اشاعتیں

جنوری, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سیاحت؟ کون سی سیاحت؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سردیوں میں چترال جانے کے لئے لواری کی سرنگ  نہیں تھی -چترال پہنچنے کے لئے لوگ افغانستان کا راستہ استعمال کرتے تھے۔ ایک وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ ہم چترال کے مقام گرم چشمہ کو وسط ایشیا سے ملا دیں گے۔ لوگوں نے سنا اور ہنسے۔ اس لئے کہ چترال تو خود باقی ملک سے کٹا ہوا تھا۔  یہی صورت حال آج یوں پیش آئی کہ وزیر اعظم نے سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ایک ولولہ انگیز پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ ایک سو پچہتر ملکوں سے آنے والے سیاحوں کو ویزا آن لائن دیا جائے گا اور پچاس کو پاکستان کے ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد دیا جائے گا؟ وزیر اعظم کے حسن نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں! وہ پورے خلوص سے سیاحت کی ترقی چاہتے ہیں۔ مگر ایک نظر زمینی حقائق پر ڈال لی جائے تو معلوم ہو گا کہ محض ویزا پالیسی نرم کرنے سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔  شمالی علاقے تو دور ہیں، ایک نظر لاہور پر ڈال لیجیے۔ شاہی قلعہ کے بیشتر حصے ایک عرصہ سے مرمت اور بحالی کے نام پر بند ہیں۔ اہلیت رکھنے والے ٹورسٹ گائیڈ ناپید ہیں۔ شاہی مسجد میں صفائی نام کی کوئی شے نہیں۔ بدترین مسئلہ وہاں وہ مافیا ہے جو مقامی ...

خالی گھونسلہ سنڈروم

جان جوکھوں کی مہم ہے! مجھ معمر شخص کے لیے جان جوکھوں کی مہم!!  آٹھ سالہ لڑکا غچہ دے کر اڑتے ہوئے غالیچے پر سوار ہوگیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے غالیچہ، جس پر چھت تھی اور آگے کل لگی تھی اوپر اٹھا اڑنے لگا، پھر دور ہوتا ہوتا ایک نقطے کی صورت اختیار کر گیا۔ ابھی  میں جیب میں رومال  ٹٹول رہا تھا، ادھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔  کڑک کی آواز تو نہیں آئی مگر کچھ ہوا ضرور ہوگا۔ ابھی تو دن تھا۔ ابھی رات پڑ گئی۔ اور کیسی رات، چراغ نہ جگنو، تارا نہ چاندنی، کوئی آواز نہیں، شاید ہوا ناپید ہو گئی۔ سانس لینے کے لیے ہوانہیں تو آواز کیسی؟  کیا کرسکتا ہوں۔ میں ایک عمر رسیدہ شخص کیا کرسکتا ہوں۔ میرا تو زمانہ لد چکا۔ اڑتے ہوئے غالیچے کا کیسے تعاقب کروں۔ میں نے درد کی زین کسی اور ہجر کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ کہاں گھوڑا، کہاں غالیچہ۔ غالیچے کا رخ بحرالکاہل کی طرف ہے۔ عناصر کو زیردست کرتا، فضائوں کو چیرتا، بادلوں سے بہت اوپر، آسمانوں سے اک ذرا اس طرف، غالیچہ اڑتا چلا جارہا ہے۔ نیچے زمین پر۔ میری زمین پر۔ سب پیچھے رہے جاتے ہیں۔ سمندر، دریا، پہاڑ، ملک، شہر، قصبے، کھیت، کارخانے، جنگل س...

کہاں ہے PTA

اب اس روایتی اور مذہبی معاشرے میں اسی چیز کی کسر باقی تھی۔ سو پوری ہو گئی۔  جنسی ادویات کے اشتہار موبائل ٹیلی فونوں کے ذریعے ایس ایم ایس پر گھر گھر بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک سرکاری ادارہ پی ٹی اے(پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی) صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم ہے۔ بھاری مشاہروں پر اس میں بڑے بڑے افسر‘ بڑے بڑے ٹیکنو کریٹ تعینات ہیں۔ بھاری بجٹ ہے اور حالت یہ ہے کہ گھروں میں جنسی ادویات کے ناقابل برداشت‘ مکروہ اشتہارات بھیجے جا رہے ہیں۔ ادارہ کہاں ہے؟ کیا کر رہا ہے؟  پہلی صدائے نفرین تو اُن زرپرست جانوروں کے خلاف بلند کرنی چاہیے جن کا کوئی اخلاقی آگا پیچھا نہیں! جو ہر حال میں پیسہ بٹورنا چاہتے ہیں۔ انہیں جانور کہنا جانوروں کی توہین ہے۔ جانوروں کے پھر اخلاقی ضابطے ہوتے ہیں۔ سوائے اس ایک جانور کے جس کا نام لینا اس معاشرے کی روایت کے خلاف ہے۔کیا فرق ہے ان میں اور جنسی ادویات فروخت کرنے والوں میں؟  سب کو معلوم ہے کہ بہت سے گھروں میں اب لینڈ لائن ٹیلی فون نہیں لگوایا جاتا۔ ایک موبائل فون گھر کے عمومی استعمال کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ اسے گھر کے بچے بھی استعمال کر...

