اشاعتیں

اگست, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم وزیر اعظم کے خیر خواہ ہیں

اس واقعے کو معمہ بنانے کی آخر کیا ضرورت ہے!  اگر یہ معمہ ہے تو اسے حل کرنے کے لیے کسی شرلک ہومز کو قبر سے اٹھ کر آنے کی ضرورت ہے نہ کسی راکٹ سائنس کی۔ ایک کنجی ہے اس کنجی کو دروازے پر لگائیے۔ معمہ حل ہو جائے گا۔ مگر اس کنجی سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان بھی ڈر رہے ہیں اور سزا سنانے والے پولیس کے اعلیٰ حکام بھی!! ہر مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے۔ ہر بند دروازے کی ایک کنجی ہوتی ہے۔ ہر معمے کو کھولنے کا ایک فارمولا ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہی تو ہے کہ جب معمہ حل نہیں ہو رہا تھا تو ایک شخص نے کنجی پیش کی کہ اگر کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے!!  کنجی یہ ہے کہ تین سوالوں کے جواب دیے جائیں۔ اقرار نہیں تو انکار کر دیا جائے۔ یہ انکار خواہ پنجاب حکومت کا ترجمان کر دے یا پولیس کے اعلیٰ حکام۔  پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسر سے کہا گیا کہ وہ بااثر شخصیت کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگے۔؟  دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسروں کو وزیر اعلیٰ کے دفتر میں طلب کیا گیا؟  تیسرا...

چمن تک آ گئی دیوار زنداں!ہم نہ کہتے تھے؟

عزیز گرامی سلیم صافی نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ  ’’فوری طور پر میڈیا کے احتساب کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو میدان صحافت میں موجود کالی بھیڑوں کے چہروں سے نقاب اٹھا دے۔ یہ کمیشن آغاز ہم اینکروں سے کرے اور پہلی فرصت میں میرا معاملہ اس کمیشن کے سپرد کیا جائے۔ یہ کمیشن میرا اور میرے تمام خاندان کے تمام افراد کے اکائونٹس اور اثاثوں کی تحقیقات کرے بلکہ سادہ طریقہ یہ ہے کہ مجھ سے شروع کر کے تمام اینکرز اور معروف صحافیوں کے اثاثے سامنے لائے جائیں۔ اور پھر ہر ایک سے کہا جائے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ اثاثے کہاں سے آئے ہیں؟ اس طرح وہ یہ معاملات بھی دیکھے کہ کس صحافی نے کس حکومت‘ پارٹی بزنس یا ٹائیکون سے کس شکل میں کیا فائدہ لیاہے؟ اگر کسی اینکر یا صحافی پر کسی بھی پارٹی‘ کسی بھی حکومت کسی بھی ایجنسی یا کسی بھی اہم فرد سے کسی قسم کا فائدہ لینے کا الزام ثابت ہو جائے یا وہ اپنے اثاثوں کو جسٹی فائی نہ کر سکے تو نہ صرف اس کی صحافت پر پابندی لگا دی جائے بلکہ اسے سخت سے سخت سزا بھی دی جائے۔ یہ حقائق بھی سامنے لائے کہ کون کون سا صحافی غیر ملکی سفارت خانوں می...

چارہ تو بکریوں کو بھی مل جا تا ہے

بازار کا نام یاد نہیں‘ مگر کوئٹہ میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں سے صوفی تبسم کی کتاب’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ہاتھ آئ ان دنوں بچے چھوٹے تھے اور بچوں کا باپ جوان! جہالت اور کم فہمی کے باوجود ایک بات معلوم تھی اور اچھی طرح معلوم تھی کہ جو ماحول آگے نظر آ رہا ہے اس میں بچوں کو وہ کتابیں پڑھنے کو نہیں ملیں گی جو انہیں پڑھنی چاہئیں۔ انہیں سانتا کلاز کا تو بتایا جائے گا‘ اپنے پس منظر سے آگاہ نہیں کیا جائے گا۔  مگر کتابیں ملتی نہیں تھیں۔ اب تو ٹوٹ بٹوٹ‘بازار میں میسر ہے ان دنوں نایاب تھی۔ اب تو حالات ابتر ہیں۔ گزشتہ سال ٹوٹ بٹوٹ کا ایک ایسا ایڈیشن دیکھا جس پر پبلشرز کا نام تھا مگر صوفی تبسم کا نہیں تھا۔ پبلشرز کی اکثریت بددیانتی کرتے کرتے پاگل پن کی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔  پاکستان میں اگر کوئی حساب کتاب ہوتا‘ کوئی نسبت تناسب ہوتی‘ مصنفین کے ساتھ انصاف ہوتا، درست طریقے سے پروجیکشن ہوتی تو صوفی تبسم کی کتاب’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ بچوں کے عالمی ادب میں سرفہرست ہوتی۔ کیا نظمیں لکھی ہیں۔ صوفی صاحب مرحوم نے!بظاہر سادہ مگر اتنی زبردست کہ ان جیسا ماہر فن ہی لکھ سکتا تھا۔ یہ نظمیں آج کل کے بچوں کے لیے ...

