اشاعتیں

جولائی, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

یہاں تک کہ دجّال ظاہر ہو

شاعر کا نام یاد نہیں! شعر کا مفہوم یہ تھا کہ تیس برس کے زہد و ریاضت کو ایک نوخیز حسینہ کا حُسن بہا کر لے گیا۔ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی میں(غالباً) سب سے زیادہ پڑھے لکھے سیاست دان ہیں۔ مقابلے کے امتحان میں، ملک بھر میں اوّل آئے ملازمت کرنے سے انکار کر دیا۔ وکالت شروع کی پھر وہ وقت بھی آیا کہ ملک کے گراں ترین وکیلوں میں شمار ہونے لگے۔ سیاست دان بنے۔ پیپلزپارٹی کے رکن ہوئے وزیر رہے۔ پارٹی کو کسی حال میں نہ چھوڑا۔ پارٹی سے وفاداری اس قدر کہ پوری دنیا نے کرپشن پر آہ و فغاں کی۔ حج سکینڈل، تُرکی والا ہار، گوجر خان کے حوالے سے داستانیں۔ دنیا بھر میں جائیدادیں، مگر اعتزاز احسن صاحب احتجاج تو کیا، حرفِ شکایت تک زبان پر نہ لائے۔ ع وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے شاعری کا اعلیٰ ذوق! اچھی اچھی نظمیں اور غزلیں کہیں، اس کالم نگار کا رسوائے زمانہ شعر ؎ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے کئی بار منتخب ایوان کو سنایا۔ ’’دی انڈس ساگا اینڈ میکنگ آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے کتاب تصنیف کی ،اہلِ دانش نے پسند کی کہ اس میں تاریخ بھی ہے سیاست بھی اور کلچر بھی۔ ...

جناب میاں نواز شریف!ابھی بھی کچھ نہیں گیا

نہیں! ایسا نہیں! ہرگز نہیں! جو بزرجمہر اپنی پرانی دوا بیچے جا رہے ہیں خدا کے لیے مریض پر رحم کر دیں! اب تو رحم کر دیں!! ایک ازکار رفتہ تھیوری! یہ کہ نواز شریف کا بیانیہ مضبوط تھا۔ یہ کہ عوام سول بالادستی کے لیے بڑے میاں صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے یہ کہ شہباز شریف صاحب کا بیانیہ مختلف تھا۔ یہ کہ عوام کنفیوژ ہو گئے اور یوں مسلم لیگ نون ہار گئی! رحم !رحم! اے ابنائے زمانہ! رحم!اس قوم پر رحم کر دیجیے! بیانیہ کے لفظ کے ساتھ یہاں جو کچھ ہوا لغت کے قارون مدتوں یاد رکھیں گے اور گریہ کریں گے! میاں نواز شریف صاحب کا ہمدرد وہ ہو گا جو انہیں دن کے سپنے سے نکال سکے۔ جو ان کے ذہن کی ساخت کو‘ زیادہ نہیں تو تھوڑا سا ہی بدل سکے! گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں مسلم لیگ نون نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ تکے کھانے والے‘ چڑوں جیسی قابل رحم مخلوق کو بریاں کر کے ہڑپ کرنے والے کھیلوں کا سامان برآمد کرنے والے‘ کیا سول بالادستی کے نرم و نازک نظریات سمجھ گئے اور ووٹ دیے؟  جو کھرب پتی اپنی دولت سے ایئر پورٹ بنوا سکتے ہیں مگر یونیورسٹی بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ کیا وہ سول اور ملٹری بالا...