نئی حکومت اور کرنے کے کام

مسئلہ بجٹ یا مِنی بجٹ کا نہیں! مسئلہ بنیادی پالیسیوں کا ہے،مسئلہ کامن سینس کا ہے!  حکومتیں ملک کو اس طرح کیوں نہیں چلاتیں جس طرح کوئی بزنس مین اپنا کاروبار چلاتا ہے؟وہ بہترین افرادی قوت بھرتی کرتا ہے۔ پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والے ٹاپ کلاس لوگوں کو منیجر لگاتا ہے۔ ایچ آر کا کام سونپتا ہے اور اکائونٹس اور فنانس کی ذمہ داری دیتا ہے۔  مشاہدہ بتاتا ہے کہ باربرا ٹک مین کا نظریہ درست تھا۔ باربرا ٹک مین امریکی تاریخ دان تھی۔ اپنی معروف تصنیف ’’حماقتوں کا مارچ‘‘ (March of follies) میں وہ یہ تھیوری پیش کرتی ہے کہ فرد جب فیصلے کرتا ہے تو اپنی دانست میں بہترین فیصلے کرتا ہے۔ مکان کہاں بنانا ہے؟کیسا بنانا ہے؟بچوں کے رشتے کہاں کرنے ہیں؟فیکٹری کہاں لگانی ہے۔ گاڑی کون سی خریدنی ہے؟ تمام معاملات کو اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھتا ہے۔ مگر حکومت جب فیصلے کرتی ہے تو احمقانہ! ازحد احمقانہ! لکڑی کا گھوڑا شہر کے اندر لے جانے سے سب نے منع کیا۔ مگر سٹی کونسل(حکومت) فصیل کے اندر لے جا کر رہی۔ پھر کیا ہوا؟گھوڑے کے پیٹ میں دشمن کے سپاہی چھپے تھے۔ شہر چھن گیا۔ محمد تغلق کا فیصلہ کہ درالحکومت جنوبی ...

مائی لارڈ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ! فریاد ہے فریاد

  قتل کردو، مار دو، اس لیے کہ تم نااہل یہی کچھ کرسکتے ہو۔  ایک ایک پارک کو ختم کرو، سیرگاہوں کے گلے گھونٹ دو۔  باغوں کو اجاڑ دو، جنگل کاٹ دو، درختوں پر آرے کلہاڑے چلائو۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ تم کچھ کرنہیں سکتے۔  تم نااہل ہو، راشی ہو، تم ترقیاتی ادارے نہیں، تم بدانتظامی کی سڑاند ہو۔ تمہارے دہانوں سے نالائقی کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ تم سراپا تعفن ہو، تم تعمیر نہیں کرسکتے جو پہلے سے تعمیر شدہ ہو اسے منہدم کردو۔  سینکڑوں ہزاروں کی افرادی قوت کے باوجود تم نے دارالحکومت کو غلاظت کا گڑھ بنا دیا۔ رشوت تمہارا طرۂ امتیاز ہے۔ اقرباپروری تمہاری شناخت ہے، تمہاری یونین عوام کی دشمن ہے۔ تم اس یونین کے آلہ کار ہو، تم خود عوام سے لاتعلق ہو۔ یونین تمہاری آلہ کار ہے۔ تم نے گرین ایریا کاٹ کاٹ کر پلاٹوں میں بدل دیا اور اب تم اس پارک کوقتل کرنا چاہتے ہو جو پچاس سال سے دکھ بھرے شہریوں کی پنا گاہ بنا ہوا تھا۔  یہ 1971ء تھا۔ مشرقی پاکستان کٹ کر الگ ہو چکا تھا۔ بھارت اپنے نوکیلے دانت نکالے، خونی پنجے لہراتے، دندناتا پھر رہا تھا۔ اس لیے کہ ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا ر...

خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی

برطانیہ کے وزیراعظم نے لندن پولیس کے سربراہ سے درخواست کی۔  ’’میں ہائوس آف کامنز سے نکلتا ہوں تو ٹریفک کے ہنگامے کی وجہ سے اپنی سرکاری قیام گاہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ وہاں غیر ملکی مہمانوں کو وقت دیا ہوتا ہے۔ ان میں سربراہان مملکت بھی ہوتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ دس پندرہ منٹ کے لیے ٹریفک کو متبادل راستے پر منتقل کردیا جائے۔‘‘  ’’نہیں! حضور‘ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ پولیس کے سربراہ نے جواب دیا۔ مگر میں آپ کو ایک اور حل تجویز کرتا ہوں۔  ’’وہ کیا؟ وزیراعظم نے پوچھا۔ ’’آپ ہائوس آف کامنز سے دس پندرہ منٹ پہلے نکل آیا کیجئے۔‘‘ یہ ہے پولیس کی خودمختاری اور آزادی اور اس خودمختاری اور آزادی ہی سے پولیس میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جو پولیس کو احساس ذمہ داری سے لیس کرتا ہے۔ اس خوداعتمادی‘ آزادی اور احساس ذمہ داری کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس وہاں کسی پر گولی نہیں چلاتی‘ کسی پر تشدد نہیں کرتی۔ جرم کا ثبوت اس کا واحد ہتھیار ہے۔  ہماری پولیس کیوں ظالم ہے؟ سفاکی اور سنگدلی میں کیوں یکتا ہے؟ احساس ذمہ داری کا مکمل فقدان کیوں ہے؟ خود اعتمادی س...

کہیں مقصد صرف شور و غوغا تو نہیں؟

92نیوز چینل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی اور دیگر غیر سیاسی معاملات پر بھی بحث کرتا ہے اور مختلف آرا کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے نفاذِ اردو پر بحث کی گئی۔  شاید یہ ہمارا قومی رویہ بن گیا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو‘ اس کی جڑ کو نہیں پکڑتے۔ شاخیں جھاڑتے رہتے ہیں۔ ملا نصرالدین کا یہ لطیفہ بچپن میں سب نے پڑھا اور سنا ہے کہ باہر‘ روشن سڑک پر کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ سوئی گم ہو گئی ہے۔ لوگوں نے پوچھا کیا سڑک پر گری تھی؟ جواب دیا نہیں! گم تو کمرے میں ہوئی ہے مگر وہاں اندھیرا ہے! قائد اعظم نے فرمان جاری کیا کہ سرکاری زبان اردو ہو گی۔ اردو نہیں نافذ ہوئی۔ عدالتیں کئی بار حکم صادر کر چکیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اردو نہیں نافذ ہوئی۔ اس لئے کہ جس مشین پر اردو کا کُرتا بُنا جاتا ہے اُس مشین پر اس وقت انگریزی کا سکرٹ بُنا جا رہا ہے۔ پہلے اس مشین سے انگریزی کو اتارنا ہو گا۔ پھر اردو کو اس مشین پر چڑھانا ہو گا۔ اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ ہر طرف شور مچایا جا رہا ہے کہ اردو نافذ کرو۔ مگر مشین کی طرف کوئی دیکھتا تک نہیں!  یہ مشین وہ ا...

کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو

کچھ دیر کے لیے وزیر اعظم کو چھوڑ کر دیکھیے۔  زرداری صاحب اور میاں صاحب کو بھی اپنے مسائل سے خود نمٹنے دیجیے، کچھ وقت ہمیں اپنے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ہم کون ہیں؟کوئی ہمارا آگا پیچھا بھی ہے یا نہیں؟کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو کرکٹ کھیلتے ہیں اور فلموں میں کندھے اچکا کر رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے ہیں، ایک صاحبزادے سے جنہوں نے او یا اے لیول میں بہت سے اےلیے تھے، پوچھا غالب کا کوئی شعر سنائیے۔ بھلا ہو گلزار کا کہ غالب کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور فلمایا۔ کچھ غزلیں اس میں گائی گئیں۔ ان میں سے ایک دو شعر صاحبزادے نے سنائے۔ غنیمت ہے کہ یہ فلم نما ڈرامہ انہوں نے دلچسپی سے دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کی پیٹھ تھپکی اور شاباش دی۔  چلیے، اب آپ یہ بتائیے مومن کون تھے؟ کب تھے؟کہاں تھے؟ آپ سے یہ سوال پوچھتے ہوئے بیس پچیس سال پہلے کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جو اس کالم نگار نے ایک سرکاری ادارے میں امیدواروں کا لیا تھا۔ اکثریت امیدواروں کی چودہ اور سولہ جماعتیں پاس تھی۔ اچھے نمبروں سے بی اے کر کے آنے والے ایک امیدوار سے پوچھا اقبال کیوں مشہور ہیں۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر سے جواب، پورے اعتماد کے ساتھ...