جب نیب تھی نہ سوئو،موٹو۔نوٹس
> > میرے محترم اور پرانے دوست کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بڑے بڑے کام کیے‘ ڈیم بنائے‘ صنعتوں میں ترقی ہوئی‘ اس وقت نیب تھا نہ سوئو موٹو نوٹس! > لیکن ایک اور شے بھی اُس وقت نہ تھی جو ہم بھول رہے ہیں! > اُس وقت حکمرانوں کی آنکھ میں بُھوک نہ تھی! وہ سرکاری مال کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پر خرچ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ قائد اعظم سے لے کر عبدالرب نشتر تک۔ لیاقت علی خان سے لے کر چودھری محمد علی تک۔ ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک۔ کسی پر کرپشن کا الزام نہ تھا۔ چونکہ حکمران دیانت دار تھے اس لیے بیورو کریسی میں بھی خیانت کی جرأت تھی نہ رواج۔ وفاقی سیکرٹری‘ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لاتا تھا تو کرایہ سرکاری خزانہ میں جمع کراتا تھا!! > > سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سیکرٹری خزانہ یا وزیر خزانہ اگر انکار کر دیتا تھا تو اسے وزیر اعظم یا گورنر جنرل‘ یا صدر فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا! غضب کا مالیاتی ڈسپلن تھا۔ سربراہ حکومت کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون نہیں بن جاتا تھا! > مالیاتی ڈسپلن میں پہلا شگاف جن...