اشاعتیں

نومبر, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

: قیصر کا حصہ قیصر کو اور پوپ کا پوپ کو

جناب احسن اقبال نے کرتارپور کوریڈور اقدام کو سراہا۔ یہ حمایت سیاسی پختگی کی علامت ہے۔ لگتا ہے اہل سیاست زیادہ بالغ نظر ہورہے ہیں۔ ذہنی سطح بلند ہورہی ہے۔ جن ملکوں میں جمہوری سفر کئی سو سال پہلے شروع ہوا، وہ اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ’’اپنے‘‘ اور ’’پرائے‘‘ کے گرداب میں پڑے بغیر سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہہ سکتے ہیں۔پارٹیوں کے اندر ’’اصلی‘‘ انتخابات ہوتے ہیں۔ ارکان کھل کر پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو پارٹی کے سربراہ کو گلی کاراستہ بھی دکھا دیتے ہیں۔ اسی طرح مخالف پارٹی کے مثبت اقدامات کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ ہم ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے تاہم غنیمت ہے کہ خارجہ امور کے ضمن میں تمام پارٹیاں، جب بھی ضرورت پڑے، ایک پیج پر ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے جو ہرزہ سرائی کی اور وزیراعظم پاکستان نے اس کا جو جواب دیا، اس حوالے سے ساری اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ دیا۔ اتحاد کا یہ ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا۔ اس سے عوام کے حوصلے بلند ہوئے، قوم کا مورال بڑھا۔ یکجہتی کی فضا پروان چڑھی۔  یہی صورت حال اگراندرونی پالیسیوں کے ضمن میں بھی ہوتی تو ہمارا احوال بہت بہت...

آٹھ لاکھ روپے کی چربی ……

دل دہل گیا۔  جانے کیا ایمرجنسی تھی! ابھی گائوں جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔  میں بھی انہی بدقسمت لوگوں میں سے ہوں جو گائوں واپس جا کر بسنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں مگر شہر ایک کمبل ہے جو چھوڑتا نہیں۔ ویسے فرق ہی کیا ہے‘ ایک طرف لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد اور دوسری طرف نیویارک‘ لندن‘ سڈنی جا کر بس جانے والوں میں۔ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد والوں کی ساری زندگی اس منصوبہ بندی میں گزر جاتی ہے کہ بچے نوکریوں پر لگ جائیں تو واپس گائوں چلے جائیں گے۔ کھیتی باڑی کریں گے‘ حویلی کو پکا کریں گے‘ بچوں کو گندم اور سبزیاں بھجوایا کریں گے۔ نیویارک‘ لندن‘ سڈنی والے ارادے باندھتے رہتے ہیں کہ بس ریٹائر ہوتے ہی‘ بچوں کی شادیاں کرتے ہی واپس پاکستان چلے جائیں گے۔ دوست احباب اور اعزہ و اقارب کے درمیان رہیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! نہ لاہور‘ کراچی والے واپس گائوں آپاتے ہیں نہ لندن نیویارک والے پاکستان پلٹ سکتے ہیں‘ یہ کھیل تقدیر کا ہے۔ یہاں پلاننگ‘ منصوبہ بندی‘ ارادے سب ناکام رہتے ہیں‘ مختار صدیقی نے کہا تھا ؎  پیر‘ فقیر‘ اوراد‘ وظائف اس بارے میں عاجز ہیں  ہجر و وصال ک...

