اشاعتیں

جون, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تیرے سب خاندان پر عاشق

’امید کرتا ہوں چوہدری نثار پارٹی کا حصہ بن کر الیکشن لڑیں گے ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔ بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔ یہ چیز کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ پارٹی کی طرف ہی سے الیکشن لڑیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے کہ کچھ لوگ ٹکٹ حاصل نہ کر سکے لیکن انہوں نے پارٹی پلیٹ فارم ہی سے الیکشن لڑا۔ ہماری خواہش بھی ہے کہ وہ پارٹی کے پلیٹ فارم ہی سے الیکشن لڑیں۔ چودھری نثار پارٹی کے سب سے پرانے رکن ہیں۔‘‘  یہ بیان سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ انہی کا ہو سکتا ہے۔  چودھری نثار ایک طرف میاں نواز شریف کی حد سے بڑھی ہوئی انانیت اور زبان حال سے ان کے اعلان’’انا و لا غیری‘‘کا شکار ہوئے اور دوسری طرف دختر نیک اختر کے اس زعم کا کہ وہ نون لیگ کی سلطنت کی تنہا وارث ہیں! کس کو معلوم نہیں کہ شہباز شریف نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ چودھری نثار کے اور نون لیگ کے درمیان ہر لحظہ بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹا جائے۔ اعلان بھی کر دیا گیا کہ نثار کے مقابلے میں پارٹی امیدوار نہیں کھڑا کرے گی پھر مبینہ طور پر لندن سے ایک وٹس ایپ آیا اور سب کچھ بدل گیا‘ ا...

جوتھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا…۔

24 اور 25جون کی درمیانی رات بارہ بجے سعودی معاشرے میں ایک انقلاب آیا۔ بہت بڑا انقلاب۔ بہت بڑی تبدیلی، خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت عملی طور پر مل گئی۔ کچھ پرجوش خواتین نے اُسی وقت گاڑیاں نکالیں اور شاہراہوں پر نکل گئیں۔یہ خواتین جب دوسرے ملکوں میں قیام پذیر تھیں تو گاڑی چلانا سیکھ گئیں۔ پھر وہیں سے ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیے۔ اُن لائسنسوں کی بنیاد پر ان کے لائسنس سعودی عرب میں بن گئے۔ دوسری عورتوں کے لیے ڈرائیونگ سکھانے والے سکول چل پڑے ہیں۔ یہ آغاز ہے۔ کچھ عرصہ میں خواتین کی ایک بھاری تعداد اس سلسلے میں خود کفیل ہو جائے گی اور ڈرائیور، باپ، بھائی، بیٹے یا شوہر کی محتاج نہیں رہے گی۔ ہاں! جن خاندانوں میں ماحول بہت زیادہ دقیانوسی یا سخت ہے، وہاں حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے باوجود یہ پابندی خاندان کے مردوں کی طرف سے برقرار رہے گی۔ مجموعی طور پر یہ ایک پدرسری معاشرہ ہے۔ مرد کو فوقیت حاصل ہے۔ کئی معاملات میں عورت مرد کی محتاج ہے۔ ظاہر ہے معاشرتی تبدیلیاں ایسے سخت گیر سماج میں بہت آہستگی اور نرم رفتاری سے واقع ہوتی ہیں۔ سالہا سال لگتے ہیں۔ بعض اوقات صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ مغربی ...

اثاثے اور انکی قیمت

عجیب و غریب بستی تھی۔ حیرتوں کے مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ پوری بستی میں ایک بھی باتھ روم نہ تھا۔ یہ تو وہ زمانہ ہے کہ باتھ روم پر بے تحاشا دولت لٹائی جاتی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم کے بارے میں یہ خبر تواتر سے چھپتی رہی ہے کہ سرکاری گھر میں باتھ روم پر کروڑوں روپے صرف کر دیے۔ وہ تو خیر سرکاری معاملہ تھا۔ مال مفت دل بے رحم۔ اپنی جیب سے بھی جو لوگ مکان بنواتے ہیں‘ باتھ روم پر اس قدر توجہ دیتے ہیں جیسے حجلۂ خاص یہی ہو! مہنگی ٹائلوں کا فرش! دیواریں دیدہ زیب ! ٹب‘ کموڈ‘ بیسن اعلیٰ سے اعلیٰ۔ مہنگے سے مہنگے۔ اپنے عرب بھائی تو باتھ روموں میں ٹونٹیاں سونے کی لگواتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے بحری جہاز میں انگلستان کا سفر کیا تو پہلی بار نہلانے والا شاور دیکھا۔ لکھتے ہیں کہ ایک کل کھینچی تو بارش برسنے لگی۔(کچھ اسی مفہوم کا فقرہ تھا) شاور بازار میں قسم ہا قسم کے ہیں۔ خوب چوڑے کچھ گول بناوٹ والے۔ نیچے کئی قسم کی ٹونٹیاں‘ ایک کھولیں تو گرم پانی نکلے دوسری کو ہاتھ لگائیں تو ٹھنڈا‘ تیسری سے معاملہ کریں تو مکس پانی جو ٹھنڈا نہ گرم بلکہ گوارا اور آرام دہ! لاکھوں روپیہ ایک ایک باتھ روم...