تین کام جو عمران خان کو پہلے ہفتے میں کردینے چاہئیں

معاشی گڑھے سے نکلنے کے لیے تو خیر عمران خان کو کچھ طویل المیعاد منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا۔ جن میں سے تین اہم ہیں۔ اول: ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ، دوم: درآمدات کے بل میں کمی اور سوم: جن افراد نے گزشتہ عشروں میں قرضے معاف کرائے، (سابق سپیکر…… فہمیدہ مرزا جیسے بااثر سیاستدان بھی ان میں شامل ہیں) ان سے ان بھاری کی واپسی۔  مگر تین کام ایسے ہیں جو عمران خان کو حکومت میں آنے کے بعد پہلے ہفتے کے اندر کردینے چاہئیں۔ اول: وزیراعظم ہائوس کو جو دراصل ایک محل نہیں، محلات کا مجموعہ ہے ، فوراً کسی ادارے کے نام وقف کردے۔ یہ تجویز اس کالم نگار نے 26 جولائ کی دوپہر کو 92 نیوز چینل پر پیش کی۔ خوشگوار اتفاق یہ ہوا کہ اسی دن شام کی تقریر میں عمران خان نے اسی عزم کا اظہار کیا۔ مگر مسئلہ یہاں اور ہے۔  سکیورٹی کا حصار کھینچنے والوں نے ایک نام نہاد ’’ریڈزون‘‘ بنایا ہوا ہے۔ اعتراض یہ کیا جائے گا کہ اگر وزیراعظم ہائوس کو لائبریری، عجائب گھر یا یونیورسٹی بنایا گیا تو حفاظتی پہلو متاثر ہوں گے۔ اس لیے کہ عوام کی آمدورفت زیادہ ہوگی۔ عوام کی آمدورفت تو اس نام نہاد ریڈ زون میں پہلے ہی ...

میرا کُتا واپس کر دو

یہ قصّہ آپ نے پہلے بھی سنا ہو گا۔  ایک چرواہا‘ ایک پہاڑ کے دامن میں بھیڑیں چرا رہا تھا۔ گھاس ہری بھری تھی۔ ہوا خوشگوار تھی۔ بھیڑیں خوش خوش پیٹ پوجا میں مصروف تھیں۔ چرواہا درخت کے سائے میں چادر بچھا کر اس پر نیم دراز ‘ بانسری بجا رہا تھا۔  ایک لینڈ کروزر آ کر رُکی۔اس عظیم الشان گاڑی سے ایک نوجوان اترا۔ اس نے تازہ ترین فیشن کا تھری پیس سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ اعلیٰ برانڈ کی ریشمی قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہترین اطالوی ہینڈ میڈ نکٹائی لگائی ہوئی تھی۔ جوتے جو اس نے پہنے ہوئے تھے‘ ایک ایسے فرانسیسی برانڈ کے تھے کہ سیل میں بھی ان کی قیمت سینکڑوں پائونڈ سے کم نہ تھی۔ نوجوان نے عینک بھی لگائی ہوئی تھی۔ جب وہ چرواہے کی طرف بڑھا تو اس کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھا۔ چرواہے نے بانسری بجانا چھوڑ کر‘ اس سے پوچھا فرمائیے! کیا خدمت کروں؟ نوجوان نے پیشکش کی کہ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں۔ اگر میں بھیڑوں کی تعداد ٹھیک ٹھیک بتا دوں تو ایک بھیڑ لینے کا حقدار ہوں گا۔ چرواہا مسکرایا اور کہا ٹھیک ہے‘ ایسا ہو گا! نوجوان نے گاڑی سے ایک فولڈنگ کرسی نکالی اور ا...

ابھی کہیں کہیں ہڈیوں پر گوشت باقی ہے

وفاقی حکومت کے سرکاری مکانوں کے محکمے نے عالم بے بدل، فاضل اجل، صدر مملکت جناب ممنون حسین کی خدمت میں ایک خط پیش کیا ہے۔ اس سرکاری کاغذ پر ان کے نام باتھ آئی لینڈ کراچی کا ایک مکان الاٹ کیا گیا ہے جس میں مکرم ومحترم ریٹائرمنٹ کے بعد بود و باش اختیار کریں گے۔  چونکہ ’’قانون کی رو سے صدر مملکت کو عہدے سے سبکدوش یا ریٹائر ہونے کے بعد یہ استحقاق حاصل ہے کہ انہیں سرکاری مکان الاٹ کیا جائے۔‘‘ اس لیے صدر ممنون حسین کو یہ ’’جھونپڑی‘‘ الاٹ کی گئی ہے۔ اہل کراچی اچھی طرح جانتے ہیں کہ باتھ آئی لینڈ کا علاقہ ’’غریبوں‘‘ کے لیے مخصوص ہے۔ ایسے ’’غریب‘‘ جن پر امیر بھی رشک کریں! عالم بے بدل فاضل اجل صدر ممنون حسین جب ستمبر میں ایوان صدر کو داغ مفارقت دیں گے اور جب ایوان صدر ان کے فراق میں دھاڑیں مار مار کر روئے گا تو انہیں اس مکان کا قبضہ دے دیا جائے گا۔  بے چارے صدر ممنون حسین! جن کے پاس ریٹائرمنٹ کے بعد رہنے کے لیے مکان ہی نہیں۔  وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہے۔ اس وقت شاید وہ خیمے میں رہتے تھے۔ ہو سکتا ہے رات کسی مسجد میں فرش پر سو کر گزار...

