اشاعتیں

اگست, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ادبی میلے یا مخصوص لابیاں

’’2002 ء کے قتل عام پر ایک نظر ڈالیے۔ اس سال 27 فروری کو گجرات میں گودھرا ریلوے سٹیشن پر ایک ٹرین کو آگ لگ گئی اس میں ہندو زائرین سوار تھے۔ فی الفور اور ذرہ بھر ثبوت کے بغیر مودی نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کی سیکرٹ سروس اس کی ذمہ دار ہے۔ پھر اس نے جلی ہوئی لاشوں کو احمد آباد شہر میں پھرایا اور اپنی ہی حکومتی پارٹی سے تین دن کی ہڑتال کرا دی۔ نتیجہ خونریزی کی صورت میں نکلا۔ سرکاری اندازوں کے مطابق ایک ہزار جانیں قتل ہوئیں۔ آزاد ذرائع یہ تعداد دو ہزار بتاتے ہیں۔بھاری اکثریت ان میں مسلمانوں کی تھی۔ ہجوم عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو گھسیٹ کر گھروں سے نکالتا اور ان کی آبرو ریزی کرتا۔ 2007 ء میں تفتیشی میگزین ’’ تہلکہ ‘‘ نے رنگ لیڈرز کے بیان ریکارڈ کئے۔ ان میں سے ایک نے جس کا نام بابو بج رنگی تھا بتایا کہ کیسے اس نے ایک حاملہ عورت کا پیٹ چیر کرکھولا۔ … کچھ سال بعد مودی نے کہا کہ اس قتل عام پر اسے اتنا ہی دکھ ہو...

ڈر ………جو ہمیں کھا گئے

‎آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ یہ بڑی شاہراہ ہے جسے ’’مین روڈ‘‘ کہتے ہیں سامنے ‘ بائیں ہاتھ پر‘ ایک چھوٹی سڑک اس بڑی شاہراہ سے مل رہی ہے۔ اس چھوٹی سڑک پر ایک گاڑی عین اس وقت نمودار ہوتی ہے جب آپ موڑ پر پہنچنے والے ہیں۔ آپ کو ڈر لگتا ہے کہ اگر چھوٹی سڑک سے آنے والی گاڑی نہ رکی اور مین روڈ پر چڑھ آئی تو آپ کی گاڑی سے ٹکر لگے گی اس ڈر سے آپ بریک لگاتے ہیں ۔چھوٹی گاڑی والا ایک ثانیے کے لئے بھی نہیں رکتا۔ بس یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں لاحق ہوتا۔ آپ مین روڈ پر وہاں بلا کھٹکے گاڑی چلاتے جائیے۔ چھوٹی سڑک سے آنے والے نے ہر حال میں رکنا ہے۔ اگر مین روڈ بالکل خالی ہے تب بھی چھوٹی سڑک سے آنے والے نے بریک لگانی ہے۔  ‎آپ نے جوتے خریدے ہیں۔ گھر آ کر دیکھا کہ یہ تو فٹ نہیں آ رہے۔ دوسرے دن بازار کا رخ کرتے ہیں کہ واپس کر آئیں آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے دکاندار واپس لے گا یا نہیں! ہو سکتا ہے بدلنے کی اجازت دے مگر ماپ کا جوتا نہ ملا تو کیا وہ جوتے واپس لے کر رقم لوٹا دے گا؟ بس یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں ہوتا جوتا پورا ہے یا نہیں۔ دکاندار وجہ پوچھے بغیر واپس لینے کا اور رقم لوٹانے کا پابند ہے!...