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

اس رہائش گاہ میں چار کمرے تھے۔ ایک معزول بادشاہ کے استعمال میں تھا۔ دوسرا شہزادے اور اس کی بیگم کے لیے مخصوص کیا گیا۔ تیسرا ملکہ کے لیے تھا اور چوتھے میں چھوٹا شہزادہ اپنی ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔  بالائی منزل پر ایک برآمدہ تھا۔ یہاں معزول بادشاہ اور اس کے دونوں بیٹے بیٹھ جاتے اور سمندر سے آنے والی ہوا سے لطف اندوز ہوتے۔ کبھی جہازوں کو آتا جاتا دیکھتے۔ دن کو دو سنتری پہرے پر ہوتے۔ رات کو ان کی تعداد تین ہو جاتی۔ خدمت گاروں میں ایک چپڑاسی تھا جو سودا سلف لاتا۔ یہ حکمرانوں کا جاسوس بھی تھا۔ اس کے علاوہ ایک بہشتی تھا۔ ایک دھوبی اور ایک خاکروب۔  ملکہ کو ایک غم یہ کھائے جا رہا تھا کہ اس کا ذاتی خزانہ اور زیورات بھی چھین لیے گئے تھے۔ کل مالیت ان کی دو لاکھ روپے بتاتی تھی۔ بہرحال یہ سب کچھ ضبط ہوگیا اور کچھ واپس نہ ملا۔  یہ احوال آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا ہے۔ ملکہ زینت محل تھی۔ شہزادہ جواں بخت تھا۔ اس کی پندرہ سالہ بیگم شاہ زمانی بیگم تھی۔ چھوٹے شہزادے کا نام مرزا شاہ عباس تھا۔ وہ مبارک النساء بیگم کا بیٹا تھا جو رتبے میں ملکہ زینت محل سے کم تر تھی۔  مغل خان...

ڈاکٹر عشرت حسین ؟؟نہیں وزیر اعظم عمران خان! نہیں!!

کیا ڈاکٹر عشرت بیورو کریسی میں اصلاحات لا سکیں گے؟ کیا وہ اس کے اہل ہیں؟  تین عوامل ایسے ہیں جو انہیں ایک مخصوص دائرہ فکر سے نکلنے نہیں دیں گے یہ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں ۔اول وہ سول سروس کے ’’مشہور‘‘ زمانہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) سے ہیں اور اس بیچ سے ہیں جو کچھ زیادہ ہی مشہور ہوا۔ یعنی 1964ء بیچ ‘سابق صدر فاروق لغاری بھی اسی بیچ سے تھے ان کے نزدیک ہر ریفارم کا تقاضا یہ ہے کہ اس گروپ (ڈی ایم جی) کی برتری کو نقصان نہ پہنچے اور اگر پہنچا ہے تو یہ برتری بحال ہو جائے۔  اگر اس کالم نگار کا حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی وہ ریفارم کمیشن کے سربراہ بنائے گئے۔ انہیں ہر موقع پر ’’اِن‘‘ ہونے کا فن خوب آتا ہے۔ ڈی ایم جی ان کے اعصاب پر اور لاشعور پر اس قدر چھایا ہوا ہے کہ ایک اجلاس میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو دوبارہ ایگزیکٹو مجسٹریٹ بنانے کی تجویز پیش کی۔ خوش قسمتی سے جنرل پرویز نے اس سے اختلاف کیا۔  اس امر کا وسیع القلبی سے اعتراف کرنا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ڈپٹی کمشنر کا سامراجی ادارہ ختم کر کے ضلع ناظم کا جمہوری اور عوا...

الیس الصبح بقریب

(1) چوں چراغ لالہ سوزم درخیابان شما اے جوانان عجم! جانِ من و جانِ شما اے جوانان عجم! اپنی اور تمہاری جان کی قسم! میں تمہارے باغ میں گل لالہ کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔ مہرومہ دیدم‘ نگاہم برتراز پروین گزشت ریختم طرحِ حرم درکافرستانِ شما سورج اور چاند کو دیکھا۔ پھر میری نظر ستاروں کے جھرمٹ سے آگے گئی۔ یوں میں نے تمہارے کفرستان میں حرم کی بنیاد رکھی۔ فکر رنگینم کند نذر تہی دستان شرق پارۂ لعلی کہ دارم از بدخشانِ شما تمہارے بدخشان سے جو لعل کا ٹکڑا میرے پاس ہے اسے میری رنگین سوچ مشرق کے مفلسوں کی نذر کر رہی ہے۔ می رسد مردے کہ زنجیر غلاماں بشکند دیدام از روزن دیوار زندان شما وہ شخص آ رہا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑے گا ۔میں نے تمہارے زنداں کی دیوار میں بنے ہوئے سوراخ سے دیکھ لیا ہے۔ حلقہ گرد من زیند اے پیکران آب و گل آتشے درسینہ دارم از نیاگان شما اے مٹی اور پانی سے بنے ہوئے لوگو!میرے اردگرد حلقہ بنا لو! میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے حاصل کی۔ (2) پھر گرد نے لی ہے انگڑائی کوئی آئے گا پھر دل میں جیسے دھمک پڑی کوئی آئے گا کو...