استحصال اس کے لیے نرم ترین لفظ ہے

’’……………………آپ نے علی ؓ کو نہیں دیکھا۔ دو بیٹے علیؓ کے آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں بھی علیؓ کا بیٹا ہوں…………بھی علیؓ کا بیٹا ہے۔ …ہمیں دیکھ لیا‘ آپ نے تو سمجھو علی کو دیکھ لیا۔ ہمارا ساتھ دو گے؟ ہاتھ اٹھاکے۔ ہمارا ساتھ دو گے؟ دیکھو میں علیؓ کا بیٹا ہوں۔ یہ علیؓ کا بیٹا ہے۔ یہ میرے بچے ہیں۔ آپ کے بھائی ہیں۔ ہمارا ساتھ دو گے؟ چھوٹا بڑا ووٹ دو گے؟ …………… پر مہر لگائو گے؟ چھوٹی بڑی سیٹ پر مہر لگائو گے؟ سنو! کل قیامت کو جب تیرا کوئی کام آنے والا نہیں ہو گا تو یہ خاتون جنت کے بچے تیرے کام آئیں گے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ دنیا میں بھی تیرے کام کریں گے اور آخرت میں بھی تیرے کام آئیں گے۔ بھائیو! میرے دوستو! مجھ سے محبت کرنے والو! میری محبت کے بدلے میں اللہ کا نبی اپنا جلوہ اور دیدار تجھے کروائے گا… کمپین کو شروع کرنا تھا۔ یہاں کا پہلا مجاہد۔ مجاہد اول۔ محب اول ملک… ………………نکلا اور میرے پاس آیا اور اس نے کہا میں …………… پہ قربان ہونے کو تیار ہوں۔ جب کربلا میں کوفیوں نے حسینؓ کے خاندان کو چھوڑ دیا تھا کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک حُر نکلا تھا۔ حضرت حر نکلا تھا۔ ہمارے لیے …………… حُر ہے۔ ہم اس کو حُر کا خط...

مائی لارڈ! چیف جسٹس! انہیں زندان میں ڈالیے

ہسپتال جا کر ڈاکٹر کا پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ وارڈ میں ہیں۔ اور وہ وارڈ میں نہیں ہوتے۔ کسی دفتر میں متعلقہ اہلکار کا پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ نماز کے لیے گیا ہے یا کھانے کا وقفہ ہے۔ نماز اور کھانے کا یہ وقفہ کئی گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ کسی ترقیاتی ادارے، بجلی، گیس یا ٹیلی فون کے دفتر جا کر متعلقہ انجینئر سے ملنا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ سائٹ پر گئے ہیں حالانکہ سائٹ پر نہیں ہوتے۔ تھانیدار سے ملنا ہو تو تھانے والے بتاتے ہیں کہ گشت پر نکلے ہوئے ہیں حالانکہ گشت پر نہیں ہوتے۔ سالہا سال سے قومی ایئرلائن (جو قومی زیادہ ہے اور ایئرلائن کم) پروازوں کی تاخیر کا سبب یہ بتاتی چلی آ رہی ہے کہ موسم خراب ہے یا تاخیر تکنیکی وجوہ کی بنا پر ہورہی ہے۔ حالانکہ موسم خراب ہوتا ہے نہ تکنیکی وجہ ہوتی ہے۔ چار دن پہلے جو کچھ سکردو ایئرپورٹ پر ہوا اس پر غور کیا جائے تو بہت آسانی سے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ قومی ایئرلائن پاتال کی گہرائی میں کیوں گری ہوئی ہے۔ سکردو ایئرپورٹ پراسلام آباد جانے والے مسافر اس جہاز کے اڑنے کا چار گھنٹے انتظار کرتے رہے جس نے 45 منٹ کے سفر کے بعد اسلام آباد اتر...