عمر کٹ جائے آنے جانے میں

یہ الوداعی نظر تھی۔ مسجد نبویؐ کے بیرونی گیٹ نمبر5سے باہر نکل رہا تھا۔ پلٹ کر دیکھا، اس سفرِ زیارت کے دوران گنبدِ خضریٰ کا یہ آخری دیدار تھا۔ زمین نے پائوں جکڑ لیے۔ کئی بار ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر اپنے پیاروں کو الوداع کیا۔ مگر یہ کیفیت ہی اور تھی۔ چلنا شروع کیا۔ دو قدم چلا، پھر پلٹ کر دیکھا۔ وہیں کھڑا ہو گیا۔ ایک ایک کرن نور کی، جو گنبد سے نکل رہی تھی، آنکھوں میں بھر لینا چاہتا تھا۔ ایک ہُوک دل میں اٹھی… کاش میں یہیں رہ جائوں! اس دربار کا جاروب کش ہو جائوں! یہاں ماشکی لگ جائوں! زائرین کے جوتے سیدھے کرتا رہوں۔ معاوضے میں گنبدِ خضریٰ کا دیدار ملتا رہے، یہیں مرض الموت آ گھیرے۔ یہیں جان دے دوں۔ زبان پر کلمۂ شہادت ہو، آنکھوں کے سامنے سبز گنبد ہو۔ مسجد نبویؐ کا فرش ہو۔ مگر نظیری نیشا پوری نے کہا تھا ؎ نازاں مرو کہ بارِ علائق گزاشتی ہستی تعلق است نظیریؔ جریدہ تر دنیا، خانوادہ، علائق، آلائشیں، آلودگیاں! ہاں حسرت کے اظہار سے تو کوئی نہیں روک سکتا! ؎  اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا انہی گلیوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی آتے ہوئے عرضی ...

ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

نہیں! بیورو کریسی ہشت پا نہیں! یہ آکٹوپس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آکٹو پس کو مار سکتے ہیں۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔  بیورو کریسی پیرِتسمہ پا ہے ؎  ہشیار! کہ پیرِ تسمہ پا ہے  یہ ضُعف سے کانپتا زمانہ بیورو کریسی تحریکِ انصاف کی گردن پر سوار ہے۔ ٹانگیں گلے میں حمائل کیے۔ رہائی ہو تو کیسے۔  رہائی ہو بھی نہیں سکتی۔ تحریکِ انصاف کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ فواد چوہدری، افتخار درانی اور دوسرے عمائدین کے نزدیک یہ مسئلہ ترجیحی ہی نہیں! رہے شفقت محمود تو خود بیورو کریسی کے اُس برہمن گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو بگاڑ کا ذمہ دار ہے۔ یادش بخیر عشرت حسین بھی اِسی مردم خور قبیلے کے رکن ہیں۔ کبھی سنتے تھے کہ بندہ جماعتِ اسلامی سے نکل جائے، جماعت اسلامی بندے کے اندر سے نہیں نکلتی۔ نہ معلوم یہ درست ہے کہ نہیں! مگر یہ ضرور درست ہے کہ بندہ بیورو کریسی کے برہمن گروپ ڈی ایم جی سے نکل جائے پھر بھی تفاخر کا احساس تا حیات رہتا ہے۔ قدرت چوٹی پر لے جائے بندہ وفاقی سیکرٹری بن جائے۔ وزیر بن جائے، سینیٹ میں بیٹھ جائے مگر ڈپٹی کمشنری کی یاد مرحومہ ماں کی یاد کی طرح ...

کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں

انوریؔ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں موجودہ ترکمانستان میں پیدا ہوا۔ مشکل پسند شاعر تھا۔ قصائد معرکے کے لکھے۔ ایک بہت معروف قطعہ ہے جو انوری کے مقام کی نشاندہی کرتا ہے:  در شعر سہ کسی پیمبرانند  ہر چند کہ ’’لانبیّ بعدی‘‘  ابیات و قصیدہ و غزل را  فردوسی و انوری و سعدی  یعنی یہ درست ہے کہ اب کسی نبی نے نہیں آنا مگر یہ تین اشخاص شعر کی دنیا کے پیغمبر ہیں۔ اشعار (یعنی مثنوی) میں فردوسی‘ قصیدہ گوئی میں انوری اور غزل میں سعدی ! اگر یادداشت غلطی نہیں کر رہی تو یہ مشہور عالم فقرہ۔ ’’شعرِ مرا بہ مدرسہ کہ بُرد’’بھی انوری ہی کا ہے۔ اس کی شاعری اہل مدرسہ تک پہنچی تو انہوں نے خوب بال کی کھال اتاری‘ پوسٹ مارٹم کیا۔ کیا خبر فتویٰ بھی لگا دیا ہو۔ انوری کو معلوم ہوا تو برافروختہ ہو کر پوچھا۔ آخر میرے اشعار کو مدرسہ تک لے کر کون گیا۔ چند دن پہلے کچھ دوستوں نے ایک نوجوان دستار پوش مولوی صاحب کا ویڈیو کلپ بھیجا۔ یہ صاحب اختلافی مسائل خوب خوب اچھال رہے ہیں۔ اقبال کے اس شعر میں اپنی دانست میں ’’غلطیاں‘‘ نکال رہے تھے:  بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں ع...

زیارت حرمین۔چند مشاہدات

فیس بُک پر اپنے حج اور عمرے کا اعلان کرنے والوں کو تو آپ اَن فرینڈ یا بلاک کر سکتے ہیں مگر اُن کا کیا کریں گے جو احرام باندھ کر ‘ کعبہ کے گرد‘ طواف کے دوران سیلفیاں لیتے ہیں؟  عجیب ہوا چلی ہے۔ عام طواف کی نسبت عمرے کا طواف ایک نازک عبادت ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے جانا‘ جسمانی مشقت برداشت کرنا اور پھر طواف کے دوران دعا مانگنے‘ تسبیح و تہلیل کرنے یا درود پاک پڑھنے کے بجائے سیلفیاں لینا ایک ناقابل فہم سرگرمی ہے۔ اس میں حسب توفیق پاکستانی اور غیر پاکستانی سب شامل ہیں۔ ہم کوئی فتویٰ نہیں لگا رہے نہ یہ ہمارا منصب ہے نہ اس کا شوق۔ مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے فصل بو کر‘ کاٹنے کا وقت آئے تو سونڈی کے حوالے کر دی جائے۔ سُوت کات کر کپڑا بُنا جائے اور لباس تیار کرتے وقت کپڑے کو تار تار کر دیا جائے!  حرمین شریفین میں سب سے زیادہ تعداد میں زائرین انڈونیشیا اور ملائشیا کے نظر آتے ہیں یہ منظم ترین اور تربیت یافتہ زائر تھے۔ہر گروہ کی خواتین یونیفارم کی طرح یکساں لباس میں تھیں یہ اس لیے کہ کوئی خاتون اپنے گروپ سے الگ ہو جائے تو دور ہی سے اسے گروپ کے ارکان نظر آ جائی...

ایک بار پھر بُلا لیجیے!

قطار طویل تھی اور صبر آزما!  ہم انچوں کے حساب سے آگے بڑھ رہے تھے سب کچھ نہ کچھ زیر لب پڑھ رہے تھے۔ کچھ حمدو ثنا‘ کچھ درود شریف، کچھ کلام پاک کی تلاوت کرتے جا رہے تھے۔ پھر بائیں طرف جالیاں دکھائی دیں۔ زردی مائل سنہری جالیاں‘ دائیں جالی پر جلی حروف میں آیت لکھی تھی۔’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے زیادہ بلند نہ کرو اور نہ ان کی خدمت میں حاضری کے وقت زور سے بولو جیسے ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں‘‘  روضۂ مبارک پر یہ ایک مجرم کی حاضری تھی۔ رواں رواں کانپنے لگا۔ جس ہستی کے سامنے آواز بلند کرنے سے بھی اعمال ضائع ہو سکتے ہیں‘ اس ہستی کے احکام کی مخالفت! رات دن مخالفت! صبح شام مخالفت سال کے بارہ ماہ ! مہینے کے تیس ایام! ہفتے کے سات دن! دن کے چوبیس گھنٹے مخالفت! مخالفت! اور مخالفت!! جس عظیم ہستی کے سامنے صحابہ کے پر جلتے تھے‘ جس کے ذکر سے اولیاء اللہ کانپ کانپ جاتے کہ ؎  ادب گاہیست زیرِ آسماں ازعرش نازک تر  نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا  اس ہستی کی نافرمانی یہاں معمول بن چکی...

