مگرمچھ کے آنسو
کیا آپ نے کبھی مگر مچھ دیکھا ہے؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہوتا تو اگلا سوال یہ تھا کہ کیا کبھی مگر مچھ کو آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے۔ مگر مچھ کے آنسو بہانے کا محاورہ ہمارے ہاں براہ راست انگریزی زبان سے آیا ہے۔ کچھ محاورے فارسی سے بھی آئے ہیں۔ جیسے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی ’’سکندرنامہ‘‘ میں نظامی گنجوی کہتے ہیں ؎ کلاغی تگ کبک را گوش کرد تگ خویشتن را فراموش کرد یعنی کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ مذہبی گروہوں نے سیاسی پارٹیوں کا روپ دھارنا چاہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی چال بھی بھول گئے۔ مذہبی رہے نہ سیاسی۔ پارٹی تو کیا بنتے گروہی حیثیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎ آج میں تہمتِ بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں دس برس کاٹ کے پنجاب کے زندانوں میں یہ جتھے آج تہمت بے جا کے سوا کچھ نہیں۔ صرف تہمت ہونا ہی زمین کا بوجھ ہونے کے لیے کافی تھا۔ تہمت بے جا ہونا تو عبرت کا آخری درجہ ہے۔ بات محاوروں کی ہورہی تھی۔ مگر مچھ کے آنسو ہمارے ہاں براہ راست جزائر برطانیہ سے آئے۔ انگریزی میں یہ مکار محاورہ لاطینی سے آیا۔ معاملہ ص...