دھکے کھانےکے بعد ……

‎ڈیل ڈول اس کا مولوی صاحب کے مقابلے میں زیادہ تنومند تھا۔ مولوی صاحب کی عمر بھی ڈھل رہی تھی۔ یہ نوجوان تھا۔ ہٹا کٹا،مشٹنڈا، مولوی صاحب نحیف تو نہیں تھے مگر کمزور ضرور کہا جا سکتا تھا۔ اس نے جب لائوڈ سپیکر کا بٹن آف کیا تو مولوی صاحب نے نرمی سے پوچھا: ‎’’کیوں؟ بند کیوں کر دیا؟‘‘ ‎’’اذان نہیں دینے دوں گا؟‘‘ ‎’’کیوں؟‘‘ ‎ ’’ابھی وقت نہیں ہوا‘‘ ‎مولوی صاحب کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہیں! ‎’’میں ہر روز پانچ وقت اذان دیتا ہوں کیا مجھے بتائو گے کہ وقت نہیں ہوا۔ سامنے کیلنڈر لگا ہے اس میں پورے سال کی نمازوں کے اوقات کا نقشہ ہے! پھر دوسری مسجدوں سے اذان کی آوازیں آ رہی ہیں۔ تم سن سکتے ہو! اور ذرا یہ مسجد کی دیوار پر لگا کلاک بھی دیکھ لو۔‘‘ ‎’’کیا فقہ کی کتابوں میں اس کیلنڈر اور اس وال کلاک کا ذکر ہے؟‘‘ ‎یہ سوال مولوی صاحب کے لیے غیر متوقع تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ خاموش اور پریشان ہو گئے۔ پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے لگے۔ ‎ ’’بھائی! ہم اس مسجد میں کوئی انوکھا کام نہیں کر رہے! پورے ملک میں، بلکہ پوری دنیا میں یہی سسٹم ہے۔ نماز کے اوق...

ہم ہم ہیں، ہمارا جواب نہیں

یہ دیکھیے،یہ کون ہے؟ اس نے شلوار قمیض پر واسکٹ پہنی ہوئی ہے۔ سرپر سفید، گول، ٹوپی ہے۔ پائوں میں پشاوری چپل ہے! یہ ایک مسلمان ہے۔ یہ پاکستانی بھی ہے۔ قصور اس کا صرف یہ ہے کہ اس کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے!  یہ پاکستان کے لیے ہمیشہ جان لڑاتا رہا ہے! افواجِ پاکستان میں اس نے ہمیشہ اگلے محاذوں پر دادِشجاعت دی ہے۔ سینے پرگولیاں کھائی ہیں۔ مشرقی بارڈر ہو یا افغان سرحد، کارگل ہو یا وزیرستان! اس نے باقی پاکستانیوں کے ساتھ مل کر مادرِ وطن کا ہمیشہ دفاع کیا۔ اس نے ہمیشہ سینے پر وار سہا، اس نے کبھی پشت پر زخم نہیں لگنے دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں اسی نے دیں۔ جتنے دھماکے خیبرپختونخوا میں ہوئے، شاید ہی کہیں اور ہوئے ہوں۔ سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا۔ بازاروں، مسجدوں، مزاروں، گرجائوں کو تاخت و تاراج کیا گیا۔ خیبرپختونخوا کا یہ مسلمان، یہ پاکستانی، زخم سہتا رہا، خون بہاتا رہا، گولیاں کھاتا رہا، اُف تک نہ کی! صلہ مانگا نہ ستائش، نمائش کی، نہ سازش!  کراچی کو کراچی کس نے بنایا؟ اس نے وہ کام کیا جو بابو لوگ، صاحب لوگ، سائیں لوگ، کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس ن...

