سال کا آخری دن
سال کا آخری دن ہے! زمانے کی گردش نے سال کو‘ اس کے آخری لمحوں میں کتنا عبرت ناک کر دیا ہے!یہ ایک کبُڑے بوڑھے کی طرح ہے! ایک خطرناک‘ فریب کار‘ پیرِِ تسمہ پا کی طرح! جو تین سو پینسٹھ دن ہماری گردنوں پر مسلط رہا۔ کون سا دھوکہ ہے جو اس نے ہمیں نہیں دیا‘ کون سا سبز باغ ہے جو اس نے نہیں دکھایا ‘کون سا گڑھا ہے جس کے اوپر اس نے گہنیاں رکھ کر اسے پتوں اور مٹی سے نہیں چھپایا! تین سو پینسٹھ دن پہلے جب اس سال نے طلوع کیا‘ ہم کس قدر خوش تھے! ہم نے سالِ نو کے جشن منائے۔ رقص کیے۔ شرب واکل کے اہتمام کیے۔ احباب واعزہ کو تہنیت کے پیغام بھیجے۔ کہیں Happy New Year کے نعرے لگائے‘ کہیں ''نیا سال مبارک‘‘ پکارا۔ کہیں ''کُلّ عامٍ و انتم بخیر‘‘ کہا۔ کہیں ''نو روزِ شما نیکو باد‘‘ کے پھول بکھیرے۔ ہمارے سامنے امید کے باغ کھلے تھے۔ ہمارا آسمان ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ قطبی تارا ہمارا ہاتھ پکڑے تھا۔ کہکشائیں ہمارے سنگ ناچ گا رہی تھیں۔ چاند ہمارے ہاتھ چومتا تھا۔ نئے سال کی ہر کرن ہمارے ماتھوں پر خوش بختی کی علامت بن کر دمک رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو خلاؤں میں اُڑتا محسوس کر رہے تھے۔ تین سو پینسٹھ ...