اشاعتیں

مارچ, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مگرمچھ کے آنسو

کیا آپ نے کبھی مگر مچھ دیکھا ہے؟  اگر آپ کا جواب اثبات میں ہوتا تو اگلا سوال یہ تھا کہ کیا کبھی مگر مچھ کو آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے۔  مگر مچھ کے آنسو بہانے کا محاورہ ہمارے ہاں براہ راست انگریزی زبان سے آیا ہے۔ کچھ محاورے فارسی سے بھی آئے ہیں۔ جیسے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی ’’سکندرنامہ‘‘ میں نظامی گنجوی کہتے ہیں ؎  کلاغی تگ کبک را گوش کرد  تگ خویشتن را فراموش کرد  یعنی کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ مذہبی گروہوں نے سیاسی پارٹیوں کا روپ دھارنا چاہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی چال بھی بھول گئے۔ مذہبی رہے نہ سیاسی۔ پارٹی تو کیا بنتے گروہی حیثیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎  آج میں تہمتِ بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں  دس برس کاٹ کے پنجاب کے زندانوں میں  یہ جتھے آج تہمت بے جا کے سوا کچھ نہیں۔ صرف تہمت ہونا ہی زمین کا بوجھ ہونے کے لیے کافی تھا۔ تہمت بے جا ہونا تو عبرت کا آخری درجہ ہے۔  بات محاوروں کی ہورہی تھی۔ مگر مچھ کے آنسو ہمارے ہاں براہ راست جزائر برطانیہ سے آئے۔ انگریزی میں یہ مکار محاورہ لاطینی سے آیا۔ معاملہ ص...

پاکستان کا مطلب کیا

افسوس ہم اپنی بنیاد سے بے خبر ہو چکے۔  ہیہات! ہیہات!ہم اپنی تاریخ بھول گئے۔  کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی قوم اپنی وجہ تخلیق فراموش کر بیٹھے؟ نرم ترین لفظ بھی اس عمل کے لیے خودکشی ہے، بنیاد گئی تو دیواریں گریں، دیواریں گریں تو چھت نیچے آ رہی، انجام موت، درد ناک۔  اے غفلت کیش گروہ، اے حال مست بے فکروں کے انبوہ، سوچو کہ وہ دھان پان پتلا دبلا انسان جس نے تپ دق کی پرواہ نہ کی، پاکستان کے لیے دن رات محنت کرتا رہا۔ وہ ایک اکیلا کانگرس سے اور بیک وقت انگریزی استعمار سے لڑتا رہا۔ اس کی کئی عشروں کی بے لوث کمائی پاکستان تھا۔ صرف اور صرف پاکستان۔ آخر اس پاکستان کا مقصد کیا تھا؟  غور کرو کہ تقسیم ہوئی تو پنجاب اور یوپی خون مسلم سے سرخ ہو گئے۔ لاشوں سے بھری ٹرینیں آئیں۔ رینگتی بیل گاڑیوں پر خاندان کے خاندان سوار ہوئے اور کبھی نہ اترے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق ستر ہزار مسلمان خواتین نشے میں دھت سکھوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ عصمتیں لٹیں، دین ایمان برباد ہوئے، کیوں؟ تم کیوں نہیں غور کرتے کہ یہ عظیم الشان، یہ بے مثال قربانی کیوں دی گئی؟  پھر ساٹھ کی دہائی طلوع ہوئی۔ رات کے اندھ...

خوشی کی خبر

‎سب سے پہلے خوشی کی یہ خبر صدر ٹرمپ کو وزیراعظم مودی نے ہاٹ لائن پر سنائی۔  ‎صدر ٹرمپ نے اسی وقت اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کو فون کیا۔ یاہو اس وقت اسرائیل کے مذہبی رہنمائوں کے ساتھ خفیہ میٹنگ کر رہا تھا۔ اسے باہر بلا کر بات کرائی گئی۔ یاہو اجلاس میں واپس گیا اور یہودی علماء کو ’’ایک اچھی خبر‘‘ کی مبارک باد دی۔ یہ الگ بات کہ اس نے احتیاطاً خبر کی تفصیل نہ بتائی۔  ‎نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ایک آسٹریلوی نسل پرست نے جب پچاس مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا تو نسل پرستوں اور مسلمان دشمنوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ٹرمپ اور مودی نے اطمینان کا اظہار کیا۔ قاتل کے نظریاتی مرشد، فرانس کے رہنے والے ریناڈ کیمو کو مبارک بادیں دی گئیں۔ اسی کی کتاب ‘‘گریٹ ری پلیس منٹ‘‘ سے قاتل نے اپنے منشور کا عنوان لیا تھا۔  ‎ٹرمپ، مودی، بنجمن نتن یاہو اور ریناڈ کیمو کا خیال تھا کہ نیوزی لینڈ کا قتل عام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ مسلمان خوف زدہ ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات دوسرے مغربی ملکوں میں بھی رونما ہوں گے۔ مقامی آبادیاں بے نیازی کا ثبوت دیں گی۔ رفتہ رفتہ مسلمان تا...

