اشاعتیں

دسمبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سال کا آخری دن

سال کا آخری دن ہے! زمانے کی گردش نے سال کو‘ اس کے آخری لمحوں میں کتنا عبرت ناک کر دیا ہے!یہ ایک کبُڑے بوڑھے کی طرح ہے! ایک خطرناک‘ فریب کار‘ پیرِِ تسمہ پا کی طرح! جو تین سو پینسٹھ دن ہماری گردنوں پر مسلط رہا۔  کون سا دھوکہ ہے جو اس نے ہمیں نہیں دیا‘ کون سا سبز باغ ہے جو اس نے نہیں دکھایا ‘کون سا گڑھا ہے جس کے اوپر اس نے گہنیاں رکھ کر اسے پتوں اور مٹی سے نہیں چھپایا! تین سو پینسٹھ دن پہلے جب اس سال نے طلوع کیا‘ ہم کس قدر خوش تھے! ہم نے سالِ نو کے جشن منائے۔ رقص کیے۔ شرب واکل کے اہتمام کیے۔ احباب واعزہ کو تہنیت کے پیغام بھیجے۔ کہیں Happy New Year کے نعرے لگائے‘ کہیں ''نیا سال مبارک‘‘ پکارا۔ کہیں ''کُلّ عامٍ و انتم بخیر‘‘ کہا۔ کہیں ''نو روزِ شما نیکو باد‘‘ کے پھول بکھیرے۔ ہمارے سامنے امید کے باغ کھلے تھے۔ ہمارا آسمان ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ قطبی تارا ہمارا ہاتھ پکڑے تھا۔ کہکشائیں ہمارے سنگ ناچ گا رہی تھیں۔ چاند ہمارے ہاتھ چومتا تھا۔ نئے سال کی ہر کرن ہمارے ماتھوں پر خوش بختی کی علامت بن کر دمک رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو خلاؤں میں اُڑتا محسوس کر رہے تھے۔ تین سو پینسٹھ ...

حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا

2007ء میں سعیدہ وارثی برطانوی پارلیمنٹ کی رکن بنی تو پاکستان میں گھی کے چراغ جلائے گئے۔ اُس معاشرے کی تو کسی نے تعریف نہ کی جس نے سعیدہ کو پارلیمنٹ کا ممبر بنایا اور قبول کیا۔ ہاں اس حقیقت کا پاکستان میں زور و شور سے چرچا ہوا کہ اُس کا والد بس ڈرائیور تھا اور فیکٹری میں بطور ورکر کام کرتا رہا۔ 2016ء میں ایک اور پاکستانی نژاد لندن کا مئیر منتخب ہو گیا۔ یہ صادق خان تھا۔ اس بار پھر پاکستان میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ صادق خان کی لائف ہسٹری اخبارات میں نمایاں طریق سے شائع ہوئی۔الیکٹرانک میڈیا پر خوشیاں منائی گئیں۔ 2018ء میں اہلِ پاکستان کو ایک اور زبردست ''کامیابی‘‘ نصیب ہوئی۔ اب کے پاکستانی نژاد ساجد جاوید برطانیہ کا وزیر داخلہ بن گیا۔ پاکستانیوں کی اسلامیت کی رگ خوب خوب پھڑکی۔ خوب چرچے ہوئے۔ اس اہم وزارت پر ایک مسلمان کا، وہ بھی پاکستانی نژاد کا انتخاب! اسے پاکستان کی فتح قرار دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں افراد‘ سعیدہ وارثی، صادق اور ساجد جاوید پاکستانی نہیں تھے‘ پیدائشی برطانوی تھے۔ سعیدہ وارثی یارک شائر میں پیدا ہوئیں‘ صادق خان لندن میں  اور ساجد جاوید شمال مغربی انگلستان می...

میں انتظار کروں گا‘ ترا قیامت تک

تلخ نوائی………… یہ ایک خط تھا ‘جو اخبار میں چھپا‘ مگر یہ خط نہیں تھا؛ آئینہ تھا۔ اس میں ایک نہیں‘ دو تصویریں نظر آ رہی تھیں۔اس خط کو سمجھنے کے لیے اور اس آئینے میں دو تصویریں دیکھنے کے لیے آپ کو کالم نگار کے ساتھ بارہ سال پیچھے جانا پڑے گا۔ یہ لگ بھگ 2007ء کا زمانہ تھا۔ وفاقی حکومت کے ملازموں کو ریٹائرمنٹ پر قطعۂ زمین قیمتاً فروخت کرنے والے ادارے ''ہائوسنگ فائونڈیشن‘‘ نے پلاٹ الاٹ کیے۔ یہ پلاٹ سیکٹر جی چودہ ون‘ جی چودہ ٹو اور جی چودہ تھری میں الاٹ کیے گئے۔ ان ملازموں میں افسر‘ غیر افسر‘ سب شامل تھے۔ ان ملازموں کی اکثریت 2008ء میں ریٹائر ہو گئی۔ پلاٹ دینے کا مقصد یہ تھا کہ ریٹائرمنٹ پر یہ لوگ زمین کے ان ٹکڑوں پر چھتیں ڈال کر سر چھپانے کی پناہ گاہیں بنا لیں گے! آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ پلاٹ ان ملازموں کو مل گئے؟ انہوں نے گھر بنا لیے؟ نہیں! آپ کا خیال غلط ہے! جی چودہ ون اور ٹو میں تو ابھی تک وہ عمارتیں اور مکانات بھی قائم ہیں‘ جو منہدم ہونے تھے۔ رہا سیکٹر جی چودہ تھری‘ تو تا دمِ تحریر‘ ابھی تک وہاں بھی کوئی مکان نہیں بنا۔ 2008ء تک ریٹائر ہونے والے ملازمین اب بہتّر بہتّر سال کے ہو گئے...

آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا

جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎ کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروں کو  بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎ ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوئہ اہلِ نظر گئی احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پ...

نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے

کاش میں ایک پرندہ ہوتا! درختوں پر بیٹھتا۔ پھل کھاتا، اُڑتا پھرتا، حساب کا ڈر ہوتا نہ عذاب کا! کاش میں سرِ راہ درخت ہوتا۔ اونٹ میرے پاس سے گزرتے! مجھے نوالہ بناتے۔ چباتے اور نگل جاتے‘‘۔ ''اے کاش میں تنکے کی طرح خس و خاشاک ہوتا! کاش میری ماں مجھے نہ جنتی! یہ حسرتیں عام لوگوں کی نہیں، خلفائے راشدین کی ہیں! عقل مندوں نے ہمیشہ اقتدار سے جان بچائی۔ ایسے ایسے اہل اللہ بھی تھے کہ بادشاہ حاضر ہونے کی اجازت مانگتے تو انکار کر دیتے۔ کچھ اپنی رہائش گاہ چھوڑ کر غائب ہو جاتے! اس لیے کہ اقتدار سانپ کا بِل ہے۔ یہ بچھوؤں سے بھری ہوئی غار ہے! جس نے اس کی خواہش کی اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کی، اس نے اپنے راستے میں کانٹے بوئے۔ اپنا انجام خراب کیا۔ جسے یقین نہ آئے وہ آج پرویز مشرف کا حال دیکھ لے! میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی ابتری، پراگندگی اور دربدری پر نظر دوڑائے! جنرل ضیاالحق کا دنیا میں انجام ذہن میں رکھے۔ کیاپرویز مشرف کو سزا اُنہی جرائم کی مل رہی ہے جن کا ذکر عدالت نے کیا ہے؟ ممکن ہے انہی کی ہو! مگر بہت کچھ ہے جو نگاہوں سے اوجھل ہے! کتنے ہی سزائے موت کے قیدی آخری لمحات میں بتاتے ہیں ک...

……کون سی خارجہ پالیسی؟

پاکستان ایک آزاد ملک ہے یا زنجیروں میں جکڑی ہوئی ذیلی ریاست؟ ایک زنجیر آئی ایم ایف کی، ایک ورلڈ بینک کی! ایک فلاں ملک کی! ایک فلاں بادشاہت کی! واہ! کیا آزادی ہے!؎ دلِ آزاد کا خیال آیا اپنے ہر اختیار کو دیکھا تاریخ نے پاکستان کو ایک سنہری موقع دیا! امتِ مسلمہ کی قیادت کی نشست کب سے خالی ہے۔ ترکی کے اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر نے کمرِ ہمت باندھی۔ پاکستان کو آواز دی کہ آئو، اس نشست کو پُر کریں۔ امت کی قیادت کریں۔ پاکستان نے پہلے ہامی بھری۔ پھر تذبذب میں پڑ گیا؎ ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے آخر کار معذرت کر لی! انکار کر دیا... اس لیے کہ فلاں دربار سے اجازت نہیں ملی! دعویٰ یہ تھا کہ اے قوم! جھکوں گا نہ جھکنے دوں گا۔ آن نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پشتِ من آن منم کاں درمیانِ خاک و خون بینی سری میں وہ نہیں کہ لڑائی کے دن، تم میری پیٹھ دیکھو! میں تو وہ ہوں جس کا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے! کیا کیا دعوے اور وعدے تھے۔ بقول اقبالؔ؎ ما رنگِ شوخ و بوئی پریشیدہ نیستیم مائیم آنچہ می روَد اندر دل و دماغ ہم محض شوخ رنگ نہیں نہ ہی پریشا...

To be or not to be that is the question

آئی سی ( اسلامی کانفرنس ) ایک مردہ گھوڑا ہے۔ مہاتیر محمد اگر نہ اُٹھتے تو کسی اور نے ‘ جلد یا بدیر ‘ اٹھنا ہی اٹھنا تھا۔ یہی تاریخ کا طریقِ کار ہے۔ او آئی سی کیا ہے؟ ایک مخصوص خطے کے حکمرانوں کی کنیز ! عالمِ اسلام پر جب کوئی مصیبت نازل ہوئی ‘ او آئی سی نے چہرے کو دبیز کپڑے سے ڈھانکا ‘ کروٹ بدلی اور سو گئی ! نظیری نیشاپوری نے کہا تھا ؎ خورشیدِ عمر برسرِ دیوار و خفتہ ایم فریاد بردرازئی خوابِ گرانِ ما   سورج سر پر آ پہنچا اور ہم ہیں کہ سو رہے ہیں ...! اتنی گہری اور لمبی نیند ...! فریاد ہے فریاد ...!) کشمیر جنت نظیر پر ایک کے بعد دوسری ابتلا آ رہی ہے۔ بھارت میں دہشت گرد مودی ‘ موذی بن چکا ہے۔ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو بے وطن قرار دے کر کیمپوں میں دھکیلنے کی تیاری زور پکڑ چکی ہے۔ یہ ابتدا ہے۔ اس کالم نگار نے مہینوں پہلے شور مچایا تھا کہ کیرالہ اور شاید مشرقی پنجاب کو چھوڑ کر ‘ آسام کا کھیل تمام ریاستوں میں دہرایا ...