اشاعتیں

مئی, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

… اگلے پچیس سال کا قمری کیلنڈر جو استعمال ہو رہا ہے

’’فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ‘‘(FCNA)نے مختلف تشکیلی مراحل گزار کر1986ء میں موجودہ شکل اختیار کی۔ یہ کونسل ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے مسلمانوں کی فکری‘ نظریاتی اور فقہی رہنمائی کرتی ہے۔ڈاکٹر مزمل صدیقی اس کے چیئرمین ہیں‘اعلیٰ ترین مذہبی تعلیم کے مالک ہونے کے علاوہ ڈاکٹر مزمل صدیقی مکہ مکرمہ کی کونسل آف علما کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن ہیں۔ آپ مصر کی ’’سپریم اسلامی کونسل‘‘ کے بھی ممبر ہیں اور مکہ مکرمہ میں قائم مساجد کی سپریم کونسل کے بھی رکن ہیں۔ ڈاکٹر زینب الوانی فقہ کونسل کی وائس چیئرمین ہیں۔ کونسل کے ارکان میں مساجد کے ائمہ اور دیگر اہل علم شامل ہیں۔  فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے 2044ء تک ہر سال کا قمری کیلنڈر بنایا ہے۔ فقہ کونسل نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے اصل میں ’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ کی پیروی کی ہے۔’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ کے سربراہ عالم اسلام کے مشہور و معروف فقیہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں! یورپی کونسل نے واضح کیا ہے کہ رویت فی نفسہِ مطلوب نہیں بلکہ رویت نئے مہینے کا آغاز جاننے کا صرف ذریعہ ہے او...

چھاج بولے سو بولے چھلنی کیوں بولے

‎دروغ برگردن راوی‘ کہتے ہیں کہ اس وقت کے طبقۂ بالا میں صرف دو شخص شراب سے اجتناب کرتے تھے اورنگ زیب عالم گیر اور مغل سلطنت کے مفتیٔ اعظم! جب کہ حقیقت یہ تھی کہ مفتی اعظم بھی موقع ملنے پر ڈنڈی مار جاتے تھے۔ یہ صرف شہنشاہ تھا جو مکمل پرہیز کرتا تھا۔ اس وقت نیب کا ادارہ ہوتا تو نیب کے ملزمان چیئرمین کی مے نوشی کرتے وقت فلم بناتے اور اس کی معزولی کا مطالبہ کرتے!  ‎عجیب معاشرہ ہے‘ نفاق سے لبا لب بھرا ہوا‘ چھلکتا ہوا! پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو! اخلاقی اعتبارسے پاتال میں گرے ہوئے معززین‘ دوسروں پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے ذوالفقار مرزا نے ایان علی کے بارے میں کیا کہا تھا؟ کیا لوگ اس مغنّیہ کو بھول بیٹھے ہیں جس کے شوہر ملک کے نامی گرامی وکیل نے‘ اسے طلاق دے دی تھی؟ کیا کسی کو کِم بارکر کا نام یاد ہے؟ اس نے کیا کیا انکشافات کئے؟ کیا عوام اس شعبدہ گر حکمران کو بھول گئے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ نکاح کے نئے فارم جیب میں رکھتا تھا؟ نکاح کرنا جرم نہیں مگر ماتحت سے اس کی بیوی کو طلاق دلوا کر‘ ماتحت کا ہنستا بستا گھر اجاڑ دینا کیا گھنائونا مکروہ اور غلیظ جرم ن...

عابدی صاحب

‎’’یہاں ایک بزرگ ہیں۔ عابدی صاحب! آپ کا پوچھ رہے تھے‘‘  ‎دس برس قبل پہلی بار میلبورن پہنچا تو بیٹے نے عابدی صاحب کے بارے میں بتایا۔ کوئی تقریب تھی جس میں یہ دونوں مدعو تھے بات چیت چل نکلی وہ جو کہتے ہیں ڈاک خانہ مل جانا۔ تو ڈاکخانہ مل گیا۔ عابدی صاحب کو معلوم ہوا کہ اسرار میرا بیٹا ہے تو کہنے لگے’’بھائی! وہ تو ہمارے ساتھ تھے۔پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ میں! ہم بھی بورڈ کے ممبر تھے اور وہ بھی!‘‘ ساتھ ہی انہوں نے فرمائش کی کہ اظہار صاحب آئیں تو میرا ضرور بتانا‘ چنانچہ میلبورن پہنچے چند دن ہوئے تھے کہ بیٹے نے ان کا ذکر کیا اور سلام پہنچایا۔  ‎فلم چلی اور میں 1992ء میں پہنچ گیا۔ خلیج کی جنگ کا زمانہ تھا۔ میری تعیناتی واہ فیکٹریز میں بطور مشیر مالیات اور ممبر بورڈ تھی۔ پی او ایف اصل میں چودہ فیکٹریوں کا مجموعہ ہے جو حویلیاں سے لے کر سنجوال تک پھیلی ہوئی ہیں۔ معاملات‘خواہ انتظامی ہوں یا ٹیکنیکل یا مالی‘ بورڈ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ بورڈ کے چار ممبران ہوتے ہیں اور ایک چیئرمین۔ عابدی صاحب ممبر ٹیکنیکل تھے یعنی تمام تکنیکی معاملات کے انچارج۔ نرم گفتار۔ وضعدار ادب آداب سے بھرے ہو...