سمندر سے ایک موتی

سمندر میں کیکڑے ہیں اور مگرمچھ! دریائوں میں بہتی ہوئی ساری آلودگی ‘ جو انسان پھیلا رہے ہیں سمندر میں آ ملتی ہے۔ سمندر میں کیچڑ ہے اور نہ جانے کیا کیا گندگی اور غلاظتیں‘ تو پھر کیا ہم سمندر کی طرف توجہ نہ دیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! اسی سمندر میں سیپیاں ہیں جن کے اندر موتی ہیں! مرجان اور لولو ہیں۔ جواہرات ہیں! مخلوقات کے لیے خوراک ‘ قسم قسم کی خوراک‘ اسی سمندر میں موجود ہے۔ یہی سمندر ہے جو ہماری کشتیوں اور جہازوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا ہے اور ہزاروں میل کے فاصلے طے کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سمندر میں خوبصورت جزیرے ہیں جن میں درخت ہیں اور باغات اور پھل اور پھول! یہی حال سوشل میڈیا کا ہے!  سوشل میڈیا بھی سمندر ہے! کیچڑ اور آلودگی سے بھرا ہوا!اس میں کیکڑے ہیں اور مگرمچھ ! وہیل اور شارک مچھلیاں خوفناک دہانے کھولے شکار کی تلاش میں پھر رہی ہیں۔ انسانوں کو بھی نگل جاتی ہیں! مگر اسی سمندر میں اسی سوشل میڈیا میں موتی بھی ہیں‘ مرجان اور مونگے بھی! خوراک بھی! باغوں والے خوبصورت جزیرے بھی ! کیسے کیسے عقل و دانش والے سوشل میڈیا پر موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں ! ایک سے ایک جوہر قابل موجود...

خانہ بدوش ‘ کھوتا اور کتا

کھوتا پنجابی کا لفظ ہے۔ اگر آپ کو اس کا معنی نہیں  معلوم تو ،جیسا کہ ابن انشا نے تجویز کیا تھا ، کسی پنجابی سے پوچھ لیجیے  ………………… پانی پت کی پہلی لڑائی جب ہوئی ہے تو میں ابراہیم لودھی کے ساتھ تھا۔  میں پیدائشی خانہ بدوش!!میرا کل سرمایہ ایک کھوتا جس پر چیتھڑوں سے بنا ہوا خیمہ لادتا تھا اور ایک کتا جو ہمیشہ میرے اور میرے کھوتے کے پیچھے پیچھے چلتا تھا!  یہ 1526ء تھا۔ ابراہیم لودھی کے ساتھ میرا عہد یہ تھا کہ حضور!یہ جان جسم سے نکل جائے گی مگر وفا کے دامن پر داغ نہیں لگے گا!تاہم جیسے ہی میں نے محسوس کیا کہ مغل حملہ آوروں کی توپوں کے سامنے لودھی کے ہاتھیوں کا کھڑا ہونا مشکل ہے‘ میں نے خیمہ اکھاڑا‘ کھوتے پر لادا اور لودھی کی لشکر گاہ سے نکلنے کی ٹھانی۔ اب یہاں یہ مصیبت آن پڑی کہ کھوتا اور کتا دونوں اَڑ گئے۔ کہنے لگے مالک! ہمارا مشورہ یہ ہے کہ پیمانِ وفا نبھائو اور لودھی سے دغا نہ کرو! دونوں کو میں نے سمجھایا کہ زمینی حقائق کو دیکھنا پڑتا ہے مرتے کیا نہ کرتے‘ دونوں ساتھ چل پڑے ۔ بہر طور کھوتے کو میں نے کتے سے یہ کہتے سنا کہ بھائی کتے! یہ انسان بھی کیا چیز ...

