اشاعتیں

اکتوبر, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

چھوٹے دن اور لمبی رات

کوئی تختِ حکومت پر ہو یا تختۂ دار پر رُت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ وقت بے نیاز ہے۔ اسے کیا پرواہ کہ ؎ کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت  کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا جاڑے کی آمد آمد ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎ پھر جاڑے کی رُت آئی  چھوٹے دن اور لمبی رات کبھی خلاقِ عالم کی صناعی پر غور کرو، بچھاتا ہے سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر کڑکتی دوپہر میں سر پہ چادر تانتا ہے باغ میں ہر طرف پیلے، خشک پتے! ہوا چلے تو یہ اُڑتے ہیں۔ کھڑ کھڑاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ خشک پتے مرے عمروں کے رفیق  خشک پتے مری تنہائی کے پھول ٹنڈ منڈ درخت۔ حدِنظر تک زرد سبزے کا اداس فرش! مگر پھر رُت بدلتی ہے۔ موسم گدراتا ہے۔ مردہ زمین میں جان پڑتی ہے۔ سوکھی شاخیں ہری ہونے لگتی ہیں۔ پھر پتوں سے لد جاتی ہیں۔ پتے ہلتے ہیں چھائوں بُنتے ہیں۔ پھر بور لگتا ہے۔ شجر ثمردار ہونے لگتے ہیں۔ کذَالِکَ النَشُورْ! جو مُردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرتا ہے، وہ حشر بھی برپا کر سکتا ہے۔ وسط ایشیائی دوست، مغل بادشاہوں کو سرما کے لیے اڑھائی اڑھائی سو اونٹ خشک میووں سے ل...

ایک اور سفید ہاتھی

کیسا بدقسمت بیمار ہے۔ پڑا کراہ رہا ہے‘ گردے میں درد ہے۔ آنکھوں سے دکھائی کچھ نہیں دے رہا۔ ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔ کوئی نہیں جو اسے کسی شفاخانے پہنچائے۔  ہاں‘ ایک کام لواحقین زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اس کی جائیداد ‘مال و دولت کا بٹوارہ ابھی سے کر رہے ہیں۔ ایک صاحب شہر والے مکان پر قبضہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ دوسرا رشتہ دار زرعی زمین پر حق جتا رہا ہے۔ ایک اور بینک بیلنس کے پیچھے پڑا ہے۔  یہ بیمار کون ہے؟ ایسے کئی بیمار پاکستانی ریاست کے دالان میں‘ بان کی ٹوٹی ہوئی‘ جھولتی چارپائیوں پر پڑے‘ پانی‘ پانی کہہ رہے ہیں مگر یہ نوحہ جو ہم لکھ رہے ہیں‘ بطور خاص پاکستان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی حالت زار کا ہے۔  حکومت اور یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن ملازمین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ ملازمین نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ ان کی یونین نے مذاکرات کی کامیابی کی خوش خبری دی تو دھرنا ختم کیا گیا۔ حکومت نے مان لیا کہ تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوگا۔ پچاس فیصد ہائوس رینٹ (غالباً تنخواہ کا پچاس فیصد) اور چند دیگر مراعات کا اعلان بھی کیا گیا۔ ملازمین نے یونین قائدین کے حق میں نعر...

ہم جنگل میں رہ رہ رہے ہیں

اگر شہر میں باقی ساری یونیورسٹیاں، باقی تمام تعلیمی ادارے ختم ہو جائیں تب بھی اس جامعہ میں اولاد کو داخل کرنا گھاٹے کا سودا ہوگا۔ خدا کی پناہ! ایک شوہر اپنی منکوحہ کو لینے کے لیے یونیورسٹی جاتا ہے۔ وہاں ایک تنظیم کے ارکان، جو طالب علم ہیں، اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ اس کی بیوی چیختی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے۔ بہت سے لوگ۔ بے حس لوگ۔ پاس کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں، کوئی مداخلت نہیں کرتا۔ اس تنظیم سے کوئی گلہ نہیں، مجرم کی منت سماجت کبھی نہیں کی جاتی، کوئی ہاتھ جوڑ کر مجرم سے یہ درخواست نہیں کرتا کہ بھائی جان! مہربانی فرمائیے، ازراہ لطف، ازراہ کرم، آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کیجئے گا۔ یوں بھی اس تنظیم کو اور اس کی سرپرست پارٹی کو قائل کرنا کارِ لاحاصل ہے۔ یہ حضرات اپنے جس عمل کو درست سمجھتے ہیں، اسے کیوں نادرست قرار دیں؟ ان کا اپنا موقف ہے۔ ان کے طرز عمل اور طرز فکر میں تضادات کے پلندے سہی، وہ بہرحال اس معاملے میں ایک فریق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کوئی اتھارٹی ایسی ہے جو اس نام نہاد سرپرستی کو، اس مداخلت کو، اس ٹھیکیداری کو ختم کرسکے؟ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں، ایک سرکار...

بھیڑیں!کالے رنگ کی بھیڑیں!

لیڈروں کو ناکامی سے دوچار کرنے والوں کے دوسر اور تین ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ وہ اسد عمر جیسے ہی ہوتے ہیں۔  رئوف کلاسرہ نے جو کچھ بتایا ہے اگر وہ سچ ہے تو وزیر اعظم پر لازم تھا کہ اب تک اسد عمر سے اس ’’بندہ پروری‘‘ کا سبب پوچھ چکے ہوتے ۔اگر غلط ہے تو اسد عمر کو رئوف کلاسرہ کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے تھا۔ اور غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر شے ریکارڈ پر ہے - سوئٹزر لینڈ پڑے ہوئے اربوں ڈالر کے ساتھ چوہے بلی کا جو کھیل سٹیٹ بنک کا گورنر کھیلتا رہا ہے اور کھیل رہا ہے، اس کی ایک ایک تفصیل ظاہر ہو چکی ہے۔ اپنی ہی بھیجی ہوئی ٹیم کو موجودہ گورنر سٹیٹ بنک نے جس طرح جونیئر افسر کہہ کر بے وقعت کیا‘ جس طرح سوئٹزر لینڈ سے کیے گئے معاہدے سے انحراف کیا، پھر جس طرح اسحاق ڈار نے اسے سٹیٹ بنک کا گورنر تعینات کیا اور پھر جس طرح اس سارے معاملے کو یہ صاحب اب ’’غلطی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر، جو ردّعمل اسد عمر کا ہے، اس کے بعد دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ یا تو اسد عمر کو اس پورے معاملے کی سنجیدگی کا ادراک نہیں، یا وہ کالی بھیڑوں پر اپنا سایۂ عاطفت ڈال کر، خود ایک بڑی کالی بھیڑ ہونے کا ثبوت د...

خوش خرامی یا برق رفتاری ؟

لڑکا بگڑا ہوا تھا۔ برسوں کا بگڑا ہوا، کھیل کود کا عادی، پڑھائی سے متنفر، کبھی گھر سے بھاگ جاتا، کبھی مکتب سے، کبھی کسی لڑائی میں ملوث، کبھی کسی کو پیٹ کر آتا، کبھی آتا تو سر پر پٹی بندھی ہوئی۔  ماں باپ کا بخت اچھا تھا۔ استاد وہ ملا جو حکومت پر نہیں حکمت پر یقین رکھتا تھا۔ اُس نے لڑکے پر رعب جمایا نہ کوئی سزا دی۔ اصلاح کا آغاز اُس نے لڑکے سے شطرنج کی بازی کھیل کر کیا۔ دوستی ہو گئی تو اس کے مشاغل کی تفصیل معلوم کرنے لگا۔ پھر وہ دن آیا کہ لڑکا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گزارنے لگا۔ چند ہفتوں بعد اس میں تبدیلی آنے لگی۔ اس نے لڑائی جھگڑے والے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ محلے والوں نے حیرت سے اسے کتابیں خریدتے اور پڑھتے دیکھا۔ اب وہ سکول میں باقاعدہ آنے لگا۔ پھر یہ وہی لڑکا تھا جس نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا اور تقریری مقابلوں میں سب سے زیادہ انعامات حاصل کیے۔ ایک طرزِ اصلاح متبادل بھی تھا۔ یہ کہ اسے زبردستی پڑھائی پر مجبور کیا جاتا۔ سارا کام سزا سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے طلبہ کے سامنے اس کی تذلیل کی جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ ایسا بھاگتا کہ کسی کے ہاتھ نہ آتا۔ اور ظاہ...

2082ء

وہ رات کروٹیں بدلتے گزری آنکھ لگتی تو ایک آنسو نظر آتا۔ آنکھ سے ٹکپتا ہوا‘ رخسار پر گرتا ہوا۔ کمپیوٹر پر فیس ٹائم لگا کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ ناراض ہو کر جب بُت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھ جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں پکوڑا بنی ہوئی ہے۔اس وقت وہ پکوڑا بنی ہوئی تھی۔ ہزاروں میل دور بیٹھا‘ میں اسے ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مشکل کے بعد وہ ایک ثانیے کے لیے ہنسی مگر عین اسی وقت آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا اور گال پر گرا۔ ایک ٹکڑا میرے کلیجے سے کٹ کر میرے حلق میں آ گیا۔ پوچھا کیوں رو رہی ہے۔ بتایا گیا کھانا نہیں کھارہی تھی۔ ابا نے ڈانٹا۔ اب میرا اندازہ یہ تھا کہ ابا نے ایک ہلکا پھلکا ہاتھ بھی ٹکا دیا ہو گا! پانچ دس منٹ بعد وہ سب کچھ بھول کر کھیل میں مصروف ہو گئی ہو گی مگر میں اپنی افتاد طبع کا کیا کروں کہ وہ آنسو دل میں جیسے چھید کر گیا۔ رات تک بارہا تصور میں اسی آنسو کو ٹپکتے دیکھا۔ زہرا کا چہرہ سامنے آ جاتا۔ پھر نم آنکھیں۔ چھلکتی ہوئی! پھر گرتا ہوا آنسو! آنکھ لگتی! پھر کھلتی! پھر لگتیٖ پھرکھل جاتی! یہ خیال بھی آیا کہ ویزا تو لگا ہوا ہے۔ سیٹ بُک کرا کر چلا جاتا ہوں۔ پھر وہ مصرو...

سال درکار ہیں یا نوری سال ؟

جرم کا علم اس کے گھر والوں کو دوسرے دن ہی ہو گیا تھا۔ قتل کے دوسرے دن ٹیلی ویژن چینلوں پر فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔ چھوٹے بھائی نے فوٹیج دیکھ کر اسے پہچان لیا، گھر والوں کو بھی بتا دیا۔ یہ انکار کرتا رہا اور کہتا رہا کہ اس کا کوئی ہم شکل ہے جو فوٹیج میں نظر آ رہا ہے، تاہم اس نے ماں کو دودن بعد ساری بات بتا دی۔ ماں نے ٹوپی اور جیکٹ اتروا کر چھپا دی۔ رفتہ رفتہ بات رشتہ داروں تک پہنچ گئی۔ کچھ کا خیال تھا کہ پکڑوا کر ایک کروڑ روپے کا انعام لیں اور خاندان کے غربت زدہ حالات سنوارلیں مگر ماں سب کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی پھر محلے میں ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آ گئے۔ اس نے بھی ٹیسٹ کروایا اور پاک پتن بھاگ گیا۔ واپس آیا تو ماں نے کئی دن تک گھر سے نہ نکلنے دیا آٹھ معصوم بچیوں کی آبرو ریزی کرنے والے اور پھر قتل کر دینے والے مجرم کو پھانسی تو چند روز پہلے دے دی گئی ہے مگر ایک سوالیہ نشان فضائوں میں تیر رہا ہے۔ زینب اس کا آخری نشانہ تھی۔ زینب کا والد پھانسی گھاٹ کے پاس مجرم کا انجام دیکھ رہا تھا۔ یہ اور بات کہ باقی بچیوں کے والدین وہاں نہیں تھے۔ یہ قوم عجیب و غریب ہے۔ سارا زور تقریرو...

