اشاعتیں

جون, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا

سہ پہر ابھی نہیں ہوئی مگر کالی گھٹا نے جُھٹپٹے کا سماں پیدا کر رکھا ہے۔ قطرہ قطرہ بارش بے لباس درختوں کی ٹہنیوں سے ہوتی ہوئی‘ زمین پر گر رہی ہے۔ سڑک پر دور دور تک کوئی ذی روح نہیں! کبھی کبھی کوئی گاڑی زناٹے سے گزرتی ہے اس کے بعد پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔  یہ گیند جسے ہم کرہ ارض کہتے ہیں‘ عجائبات کی زنبیل ہے۔ کبھی ایک عجوبہ نکلتا ہے‘ کبھی دوسرا‘ الاسکا سے لے کر نیوزی لینڈ تک۔ سائبیریا سے لے کر جزائر انڈیمان تک۔ کینیڈا کے انتہائی شمال سے لے کر چلّی کے جنوبی کونے تک۔ آئر لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحل تک۔ موسموں کے عجیب الٹ پھیر ہیں۔ کہیں صحرائوں میں  ٹھنڈک ہے۔ کہیں پہاڑوں میں گرمی! کہیں سمندروں کی سطح منجمد ہے، کہیں خشکی کے وسیع و عریض ٹکڑے پانیوں میں غرق!  صرف ٹائم زون گنتے جائیے اور حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتے جائیے۔ روس‘ شرقاً غرباً‘ افقی چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ گیارہ ٹائم زون ہیں۔ دوسری طرف جو شہر ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں عمودی لمبائی میں واقع ہونے کی وجہ سے یکساں ٹائم زون رکھتے ہیں۔ سویڈن کا شہر سٹاک ہوم۔ زمبابوے کے شہر ہرارے سے سات ہزار کلو میٹر دور ہے مگر...

میلہ بلاول نے لوٹا

‎اچکزئی صاحب اور اسفند یار ولی صاحب کی بات دوسری ہے‘ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں مریم صفدر صاحبہ نے مولانا کی مکمل اور غیر مشروط تائید کی!  ‎آخر دونوں میں کیا قدر مشترک ہے؟ جواب کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ دونوں کی عمران خان سے دشمنی ہے۔ صرف دشمنی نہیں! نفرت! شدید نفرت! سیاست میں مخالفت تو عام ہے اور کبھی کبھی دشمنی بھی۔ مگر نفرت کا سکِہ کم ہی چلتا ہے! مولانا کو اور مریم بی بی کو عمران خان سے نفرت ہے! اتنی کہ اس نفرت کو دریا میں ڈالا جائے تو بہتا ہوا پانی کھولنے لگے!  ‎نفرت کی وجوہات ‘ تاہم‘ الگ الگ ہیں! مولانا عشروں کے بعد اقتدار کی غلام گردش سے باہر ہوئے۔ انہیں قلق ہے۔ بہت زیادہ قلق! انہوں نے ہر خاص و عام کو باور کرا دیا تھا کہ وہ سیاست کے افلاطون ہیں اور عملیت پسندی (Pragmatism) ‎کے ماہر۔ چاروں شانے چت ہونے کے بعد اب وہ سخت طیش میں ہیں اور پوری اسمبلی کو ہلاک کرنے کے درپے۔خواہ اس میں لخت جگر کی رکنیت ہی کیوں نہ کام آ جائے۔  ‎مریم صفدر کی نفرت اقتدار کے لئے نہیں! بنیادی طور پر اپنے والد کی آزادی اور سلامتی میں اقتدار بھی ایک حد تک شامل ہے مگر فرض...