حفظِ مراتب! نوجوانو! حفظِ مراتب

بہت دور، اوپر، بادلوں سے بہت پرے، ستاروں اور کہکشائوں کے اس طرف، لوح تقدیر پر لکھا جا چکا ہے کہ حکومت بدلی تب بھی کردار وہی رہیں گے۔ عمران خان وزیراعظم بنے یا کوئی اور، ہم غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے اور جو حکومتوں کی طرف داری کرتے رہے ہیں، ایک حکومت کی نہیں، ہر حکومت کی! وہ عمران خان کی حکومت کی بھی چوبداری کریں گے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ جب حریت فکر کا دستور ہوا طے خود جبر مشیت نے قسم کھائی ہماری عمران خان سے جو امیدیں تھیں ان امیدوں کا شعلہ کجلا گیا ہے۔ روشنی مدہم پڑ رہی ہے مگر انگریزوں نے محاورہ ایجاد کیا تھا کہ فقیروں کے پاس اختیار ہی کہاں ہے، فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎ دل آزاد کا خیال آیا اپنے ہر اختیار کو دیکھا عمران خان اب بھی ’’کم تربرائی‘‘ میں ہی شمار ہوگا۔ اس کی ایک خوش بختی یہ ہے کہ اسے وفاق میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک صوبے میں ملا تو کم از کم پولیس اور تعلیم کے میدانوں میں افتاں خیزان گرتا پڑتا کچھ نہ کچھ کامیاب ہو ہی ہوگیا۔ عمران خان کو ووٹ نہ دیں تو کیا انہیں دیں جنہوں نے سرے محل خریدے؟ فرانس میں جائیدادیں بنائیں۔ دبئی م...

میاں نواز شریف سول بالادستی کی جنگ کیوں نہیں جیت سکتے

چلیے مان لیا آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ نادیدہ قوتوں نے دفاع اور خارجہ کے امور میں آپ کو آزادی نہیں دی تھی۔ مان لیا مداخلت ہوتی تھی۔ مان لیا کہ غیر ملکی سفیر اور امریکی افواج کے بڑے بڑے کمانڈر جی ایچ کیو میں آتے تھے۔ مگر جب آپ وزارت عظمیٰ کے تختِ طائوس پر بیٹھے تو آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے!  آپ کے سامنے دو راستے تھے یا تو آپ اقتدار سنبھالنے سے انکار کر دیتے کہ حکومت لوں گا تو مکمل لوں گا۔ لولی لنگڑی اندھی بہری نہیں لوں گا۔ دفاع کے فیصلے وزیر دفاع کرے گا اور خارجہ سرگرمیوں کا مرکز وزارت خارجہ ہو گی یا وزیر اعظم کا آفس! جی ایچ کیو کا کردار صفر ہو گا۔ وہ وہی کام کریں گے جو کتاب میں ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے!  مگر آپ نے یہ راستہ نہ چنا۔ آپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا تخت پر بیٹھ گئے۔ تاج پہن لیا! اب آپ کے سامنے واحد راستہ یہ تھا کہ جو شعبے آپ کے مکمل اختیار میں تھے‘ آپ ان میں مثالی کارکردگی دکھاتے!مثلاً اگر نادیدہ قوتیں اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں تو آپ اپنے دائرہ اختیار میں قانون کا نفاذ اس زبردست طریقے سے کر...