نہیں مائی لارڈ نہیں ہر گز نہیں

‎یہ روایات زبان زدِ خاص و عام ہیں! کون مسلمان ان سے واقف نہیں؟ ‎حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران حضرت عمر فاروقؓ نے ’’ابوالحسن‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ ان کی کنیت تھی اور نام کے بجائے کنیت سے مخاطب کرنا احترام و عزت کی علامت تھا مگر حیدرِ کرارؓ نے اسے پسند نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ مخاطب کر کے فریق ثانی کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے! ‎اور اس روایت سے بھی کون آگاہ نہیں کہ جب خلیفہ وقت قاضی کی عدالت میں داخل ہوئے تو قاضی احتراماً کھڑا ہو گیا۔ فرمایا یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے روا رکھی! ‎عدالتوں پر ایسے اعتراضات کرنے سے کسی پر توہین عدالت کا الزام نہیں لگا۔ کوئی آسمان نہیں گرا!ریاست کا کوئی ستون منہدم نہیں ہوا۔ عدلیہ کے وقار میں رمق بھر کمی اس سے نہیں آئی! ‎حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک کو قاضی القضاۃ نے اپنے چیمبر میں بلا کر ان دونوں کے درمیان معاہدہ کرایا! ‎کیوں؟ ‎کیا حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک ان ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں سے برتر ہیں جن کے ازدواجی معاملات پر مشتمل مقدمے سالہا سال سے عدالتوں میں پڑے ...

کیا صارف تاجر کا غلام ہے ؟

‎یہ ایک جانا پہچانا برانڈ ہے۔ مشہور و معروف نام۔ پاکستان کے ہر شہر میں ہر بڑے بازار میں اس کی شاخیں ہیں۔ متوسط طبقہ ٹوٹا پڑتا ہے۔ اکثر و بیشتر طبقہ بالا کے افراد بھی یہیں کا رخ کرتے ہیں۔ ‎شب لباسی کے لیے کھلے گلے کی ٹی شرٹ پہننے کی عادت ہے۔ جو تھیں وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں۔ بازار جانا کم کم ہوتا ہے۔ عسکری رہائشی کالونی کا شکریہ کہ پنڈی اسلام آباد کے سنگم پر ایک بڑا مال بنوایا ہے۔ سارے معروف ملکی برانڈ وہاں موجود ہیں۔ کیا برآمدے، اور کیا خود کار سیڑھیاں، گاہکوں سے چھلک رہی ہوتی ہیں۔ ‎تین ٹی شرٹیں خریدیں۔ کھلے گلے کی، جسے لارڈ کلائیو کی امت ’’رائونڈ نیک‘‘ کہتی ہے۔ گھر آ کر ایک پہنی تو محسوس ہوا گلے سے تنگ ہے اور سوتے میں بے چین کرے گی۔ دوسرے دن واپس گیا۔ کہنے لگے اس کے بدلے میں کوئی اور شے دیکھ لیجئے۔ دیکھا۔ کوئی پسند نہ آئی۔ عرض کیا یہ واپس لے لیجیے۔ دو تو پیکٹ سے نکالی ہی نہیں۔ ایک پہنی، چند ثانیوں بعد اتار دی۔ ٹیگ اس کے ساتھ لگے ہیں۔ رسید یہ ہے۔ میری رقم واپس دے دیجئے۔ منیجر نے ایک ادائے بے نیازی سے ایک اذیت رساں مسکراہٹ بکھیری کہ سر! ری فنڈ (رقم کی واپسی) ہماری کمپنی کی پ...

رمضان- تب — اور —اب

نام تو بابے کا فضل تھا مگر سب بابا پھجا کہتے تھے۔ وسط ایشیائی سٹائل کی داڑھی تھی۔ سائڈوں سے کم اور لمبائی میں نسبتاً زیادہ۔ افطار کے وقت سے کافی دیر پہلے ہی ہم سب بچے مسجد کے اردگرد جمع ہونا شروع ہو جاتے تھے‘ کچھ سامنے گلی میں کچھ مسجد کے صحن میں کچھ ساتھ والے مکانوں کی چھتوں پر۔ پھر لمحہ لمحہ اشتیاق بڑھنے لگتا۔ نظریں بابے پر ہوتیں اور اس ڈرم پر جو مسجد کے صحن کے کونے میں تھا۔ مسجد کے ساتھ والی گلی مسجد کا صحن اور اردگرد کی چھتیں بچوں سے بھر جاتیں۔ بابا دونوں ہاتھوں میں لکڑی کے دو ڈنڈا نما ٹکڑے لیے کھڑا ہوتا پھر نہ جانے اسے کہاں سے اشارہ ملتا یا کون بتاتا کہ وقت ہو گیا ہے وہ لکڑی کے دونوں ٹکڑوں سے ڈرم کو بجانا شروع کر دیتا یہی وہ لمحہ ہوتا جب ہم بچوں پر عالم بے خودی طاری ہو جاتا۔ ایک جا دو ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ ہم پلکیں جھپکنا اور شاید سانس لینابھی بھول جاتے۔ ڈرم بجنے کا موسیقی سے دور دور کا کوئی تعلق واسطہ نہ تھا مگر ہم مسحور ہو جاتے۔ یہ ایک بہت بڑی انٹرٹینمنٹ تھی۔ ڈرم کافی دیر بجتا رہتا۔ ہم ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے۔ پھر بابا یہ تماشا بند کر دیتا وہ خود ہمیشہ ڈرم بجانے ک...

