اشاعتیں

مئی, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خدا کے لیے تارکینِ وطن! خدا کے لیے

… واشنگٹن کے مکان میں بیٹھ کر‘ ایک سرد‘ ٹھٹھرتی شام‘ راشد اور راشد کی بیگم نے فیصلہ کر دیا۔  ستر کا عشرہ تھا۔ راشد نے بینک کی ملازمت چھوڑی۔ امریکہ پہنچ گیا۔ ڈش واشنگ سے ہوتے ہوتے اخبارات و رسائل کا سٹال لگایا پھر شہریت مل گئی۔ پھر سرکاری نوکری! امریکی سرکار کی ملازمت! وارے نیارے ہو گئے۔ کئی سال اس کی فیملی پاکستان میں انتظار کرتی رہی۔ کبھی کبھی میں اس کے گھر والوں سے پوچھ لیتا کہ رقم کی ضرورت تو نہیں؟ ہمیشہ ایک یہ جواب ملتا کہ رقم تو امریکہ سے مسلسل آ رہی ہے رقم کا تو ایشو ہی نہیں! ایشو تو راشد کے پاس پہنچنا ہے۔  پھر فیملی بھی پہنچ گئی۔ تینوں بچے دس بارہ سال سے کم عمر کے تھے۔ امریکہ ہی میں جوان ہوئے۔ وہیں پڑھا جو کچھ بھی پڑھا۔ اب بیٹی جوان تھی! واشنگٹن کے مکان میں بیٹھ کر اُس سرد ٹھٹھرتی شام راشد اور راشد کی بیگم نے فیصلہ کیا کہ بیگم کی بہن جو پاکستان میں ہے‘ اس کے بیٹے کے ساتھ شادی کریں گے۔ بیٹا پاکستان میں سرکاری افسر تھا! وہ لڑکی جو بیس سال سے امریکہ میں رہ رہی تھی۔ جسے پاکستان میں گزارے ہوئے بچپن کے چند سال مشکل سے یاد تھے۔ دلہن بنا کر پاکستان پہنچا دی گئی۔ ہنی مون ...

خوبصورت بہت ہو تم لیکن

تعجب نہیں کہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی دانشور جب بھی پنجاب کا ذکر کرے گا تو اس کی مراد پنجاب سے وسطی پنجاب ہی ہو گا۔ اس میں شاید ہی کوئی استثنا ہو۔ حتیٰ کہ جناب سجاد میر جیسا منجھا ہوا جینوئن دانشور بھی پنجاب سے مراد وسطی پنجاب ہی لیتا ہے۔ اس بدقسمتی کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ وہ ہے حقیقت پسندی کا۔ اس لیے کہ وسطی پنجاب والے کے لیے پنجاب کیا ہے‘ وسطی پنجاب ہی تو ہے! سجاد میر صاحب نے عمر عزیز کا ایک حصہ کراچی گزارا ہے۔ اس لیے وہ کراچی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہاں کی سیاسی حرکیات سے اپنے پڑھنے والوں کو ایجوکیٹ کرتے ہیں وگرنہ لاہور کے دانشوروں کی بھاری اکثریت کا حال بقول شاعر اس سے زیادہ نہیں کہ ؎ مری داستانِ غم کی کوئی قید و حد نہیں ہے ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک معاف فرمائیے گا، یہ کہنا کہ نسل درنسل منتخب ہونا، اسے عصبیت کہیں یا غلامانہ ذہنیت‘ وسطی پنجاب میں کم ہے درست نہیں ہے۔ ایک تو وسطی پنجاب میں یہی عصبیت کیا کم ہے کہ جنوبی پنجاب‘ مغربی پنجاب اور شمالی پنجاب کو پنجاب صرف اس وقت سمجھا جاتا ہے جب پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنا ہو۔ یعنی جب گائے کو چارہ ڈا...