مسئلے کا مستقل حل:آئینی ترمیم

آپ کی ذہانت کا امتحان ہے!  پوری مسلم لیگ( ن) میں سے افطار پارٹی میں بلاول نے صرف مریم صفدر کو اپنے ساتھ کیوں بٹھایا؟ یوں تو حمزہ شہباز اور اپنے وزیر اعظم ہونے سے انکار کرنے والے خاقان عباسی بھی وہاں موجود تھے مگر حاشیے پر بیٹھے تھے۔ اصل مہمان مسلم لیگ نون میں سے مریم تھیں۔  پھر، اس سوال کا آپ کیا جواب دیں گے کہ پیپلزپارٹی میں اتنے بڑے بڑے جغادری موجود ہیں۔ خود زرداری صاحب، پھر رضا ربانی، راجہ پرویز اشرف، شیری رحمن اور کئی اور۔ مگر افطار پارٹی کی میزبانی بلاول کر رہے ہیں، وہی پارٹی کے چیئرمین ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟  ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ پیپلز پارٹی بلاول کو میراث میں ملی ہے اور مسلم لیگ نون پر مریم صفدر کا موروثی حق ہے۔ کچھ عرصہ منقار زیر پر رہ کر مریم دامن جھاڑ کر دوبارہ اٹھی ہیں کہ حق بہ حقدار رسد! جس طرح نواز شریف کی جائیداد، صنعت، روپے پیسے پر ان کی اولاد کا حق مسلمہ ہے اسی طرح، سیاسی حوالے سے پارٹی مریم کی وراثت ہے وہ پارٹی کی نئی سربراہ ہیں۔ اب خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، راجہ ظفر الحق خاقان عباسی اور دیگر معمر رہنمائوں کی وہ نئی باس ہیں۔ یہ ...

کتے ، خوک زادے اور ہنسانے والا

‎کیا کیا ارمان تھے خیراں بی بی کے دل میں!  ‎ساری عمر کی حسرتیں ! سبز گنبد دیکھنے کا شوق! جالیاں چومنے کی چاہ! ایک ایک پل گن کر گزارا تھا اس لمحے کے لئے! راتوں کو سوتے سوتے تڑپ کر اٹھ بیٹھتی ! یا پاک پروردگار! امجھے مرنے سے پہلے اپنے گھر کی زیارت کرا دے۔ مجھے مدینہ دکھا دے! مجھے مدینہ کی گلیوں میں پڑا رہنے والا ککھ بنا دے۔ نہیں تو اس جھونکے ہی کا روپ دے دے جو مدینتہ النبیؐ کے کوچوں سے گزرتا ہے!  ‎ایئر پورٹ پر انیس مئی کو خیراں بی بی پہنچی تو تسبیح ہاتھ میں تھی اور درود ہونٹوں پر! ساتھ تین عورتیں اور بھی تھیں۔ رفیقہ ہائے سفر! چاروں جدہ جانے والے جہاز کے لئے کاغذات چیک کرانے قطارمیں کھڑی تھیں۔ چاروں ان پڑھ! چاروں معصوم! سادہ دل! سادہ لوح! دوسروں پر اعتبار کرنے والی!  ‎امیگریشن والا۔ ویزوں پر لگی ان کی تصویریں دیکھتا‘ پھران کے چہروں پر نظریں جما لیتا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا پاسپورٹ ان کے ہیں اور الیکٹرانک ویزے کسی اور کے! چاروں نہ جا سکیں۔ زندگی بھر کے ارمان ہوا میں تحلیل ہو گئے ؎  ‎یہ تو ہے یاد ہے تیری کہ میری حسرت ہے  ‎یہ کون ہے ...

