اشاعتیں

ستمبر, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

جب نیب تھی نہ سوئو،موٹو۔نوٹس

>  > میرے محترم اور پرانے دوست کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بڑے بڑے کام کیے‘ ڈیم بنائے‘ صنعتوں میں ترقی ہوئی‘ اس وقت نیب تھا نہ سوئو موٹو نوٹس! > لیکن ایک اور شے بھی اُس وقت نہ تھی جو ہم بھول رہے ہیں! > اُس وقت حکمرانوں کی آنکھ میں بُھوک نہ تھی! وہ سرکاری مال کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پر خرچ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ قائد اعظم سے لے کر عبدالرب نشتر تک۔ لیاقت علی خان سے لے کر چودھری محمد علی تک۔ ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک۔ کسی پر کرپشن کا الزام نہ تھا۔ چونکہ حکمران دیانت دار تھے اس لیے بیورو کریسی میں بھی خیانت کی جرأت تھی نہ رواج۔ وفاقی سیکرٹری‘ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لاتا تھا تو کرایہ سرکاری خزانہ میں جمع کراتا تھا!! >  > سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سیکرٹری خزانہ یا وزیر خزانہ اگر انکار کر دیتا تھا تو اسے وزیر اعظم یا گورنر جنرل‘ یا صدر فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا! غضب کا مالیاتی ڈسپلن تھا۔ سربراہ حکومت کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون نہیں بن جاتا تھا! > مالیاتی ڈسپلن میں پہلا شگاف جن...

ماں، ہنڈیا اور بچہ

کوئی تو ہے جو عمران خان کی پالیسیوں کو دانستہ یا نادانستہ، ناکام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ایئرپورٹ پر، ٹریفک کے محکمے میں، وزارت تعلیم میں، وزارت خزانہ میں، ہر جگہ کوئی نہ کوئی قینچی پکڑ کر پالیسی کی دستاویز کو کاٹ رہا ہے۔ کاٹے جا رہا ہے۔ وزیراعظم علم غیب رکھتا ہے نہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس کے وزیر اور مشیر اس حقیقت سے بے خبر لگتے ہیں کہ ان کے نیچے کون کیا کررہا ہے۔ اس لیے کہ امیدوں کے مینار زمین بوس ہو رہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ عوام میں آگہی کا شعور عمران خان نے پیدا کیا۔ تبدیلی کے معاملے میں عوام حساس ہو چکے ہیں۔ ازحد حساس! اب وہ حقیقی تبدیلی دیکھنے کے متمنی ہیں۔ چار دن پہلے ایک تعلیم یافتہ نوجوان دارالحکومت کے نئے ایئرپورٹ سے واپس آیا۔ وہ کسی کو رخصت کرنے گیا تھا۔ ایک جگہ ایئرپورٹ کے داروغے نے اس کی گاڑی روک لی کہ آگے جانا منع ہے۔ نوجوان نے ایک گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ گاڑی تو جا رہی ہے۔ داروغے نے قہقہہ لگایا کہ وہ ایم این اے کی گاڑی ہے۔ اس پر نوجوان نے اسے یاد دلایا کہ نئے پاکستان میں ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اس کا جواب اس نیم تعلیم یافتہ داروغے نے جو دیا وہ کئی کالمو...

تِلوں میں تیل ہے بھی یا نہیں؟

ہر آنے والا دن سوالیہ نشان بن کر طلوع ہو رہا ہے! عمران خان نے لوگوں کو ایک راستہ دکھایا ایک زینے پر چڑھایا۔ کچھ وعدے کیے، کچھ امیدیں بندھوائیں مگر ہر آنے والا دن سوچنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب عوام پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ آپ نے انہیں صبح کے تارے کا وعدہ کیا۔ اب آپ انہیں بادلوں میں الجھانا چاہتے ہیں۔ نہیں! آپ انہیں تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد! کوئی وعدہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اِکّا دُکّا اقدامات۔ مگر کسی ہوم ورک کے بغیر۔ سرکاری ریسٹ ہائوسز ہی کا مسئلہ لے لیجیے۔ ان کے کمرشل استعمال کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ مگر مچھ سائز کی بڑی کمپنیوں کو لیز پر دیئے جا رہے ہیں۔ بھائی لوگو! ہوم ورک تو کر لو۔ پہلے اعداد و شمار تو حاصل کرو کہ ان سرکاری ریسٹ ہائوسوں میں حکومت کے کتنے افسر سال بھر میں ٹھہرتے ہیں۔ حکومت انہیں ہوٹل کا کرایہ نہیں دیتی۔ جب ریسٹ ہائوس نہیں ہوں گے تو یہ افسر ہوٹلوں میں قیام کریں گے۔ پہلے حساب کتاب تو لگائو کہ ہوٹلوں میں خرچ کتنا ہو گا؟ کہیں آگے دوڑ پیچھے چوڑ والا حساب نہ ہو۔ دوسری مثال شیخ رشید کی لیجیے۔ ہمارے حلقۂ...

