کرتے تھے۔ گھڑ سواری کے ماہر تھے۔ بھاگتے ہوئے گھوڑوں پر، نیزوں سے کھونٹے یوں اکھاڑ لیتے تھے جیسے بجلیوں کا سفر ہو۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا۔ جو ایک ایک ہاتھ سے دو دو سرکش بیلوں کی رسیوں کو کمانڈ کرتے تھے ، جو اس قدر تیز چلتے تھے کہ ہم جو اس وقت نوجوان تھے، ان کا ساتھ نہ دے سکتے! وہ دادیاں، نانیاں، پُھپھیاں، ماسیاں قبروں میں جا لیٹیں جو راہ ...

دھکّا کس نے دیا تھا؟

کیا آپ کو معلوم ہے چمگادڑ آرام کیسے کرتی ہے؟ یہ آرام کرنے کے لیے سر کے بل لٹکتی ہے۔ پنجے بناوٹ میں ایسے ہوتے ہیں کہ درختوں کی شاخوں میں پھنس جاتے ہیں۔ یوں یہ پاؤں اوپر اور سر نیچے کر کے گھنٹوں، بلکہ پہروں، محوِ استراحت رہ سکتی ہے! اُلّو رات کو جاگتا ہے۔ ہمارں ہاں اُلّو نحوست کی علامت ہے اور مغرب میں دانائی کی! یہ دن کو سوئے نہ سوئے رات کو بیدار ضرور رہتا ہے۔ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور صبح کو چست اور ایکٹو رہنے سے معذور ہیں انہیں ''نائٹ آؤل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اقبال نے اُلّو کو رات کا شہباز کہا ہے ؎ معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز حیرت ہے کہ کچھ لوگ چمگادڑ سے یہ امید باندھے تھے کہ یہ آرام کرتے وقت الٹا لٹکنا چھوڑ دے گی۔ درخت سے نیچے اترے گی اور بیڈ روم میں جا کر مسہری پر، اسی طرح سوئے گی جیسے آدم زاد سوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کر سکی تو کم از کم درخت کی ٹہنی پر سیدھا بیٹھ کر آرام کرے گی۔ اُلّو سے وہ یہ توقع کر رہے تھے کہ رات کو جاگنا ترک کر دے گا۔ سحر خیزی اپنائے گا اور شرفا کی طرح رات شروع ہوتے ہی سو جائے گا۔ یوں محاورہ تبدیل ہو کر اس طرح ہو...

یہ خود اعتمادی ہے یا …؟

یہ محلّے کا عجیب و غریب گھر تھا۔ ایسا عجیب و غریب کہ ایک چیستان سے کم نہ تھا۔ گھر کے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر تھے۔ گزر بسر قرضوں پہ ہوتی یا خیرات سے! ایک قرضہ اتارنے کے لیے دوسرا قرضہ لینا پڑتا اور دوسرا قرضہ اتارنے کے لیے تیسرے قرضے کا اہتمام کرنا پڑتا۔ کبھی مٹی کے تیل کا کنستر کوئی صدقے میں لا دیتا۔ کبھی یہ کہہ کر کوئی گھی کا ڈبہ دے دیتا کہ رقم بعد میں دے دینا۔ اس سب کچھ کے باوجود گھر والے گلے میں پستول حمائل کیے رکھتے اور کمر کے گرد گولیوں بھری پیٹی کسی رہتی۔ محلّے میں وقعت صفر کے برابر تھی مگر جب محلّے کے دو بڑے خاندانوں میں جھگڑا ہوتا تو اس عجیب و غریب گھر والے صلح صفائی کرانے آگے آگے ہوتے۔ یہ اور بات کہ کوئی ان پر توجہ دیتا نہ ان کی کسی بات کی کوئی اہمیت ہوتی! یہ خود ساختہ چودھری تھے! ان پر پنجابی کی وہ ضرب المثل صادق آتی تھی۔ شملہ بڑا ہے۔ دستار کو کلف لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف گھر میں بیوی بھوک سے ایڑیاں رگڑ رہی ہے! کیا عملی زندگی میں ایسا ہوتا ہے یا اُوپر بیان کی گئی صورت حال محض تصوراتی ہے؟ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک یہ ایک خیالی اور فرضی تصویر ہو مگر کل کا بیان پڑھ کر یقین ہو گیا...

