اشاعتیں

اکتوبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

نواز شریف اور عمران خان ………دو مسافر ہیں ایک رستہ ہے

نہیں!یہ مسئلہ کرپشن کا نہیں! طرز حکومت کا ہے!  ایسا طرزِ حکومت جو میرٹ پر نہیں‘ دوست نوازی پر مشتمل ہے! نواز شریف کا طرزِ حکومت جمہوری نہیں‘ قبائلی تھا۔ چلیے ‘ قبائلی کی اصطلاح کُھردری ہے تو شخصی کہہ لیجیے! افسوس! یہی راستہ عمران خان بھی چُن چکے ہیں ایک راستے پر چلنے والے دو مختلف افراد کا انجام ایک دوسرے سے مختلف کیسے ہو سکتاہے؟ چند سال پہلے ایک دلچسپ خبر پڑھی۔ ترکی میںایک چرواہا بھیڑیں چرا رہا تھا۔ایک بھیڑ‘ اونچی چٹان سے‘نیچے گہری کھائی میں جاگری۔ درجنوں بھیڑوں نے اس کی پیروی کی!  نواز شریف نے اپنے پسندیدہ افراد کو مناصب عطا کئے۔ ادارے زوال کی کھائی میں گر گئے‘ افسوس !افسوس! ہیہات !ہیہات! عمران خان بھی یہی کچھ کر رہے ہیں!  انسان کے اعضا و جوارح اس کے خلاف قیامت کے دن گواہی دیں گے مگر ایک نظر نہ آنے والا حشر‘ قیامت سے پہلے دنیا میں بھی برپا ہوتا ہے۔ نواز شریف کے اپنے مداح‘ جو انہیں مزاحمت کی علامت قرار دیتے ہیں‘ جو انہیں بطلِ جلیل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں‘ وہ خود(غالباً نادانستہ) گواہی دے رہے ہیں کہ نواز شریف نے میرٹ کو قتل کیا۔ ایک معروف کالم نگار دُہ...

صدیوں کی ہار

بہو نے گوشت پکایا تو ساس نے اعتراض کیا کہ سبزی نہیں پکتی۔ سبزی پکائی تو کہا ہمیں ہندو سمجھا ہے! ہم تو گوشت کھانے والے لوگ ہیں! ہنڈیا میں گھی کم ڈالا تو کہا روکھی ہے۔ زیادہ ڈالا تو واویلا مچایا کہ میرے بیٹے کو ہارٹ اٹیک سے مارنے کا ارادہ ہے؟  یہی حال کالم کے قارئین کا ہے!  گزشتہ کالم میں ان قارئین کا ذکرکیا گیا تھا جو مغلظات بکتے ہیں اور دہانوں سے آگ کے بھڑکتے شعلے نکالتے ہیں۔ اب ذرا شریف قارئین کا رویہ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ تلوار سے نہیں‘ زبان سے یا قلم سے مارتے ہیں۔  یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ کالم‘ مضمون ہوتا ہے نہ مقالہ۔ اس میں جو بات بھی کی جاتی ہے‘ انتہائی اختصار سے کرنا پڑتی ہے۔ یہاں گزشتہ تحریروں کے حوالے بھی نہیں دیے جا سکتے۔ تشریح کے لئے فُٹ نوٹ بھی نہیں ہوتے۔ ایک وسیع تناظر میں بات ہو سکتی ہے مگر بعض اوقات کام صرف اشاروں سے کرنا پڑتا ہے اس لئے کہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہوتی!  یہ سارے پہلو قارئین کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اکثر قاری اس عجیب و غریب شخص کی مثال ہیں جس کا ذکر شفیق الرحمن نے کیا ہے۔ اس کا دکاندار سے کچھ اس قسم کا مکالم...

الامان الحفیظ

‎لفافہ خور صحافیوں کی چاندی ہو گئی۔ ‎ نری جہالت پر مبنی مضمون  ‎حکمرانوں کا فُضلہ خور اور ظالمانہ نظام کا محافظ صحافی اپنی نمک حلالی کر رہا ہے۔  ‎افسوس تیری فہم پر!  ‎اس گناہ میں تم جیسے کئی لفافیے شریک ہیں  ‎دریاکے کنارے آباد۔فلاں شہر کی زرخیز مٹی میں سے کبھی کبھی تم جیسے ناسور پیدا ہو جاتے ہیں جو گوبر کو حلوہ پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے پھر بعد میں اسی گوبر کو منہ پر مار کر بھاگنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔  ‎کمپنی بین الاقوامی عدالت میں کیس جیت چکی ہے۔ جو ثبوت وہاں پیش نہیں گئے انہیں اس صحافی کی پشت میں ٹھونک دیا جائے۔  ‎ان لوگوں کو الٹا لٹکا کر مارنا چاہیے۔  ‎انتہائی بھونڈی اور بغض سے بھری تحریر۔  ‎لنڈے کے لبرل  ‎ان کتوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کر دیا  ‎تم جھوٹ لکھ رہے ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو کالم لکھنے سے پہلے اپنے منہ پر لعنت لکھنی چاہیے اور سویرے اٹھنے سے پہلے اپنے منہ پر تھپڑ مارنے چاہئیں۔ ‎ یہ شخص کالم اپنے مالی پشت پناہوں سے وفاداری نبھانے کے لئے لکھتا ہے۔  ‎مسٹرفلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں، ...

میرے خدشات مانتا ہی نہیں

مارچ اور دھرنا بھی ہوتے رہیں گے اور وزیر اعظم بھی اُس بدنما حصار کے بارے میں خاموشی پر قائم رہیں گے جو اپنے اردگرد انہوں نے قائم کیا ہوا ہے۔ ان سب کو اس حال میں چھوڑ کر آئیے ہم نواح ایبٹ آباد کا رُخ کرتے ہیں جہاں رستم نامیؔ رہتا ہے۔  جنگلات کے محکمے میں معمولی ملازمت کرنے والا رستم نامی کمال کا شاعر ہے۔ سب سے مختلف! اپنے ہی رنگ میں ڈوبا ہوا! اس کے شعری مجموعے ’’باوجود‘‘ کے شروع میں ناشر نے درست لکھا ہے۔ کہ رستم نامی کی شاعری میں رومانی اشعار کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نے اپنے معاشرے اور صاحب اقتدار افراد کے نامناسب رویوں‘ ناانصافی اور چور بازاری کی باتیں زیادہ کی ہیں۔ اُسے حکمرانوں‘ سیاست دانوںاور ظالم وڈیروں جابر چودھریوں اور بے رحم جاگیرداروں پر غصہ ہے اور بجا ہے۔‘‘  ہمارے اس شاعر کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ایک دردناک حادثہ پیش آیا۔اس حادثہ میں رستم کا نوجوان فرزند باپ کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ خود رستم ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ ایبٹ آباد میں مشہور شاعر اور نامور ماہر تعلیم واحد سراج اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ’’پاک آئرش بحالی سنٹر‘‘ چلا رہے ہیں۔ معروف شاعر...

آفرین آفرین

‎بالآخر آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ کے پیشرو آپ سے بہتر تھے!  ‎انہوں نے عوام کے لئے گڑھے کھودے۔ یہ گڑھے صاف نظر آ رہے تھے جوگرے‘ جان بوجھ کر ان میں گرے! جو بچے‘ اس لئے بچے کہ گڑھے دکھائی دے رہے تھے! مگر جناب وزیر اعظم! آپ نے تو گڑھے کھود کر ان پر درختوں کی ٹہنیاں یوں رکھیں جیسے شہتیر رکھتے ہیں۔ پھر ان پر سبز پتے رکھے۔ پھراوپر مٹی ڈالی۔ یہاں تک کہ گڑھے چھپ گئے۔ زمین ہموار ہو گئی۔ عوام خوش کہ گڑھے نہیں رہے! مگر پھر عوام ان گڑھوں میں گرنا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ‘ روز بروز‘ ایک صدمے کے بعد دوسرا صدمہ! اب واضح ہو چلا ہے کہ یہ عوام کا شکار تھا! گڑھوں میں گرا کر انہیں شکار کیا جا رہا ہے!  ‎جناب وزیر اعظم! ٹاپ سطح کی بیورو کریسی کے آگے آپ کی کیا مجبوری ہے ؟اس کے سامنے آپ کیوں بے بس ہو گئے! آپ نے بھی اپنے پیشروئوں کی طرح پٹواریوں، تھانیداروں اور چھوٹے پرزوں پر زور آزمائی کی اور ٹاپ لیول بیورو کریسی کے سامنے کچھ نہ کر سکے۔ استاد ذوق یادؔ آ گئے ؎  ‎کسی بے کس کو اے بیداد گر! مارا تو کیا مارا ‎ جو خود ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا   ‎نہیں وہ قول کا سچا!ہمیشہ قول دے دے کر...

قدر مشترک

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ’’ آزادی ‘‘ مارچ اور دھرنے کے پروگرام میں شامل جماعتیں اور شخصیات زیادہ تر وہ ہیں جو تحریک پاکستان ‘ قیام پاکستان اور قائد اعظم کی مخالف ہیں یا جنہیں پاکستانی فوج سے نفرت ہے؟   سب سے پہلے مولانا کو لے لیجیے؟ کیا ان کی زبان سے کبھی کسی نے تحریک پاکستان یا قائد اعظم کا ذکر سنا ہے؟ کیا 23 مارچ یا 14 اگست کے حوالے سے انہوں نے کبھی کوئی پیغام قوم کو دیا ہے؟   پاکستانی تاریخ کے مبتدی کو بھی علم ہے کہ دیو بند مسلک سے وابستہ جمعیت علمائے ہند نے قیام پاکستان کی بھر پور مخالفت اور کانگرس کی حمایت کی۔ اس کے مقابلے میں تحریک پاکستان کے حامی علمائے دیو بند نے 1945 ء میں کلکتہ میں جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے یہ فقرہ بھی منسوب ہے کہ ’’ اگر پاکستان قائم ہو گیا تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہو گا؟ ‘‘  مولانا فضل الرحمن جس جمعیت علمائے ہند کے وارث ہیں وہ قائد اعظم کو ک...