SPY CHRONICLES کا وہ باب جو حافظ سعید کے بارے میں ہے

جنرل اسد درانی سابق چیف آئی ایس آئی اور اے ایس دُلت سابق سربراہ ’’را‘‘ نے جو مشترکہ کتاب تصنیف کی ہے وہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اس وقت یقینا لاکھوں نہیں تو ہزاروں افراد پاکستان کے اندر اور باہر اسے پڑھ رہے ہوں گے۔  کتاب کا عنوان ہے  SPY Chronicles- Raw-isi-and the Illusions of Peace.  یہ کتاب اس مکالمے پر مشتمل ہے جو 2016ء میں دونوں سابق سربراہوں کے درمیان ہوا۔ معروف صحافی ادیتا سنہا نے ‘ جو دہلی میں رہتے ہیں اس مکالمے میں رہنمائی اور مدد کی۔ یہ مکالمے استانبول بنکاک اور کھٹمنڈو میں ہوئے۔ موضوعات میں کشمیر‘ حافظ سعید‘ کلبھوشن جادیو‘ اسامہ بن لادن وغیرہ شامل ہیں۔  کتاب سات حصوں اور 33ابواب پر مشتمل ہے۔ آخری باب کا عنوان ’’دیوانگی ختم‘‘ ہے! کتاب کا اکیسواں باب حافظ سعید کے متعلق ہے اس کا عنوان’’حافظ سعید اور 26/11‘‘ ہے یہاں اس باب کا انگریزی سے ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اسد درانی۔میں نہیں سمجھتا کہ کارگل اور بمبئی حملے کے درمیان کوئی شے مشترک تھی۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ دونوں واقعات سویلین حکومت کے دوران پیش آئے تب بھی! لوگ مختلف تھے۔ اے ایس دُلت۔ سر...

عزتِ نفس! عزتِ نفس!!

میری لینڈ امریکہ میں چھ ایکڑ زمین،  مختلف کمپنیوں میں شیئرز۔  بھائی کو دو لاکھ ڈالر(دو کروڑ سے زائد) بیرون ملک بھجوائے۔  نیو گارڈن ٹائون میں گھر۔  سرگودھا کے گائوں میں 272کنال زمین۔  کوٹ مومن میں 20کنال زمین۔  دو سو تولے سونا،  ایل ڈی اے میں پلاٹ نمبر 701 ڈی  بینک الفلاح سوسائٹی میں دو پلاٹ۔  حافظ آباد میں ایک سو چودہ کنال زمین  ایمپلائز کواپریٹو ساسائٹی اسلام آباد میں پلاٹ۔  کرباٹھ لاہور میں تین کنال زمین۔  کرباٹھ ہی میں چودہ کنال کا پلاٹ۔  کرباٹھ ہی میں تین کنال 12مرلے کا ایک اور پلاٹ۔  گائوں ٹھیرا میں آٹھ کنال زمین بھائی کے نام منتقل کی۔  موضع ڈوھری میں 21کنال چار مرلے کی زمین۔  دو ٹریکٹر بھی نام پر ہیں۔  اسلام آباد میں ہِل لاک ویو میں فلیٹ نمبر 1004ملکیت میں ہے۔  ایف آئی اے سوسائٹی میں دو پلاٹ ہیں۔  اسلام آباد کی ایک اور سوسائٹی(ایف جی ای سی ایچ ہائوسنگ) میں دو پلاٹ بیگم کے نام پر۔  موضع جلکے میں 17کنال زمین۔  زیڈیم ڈی ویلیپر میں ...