تنویر آغا

وفاقی سیکرٹری خزانہ تو وہ بعد میں بنا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عالی مرتبت منصب پر اس کا فائز ہونا تو ماضی قریب کا واقعہ ہے، میرا دوست وہ پہلے سے تھا۔ بہت پہلے سے ع نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں 1971ء کا دسمبر تھا، جب میں سی ایس ایس کے امتحان کے نتیجہ میں سیکشن افسر تعینات ہو کر ٹریننگ کے لیے کراچی پہنچا۔ اُن دنوں مقابلے کا یہ امتحان واقعی مقابلے کا امتحان ہوتا تھا۔ صرف کراچی، لاہور اور لندن امتحانی مراکز تھے۔ عمر کی حد پچیس برس تھی۔  قیام کے اوائل میں ایک دن طبیعت بہت بجھی بجھی سی تھی۔ پنجاب سے کوئی کراچی جائے تو شروع میں وہاں کے سخت رطوبت زدہ موسم کی وجہ سے اس پر اضمحلال کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اعضا شکنی کا عالم اور بخار کی سی حالت! ابھی رفقائے کار سے دوستیوں کی بنیاد نہیں پڑی تھی۔ بس اتنا معلوم تھا کہ یہ تنویر آغا ہے اور تربیت میں ہمارا ساتھی ہے۔ کہنے لگا: اظہار‘ کیا حال ہے؟ کہا: کیفیت عجیب سی ہے‘ سوچ رہا ہوں نوکری چھوڑ کر واپس اسلام آباد چلا جائوں۔ کہنے لگا: میرے ساتھ آئو! وہ جمشید روڈ پر اپنے گھر میں رہتا تھا۔ وہیں لے گیا۔ اپنی امی جان سے ملوایا۔ پھر ...

وزیراعظم کا پورٹل۔ نوکر شاہی کا نیا فٹ بال

دوست عزیز رؤف کلاسرا نے اسلام آباد کی بربادی پر نوحہ خوانی کی ہے۔ یہ فقیر بھی کئی بار سینہ کوبی کرچکا ہے۔ لارڈ کلائیو اور وائسرائے کرزن کی ذہنیت رکھنے والے بیورو کریٹ اسلام آباد کی تقدیر کے مالک و مختار ہوں گے تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں! وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اس اُوپر سے کالی اور اندر سے گوری نوکر شاہی کا نیا شکار ہے۔ اسے یہ فٹ بال کی طرح ٹھوکریں مارر ہے ہیں۔ کم درجے کے اہلکاروں کے لیے تو یہ پورٹل ہو سکتا ہے مؤثر ہو‘ مگر جن کے ہاتھوں میں اصل اقتدار ہے‘ وہ اس پورٹل کے ساتھ یوں کھیل رہے ہیں جیسے حکومت نہ ہو بازیچہ ہو! اس حقیقت میں کیا شک ہے کہ نوکر شاہی‘ وزیراعظم عمران خان کی اصلاحات کو ناکام کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے! یہ تجربہ سنا سنایا نہیں‘ ذاتی ہے۔ جو حشر پورٹل کا ہوا‘ اس پر ہنسی آتی ہے اور رحم بھی! یہ کالم نگار وفاقی دارالحکومت کے جس حصے میں رہتا ہے‘ وہاں کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خلق ِخدا عاجز آ چکی ہے! چونکہ تعلق میڈیا سے ہے اس لیے کچھ شرفا‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ آئے اور سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کیا جائے۔ چونکہ مسئلہ چیف کمشنر کے ...

چُوڑیاں بنوانی ہیں

چُوڑیاں بنوانی ہیں! کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں! آپ کہیں گے کہ بازار میں چوڑیاں بنی بنائی دستیاب ہیں! وہاں سے خرید لوں! مگر بات یہ ہے کہ میں آرڈر پر بنوانا چاہتا ہوں۔ سپیشل چوڑیاں! خصوصی طور پر! ایسی کہ اس سے پہلے اتنی خوش نما قیمتی چوڑیاں بنی ہی نہ ہوں! آرڈر پر چیز بنوانے کا اپنا ہی مزا ہے! ترقی یافتہ ملکوں میں اسے اب بہت لگژری سمجھا جاتا ہے۔ اسے ''کسٹم میڈ‘‘ کہتے ہیں! زیادہ لوگ بنے بنائے گھر خریدتے ہیں۔ کچھ خود بنواتے ہیں۔ یہ با ذوق ہوتے ہیں یا بہت زیادہ امیر! وہاں ریڈی میڈ ملبوسات کی انڈسٹری زوروں پر ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی درزی کی حکومت ہے۔ خواتین کے ملبوسات سینے والے درزیوں کی دکانوں پر ہجوم رہتا ہے۔ امرا کی خواتین فل ٹائم درزی پالتی ہیں جو صرف انہی کے لیے کام کرتے ہیں! مردانہ ملبوسات ماپ پر کسٹم میڈ بنوانے کا رواج اب مغربی ملکوں میں نہ ہونے کے برابر ہے! ہاتھ سے کام کرنے والے ہنر مند از حد گراں ہیں! درزی ہو یا الیکٹریشن‘ یا پلمبر، ہاتھ لگانے کے بھی سو ڈالر لے لیتے ہیں! وفاقی دارالحکومت میں ایک معروف مارکیٹ تھی۔ سراج کورڈ (Covered) مارکیٹ! ساری چھتی ہوئی! منہدم کر دی گئی۔ اس م...