جہاں وقت انسانی قدموں کے نیچے ہے

وہ سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں میں ہیں۔ سرمئی رنگ کے اور سفید! کچھ سنہری!  ابراہیم خلیل روڈ پر آپ جا رہے ہوں تو سامنے دائیں طرف کلاک ٹاور ہے۔ بالکل سامنے حرم کی سیڑھیاں ہیں۔ کلاک ٹاور سے پہلے، دائیں طرف بڑا سا میدان ہے۔یہیں پر یہ سینکڑوں، ہزاروں کبوتر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کھلانے کے لیے لوگ باگ قیمتاً گندم کے اور باجرے کے اور چاول کے دانے خریدتے اور ان پر نچھاور کرتے ہیں۔ ایک ڈار اترتی ہے ایک جاتی ہے۔ کچھ کبوتر اڑتے ہیں اور زمین سے چند فٹ ہی اوپر رہتے ہوئے کچھ گز دُور پھر جا بیٹھتے ہیں۔ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ لاکھوں لوگ جو بغلی شاہراہ سے گزر کر حرم کو جا رہے ہیں اور واپس آ رہے ہیں، ان کبوتروں کو غور سے دیکھتے ہیں۔ کچھ شوق سے کچھ حسرت سے، کچھ حیرت سے، انسان ساتھ سے گزر جاتے ہیں یہ کبوتر ذرا بھر نہیں ڈرتے۔  یہ کبوترانِ حرم ہیں۔ عربی، فارسی، ترکی اور اردو کا ادب ان کبوتروں کے ذکر سے اٹا پڑا ہے۔ حرم کا نواح ان کی جائے پناہ ہے۔  مگر حرم صرف ان کبوتروں کی جائے پناہ نہیں، کسی شاہراہ پر صرف ایک گھنٹہ کھڑے ہو جائیں، ہر پانچ منٹ کے بعد ایک جہازی س...

قافلوں کے غبار میں مٹی کا ایک ذرہ

نور کے قافلے رواں ہیں۔  ہزاروں لاکھوں قافلے۔ چہار دانگِ عالم سے! مشرق سے اور مغرب سے۔ شمال سے اور جنوب سے! ان قافلوں کے غبار کا ایک ذرّہ یہ کالم نگار بھی ہے۔ ایک حقیر ذرہ۔ ان قافلوں کے مسافروں کے جوتوں پر پڑا ہوا ایک ذرّہ۔ مگر کیا اس سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہے؟  چودہ صدیوں سے یہ قافلے رواں ہیں۔ بطحا کی وادی میں اور مدینہ کے شہر میں پہنچتے ہیں۔ سبز گنبد کو دیکھتے ہیں۔ نگاہوں سے چومتے ہیں۔ اُن گلی کوچوں پر پلکیں بچھاتے ہیں جہاں مقدس پائوں پڑے تھے۔ اور کیا ہی مقدس پائوں تھے۔ محبت کرنے والے ان پیروں کے نقوش کو اپنے سینوں میں اتارتے تھے جہاں یہ ستارے بن جاتے تھے۔ پھر یہ قافلے اپنے ملکوں کو پلٹتے ہیں۔ پھر دوبارہ جاتے ہیں۔ جانے اور واپس آنے میں اور پھر جانے میں عمریں کٹ جاتی ہیں مگر حاضری کی حسرت ہے کہ پوری نہیں ہوتی۔  اس وقت جب کالم نگار استانبول میں بیٹھا یہ سطریں لکھ رہا ہے، اور اس وقت جب پڑھنے والے یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، ہاں! عین اس لمحے بھی ہزاروں لاکھوں قافلے رواں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں آنکھیں سبزگنبد پر نظریں جمائے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں آنسو جالیوں کے سامنے رخس...