فکری شجرہء نسب

احتساب کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟  نیب کو کوئی چیک کر رہا ہے یا نہیں؟  ایف آئی اے کے اوپر کون ہے؟  آڈیٹر جنرل کا آڈٹ وزارت خزانہ نے کرنا ہوتا تھا۔ آخری مرتبہ کب ہوا؟ 2000ء کے ایکٹ کے بعد وزارت خزانہ یوں بھی اس کام سے فارغ ہو چکی۔ پولیس کے تھانوں میں کبھی کسی نے جا کر پڑتال کی ہے کہ کتنی شکایتیں، کتنی فریادیں، کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں، ان پر کیا کام ہوا، ان کا کیا انجام ہوا۔ اتنے عرصہ میں کتنے سائل آئے؟  ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو ان سب سے اوپر ہے۔ یہ آل اِ ن ون ہے۔ یہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ ہے صحافت اور الیکٹرانک میڈیا۔ یہ ہیں کالم نگار اور اینکر پرسن۔ یہ نیب کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ پولیس گردی کا محاسبہ بھی کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کا تیا پانچہ بھی کرتے ہیں اور آڈیٹر جنرل کا کچا چٹھہ بھی کھولتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان صحافیوں کا، ان کالم نگاروں کا، ان اینکر حضرات اور اینکر خواتین کا حساب کتاب کون کرتا ہے؟  اس ملک میں سب کا تعاقب کیا گیا۔ سب کے پیچھے ڈھول باندھا گیا۔ سیاست دان سب سے زیادہ چھانے اور ٹٹولے گئے۔ جرنیلوں کے خلاف ایکشن ہوا یا نہیں...

وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ

بہت ملک دیکھے۔ بہت سمندر پار کئے۔  جزیروں سے لطف اٹھایا۔  کیا کیا ولایتیں ہیں جو بحرالکاہل اور اوقیانوس کے کناروں پر آباد ہیں۔  بحیرۂ روم کے ساحلوں پر بہشت کے ٹکڑے یوں پڑے ہیں جیسے شال پر ستارے ٹانکے گئے ہیں۔  اور کیسے کیسے شہر۔  چھلکتے بازار۔  کوچے جیسے الف لیلیٰ کی داستانوں میں پھیلی گلیاں!  کھڑکیوں پر ریشمی پردے۔  پردوں کے پیچھے پریاں۔  مگر جہاں گیا، اجنبی ٹھہرا۔ کہیں پوچھا گیا، پاسپورٹ کہاں ہے؟ کہیں ویزا چیک کیا گیا۔ کہیں سوال کیا گیا، کہاں کے ہو؟ جوتے اتروائے گئے۔ کہیں بازو پھیلانے کو کہا گیا ۔ اس کرۂ ارض پر‘ اس سیارے پر‘صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں میں اجنبی نہیں۔ جہاں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں میں الگ الگ، وکھرا وکھرا، نظر نہیں آتا۔ جہاں مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہاں سے آئے ہو، ویزا کب تک ہے؟ جہاں مجھے جیب میں پاسپورٹ نہیں رکھنا پڑتا۔ پاکستان میرا ملک ہے۔ میرا گھر ہے۔ اس کی مٹی میری اپنی مٹی ہے۔ اس کی ہوائوں میں میں نے پرورش پائی ہے۔ اس کی دھوپ اور چاندی نے مجھے نشوونما بخشی ہے ۔اس کے ستاروں کی ضیا نے میرے اندر تو...