……‎دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتاہے کیا

‎آسمانوں سے مدد اتری ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوئے۔  ‎ایف بی آر کے انٹرنیشنل ٹیکس کے شعبے نے بتایا کہ صرف متحدہ عرب امارات سے 346ارب روپے کے اثاثے ظاہر کئے گئے۔ سوئٹزرلینڈ سے 114ارب روپے، برطانیہ سے 89ارب روپے‘ سنگا پور سے 87ارب روپے اور برٹش ورجن آئی لینڈز سے 48ارب روپے تسلیم کئے گئے۔ غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی (ڈاکومنٹڈ) معیشت میں تبدیل کرنے کی طرف یہ ایک اہم اقدام ہے! اہم اور انقلابی اقدام!  ‎وہ زمانہ لد چکا جب ترقی یافتہ ملک منہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے۔ اب ایسے قانونی اور دو طرفہ انتظامات ہو چکے ہیں کہ اطلاعات خفیہ نہ رہیں اور ان کا تبادلہ کیا جا سکے۔ گزشتہ برس پاکستان کو 28ملکوں سے ایسی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اس سال لگ بھگ 71ملکوں سے مل رہی ہیں۔ اگلے دو تین برسوں میں یہ تعداد ایک سوتک پہنچ جائے گی۔  ‎اقبال دائود دبئی میں پاکستان بزنس کونسل کے صدر ہیں۔ انہوں نے سکیم کے لئے دی گئی آخری تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ دستاویزی دائرے میں داخل ہونا چاہتے ہیں اورمزید وقت مانگ رہے ہیں۔  ‎خالد حسین چودھری شارجہ میں پاکستان سوشل سنٹر ...

سدا نہ ماپے‘ حُسن، جوانی‘ سدا نہ صحبت یاراں

‎تو کیا وہی ہونے جا رہا ہے جو ہوتا آیا ہے؟  ‎اب بھی عبادات سرکاری خزانے کے بل بوتے پر ہوں گی؟ اور وہی کریں گے جو آسانی کے ساتھ اپنی جیب سے کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟  ‎نیکی کے پردے میں لپٹی ہوئی یہ لوٹ مار مرد مومن مردِ حق نے ابتدا کی! قومی خزانے کی مرحوم کی نظر میں وہی وقعت تھی جو آئین کی تھی! آئین ان کے نزدیک کیا تھا؟ کاغذ کا ایک بے جان ٹکڑا ! قومی خزانہ ان کے لئے کیا تھا؟ جیسے ایک بادشاہ کے لئے ہوتا ہے! کبھی تختِ طائوس بنوا لیا‘ کبھی تاج محل! کبھی حرم کی حدود میں سربفلک محلات کھڑے کر لئے کہ نماز کہنے کو حدود حرم میں ادا ہو! درجنوں مثالیں ایسی ہیں جن سے جنرل ضیاء الحق کا قومی خزانے کے ساتھ شاہانہ رویہ ثابت ہوتا ہے۔ بہت کچھ اس پر لکھا جا چکا! کسی کو ابہام نہیں! جو انہیں بزعمِ خود افغان’’جہاد‘‘ کا مائی باپ گردانتے ہیں‘ وہ بھی یہ کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ جنرل صاحب وزارت خزانہ کو قواعد کے مطابق چلانے دیتے تھے!  ‎پھر وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ ان کی عمر‘ ان کی خواہش یا دعا کے مطابق میاں نواز شریف کو جا لگی! میاں صاحب نے ستائیسویں رمضان کو جہاز سرکاری خرچ پر اپنے پسندی...

آدمی کو انسان بھی ہونا چاہیے

اُس شخص کا تو آپ کو معلوم ہی ہے جو خط لکھ رہا تھا ساتھ ایک مجہول کھڑا تھا اور خط پڑھے جا رہا تھا۔ خط لکھنے والے نے خط میں لکھا۔ ’’ کچھ اور بھی لکھتا مگر ایک بے وقوف ‘ میرے لکھنے کے دوران ‘ خط پڑھ رہا ہے ‘‘ اس پر اُس مجہول شخص نے احتجاج کیا کہ میں تو خط پڑھ ہی نہیں رہا اور آپ نے مجھے بے وقوف کا خطاب دے دیا ‘‘  جس طرح ہم سڑک پر تھوکتے ہیں یا انگلی کو ناک کی مفصل سیر کراتےی ہیں یا خلقِ خدا کے سامنے بغلیں کھجاتے ہیں یا ہمارے دکاندار حضرات ( سب نہیں کچھ ) گاہک کے سامنے ‘ قمیض آگے سے اٹھا کر ‘ میلی واسکٹ سے کرنسی نوٹ نکالتے ہیں۔ اسی طرح ایک کثیف یعنی خبیث عادت یہ بھی ہے کہ دوسروں کی پرائیویسی پر بھر پور حملے کریں۔ کچھ دن ہوئے ایک صاحب کے ہاں دعوت تھی۔ ہم سب مہمان ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ سائیڈ ٹیبل پر ڈاک کا لفافہ پڑا تھا۔ خط اس میں نہیں تھا۔ جو بزرگ سائیڈ ٹیبل کی بغل میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے...