چھوٹے دن اور لمبی رات
کوئی تختِ حکومت پر ہو یا تختۂ دار پر رُت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ وقت بے نیاز ہے۔ اسے کیا پرواہ کہ ؎ کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا جاڑے کی آمد آمد ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎ پھر جاڑے کی رُت آئی چھوٹے دن اور لمبی رات کبھی خلاقِ عالم کی صناعی پر غور کرو، بچھاتا ہے سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر کڑکتی دوپہر میں سر پہ چادر تانتا ہے باغ میں ہر طرف پیلے، خشک پتے! ہوا چلے تو یہ اُڑتے ہیں۔ کھڑ کھڑاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ خشک پتے مرے عمروں کے رفیق خشک پتے مری تنہائی کے پھول ٹنڈ منڈ درخت۔ حدِنظر تک زرد سبزے کا اداس فرش! مگر پھر رُت بدلتی ہے۔ موسم گدراتا ہے۔ مردہ زمین میں جان پڑتی ہے۔ سوکھی شاخیں ہری ہونے لگتی ہیں۔ پھر پتوں سے لد جاتی ہیں۔ پتے ہلتے ہیں چھائوں بُنتے ہیں۔ پھر بور لگتا ہے۔ شجر ثمردار ہونے لگتے ہیں۔ کذَالِکَ النَشُورْ! جو مُردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرتا ہے، وہ حشر بھی برپا کر سکتا ہے۔ وسط ایشیائی دوست، مغل بادشاہوں کو سرما کے لیے اڑھائی اڑھائی سو اونٹ خشک میووں سے ل...