اشاعتیں

اپریل, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اس سے زیادہ صاف تو مردار کا گوشت ہے

‎کیا فرق ہے ہم میں اور کسی دور افتادہ‘ جنگل کے درمیان واقع ایک وحشی قبیلے میں!  ‎اگر ترقی کا مطلب وسیع شاہراہیں‘ میلوں لمبے شاپنگ مال اور جدید ترین ہوائی اڈے ہوتا تو ایک دنیا شرق اوسط کے ملکوں میں زندگی بسر کرنے کی خواہش مند ہوتی! یہ سب کچھ وہاں موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ!مگر کسی کے دل میں امنگ نہیں اٹھتی کہ وہاں جا کر بسے۔ اس لئے کہ ٹریفک کا حادثہ ہو گیا تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ مقامی کون ہے اور غیر مقامی کون؟  ‎ایک پاکستانی نژاد امریکی نے جو واقعہ سنایا وہ ہزار کتابوں اور تقریروں پر بھاری ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ ترقی کیا ہے؟ مدینہ منورہ سے پاکستان آنے کے لئے یہ پاکستانی نژاد امریکی‘ ہوائی اڈے پر قطار میں کھڑا تھا۔ پاسپورٹ چیک ہو رہے تھے، بورڈنگ کارڈ ایشو ہو رہے تھے۔ دھاندلی میں لپٹا ایک عرب آیا‘ قطار سے گزر کر سیدھا کائونٹر پر گیا۔ کائونٹر والے نے قطار والوں کو پس پشت ڈال کر پوری توجہ اس پر مرتکز کی اور پھر کیے رکھی۔ اس پاکستانی نژاد امریکی نے کہ عربی میں قدرتِ کلام رکھتا تھا۔ احتجاج کیا، شدید احتجاج! کائونٹر والا اس پر چلایا! تب مسافروں نے اسے سمجھایا کہ میاں! پکڑ...

قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح

‎یہ حقیقت ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ثابت ہو چکی ہے کہ سوقیانہ زبان استعمال کرنے کے لئے جہالت ضروری نہیں! ‎ان سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کون ہو سکتا تھا۔ تاہم سیاسی حریفوں کو وہ آلو اور ڈبل بیرل کہہ دیتے تھے۔ عوامی جلسوں میں بھی متانت کی سطح سے نیچے اترنا ان کا معمول تھا۔  ‎عمران خان پر بھی برطانوی تعلیم اور ولایت میں قیام کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے خاندانی وارث کو انہوں نے صاحب کے بجائے صاحبہ کہا۔ اس جماعت کے وابستگان کا ردعمل فطری ہے۔ احتجاج ان کا حق ہے! انہیں بُرا منانا چاہیے تھا جو انہوں نے منایا۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی مرد کی تنقیص کرنی ہو تو انگریزی میں یہ کہنا عام ہے کہ?  Who is She  ‎بھٹو صاحب اور عمران خان کے درمیان والے عرصہ میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ اس کا درست ادراک کیا جائے تو بھٹو صاحب اور عمران خان کے الفاظ جو انہوں نے حریفوں کے لئے استعمال کیے‘ پھول لگیں گے۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک معروف اور نمایاں سیاست دان نے ایک خاتون کے لئے بھری محفل میں کیا الفاظ استعمال کئے تھے کس قبیل کا اشارہ کیا تھا اور شرکائے محفل کس ...

‎ایک امیر شہر جسے نوچنےوالوں نے فقیر کر دیا

‎خزاں ہے اور ایسی کہ درخت بجھ گئے ہیں۔  ‎احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا … ‎خزاں دلوں میں جڑیں چھوڑنے کی دُھن میں ہے  ‎کہاں   گیا     مرا       پروردگار       موسمِ      گُل  ‎سبزہ پیلا پڑ گیا ہے۔ نامراد عاشق کے رخسار کی طرح  ‎رومی نے شمس تبریز کے نام پر پورا دیوان لکھ ڈالا۔ دیوان شمس تبریز! اور عاشق کے زرد رنگ کی طرف معشوق کی توجہ دلائی ؎  ‎آخر تو شبی رحمی نہ کُنی ‎بر رنگِ رُخِ ہمچون زرِ من  ‎ایک رات بھی تو میرے سونے جیسے رنگ پر رحم نہیں کرتا۔  ‎رنگ عاشق کا پیلا ہوتا ہے اور اس ضعیف کا بھی جو عمر کی سرحد پر پہنچتا ہے۔ ناصر کاظمی یاد آ گیا ؎  ‎رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی  ‎بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی!  ‎شاعروں نے بالوں میں چاندی بھی ڈھونڈی اور برف بھی!افتخار عارف نے کہا ؎  ‎ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں میں  ‎ابھی تو قرضِ مہ وسال بھی اتارا نہیں  ‎سعدی نے ابراہیم خلیل اللہ کی مہمان نوازی کا بیان جس حکایت میں کیا اس میں ’’برفِ پیری‘‘ کی ترکیب استعما...