سوہنی دھرتی اللہ رکھے

  ‎وہ بچپن تھا جب صحن ایک تھا۔ بہت بڑا صحن، سب اس میں مل کر کھیلتے۔ گرمیوں میں ڈیوڑھی ٹھنڈی لگتی اور جاڑوں میں اندر کا نیم تاریک کمرہ گرم ہوتا۔ بڑے اس میں گھنٹوں بیٹھتے۔ بچے اندر جاتے تو انہیں دکھائی کچھ نہ دیتا۔ فوراً باہر نکل آتے۔  ‎پھر صحن تقسیم ہوگیا۔ درمیان میں دیوار اٹھا دی گئی۔ اب یہ دو گھر الگ الگ ہو گئے مگر جن کا بچپن بڑے صحن میں گزرا تھا، وہ چشم تصور سے اسی معدوم صحن کو دیکھتے۔ انہی برآمدوں، اسی ڈیڑھی اور اس نیم تاریک بڑے کمرے کو یاد کرتے رہتے۔ ‎متحدہ پاکستان کی دو ثقافتی علامتیں تھیں۔ شبنم اور شہناز بیگم جو مشرقی اور مغربی پاکستان کا مشترکہ سرمایہ تھیں۔ ان میں سے شہناز بیگم د نیا سے کوچ کر گئی ہیں۔ تین دن پہلے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ مغربی پاکستان سے شہرت پانے والی شہناز بیگم ڈھاکہ میں دفن ہوئیں جس کی شہرت بحر بے کراں تھی، اسے ایک جوئے کم آب تک محدود کر دیا گیا۔ عروج تھا، پاکستان کی نامور گلوکارہ تھیں۔ دفن ہوئیں توبنگلہ دیش کی فنکارہ تھیں۔ پہلے صحن ایک تھا۔ بہت بڑا صحن، پھر دیوار اٹھی، وہ دیوار کے اس طرف رہ گئیں، ہم اس طرف، مگر ہماری نسل کے لوگ کبھی نہ مان سکے...

زمیں سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے

  سچ کہا تھا منیر نیازی نے کہ شاعر ہی تصورات پیش کرتے ہیں‘ جنہیں دوسرے عملی شکلوں میں ڈھالتے ہیں۔ یہاں تک کہ چاند پر پہنچنے کا آئیڈیا بھی سائنسدانوں کو شاعروں ہی نے دیا۔  چالیس سال بنی اسرائیل صحرا میں بھٹکتے پھرے۔ کبھی نخلستانوں کی تلاش میں‘ کبھی سرابوں کے پیچھے‘ بہتر برس ہو گئے ہیں پاکستانی قوم کو بھٹکتے ہوئے‘ کبھی سیٹو کے قافلے کا حصہ بنے‘ کبھی سینٹو کی گرد راہ‘ ایوب خان کے عہد میں آر سی ڈی کا ڈول ڈالا گیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے مگر کوئی تیر نہ مارا گیا۔ کوئی پہاڑ آر سی ڈی (موجودہ  ECO)  نے نہ کھودا ؎  سر ہو سکی نہ ان کی مدد سے کوئی مہم  دیوار دل پہ عشق کے نقشے لگے ہوئے  سارک بنا اور بھارت کی کم ظرفی نے اسے ترقی کا زینہ نہ بننے دیا۔  غالب نے گمراہی کا جو تصور پیش کیا‘ ہم اسے عملی جامہ پہنانے پر تلے ہیں ؎  چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ  پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں  کبھی مہاتیر کا ملائیشیا ہمارا آئیڈیل بنتا ہے‘ کبھی ہم سنگاپور کے لی کوآن یو کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر پہنچتے کہیں...