مولانا طارق جمیل ……صحرا میں اذان دے رہا ہوں

‎شبر زیدی نے کہا ہے کہ تین سو کمپنیاں ہیں اور ان میں سے صرف اسی انکم ٹیکس دے رہی ہیں، سمگلنگ دھڑا دھڑ ہو رہی ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے علاوہ بھی سمگلنگ زوروں پر ہے۔  ‎ایف بی آر کے چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ برس ساٹھ ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ ایک سال میں دس ہزار مشکوک بنک سرگرمیاں ہوتی ہیں، بائیس کروڑ کی آبادی میںانکم ٹیکس گوشوارے صرف انیس لاکھ افراد جمع کرا رہے ہیں!  ‎یہ صورت احوال عمران خان کو معلوم ہوتی تو اقتدار میں آنے سے پہلے ان عزائم کا اظہار نہ کرتے جن کا کرتے رہے! اب یہ تھیوری درست ثابت ہو رہی ہے کہ صرف ٹاپ پر دیانت دار قیادت ہو تو سب درست نہیں ہو سکتا۔ خزاں کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چند پھول کھل کر پیش منظر کو کیسے بدلیں گے؟ بددیانتی اور بد نیتی پاکستان کی سرزمین پر وال ٹو وال کارپٹ کی طرح بچھی ہے!  ‎یہ مارچ کے اوائل کا ذکر ہے! وفاقی دارالحکومت کے ایک پررونق، پوش، سیکٹر کے مرکز میں واقع ایک بہت بڑی دکان میں جانا ہوا جو صرف اور صرف مذہبی کتابیں فروخت کرتی ہے۔ قرآن پاک کے ایک خاص پرنٹ کے نسخے کی تلاش تھی جس کی فرمائش بیرون ملک سے ایک عزیز نے کی تھی...

کوئی ہے جو اس قتلِ عام کو روکے

یہی کہا ہے نا کہ کمزور ترین کرنسی ہے پاکستان کی؟  مان لیا کمزور ترین ہے! مگر گزارہ ہو جائے گا۔ ایک وقت فاقہ کر لیں گے۔ چُپڑی ہوئی نہ سہی‘ سوکھی کھا لیں گے۔ گوشت کے بجائے چٹنی پر قناعت کر لیں گے۔ مگر جس ملک میں ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں سے ہو اس میں کون بچے گا؟ مغربی سیاح کا کمنٹ نہیں بُھولتا۔ ‏People have been left on roads to kill each other!  خلق خدا شاہراہوں پر ایک دوسرے کو کھلے عام قتل کر رہی ہے!  قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا ٹریفک کے حادثے کی نذر ہو گیا ع  دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے!  جو ماں باپ ایسے روح فرسا سانحے سے گزر چکے ہوں۔ وہی اس قیامت کا اندازہ کر سکتے ہیں!اولاد ماں باپ کو کاندھا دینے کے لئے پال پوس کر بڑی کی جاتی ہے مگر جب موت و حیات کا مالک فیصلہ کر لے کہ باپ نے کاندھا دینا ہے تو آمناّ و صدّقناَ کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! امانتیں سپرد کرنے والا امانتیں واپس لے لیتا ہے! وقت کا تعین وہی کرتا ہے! مگر ڈھلتی عمر والے ماں باپ اس کے بعد ہر روز مرتے ہیں!  ہر روز جیتے ہیں! کاش کوئی ایسا دلدوز حادثہ اس ملک کے اربابِ حل و عقد کو عقل سکھا ...

بد بخت کہیں کے

‎پھر وہی سیاپا وہی پھوہڑی ! وہی سینہ کوبی وہی ماتم! ؎  ‎آج بھی صید گہ عشق میں حُسنِ سفّاک  ‎لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا  ‎یہ رمضان بھی اپنے نصف کو پہنچنے والاہے مگر نالاں ہے! شاکی ہے! فریاد کناں ہے۔ہم منافقین سے پناہ مانگ رہا ہے! اس کا بس چلے تو کٹر کتا عذاب نازل کر دے!  ‎یہ لطیفہ بھی پرانا ہو چکا ہے جو کمال بے شرمی بے حیائی اور ڈھٹائی سے ہم منافقین ہنس ہنس کر ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ کسی ترقی یافتہ ملک کے غیر مسلم نے مسلمان سے پوچھا روزے میں کیا کیا کرتے ہو اور کیا کیا نہیں کرتے۔ مسلمان نے فخر سے سینہ پھیلایا اور کہا کہ رمضان میں سحری سے افطار تک اکل و شرب سے پرہیز کرتے ہیں۔ ساتھ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولیں‘ وعدہ خلافی نہ کریں۔ کسی کو دھوکہ نہ دیں! ماپ تول میں خیانت نہ کریں! غیر مسلم نے اداس ہو کر حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ یہ سارے بُرے کام جن سے تم رمضان میں پرہیز کرتے ہو‘ ہم تو ان سے سارا سال پرہیز کرتے ہیں۔  ‎یہ نوحہ خوانی بھی ہر سال ہوتی ہے کہ مسیحی دنیا میں کرسمس اور ایسٹر کے مواقع پر بازاروں میں ارزانی کا دور دورہ ہوتاہے———-سیلیںُُُُُُ (s...