وہ شے لائو جس کی منڈی میں ڈیمانڈ ہے

‎میں اور شوکت ایک ہی گائوں کے تھے۔ اکٹھے گلیوں میں کھیلے۔ کھیتوں میں تتلیاں پکڑیں۔ مقامی پرائمری سکول سے دونوں نے ایک ساتھ پانچویں جماعت پ ‎زمانے کی گردش بھی عجیب ہے۔ آج ہم دونوں ایک ہی شہر میں رہ رہے ہیں۔ مگر باہمی رشتہ گائوں والا نہیں! وہ برابری کا رشتہ تھا۔ آج حالات مختلف ہیں۔ شوکت ایک کامیاب بزنس مین ثابت ہوا۔ میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ پھر معاشی جبر تلے پستا‘ اس سے گاہے بگاہے قرض لیتا رہا، مکان بنایا تو اس نے مدد کی بچوں کی شادیوں پر اس سے ادھار مانگا۔  ‎برابری سے چلا ہوا یہ رشتہ اب عجیب و غریب شکل اختیار کر چکا ہے۔ ملنے جائوں تو باہر کھڑے کھڑے ملتا ہے۔ سماجی تقاریب میں‘ جو اس کے گھر منعقد ہوتی ہیں۔ مجھے کبھی نہیں دعوت دی جاتی! اپنے کسی بچے کی شادی پر شوکت نے مجھے نہیں بلایا۔  ‎یہ ہے معاملہ پاکستان اور یو اے ای کا!  ‎برابری کے تعلقات کیسے قائم ہو سکتے ہیں؟ کہاں پاکستان کی دریوزہ گری! کہاں یو اے ای کی بخشیش!! جس ملک کے وزیر اعظم اور درجنوں وزراء اور عمائدین اقامے کی خاطر ویلڈر‘ الیکٹریشن‘ ڈرائیور‘ کلرک اور چپراسی بن کر یو اے ای میں مزدوری کر رہے ہوں۔ اس ملک کو...

کشمیر سے آسام تک

ہر روز ان ویڈیو کلپس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو بھارتی مسلمانوں کی بے بسی دکھا رہی ہیں۔  داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں۔ ردائیں تار تار کی جا رہی ہیں۔ زمین پر گرا کر ٹھوکریں ماری جا رہی ہیں۔ گلے گھونٹے جا رہے ہیں۔ ستونوں کے ساتھ باندھ کر زدو کوب کیا جا رہا ہے۔ سینکڑوں سالوں سے رہنے والوں سے پوچھا جا رہاہے کہ شہریت کی سند دکھائو۔ جن کی پیدائش بھارت میں ہوئی جو انتخابات میں ووٹ ڈالتے آئے ہیں‘ انہیں اٹھا اٹھا کر کیمپوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ کیپٹن ثناء اللہ بھارتی فوج سے ریٹائر ہوا۔ اس کا باپ‘ دادا‘ پردادا سب آسام میں پیدا ہوئے۔ آسام ہزاروں برس سے بھارت کا حصہ ہے مگر کپتان ثناء اللہ کو گھر سے اٹھایا گیا اور دو ہفتے جیل میں رکھا گیا۔ الزام یہ تھا کہ تم غیر ملکی ہو!  مودی حکومت بھارت کو ایک اور اسرائیل بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ایک بہت بڑا اسرائیل! جس میں سینکڑوں کیمپ ہوں گے۔ مسلمانوں کو غیر ملکی ثابت کر کے ان کیمپوںمیں رکھا جائے گا۔ پروگرام یہ ہے کہ وہ انہی کیمپوں میں مرکھپ جائیں۔ ان کی آئندہ نسلیں جو بچ جائیں ان خار دار تاروں سے باہر نہ نکلیں سکیں۔  بھارت کے انتہائی مشرق می...

کیا شائستگی بازار میں دستیاب ہے ؟

’’موسم گرما میں کپڑوں کے نیچے بنیان پہنیں اور خدارا خوشبو کا استعمال کریں۔ دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنا مذہب اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔  کان اور ناک کے بال صاف کریں۔ ناک کے بال اکھاڑنے کیلئے عوامی مقامات مناسب جگہ نہیں۔ ازراہ کریم یہ فریضہ گھر پر سرانجام دیں۔دوسرے لوگوں کو اس عمل سے گھن آتی ہے۔ یہ الگ بات کہ آپ کو احساس نہیں ہوتا۔  عوامی مقامات پر ناک اور کان میں انگلی گھما کر صفائی کا ’’اہتمام‘‘ کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اس ’’اہتمام‘‘ کے بعد جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے ہیں تو اسے عجیب و غریب صورت حال میں ڈال دیتے ہیں۔ ہاتھ ملائے تو مصیبت نہ ملائے تو نامناسب!  کرنسی نوٹ گنتے ہوئے لعاب دہن کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ ضرورت ہو تو پانی بھی تو موجود ہے۔ یہ سوچیے کہ یہ کرنسی نوٹ کن کن ہاتھوں سے ہو کر آپ تک پہنچے ہیں!  گاڑی چلاتے وقت تنگ سڑکوں پر اوورٹیکنگ سے اجتناب کریں۔ کیا آپ نے کبھی گاڑی پارک کرتے وقت سوچا ہے کہ دوسروں کو غلط پارکنگ سے کس قدر اذیت ہوتی ہے۔ دو گاڑیوں کی جگہ گھیرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟  کوئی قریبی عزیز کسی منصب پر فائز ہے تو رشتہ داری سے غلط فائد...