سیاست کی دنیا کا جُوسف

کیا وجیہہ شخصیت عطا کی تھی قدرت نے! طویل قامت! بارعب چہرہ! مگر افسوس! بولتا تھا تو احساس ہوتا تھا کہ نہ ہی بولتا تو بھرم قائم رہتا!  قدرت کے بھی نرالے کھیل ہیں ! کسی کو شخصیت ایسی دیتا ہے کہ بے بضاعت!موجود ہو تو موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔ نہ ہو تو کوئی کمی نہ نظر آئے! مگر بولے تو لوگ ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ حیرت سے دہانے کُھل جائیں۔ لفظ سراپا تاثیر بن کر سینے میں اترتے جائیں!  یہ قول امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے کہ بات کرو تاکہ پہچانے جائو اس لیے کہ انسانی اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے! سعدی نے اسی قولِ زریں کی تشریح میں کہا تھا ؎  تا مرد سخن نگفتہ باشد  عیب و ہنرش نہفتہ باشد  جب تک کوئی شخص بات نہیں کرتا اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں! پھر وہ بات کرتا ہے تو یا عزت پاتا ہے یا بے نقاب ہو جاتا ہے! اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے! وہ حکایت ہو سکتا ہے سنی ہوئی ہو‘ مگر یہاں ایسی منطبق ہو رہی ہے کہ نہ سنانا ناروا ہو گا!  مسجد کے فرش پر چٹائی بچھائے استاد پڑھا رہا تھا۔ سامنے طلبہ بیٹھے تھے۔ استاد نے دستار اتار کر رکھی ہوئی...

شیر لومڑی کیسے بنتا ہے؟

‎بوڑھا لمبی گہری سانسیں لے رہا تھا۔ ‎ڈاکٹر نے سٹیتھو سکوپ سے سینہ‘ پیٹھ اور کندھے چیک کئے۔ آوازیں سنیں‘ خلا میں دیکھا‘ پھر نبض ٹٹولی۔ ‎آپ بظاہر ٹھیک ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟ ‎ڈاکٹر صاحب نیند نہیں آتی۔ بھوک نہیں لگتی‘ دل ڈوبتا رہتا ہے۔ ‎آپ کسی مقدمہ بازی میں تو مبتلا نہیں؟ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں سے کوئی جھگڑا؟ ‎نہیں! بالکل نہیں‘ اس لحاظ سے خوش بخت واقع ہوا ہوں۔ ‎گھر میں بیگم سے کوئی کھٹ پٹ؟ کوئی ذہنی دبائو؟ کوئی ٹینشن؟ ‎نہیں‘ ایسا بھی نہیں‘ ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی اور امن و سکون ہے؟ ‎کوئی مالی مسائل؟ ‎وہ بھی نہیں‘ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ ‎تو پھر دوا کیوں اثر نہیں کر رہی‘ کوئی اور بات جو آپ کے ذہن میں ہو؟ ‎ڈاکٹر صاحب! ایک غم ہے جو کھائے جا رہا ہے‘ بیٹے بیٹیاں بیرون ملک ہیں‘ ان کی یاد میں تڑپتا رہتا ہوں۔  ‎ڈاکٹر نے کیا تجویز کیا؟ عد ‎اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔ غور اس بات پر کیجئے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے ساری نعمتوں‘ آسودگیوں کے باوجود یہ معمر شخص ایک کرب میں مبتلا تھا۔ یہ کرب کیا تھا؟ اسے ’’احتیاج‘‘ کہتے ہیں۔ سفید فام فرنگی اس احتیاج کو‘...