کیا اس زہر کا بھی کوئی علاج کرے گا؟

پانی جو جھیلوں‘ دریائوں اور سمندر میں تھا۔ گلی کوچوں میں آ گیا ہے۔ سیوریج کا غلیظ بدبودار پانی بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پانی میں تحلیل ہو رہے ہیں۔ گھروں سے باہر آنے والا متعفن پانی اس میں مزید شامل ہو رہا ہے۔ ہر لمحہْ ہر گھڑی! بدبو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عفونت سنڈاس میں بدل رہی ہے۔ یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب سانس لینا محال ہو جائے گا! گندے پانی میں کوڑے کرکٹ کے ساتھ انسانی لاشیں تیرتی ملیں گی! مذہبی اختلافات آج سے نہیں‘ اس دن سے چلے آ رہے ہیں جس دن کرہ ارض پر مذہب وجود میں آیا۔ کیا عجب انسان اور مذہب نے اس دھرتی پر ایک ساتھ زندگی شروع کی ہو! عہدِ رسالت تمام ہوا تو ان مقدس اور برگزیدہ ہستیوں کا دور شروع ہوا جنہوں نے شب و روز رسالت مآب ﷺ کی زریں معیت میں گزارے تھے۔ یہ حضرات بھی آپس میں اختلافات رکھتے تھے۔ تعبیر کا اختلاف! توجیہہ اور تشریح کا اختلاف! نکتہ نظر کا اختلاف! مگر یہ ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہ ایک دوسرے کی رائے جاننے کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے تھے۔ پھر ائمہ کرام کا دور آیا۔ امام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام جعفر صادق‘ امام احمد...

روشنی مقدر ہو چکی

موسموں کا الٹ پھیر مقرر کردیا گیا ہے۔ گرما رخصت ہورہا ہے۔ سب کو معلوم ہے آنے والے مہینے سرد، تند ہوائوں کے ہیں۔ جھکڑ چلیں گے۔ درختوں کے پتے گریں گے۔ زرد خشک پتے! زرد خشک پتوں کے ڈھیروں پر چلنے سے کھڑکھڑانے کی آوازیں آئیں گی۔ پھول نہیں کھلیں گے۔ یہ وہ موسم ہیں جب برفانی وسط ایشیا کے باشندے چرم کے موزے پہنتے ہیں اور گھٹنوں کو چھونے والے لمبے جوتے۔  مگر خزاں ہمیشہ نہیں رہتی۔ خلاق عالم نے موسموں کا الٹ پھیر طے کر رکھا ہے تاکہ مخلوق اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار رکھے۔ باغوں پر آئے ہوئے سختی کے دن بیت جائیں گے۔ بہار آئے گی، شگوفے پھوٹیں گے،کونپلیں نکلیں گی، صحنوں میں لگے ہوئے انار اور ریحان کے پودے گلبار ہوں گے۔ سبز گھنیرے پتوں سے لدی دھریکوں پر کاسنی رنگ کے پھول کھلیں گے۔ میرے گائوں کی دوشیزائیں کھنکھناتی چوڑیوں سے بھری باہوں سے گارا تیار کریں گی۔ پھر وسیع و عریض صحنوں میں گارا ڈال کر مٹی کا فرش بچھائیں گی۔ پھر گول پتھروں سے اسے یوں صیقل کریں گی کہ سنگ مر مر شرمائے گا۔ لکڑی کے نردبانوں پرکھڑی ہو کر دیواروں پر سفید پوچا ملیں گی۔ جھومتے درختوں سے پھل گریں گے، فصلیں لہلہائیں گی، ...