مادھوری گپتا اور بھارت کا گلا سڑا بدبودار نظام

یہ پہلا اور آخری موقع نہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس کو خاک چاٹنا پڑی … اُنی کرشنن انڈین پولیس سروس کا افسر تھا۔ وہ 1962ء  میں  مقابلے کا امتحان پاس کر کے بیوروکریسی کا حصہ بنا۔ اسی کے عشرے میں وہ سری لنکا میں تعینات ہوا۔ بیوی ساتھ نہیں تھی۔ ایک ایئرہوسٹس کے ساتھ ملوث ہو گیا۔ یہ تعلق اس کے لیے ’’شہد کا پھندا‘‘ ثابت ہوگیا۔ شہد کا پھندا یعنی ’’ہنی ٹریپ‘‘ جاسوسی کی دنیا کی مشہور اصطلاح ہے۔ جب راز حاصل کرنے کے لیے کسی کو خوبصورت عورت کے دام میں پھنسا کر بلیک میل کیا جائے تو اسے ’’ہنی ٹریپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکیوں نے انی کرشنن کی اس کمزوری کو معلوم کرلیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ 1985ء میں انی کرشنن ڈیپوٹیشن پر ’’را‘‘ میں تعینات کردیا گیا اور جنوبی بھارت میں را کی سرگرمیوں کا سربراہ مقرر ہوگیا۔ اب امریکیوں نے اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ انی کرشنن کی ایک کمزوری اور بھی تھی۔ اس کی بیٹی کو نشانہ بازی کا شوق تھا۔ چھرے اس زمانے میں بھارت میں عام ملتے نہیں تھے۔ سنگاپور سے منگوانے پڑتے تھے۔ یہ مہنگا شوق تھا۔ امریکی انٹیلی جنس نے اس کمزوری کا بھی فائدہ ...

کُھرچے ہوئے لفظوں کا وارث

یہ ایک اداس کرنے والی صبح تھی۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی مگر یوں لگتا تھا۔ جیسے دل کے اندر دن ڈھل رہا ہو اور سائے لمبے ہو رہے ہوں۔ ایک پارسل موصول ہوا یکدم فضا بدل گئی۔ یہ معین نظامی کی شعری کلیات تھی۔ پا کر‘ دیکھ کر اور ورق گردانی کر کے یوں لگا جیسے  ؎  بہت رونق ہے دل میں‘ بھاگتی پھرتی ہیں یادیں حلب سے قافلہ جیسے روانہ ہو رہا ہے  معین نظامی میرا پسندیدہ نظم گو ہے۔ معین نظامی‘ وحید احمد اور فرح یار۔ یہ جدید نظم کی تکون ہے اور کیا غضب کی تکون ہے! معین نظامی اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کا صدر شعبہ رہا۔ سید علی ہجویریؒ چیئر کا بھی بھی سربراہ رہا۔ ان دنوں  LUMS میں علم و ادب کاشت کر رہا ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’دیوان سعید خان ملتانی‘‘ طبع ہوا تو اس کا انتساب اس نے مجھ بے بضاعت کے نام کیا۔1677ء میں وفات پانے والا سعید خان شاہ جہان اور اورنگزیب کے عہد کا شاعر اور سماجی‘ سیاسی اور ادبی شخصیت تھا۔ اس کی تعمیر کرائی ہوئی مسجد اور اس کا مقبرہ ملتان میں اب بھی اندرون دہلی گیٹ موجود ہیں۔  معین کی نظمیں ایک اور جہان میں لے...

تجھے دروازہ بند ہونے کی خبر ملتی ہے اور مجھے کھُلنے کی ……………………………………………………

وزارت عظمیٰ میاں محمد نواز شریف صاحب کے لیے کیا تھی؟ ایک پکنک!یا تفریحی تعطیل!! آپ کلنٹن یا اوباما کی وہ تصاویر دیکھیے جب وہ صدارتی محل میں داخل ہوئے قابلِ رشک صحت! عرصۂ اقتدار کے بعد کی تصویریں ملاحظہ کیجیے۔ جوانیاں ڈھل گئیں۔ چہروں پر جھریاں پڑ گئیں۔ بال کہیں کھچڑی، کہیں سفید ہو گئے اس لیے کہ حکومت کرنا پھولوں کی سیج پر بیٹھنا نہیں، خاردار جھاڑیوں سے گزرنا ہے۔ صبح سے لے کر آدھی رات تک، ایک اجلاس کی صدارت پھر دوسرے کی، پھر تیسرے کی! پھر غیر ملکی حکمرانوں سے میز پر اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات۔ پھر ایک ایک فائل کو پڑھنا۔ اس پر فیصلہ لکھنا یا اپنے الفاظ میں لکھوانا! الفاظ کسی معاون کے ہوں تو انہیں پڑھ کر منظوری دینا یا ترمیم کرنا! کانگریس کے ایک ایک بل کو بغور پڑھنا! آپ بجا طور پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ تو امریکی صدر ہے۔ اس کا پاکستانی وزیر اعظم سے موازنہ! وہ تو کرۂ ارض کا بادشاہ ہے! چلیے، مان لیتے ہیں! مودی کی مصروفیات دیکھ لیجیے۔ صبح چار بجے اس کا دن شروع ہوتا ہے۔ وہ ایک ایک فائل خود پڑھتا ہے۔ 2014ء میں مودی امریکہ گیا۔ اس کا چار دن کا پروگرام دیکھیے: 26ستمبر...