ہم بدبختوں کی قسمت میں الیکشن کے دن سونا ہی ہے

ہمایوں اختر خان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔  آپ نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی اور پارٹی کے منشور اور قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ بھر پور طریقے سے پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک کے مستقبل کیلئے موثر ترین جدوجہد کی ہے۔ عمران خان نے ہمایوں اختر کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت سے تحریک انصاف کو تقویت ملے گی۔  ہمایوں اختر نے 1990ء کا الیکشن اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے لڑا اور کامیاب ہوئے۔ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین رہے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں قاف لیگ میں شامل ہوئے اور پانچ سال وزیر تجارت رہے۔2012ء میں ہم خیال گروپ کے رکن کی حیثیت سے مسلم لیگ نون کے ساتھ ہو گئے۔ 2015ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے ہمایوں اختر کے بھائی ہارون اختر کو اپنا ’’خصوصی معاون‘‘ مقرر کیا‘ ہارون اختر بعد میں مسلم لیگ نون کی طرف سے سینیٹر بھی ہوئے۔  9جولائی کے اخبارات میں قندیل بلوچ فیم مفتی عبدالقوی کا بیان چھپا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ 1۔ عمران خان نے اسے اپنا مشیر د...

میری مجوزہ ہائوسنگ سوسائٹی… پہلے آئیے،پہلے پائیے

سنا ہے دارالحکومت میں روات سے لے کر گوجر خان تک، شاہراہ کے اردگرد زمینیں خریدی جا چکی ہیں۔ آبادی کا دبائو بے تحاشا بڑھ رہا ہے۔ سرکاری ادارے، نیم سرکاری تنظیمیں نجی شعبہ، سب ہائوسنگ سوسائٹیاں ڈیویلپ کرنے میں لگے ہیں۔ زراعت کے لیے مخصوص رقبے رہائشی آبادیوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ جنگل کاٹے جا رہے ہیں۔ باغوں، سیر گاہوں اور پارکوں پر پراپرٹی ڈیلروں کی عقابی نظریں مرکوز ہیں۔ جھپٹتے ہیں اور پارک ختم ہو جاتے ہیں۔  انسانوں کا جنگل ہے کہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ سنا ہے کہ ڈھاکہ میں پیدل چلنے وارلوں کا بھی ’’ٹریفک جام‘‘ ہو جاتا ہے۔ ہم بھی اُسی صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ بنگلہ دیش نے آبادی کی شرحِ اضافہ کو کنٹرول کر لیا ہے۔ یعنی تین فیصد سے کم۔ ہمارا اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف انگریزی روز نامے نے بتایا تھا کہ خیبرپختونخوا میں یہ اضافہ چار اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ تا ہم اس مخصوص اضافے کی پشت پر افغان مہاجرین بھی شامل ہیں اور قبائلی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی بھی ایک اہم عامل ہے۔  بڑھتی ہوئی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا سبب صرف آبادی کا دبائو نہیں۔ اس میں ...

کُھلا خط۔-------اُن دو کے نام

بات چھوٹی سی تھی مگر بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی ہو گئی کہ معمولی تلخ کلامی جھگڑے میں تبدیل ہوئی اور پھر دشمنی میں!  چوہدری نسیم کا خاندان گائوں میں کھاتا پیتا شمار ہوتا تھا۔ یوں سمجھیے جیسے شہر میں مڈل کلاس کے کنبے ہوتے ہیں۔دیہی پس منظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مڈل کلاس کا مطلب شہر میں کچھ ہو نہ ہو‘ بستیوں اور قریوں میں اس کا مطلب ایک باعزت مقام ہوتا ہے۔ معیار زندگی اوسط سے کافی اوپر! ڈھور ڈنگر ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں‘ زمین سے پیداوار ٹھیک ٹھاک! جس دن یہ واقعہ پیش آیا‘ اس دن شام کے وقت گائوں کے لوگ چوپال میں اکٹھے تھے، بحث سیاست پر ہو رہی تھی۔ چودھری نسیم جس سیاسی جماعت کا طرفدار تھا اس کے دفاع میں بول رہا تھا۔ اس کا ایک رشتہ دار جو دوسری جماعت کا حامی تھا‘ زبان کاتیز تھا۔ اس کی آواز ضرورت سے زیادہ اونچی ہو گئی۔ چودھری نسیم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ بات بڑھ گئی۔ تیز زبان والے رشتہ دار نے چودھری نسیم کے مرحوم باپ اور دادا کے بارے میں کوئی بے ہودہ بات کہہ دی۔ چوہدری نسیم اُٹھا ۔ صرف اتنا کہا کہ میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں‘ مرے ہوئے باپ اور دادا کی بے عزتی نہیں برداشت ...