جیسی حکومت ویسے عوام‘ جیسے عوام ویسی حکومت

…………یہ کل تیرہ اکتوبر کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد کے ایک مرکزی سیکٹر کا رہائشی علاقہ ہے۔ دونوں طرف مکان ہیں۔ درمیان میں سڑک ہے۔ صبح آٹھ بجے ایک مکان کی گھنٹی بجتی ہے۔ مکین باہر نکلتا ہے۔ پولیس کا اہلکار گیٹ پر کھڑا ہے۔ ’’یہ گاڑیاں ہٹائیے! رُوٹ لگنے لگا ہے۔‘‘  گاڑیاں سڑک پر کھڑی تھیں نہ فٹ پاتھ پر! فٹ پاتھ اور مکان کے درمیان‘ خالی جگہ تھی جو مکان کا حصہ تھی۔ گاڑیاں وہاں پارک تھیں۔ ’’گاڑیاں سڑک پر ہیں نہ فٹ پاتھ پر‘‘۔ آپ کو ان سے کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ’’بس حکم ہوا ہے کہ کوئی گاڑی سڑک پر نہ ہو‘‘  ’’گزرنا کس نے ہے؟‘‘  ’’یہ نہیں معلوم! مگر کوئی بڑا وی وی آئی پی ہے۔‘‘  ’’لیکن نئے پاکستان میں تو یہ وی آئی کلچر۔ یہ روٹ سسٹم سب کچھ سنا تھا ختم ہو رہا ہے‘‘ اس پر پولیس اہلکار بے بسی سے ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ گھر کے مکین نے زیادہ بحث کی کہ گیٹ کے اندر جگہ نہیں‘ تو اہلکار نے دور ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے‘ عاجزانہ درخواست کی کہ وہاں کھڑی کر دیجیے۔ اس نے کہا کہ ’’ہماری مجبوری ہے۔ ہم تو خود بے بس ہیں‘‘  کل کے اس واقعہ میں‘ جو وفاقی...

ایک فقرے کی مار

شہزادہ امریکہ میں سفیر مقرر ہوا تو سفارت کاری کی تاریخ میں تو کوئی معجزہ برپا نہ ہوا مگر خریداری کی دنیا میں انقلاب ضرور آ گیا۔ اٹھائیس برس کا نوجوان جو پائلٹ تھا امریکہ جیسے ملک میں سفیر مقرر ہوا۔ یہ وہ ملک ہے جس میں سفارت کاری کے لیے ان افراد کو تعینات کیا جاتا ہے جن کے سر کے بال اڑ چکے ہوتے ہیں۔ بھویں تک، سفارت کاری کے شعبے میں کام کرکے سفید ہو چکی ہوتی ہیں۔ جن کے بیسیوں سفیروں سے ذاتی تعلقات ہوتے ہیں، مگر آہ! اگر کوئی حکمران اعلیٰ کا بیٹا ہو تو پھر سارے معیار منسوخ ہو جاتے ہیں۔ شہزادے نے آتے ہی ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا محل خریدا جو واشنگٹن ڈی سی کے مضافات میں واقع ہے۔ اسی لاکھ ڈالر اس کے علاوہ خرچ کئے۔ سفر کے لیے وہ 767 لگژری جیٹ استعمال کرتا ہے۔ والد گرامی کے اثاثوں کی قیمت سترہ ارب ڈالر ہے۔ شہزادے نے ایک سفر میں پانچ سو چھ ٹن سامان ساتھ رکھا۔ اس سامان میں دو مرسڈیز کاریں اور برقی سیڑھیوں کے دو سیٹ بھی شامل تھے۔ یہ محل، جس میں آٹھ بیڈ روم ہیں اور جو سفیر بننے سے دو ماہ پہلے ڈھونڈ لیا گیا، شہزادے کو اس وقت پسند آیا جب وہ جارج ٹائون یونیورسٹی میں طالب علم تھا۔ دو ماہ بعد ...