واپس آ جائو! تلہ گنگ والو! تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا

سامنے دریا تھا! تھکے ہارے اکبر کو سستانے کے لیے تھوڑا سا وقت ملا۔ ’’کون سی غذا ہے جو ایک نوالے میں مکمل ہو جاتی ہے؟‘‘ اس نے خانخاناں سے پوچھا۔ ’’انڈا! جہاں پناہ!‘‘ خانخاناں نے جواب دیا۔ بس اتنا ہی وقت تھا۔ پھر گرد تھی اور گھوڑا۔ اور لشکر اور جنگیں! سال گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ عرصہ! سفر کی گردشیں بادشاہ کو ایک بار پھر اٹک لے آئیں۔ وہیں دریائے سندھ کے کنارے! خانخاناں ساتھ تھا۔ بادشاہ نے کسی تمہید‘ کسی یاددہانی ‘ کسی حوالے کے بغیر پوچھا۔ ’’کس طرح؟‘‘ ’’اُبال کر!جہاں پناہ!!‘‘ نہ جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں!مگر یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کابل آتے جاتے اکبر اٹک ٹھہرتا۔ پھر مقامی شورشوں کو دبانے کے لیے اور افغانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس نے یہاں قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹک کا قلعہ 1581ء میں بننا شروع ہوا۔ تقریباً تین برس لگے۔ راولپنڈی کی طرف سے جائیں تو قلعے سے پہلے‘ بائیں طرف‘ مُلاّ منصور کی بستی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد کا تعلق اس بستی سے ہے۔ نصیر صاحب عراق میں پڑھاتے رہے۔ پھر قائد اعظم یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہِ شعبہ رہے۔ ان کی آ...

ایک دن اس کا جہاز آ جائے گا

شہروں میں شہر ہے اور بہشتوں میں بہشت!  افسوس! شاہ عباس صفوی کو اس شہر کا پتہ نہ تھا ورنہ تبریز کو چھوڑا تو اصفہان کے بجائے یہاں کا رخ کرتا۔ تیمور اسے دیکھتا تو سمرقند کا درجہ دیتا۔ بابر کا گزر ہوتا تو کابل کو یاد کرکے آنسو نہ بہاتا۔ شاہ جہان اسی کو آگرہ بنا لیتا۔  بادشاہ نے بخارا سے دور پڑائو ڈالا۔ واپسی کا نام نہیں لے رہا تھا۔ رودکی نے بخارا کو یاد کرایا تو چل پڑا ؎  بوئی جوئی مولیاں آید ہمی  یاد یار مہرباں آید ہمی شاہ مہ است و بخارا آسماں ماہ سوئی آسماں آید ہمی شاہ سرو است و بخارا بوستاں  سرو سوئی بوستاں آید ہمی مولیاں ندی کی مہک آ رہی ہے جیسے یار مہرباں کی یاد  بادشاہ چاند ہے اور بخارا آسماں چاند آسماں کی طرف چل پڑا ہے۔  بادشاہ سروہے اور بخارا باغ سرو باغ کی طرف چلا آ رہا ہے  رودکی ایبٹ آباد کی ہوا کے جھونکے چکھتا تو بخارا کی یاد میں آنسو نہ بہاتا۔ تعجب تو ہندوستان کے وائسرائے جان لارنس پر ہے جس نے 1863ء میں شملہ کو موسم گرما کا دارالحکومت قرار دیا اور نظر ایبٹ آباد پر نہ پڑی۔ دس سال پہلے میجر...

حلوے کا سرا نہ تلاش کیجیے

آپ بحث کیے جا رہے ہیں۔ عقل اور منطق کی بنیاد پر دلائل دے رہے ہیں۔ کرپشن کے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ دوسرا شخص زور اس بات پر دے رہا ہے کہ یہ حکمران ولی اللہ تھا کیوں کہ اس کے لیے سعودی حکومت نے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولا تھا۔ آپ مزید دلائل دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس کس طرح قانون کو پامال کیا گیا۔ جوابی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا غریب عوام کی خاطر کیا، جو بات آپ بھول رہے ہیں یہ ہے کہ جس سے بحث کر رہے ہیں۔ اس کے دوبھائیوں کو اس حکمران نے اعلیٰ مناصب دیئے، بیٹی کو ایم این اے بنایا۔ پوتے کو ایف آئی اے میں بھرتی کیا۔ آپ زمین و آسمان کے اعداد و شمار لے آئیں، دوسری طرف مسئلہ ذاتی وفاداری کا ہے۔ احسان کا ہے! چنانچہ پہلا سبق آپ یہ یاد کیجیے کہ کسی  Beneficiary سے یعنی کسی ایسے شخص سے جس نے مفادات حاصل کیے ہیں، بحث نہیں کرنی چاہیے۔  جسے فیکٹری بنانے کے لیے قرض دیا گیا اور پھر قرض معاف کر دیا گیا، جسے پلاٹ ملے، جسے ملازمتیں ملیں، یا جسے کسی محکمے میں اس لیے رکھا گیا کہ اصل کام قصیدہ خوانی یا دفاع ہے، یا جسے راتب مل رہا ہے، اس سے بحث کرنا بے وقوفی ہے۔جس ک...