اچھے ماتحت

‎یہ ایک مختصر‘ عام سا بیان ہے جسے ہو سکتا ہے بہت سے اخبار بینوں نے غور سے پڑھا بھی نہ ہو۔ مگر ایک خاص طرز سیاست کا کچا چٹھہ کھول رہا ہے جو اس ملک پر مسلط ہے! ‎ ’’مریم نواز ایک سیاسی کارکن ہیں وہ سیاسی میدان میں بھر پور کردار ادا کرتی ہیں لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتیں‘‘  ‎یہ بیان کس کا ہے؟ یہ اہم نہیں! اس لئے کہ مقصد کسی کی ذات یا کسی کے نام کو موضوع سخن بنانا نہیں۔ مقصد اس فرق کو سامنے لانا ہے جو ہماری جمہوریت اور ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت میں ہے۔  ‎ہماری جمہوریت میں خاندان اہم ہے پارٹی اہم نہیں! ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی اہم ہے۔ خاندان اہم نہیں!  ‎کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی برطانوی سیاست دان سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی یا اس کے خاندان کی صفائیاں پیش کر رہا ہو؟ امریکہ کے اخبارات کھنگال لیجیے۔ یو ٹیوب پر تقریریں۔ بیانات‘ چھان ماریے‘ کوئی ڈیمو کریٹ سیاستدان ایسا نہیں ملے گا جو سابق صدر بارک اوباما کے خاندان کی تعریفیں کر رہا ہو!یہ طرز جمہوریت صرف ہمارے ہاں رائج ہے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی بیٹی کے لئے میدان صاف کیا...

اب افاقہ ہے؟

یوگی ادتیاناتھ (Aditya nath) یو پی کے ایک گائوں میں 1972ء میں پیدا ہوا۔ باپ محکمہ جنگلات کا ملازم تھا۔ نوے کی دہائی میں ادتیا ناتھ اس تحریک میں شامل ہو گیا جو ایودھیا مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنا چاہتی تھی۔ اسی دوران خاندان سے قطع تعلق کر کے وہ گورکھ پور کے مشہور مندر گورکھ ناتھ سے وابستہ ہو گیا۔ یہیں اسے ’’مہنت‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔ پھر وہ انتہا پسند ہندو کے طور پر سیاست میں آیا اور لوک سبھا کا رکن منتخب ہو گیا۔ آر ایس ایس کو اس کے نظریات راس آ رہے تھے۔ 2017 ء میں وہ یو پی کا وزیر اعلیٰ مقرر ہو گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ مدارس کو پابند کیا گیا کہ یوم آزادی پر قومی ترانہ گائیں  اور ثبوت میں ویڈیو پیش کریں۔ پاکستان کو شیطان سے تشبیہ دی۔ صدر ٹرمپ کی اینٹی مسلم پالیسی کی حمایت کی۔ اس نے اعلان کیا کہ ہم ہر مسجد میں دیوتائوں کے بت نصب کریں گے۔2015ء میں اس نے کہا کہ شاہ رخ خان وہی زبان استعمال کرتا ہے جو حافظ سعید کی ہے۔  حال ہی میں ادتیا ناتھ نے الہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھ دیا ہے۔ مسلم ثقافت پر یہ بھارتی تاریخ کا بدترین حملہ ہے۔ عبدالقادر بدایو...

جو ہو رہا ہے ہم اسی کے مستحق ہیں

  کیا آپ کو یاد ہے مہاجن چوکی سامنے رکھے ‘ دری پر بیٹھا ہوتا تھا؟   نواب صاحب کا منشی اس کے پاس آتا تھا۔ کہ نواب صاحب نے مزید قرض مانگا ہے۔ وہ کھاتہ دیکھتا تھا کہ پچھلا حساب کتنا ہے۔ پھر کچھ کہے یا پوچھے بغیر مطلوبہ رقم گن کر منشی کے حوالے کر دیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قر ض واپسی آنا ہی آنا ہے اور مع سود آنا ہے۔ نواب صاحب کے پاس رقم نہ بھی ہوئی تو جاگیر تو کہیں نہیں گئی۔ یوں آہستہ آہستہ جاگیر قسطوں میں مہاجن کے نام منتقل ہوتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں کتنے ہی نواب قرض لے لے کر قرقی ہوئے۔ کچھ نے پیسہ طوائفوں کے کوٹھوں پر لٹایا کچھ نے کنیزیں پالیں اور ان پر فدا ہوئے کچھ کو شادیوں کا شوق تھا۔ کچھ شراب نوشی اور قمار بازی کے شیدا تھے۔ کچھ کو انگریز سرکار پنشن جتنی دیتی تھی وہ ان کے شاہانہ اخراجات کی متحمل نہ ہوتی تھی۔ واجد علی شاہ کو لکھنؤ سے نکال کر انگریزوں نے کلکتہ میٹا برج میں نظر بند کیا ...