کتاب جو ابھی شائع نہیں ہوئ

‎پہلی شادی عمران خان نے غیر ملکی عورت سے کی اور وہی غلطی کی جو غیر ملکی عورتوں سے شادی کرنے والے پاکستانی کرتے ہیں۔ ‎ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ غیر ملکی بیوی پاکستان آ کر ہنسی خوشی آباد ہوئی ہو جو مثالیں ملتی ہیں وہ اس قدر کم ہیں کہ ان سے قاعدہ کلیہ نہیں بنتا۔ اس لیے کہ محاورہ ہے ؟؟الشاذ کالمعدوم‘‘ جو کبھی کبھار ہوتا ہے وہ نہ ہونے جیسا ہوتا ہے۔ ‎غیر ملکی عورتوں سے جن پاکستانیوں کی شادیاں کامیاب ہوئی ہیں ان میں سے بھاری تعداد وہ ہے جن میں مرد بیوی کے ملک ہی میں رہتا ہے۔ اسی کا رنگ اوڑھ لیتا ہے، اس کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے یا بچوں کے مستقبل کی خاطر، بچوں کو ماں اور باپ کے درمیان تقسیم ہونے سے بچانے کی خاطر قربانی دیتا ہے۔ ‎مصطفی زیدی نے یورپی خاتون سے شادی کی تھی۔ پھر ایک نظم کہی ‎ ہم پر ہنسنے والے بچو آئو تمہیں سمجھائیں ‎جس کے لیے اس حال کو پہنچے اس کا نام بتائیں ‎ اس نظم میں آگے چل کر کہا ‎ع اٹھارہ گھنٹوں کا دن اور چھ گھنٹوں کی رات ‎جو پاکستانی غیر ملکی عورتوں سے شادی کرتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان آ کر رہ لے گی، انہیں ان لاکھوں پاکستانی عورتوں ک...

آخری عشرے کی دعا

‎اے وہ جس نے جگنو میں روشنی کا دیا نصب کیا۔ ‎جس نے اندھیری رات کے اوپر قندیلوں سے بھرے لاکھوں کروڑوں جھاڑ فانوس لٹکائے۔ ‎جس نے درختوں کے چھوٹے چھوٹے پتوں کو شعور دیا کہ چھائوں بنیں، جس طرح کیڑے ریشم بنتے ہیں۔ ‎اے وہ جس نے بے بضاعت مکھیوں کو شہد بنانے کا کام سکھایا۔ وہ شہد جس میں اینٹی بیاٹک ہیں جس میں شفا ہے اور جسے تو نے دنیا میں ہر شخص کو، اس کے مذہب سے قطع نظر مہیا کیا ہے۔ ‎اے وہ جس نے چیونٹیوں کو قطار میں چلنا سکھایا اور خراب موسم کے لیے راشن سٹور کرنے کی منصوبہ بندی بتائی۔ ‎اے قدرتوں اور طاقتوں کے مالک، ہماری مشکل بھی آسان کردے۔ ‎اے وہ جس کی حمد و ثنا میں عظیم المرتبت فرشتے رات دن رطب اللسان ہیں، ہمارے حال پر رحم کر۔ ‎اے خلاق عالم! تونے ہمیں کھانے کے لیے پیٹ بھر کردیا، ہمارے شکم بھرے ہوئے ہیں، ہمارے ریستوران گاہکوں سے چھلک رہے ہیں۔ ہماری افطار پارٹیوں کی میزیں مرلوں کے حساب سے لمبی چوڑی ہیں۔ ہمارے مخیر صاحبان دل نے ناداروں کے لیے شہر شہر قریہ قریہ کوچہ کوچہ دسترخوان بچھا رکھے ہیں جہاں مزدوروں سے لے کر سفید پوشوں تک سب بیٹھ کربھوک مٹاتے ہیں۔ ‎اے ...