چوائس ہمارا اپنا ہے!

آپ اس طبقے کی طاقت اور دیدہ دلیری کا اندازہ لگائیے ۔کھرب پتی وفاقی وزیر کو وسیع و عریض فارم حاصل کر کے بھی چین نہ آیا۔ چنانچہ انہوں نے ساتھ پڑی ہوئی سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا۔ پریس کا کہنا ہے کہ یہ قبضہ کئی کنال پر مشتمل ہے۔ جبکہ وزیر صاحب نے صرف پانچ یا چھ کنال پر قبضے کا اعتراف کیا ہے‘ غیر قانونی باڑ بھی لگائی۔  اب وہ مضحکہ خیز منطق ملاحظہ کیجئے جو اس طبقے کا خاصہ ہے۔ فرماتے ہیں ’’میں پہلے ہی سی ڈی اے سے درخواست کر چکا ہوں کہ میرے فارم ہائوس سے ملحقہ زمین مجھے دے دی جائے۔‘‘ سی ڈی اے نے یہ درخواست منظور نہ کی۔ دوسرے لفظوں میں گستاخ ادارے نے طبقۂ بالا کے اس ممتاز رکن کے حکم کی تعمیل نہ کی۔ چنانچہ بڑے آدمی نے خود ہی آگے بڑھ کر اس زمین پر قبضہ کر لیا۔ غیر قانونی باڑ بھی لگا لی‘ عقب کی طرف دروازہ بھی رکھ لیا۔  اب اس نحوست کا دوسرا پہلو دیکھیے۔ سی ڈی اے کے پاس پورا محکمہ ہے جو قوانین کے نفاذ (انفورسمنٹ) کے لیے ہمہ وقت ہاتھوں میں کدال اٹھائے پھرتا ہے مگر یہاں چونکہ قبضہ بااثر فرد نے کیا تھا اس لیے ترقیاتی ادارے نے قبضہ واپس تو کیا لینا تھا‘ بااثر فرد کے سامنے سیدھا رکو...

تین نحوستیں جو خم ٹھونک کر سامنے کھڑی ہیں

یہ جو گائے کا معاملہ ہوا ہے اور وفاقی وزیر اعظم سواتی کا اور آئی جی کے تبادلے کا اور مارپیٹ اور تھانے کچہری کا… تو اس سے ایک بار پھر وہ تین نحوستیں، لباس اتار کر، برہنہ حالت میں، قوم کے سامنے آ گئی ہیں جو ستر برس سے کالے بادلوں کی طرح چھائی ہوئی ہیں۔ پہلی نحوست یہ ہے کہ نوکر شاہی بالعموم اور پنجاب اور وفاق میں بالخصوص،عوام کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہے نہ فون سنتی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ آئی جی نے بائیس گھنٹے تک ان کا فون نہیں سنا۔ ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کہ یہ فریاد اعظم سواتی کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی جی تو دور کی بات ہے، ایس پی، ڈپٹی کمشنر، اے سی، تحصیل دار یہاں تک کہ پٹواری تک، عام آدمی کی رسائی سے باہر ہیں۔ ایک عام شہری کے لیے ان میں سے کسی سے بھی ملاقات کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کچھ عرصہ قبل تلہ گنگ کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ وہ تجاوزات کے خلاف مہم چلا رہا تھا۔ اس بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے انتظامیہ کا نکتۂ نظر جاننا صحافتی اخلاق کا تقاضا تھا۔ کوششِ بسیار کے باوجود متعلقہ ڈپٹی کمشنر تک رسائی نہ ہو سکی۔ پھر متعلقہ کمشنر سے بات ک...