فیشن سٹار کا آخری پیغام

کیوبا سے سبھی واقف ہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوب میں واقع ملک، کیوبا، کیریبین جزائر کا حصہ ہے۔ یہاں اور ممالک بھی ہیں جو نسبتاً کم معروف ہیں۔ انہی میں ایک ملک ڈومینیکن ری پبلک ہے۔ ہسپانوی زبان بولنے والا یہ ملک کبھی ہسپانیہ کے قبضے میں رہا، کبھی اپنے پڑوسی ملک ہیٹی کے اور کبھی امریکہ کے! کیرزادہ روڈ۔ ری گوئز 1978ء میں یہیں پیدا ہوئی۔ پہلے ملازمت کرتی رہی۔ اس ملازمت کے دوران اس نے انٹرنیٹ پر اپنا بلاگ آغاز کیا۔ اس میں تازہ ترین فیشن کے حوالے ہوتے تھے۔ ساتھ ہی اس نے بوطیق شروع کر دی۔ ہر تین ماہ بعد لاس اینجلز جاتی اور بوطیق کے لیے تازہ ترین فیشن کے ملبوسات جوتے اور پرس خرید کر لاتی۔ فیشن سے دلچسپی لینے والوں کے لیے وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھی۔ اپنے دن کی ابتدا ساڑھے پانچ بجے جم جا کر ورزش سے کرتی۔ ایک بیٹی تھی۔ اس پر پوری توجہ دیتی۔ بلاگ زیادہ مقبول ہونے لگا تو ملازمت کو خیر باد کہا اور فُل ٹائم بلاگر بن گئی۔ پانچ لاکھ سے زیادہ اس کے فین یعنی دلدادگان تھے۔ امریکہ کے تمام فیشن میگزین اس کی سرگرمیاں شائع کرتے تھے، انٹرویو لیتے تھے۔ ٹیلی ویژن شوز میں بھی ہر جگہ وہ موجود رہتی۔ ...

خوشیاں منائو اے اہل پاکستان

شکیب جلالی نے کہا تھا:  یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی  کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا کیا معلوم تھا کہ بہشت صرف چند فرسنگ کے فاصلے پر ہے  اےاہل پاکستان! تمہارے درد کے دن ختم ہونے کو ہیں، یہ جو تم اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، بیٹیوں کے فراق میں تڑپتے رہتے ہو، یہ جو تم ہفتے میں کئی بار سکائپ پر اور وٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر اور میسنجر پر سمندر پار رہنے والے عزیزوں سے باتیں کر کے جدائی کی پیاس بھڑکاتے رہتے ہو، اب اس کی ضرورت نہیں۔ انہیں کہو واپس آ جائیں، ان کے پاس امریکہ کی شہریت ہے یا یورپی ملکوں کی، جاپان کی یا آسٹریلیا کی، ان کے منہ پر ماریں، جہاز میں بیٹھیں اور اپنے وطن واپس آئیں۔ بہت ہو چکا سفید فام قوموں پرانحصار، قدرت نے ایک اور دروازہ کھولا ہے۔  قوم کے محسن، پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے سیاسی عبقری، مسلم لیگ ن کے عظیم اتحادی میاں نوازشریف کے جگری یار اور عالم بے بدل فاضل اجل حضرت مولانا کے جڑواں ساتھی خان محمود اچکزئی نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان کی شہریت حاصل کریں۔ فرمایا ہے کہ لاکھوں پاک...