موخر کرسکتے ہیں - روک نہیں سکتے

وہ گاؤں کا غریب آدمی تھا ۔نسل در نسل ایک ایسے پیشے سے منسلک جو سماجی ڈھانچے میں زیریں سطح پر تھا۔معجزہ یہ ہوا کہ اس کے بیٹے نے گریجوایشن کرلی۔نوکری بھی مل گئی یہ اور بات کہ پکی نہیں تھی۔  یہ وہ زمانہ ہے جب سرکاری کاغذوں میں ایک اصطلاح کنٹریکٹ کی نوکری ہے۔ یعنی لٹکائے رکھو۔لٹکائے رکھو ۔ کام لیتے رہو ۔ تنخواہ بڑھانی پڑتی ہے نہ ترقی دینے کا جھنجھٹ، پینشن تو کنٹریکٹ ملازمین کی ہوتی ہی نہیں ۔  پاس کے گاؤں سے رشتہ داروں کے ہاں اس لڑکے کی شادی ہوئی۔اس کی دلہن نے بہ ہزار دقت  سینکڑوں تکلیفیں جھیل کر گرتے پڑتے،افتاں خیزاں ایم اے کر رکھا تھا ۔ایسی نچلی سطح کی ذاتوں میں ایم اے۔ وہ بھی لڑکی! مگر ذرائع آمدورفت کی تیزی نے بہت سی انہونیوں کو ممکن بنادیا ہے -  یوں بھی ذہانت اگرزمین ، زر ، جائیداد، اور اقتدار کی بنیادپر ملتی تو دنیاکا نقشہ مختلف ہوتا۔ غلام بادشاہ نہ بنتے اور تخت وتاج کے وارث گلیوں میں خس و خاشاک کی طرح نہ بھٹکتے پھرتے۔ذہانت کی بنیاد دولت ہوتی تو حسن نواز اور حسین نواز جیسے پیدائشی کھرب پتی سالہا سال برطانیہ میں رہ کر آکسفورڈ کیمرج یا لندن سکول آف اکنامکس سے کم از کم ...

وہ فرشتہ ہے نہ ساحر

‎یہ آج نہیں ہو رہا۔ صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔  ‎جس زمانے میں عرب پرتگال کی سرحد سے لے کر ماورا النہر تک چھائے ہوئے تھے جیسے پرزور گھٹا افق تا افق چھا جاتی ہے، اس زمانے سے محاورہ چلا آ رہا ہے من صنّف فقداستھدف۔ جو بھی نیا راستہ نکالے گا، طنزو تشنیع کے تیروں سے چھلنی کر دیا جائے گا۔  ‎یہی بات اہل ایران نے کہی ؎  ‎ازان کہ پیرویٗ خلق گمرہی آرد ‎ نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست  ‎اس راستے پر نہیں چلیں گے جس پر ہجوم چل رہا ہے اس لئے کہ اندھا دھند پیروی گمراہی کا پیش خیمہ ہے!  ‎آج عمران خان میدان میں کھڑا ہے۔ اس پر تیروں کی بارش ہو رہی ہے۔ ہرچہار طرف سے! زہر میں بجھے ہوئے تیر! غیروں کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے! کوئی کہہ رہا ہے غیر منتخب مشیر اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ گویا اسحاق ڈار، سرتاج عزیز رضا ربانی اور کئی اور، ون مین ون ووٹ سے آئے تھے! کوئی الزام لگا رہا ہے کہ فلاں پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر تھا۔ جیسے وہ پاکستانی نہیں؟ ایک طرف سے یہ شہنائی بجائی جا رہی ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کی بیورو کریت ٹیم واپس لے آئے ہیں۔ اس قبیل کے اعتراضات کا جواب ایک مزاحیہ شا...

نسل‘زبان اور مسلک کے پھندے

      چودہ مزید پنجابیوں کو بلوچستان میں قتل کر دیا گیا ہے۔ سفاکی اور بربریت کا وحشیانہ مظاہرہ !  زمین کے کسی خطے کو اگر چند قبائلی سردار ‘ چند نواب ‘ چند خان ‘ چند ملک ‘ زیرنگیں رکھنا چاہیں تو اس کا کامیاب ترین طریقہ ‘ جو صدیوں سے آزمایا جا رہا ہے ‘ یہی ہے کہ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق پیدا کی جائے ‘ اس طریقے کا ایک ’’ جزو،ب ‘‘ بھی ہے۔ یعنی دوسرا حصہ۔ کسی قوم کو اگر معاشی اور سیاسی حوالے سے پس ماندہ رکھنا ہو تو اسے مادری زبان اور ’’ اپنی ‘‘ ثقافت کی خار دار جھاڑیوں میں الجھا دیجیے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی ‘ یہ مادری زبان اور ’’ اپنی ‘‘ ثقافت کی جھاڑیوں میں الجھے رہیں گے !  یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بلوچستان میں یہ خونیں کھیل جو کھیلا جا رہا ہے اس میں ہمارے دشمن ممالک اپنا اپنا حصہ ‘ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔ تاہم مقامی بنیاد کے بغیر ‘ غیر ملکی امداد کی دیوارتعمیر نہیں ہو سکتی۔ جہاں دھواں اٹھتا ...