جب لاد چلے گا بنجارا

مکان بنتے دیکھا۔ کل میں نے بھی بنانا ہوگا۔ خوب دلچسپی لی۔ ایک ایک بات پوچھی۔ نقشہ کہاں سے بنوایا؟ ٹھیکہ کسے دیا؟ کمروں کا سائز کیا ہے؟ غسل خانے پر کیا خرچ آیا؟ ٹائلیں لگوائیں یا فرش ماربل کا رکھا؟ سیوریج کے پائپ کون سے برانڈ کے بہترین ہیں؟ نقشہ پاس  کیسے ہوگا؟ فلاں راج کی شہرت کیسی ہے؟ ایک ایک تفصیل، سوئچ تک، کنڈی تالوں تک کی۔  شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ مجھے بھی بیٹے کی شادی کرنی ہے۔ سب کچھ پوچھا۔ کون سا شادی ہال مناسب ہے۔ کھانے کا مینو کیا تھا؟ زیورات کہاں سے اچھے بنے؟ لہنگا کتنے میں بنا؟  ہم ہر کام ہوتا دیکھ کر کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ اپنے فائدے کے لیے۔ زندگی پر نظر دوڑائیے۔ بچے کے سکول میں داخلے سے لے کر گیس کا میٹر لگوانے تک۔ ویزہ لینے سے لے کر ہوٹل کا کرایہ جاننے تک۔  مگر یہ عقلمندی، یہ دور اندیشی، یہ باریک بینی۔ اس وقت ہوا ہو جاتی ہے جب کسی کی موت دیکھتے ہیں۔ خدا کے بندو، قبر کھودی جا رہی ہو تو اس کی تفصیلات بھی تو پوچھو۔ کل تمہارے لیے قبر کون سی مناسب ہوگی؟ کتنی گہرائی والی؟ اپنے لیے سلیں تو چن لو۔ باتھ روم میں لگانے کے لیے ایک ایک ٹائل کی کو...

ڈی ایم جی کا بیل اور عمران خان

نہیں! ہرگز نہیں! عمران خان صاحب اگر اُن پامال شدہ راستوں پر چلتے رہے جن پر اُن کے پیشرو چلے اور ناکام ہوئے تو عمران خان بھی ناکام ہوں گے کیونکہ اللہ کی سنت یہی ہے۔ وہ جو سعدی نے کہا تھا، سوچ سمجھ کر کہا تھا     ؎ ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است ابے او بَدُّو! رُخ تیرا ترکستان کی طرف ہے۔کعبہ کیسے پہنچے گا! نواز شریف نے ایک ریٹائرڈ، ازکار رفتہ، ضعفِ پیری سے خستہ، بیورو کریٹ کو وزیر اعظم آفس میں نصب کر دیا اس لیے کہ ایک تو وہ خواجہ تھا، دوسرے وسطی پنجاب کی اُس تنگ پٹی سے تھا جس سے ذہنی طور پر شریف برادران کبھی نہ نکل سکے اس لیے کہ ذہن میں فراخی تھی نہ علم۔ دونوں بھائیوں کو کتاب سے اتنی ہی دشمنی تھی جتنی روپے سے محبت! غلطی ہو گئی۔ قلم چوک گیا۔ روپے سے نہیں! انہیں ڈالروں، پائونڈوں سے محبت تھی۔ نہیں! ہر گز نہیں! بیورو کریسی صرف ڈی ایم جی کا نام نہیں اور ڈی ایم جی نے حصار باندھ لیا ہے۔ نئے وزیر اعظم کے گرد، عمران خان کو ارباب شہزادوں اور عشرت حسینوں سے دامن چھڑانا ہو گا ورنہ نوشتۂ دیوار سامنے نظر آ رہا ہے۔ ارباب شہزاد کا معام...