مہمان کے لیے جان بھی حاضر ہے

مہمان گرامی کے لیے جان بھی حاضر ہے!  جو مقدور میں ہے اس سے زیادہ کروں گا۔  سب سے پہلے تو تمام احباب اور اعزہ و اقربا کو رمضان مبارک کا پیغام بھیجوں گا۔ اس نیک مقصد کے لیے وٹس ایپ‘ ٹوئٹر ‘ فیس بک‘ ایس ایم ایس‘ ای میل‘ تمام ممکنہ ذرائع کا استعمال پورا پورا ہو گا۔ اس کے بعد مہینے بھر کی افطاریوں کے لیے ایک گرینڈ ‘ عالی شان‘ بلند معیار‘ خریداری ہو گی مارکیٹ میں موجود تمام فروٹ کیا تازہ اور کیا خشک ہر قسم کی چاٹ کے اجزا‘ کھجور اور زیتون کی تمام اقسام اچار‘ مربے‘ چٹنیاں(ملکی اور برآمد شدہ) خریدی جائیں گی۔ پورا مہینہ رشتہ داروں‘ دوستوں اور دفتری و کاروباری رفقاء کار کو اپنی اپنی باری پر‘ ہر ایک کی حیثیت کے مطابق افطار ڈنر پر دعوت دی جائے گی۔  ایسا نہیں کہ ان سوشل ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے میں حقوق اللہ سے غافل ہو جائوں گا۔ حاشا کلاّ ! اللہ نہ کرے پورا مہینہ عبادت میں گزارنے کا ارادہ ہے ۔ رات کو باقاعدگی کے ساتھ تراویح میں قیام ہو گا۔ اس کے بعد کچھ نیند۔ پھر تہجد کے لیے اٹھنا ہو گا۔ تہجد اور نماز فجر کے درمیان کا وقت ذکر اور ورد وظیفہ کے لیے نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن...

بدبختی کی آخری حد

برصغیر کی تاریخ میں بڑے بڑے حادثے رونما ہوئے۔ نظام سقہ کا بادشاہ بننا اور محمد شاہ رنگیلے کا تخت نشین ہونا بڑے حادثے تھے۔ مگر دنیا کی عظیم اسلامی مملکت پر ایک ایسے شخص کی حکومت جو نیم تعلیم یافتہ تھا، جس نے کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کسی فائل پر کچھ لکھا۔ جو کسی اجلاس میں کسی سنجیدہ ریاستی یا حکومتی مسئلے پر کچھ سمجھ سکتا تھا نہ بول سکتا تھا۔ اتنا بڑا حادثہ ہے کہ ماضی کا کوئی حادثہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس ملک کے خون سے ایک ایک قطرہ نچوڑ کر یہ شخص بیرون ملک لے گیا۔ اس نے فخر سے کہا کہ میرے بیٹے تو پاکستانی ہی نہیں۔ کیا یہ سب کچھ کم تھا کہ اس نے سلامتی کے حوالے سے ملک کی پیٹھ میں خنجر بھی بھونک دیا؟ مگر اس پر تعجب ہی کیا ہے۔ آثار تو ابتدا ہی سے نظر آ رہے تھے۔ کلبھوشن کے معاملے پر یہ شخص ایک لفظ نہ بولا۔ 25 نومبر 2016ء کو بھارتی وزیراعظم نے بٹھنڈہ میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا افتتاح کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ ہم پاکستان کو پانی نہیں دیں گے۔ پھر جنوری 2017ء میں مودی نے بھارتی پنجاب آ کر اعلان کیا کہ ہم سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) منسوخ کردیں گے (تاکہ...