مولانا کے دفاع میں

مولانا فضل الرحمن پر مخالفین منافقت کا بہتان تراشتے ہیں۔  مخالفت کا حق کسی سے بھی چھینا نہیں جا سکتا۔ مگر منافقت کا الزام لگانا ناانصافی ہے۔ مولانا کا ماضی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ انہوں نے منافقت سے کام کبھی نہیں کیا۔  سب جانتے ہیں کہ مولانا کا اور ان کے بزرگوں کا تعلق ایک ایسی مذہبی جماعت سے تھا جو قیام پاکستان کی مخالف تھی۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں ان کے بزرگوں کی جماعت نے کانگرس کا ساتھ دیا تھا۔ مولانا اسی پاکستان کی قومی اسمبلی میں کئی برس رکن رہے، ان کے بزرگوں نے جس کی مخالفت کی تھی۔ اسی پاکستان سے انواع و اقسام کی مراعات حاصل کیں۔ کشمیر کمیٹی کے صدر رہے۔ وفاقی وزیر کے برابر ان کا عہدہ تھا۔ اسی پاکستان کی حکومت سے سرکاری رہائش گاہ لی اور سالہا سال اس میں ایک آرام دہ زندگی گزاری۔ کالم نگار آصف محمود دس اگست کے روزنامہ 92 نیوز میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ مولانا کے قریبی اعزہ نے کس طرح اس ریاست سے بھرپور فوائد اٹھائے۔ اپنے قریبی ساتھیوں میں سے کسی کو سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرایا اور کسی کو اسلامی نظریاتی کونسل کے صدارتی منصب پر متمکن کرایا۔ جس پاکستان کی مخالفت...

سیاست میں انسانیت ڈھونڈنے کا ہنر

اکتا جاتے ہیں۔سیاست کے موضوع پر کالم پڑھ پڑھ کر پڑھنے والوں کی ناک میں دم آ جاتا ہے۔ مان لیا، سیاسی موضوعات پر سب اپنے اپنے اسلوب سے لکھتے ہیں۔ کچھ کے اسالیب بہت مقبول ہیں مگر موضوع تو وہی رہتے ہیں۔ وہی عمران خان، وہی زرداری، وہ انگلی لہراتی ہوئی، وہی ہیٹ، وہی شہزادی، وہی اس کا بے وقعت میاں جس نے شناخت سسرال میں گم کردی۔ فنا فی السسرال ہوگیا۔ تاریخ میں نام اور مقام بنا گیا۔ جب بھی دوسرے موضوعات پر کالم لکھا فیڈ بیک، کئی گنا زیادہ آیا۔ بچے، بچوں کی معصومیت، سماجی رشتے جو مدہم ہوتے ہوئے غائب ہورہے ہیں، دیہی زندگی کے دھندلائے ہوئے مناظر۔ ادب آداب جو افق پار چھپتے جا رہے ہیں۔ پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور روتے ہیں۔ بحراوقیانوس کے اس پار سے نامے آتے ہیں کہ صبح سے پڑھ رہا ہوں، رو رہا ہوں، تم نے اپنی نہیں، میری داستان لکھی ہے۔ میرا بچپن بھی یہی تھا پڑھنے والے تاریخ اور ادب کے پیاسے ہیں ۔ ادبی پرچوں کا سنہری دور لد چکا۔ فنون، اوراق، نقوش، شمس الرحمن فاروقی کا شب خون۔ اب وہ ادبی جریدے کہاں! ’’فنون‘‘ نکل رہا ہے مگر ؎ شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں جو قافلہ ...

لُوٹا ہوا پِزا اور سوئمبر

جو اپنے خریدے گئے پزا کی حفاظت نہ کرسکا، وہ ملک کی حفاظت خاک کرے گا؟ اول تو عمران خان کو ایسی حرکت کرنا نہیں چاہیے تھی۔ خدا کے بندے! تم ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہو۔ تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہو۔ عوام نے تم پر اعتماد کیا ہے۔ ووٹ ڈالے ہیں۔ تم متوقع وزیراعظم ہو۔ دنیا بھر کی نظریں تم پر ہیں۔ ایک ایک نقل و حرکت کا جائزہ لیا جارہا ہے اور حالت تمہاری یہ ہے کہ پزا لینے کے لیے رات گئے خود نکل کھڑے ہوئے۔ وہ بھی تن تنہا۔ پھر اگر عمران خان سے یہ حماقت سرزد ہو ہی گئی تھی تو کم از کم نقاب پوش ڈاکوئوں کو تو شرم آنی چاہیے تھی۔ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ موٹرسائیکلوں پر سوار ڈاکوئوں کے اس گروہ نے عمران خان کو پہچانا نہیں۔ کون سا پاکستانی ہے جس نے عمران خان کی تصویر بارہا نہ دیکھی ہو۔ ان بدبختوں نے ہمارے متوقع وزیراعظم سے پزا چھینا اور فرار ہو گئے۔ عمران خان نے پیسے بھی خرچ کئے اور پزا بھی ہاتھ نہ آیا۔ ان ڈاکوئوں کو خود بنفس نفیس ملنا چاہتا تھا کہ شرم دلائوں مگر درمیان میں اور جھمیلے آن پڑے۔ خبر ملی کہ حمزہ شہبازشریف صاحب کو صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کردیا گیا ہے...