اور کچھ نہیں تو ساحل کی قدر ہی کر لو

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بے گھر انسان پر کیا گزرتی ہے!  سعدیؔ کے پاس جوتے نہیں تھے۔ سفرکر رہے تھے شاکی اورنالاں ! راستے میں دیکھا کہ ایک مسافر کا پائوں ہی نہیں تھا! شکر بجا لائے کہ پائوں تو سلامت ہیں!  باپ گھر بناتا ہے: پیسہ پیسہ جوڑ کر! جوانی اور بڑھاپے کی ہڈیوں کا سفوف‘ گارے میں مکس ہوتا ہے تب مالِ حلال سے مکان بنتا ہے۔ پھر بیٹے‘ بیٹیاں‘ پوتے ‘ نواسے‘ اس میں نقص نکالتے ہیں! یہ کمرہ فلاں جگہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ یہ برآمدہ مناسب نہیں! باپ خاموشی سے سنتا ہے! دل میں ہنستا ہے۔ جماعت اسلامی کے فراموش شدہ شاعر نعیم صدیقی نے کہا تھا ؎  یہ لاالہ خوانیاں جائے نماز پر!!  سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے  کہ تم کبھی بنائو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ سو میں بیس کتنے ہوتے ہیں اور آٹے دال کا بھائو کیا ہوتا ہے!  وطن بھی مکان کی طرح ہے! وہ شخص جس کے پھیپھڑے تپ دق سے مسموم ہو چکے تھے۔ ایک پہاڑ کی طرح ڈٹا رہا۔ کانگرس اور برٹش حکومت اس کی استقامت کے سامنے عاجز آ گئے۔ وطن ظہور پذیر ہوا پھر ایک دن خاموشی سے اس نے بیماری کے سامنے ہتھیار ڈالے اور دنیا سے رخصت ...

شالا پردیسیاں نی خیر ہووے

تصویر

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی۔ ایک زاویہ اور بھی ہے

’’کئی برسوں سے سن رہا تھا اور پڑھ رہا تھا کہ فرانس پر وہ لوگ ’’حملہ آور‘‘ ہورہے ہیں جو سفید فام نہیں ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ مبالغہ آرائی ہے اور اس کا مقصد سیاسی سکور حاصل کرنا ہے مگر فرانس جا کر دیکھا تو یہ سب کچھ نہ صرف سچ نکلا بلکہ یوں محسوس ہوا کہ اصل سے بھی کم ہے۔‘‘  نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں پر وحشیانہ حملہ کرنے والے دہشت گرد نے ٹوئٹر پر اپنا ’’منشور‘‘ نشر کیا ہے۔ مندرجہ بالا سطور اسی منشور کا حصہ ہیں۔  کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس منشور کا عنوان اس نے کیا رکھا ہے اور یہ عنوان کہاں سے لیا ہے؟  اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ایک بار پھر فرانس جانا پڑے گا۔  ریناڈکیمو 1946ء میں پیدا ہوا۔ حصول تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ گیا۔ ادب کی طرف رجحان تھا مگر شروع ہی سے متنازعہ ہوگیا۔ اس کا موقف تھا کہ فرانس میں ادب کا تذکرہ ہو تو ترجیح یہودی النسل ادیبوں کو دی جاتی ہے۔ کھلم کھلا ہم جنس پرست بھی تھا۔ اس موضوع پر کتاب بھی لکھی۔ 2014ء میں ایک فرانسیسی عدالت نے اسے چار ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ جرم یہ تھا کہ اس نے مسلمانوں کو غنڈہ کہا تھا اور الزام لگایا تھا کہ یہ فرانس کو ’...

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

  کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں اس روئے زمین پر سب سے زیادہ حیرت انگیز انسان ہوں؟ سب سے زیادہ عجیب و غریب۔ میرا چیلنج ہے کہ مجھے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ میرا اگلا اقدام کیا ہوگا؟ میں کس طرف مڑوں گا؟ میری پالیسی کیا ہے؟ میرا مستقبل کا روڈ میپ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا میرے دشمن کون ہیں، میرے دوست کون ہیں؟  میں رات دن حرام کھاتا ہوں، تجارت میں، زراعت میں، دفتر میں، کارخانے میں، کم تولتا ہوں، کم ماپتا ہوں، خوراک کے نام پر زہر بیچتا ہوں، دوائوں کے نام پر موت فروخت کرتا ہوں، دفتر دیر سے جا کر، چھٹی سے پہلے چھٹی کر کے، سائلین کو اذیت پہنچا کر، اپنی تنخواہ کو حرام مال میں ڈھالتا ہوں، ٹیکس چراتا ہوں، ممبر ہوں تو اسمبلی میں نہیں جاتا۔ وزیر ہوں تو تنخواہ تیس دن کی لیتا ہوں، دفتر ہفتے میں ایک دن جاتا ہوں، اس مسلسل حرام خوری کے باوجود دنیا حیران ہے کہ بیرون ملک جائوں تو حلال گوشت کے لیے تلاش بسیار کرتا ہوں۔ نہ ملے تو تڑپتا ہوں، میرے اس دوغلے پن کا سبب کوئی سائنس دان، کوئی ماہر نفسیات آج تک نہ جان سکا۔  میرے پاس ملبوسات کے انبار ہیں۔ ڈنر سوٹ، ڈنر جیکٹس، سردیو...