اشاعتیں

اپریل, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

حلوے کا نوالہ یا کانٹا؟

اب یہ یاد نہیں کہ ٹرین قرطبہ سے چلی تھی اور بارسلونا جارہی تھی یا بارسلونا سے چلی تھی اور رو م جارہی تھی۔ بہرحال جس ڈبے میٰں سفر کررہا تھا اس میں سامنے والی لمبی سی سیٹ پر ایک لڑکی اور تین لڑکے بیٹھے تھے۔ چونکہ رات تھی اس لیے شب بسری کا ماحول تھی۔ لڑکی اور تینوں لڑکے کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم لگ رہے تھے۔ گپ شپ مار رہے تھے۔ دھول دھپا بھی کررہے تھے قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ اور ان میں سے ایک تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گیت کی تان بھی لگا رہا تھا۔ زبان وہ ہسپانوی بول رہے تھے، چھ ماہ اٹلی گزارنے کی وجہ سے میں اطالوی سمجھ لیتا تھا ۔اطالوی اور ہسپانوی زبانیں آپس میں بہنیں ہیں ۔ پرتگالی ان کی تیسری بہن ہے۔ ہمارے ساتھ جو بیوروکریٹ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی ملکوں سے تھے وہ لیکچر سننے کے دوران انگریزی ترجمے سے بے نیاز تھے۔ اطالوی میں سنتے تھے امتحان میں پرچے وہ ہسپانوی میں دیتے تھے۔ اطالوی استاد ان ہسپانوی پرچوں کو براہ راست چیک کرتے تھے۔ جو ہسپانوی ان چار بے فکروں کی میری سمجھ میں آرہی تھی اس سے پتہ چلتا تھاکہ وہ کرسمس کی تعطیلات گزارنے سپین سے فرانس جارہے تھے  لڑکی نے اپنے بیگ سے بڑی سی چا...

تخت خالی نہیں رہا کرتا

یہ 2014 ء کا سال تھا او راپریل کا چودھواں دن، سینیٹ کا اجلاس ہورہا تھا ۔نماز مغرب کے وقفے کے بعد ایم کیو ایم کے طاہر حسین مشہدی نے ایک تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ اس تحریک کا نفس مضمون  یہ تھا کہ وزیراعظم سینیٹ کے اجلاس میں تشریف لایا کریں ۔پاکستانی “جمہوریت” کی بدقسمتی کہ سیاسی جماعتوں کے ارکان “مالک “ کے ذاتی ملازموں کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ذاتی ملازم قرار دینا بھی ملازمت پیشہ لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ وفادار کہنا زیادہ مناسب ہے!اس تحریک کی بھی وفاداروں نے بھرپور مخالفت کی !ایک سینیٹر دور کی کوڑی لایا کہ وزیراعظم مختلف بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں ان کے پاس وقت نہیں ۔تلخی اس قدر بڑھی کہ پیپلز پارٹی ،اے این پی اور مسلم لیگ قاف کے ارکان واک آؤٹ کرگئے انہیں منا کر لایا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے اوپننگ بیٹس مین راجہ ظفر الحق نے ایک اور چال چلی ۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ “تحریک کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے” ( تاکہ بلا وقتی طور پر ٹلے) اپوزیشن ڈٹی رہی۔بالآخر تحریک اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ اس تحریک کی رو سے وزیراعظم سینیٹ کے اجلاس کے دوران ہفتے میں ایک روز لازماً  حاضر...

مائی لارڈ صرف ایک توقیر شاہ ؟

تصویر

سو سال بعد یا صرف چند سال بعد

تصویر

یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی

پہلا منظر: وہ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں ۔ایک  دوسرے کو تھپڑ رسید کرہے ہیں  ۔ایک نے دوسرے کو بالوں سے پکڑ رکھا ہے جس کے بال پکڑے ہوئے ہیں  وہ پکڑنے والے کے سینے پر مکے برسا رہا ہے۔ جس کی چھاتی پر مکے پڑ رہے ہیں  وہ لاتیں  چلا رہا ہے، کچھ کھڑے  تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ کچھ دونوں فریقوں  کے ساتھ مل کر لڑائی کا دائرہ بڑھا رہے ہیں ۔اب تین تین چار چار افراد نہیں بلکہ  پانچ پانچ چھ چھ دست و گریباں  ہیں ۔کچھ سامان پر گر رہے ہیں ۔ سامان دور دور تک بکھرا  پڑا ہے۔ اب لڑنے والوں کی عورتیں  بھی میدا ن میں  آگئی ہیں ، وہ ایک دوسرے کے بال نوچ رہی ہیں  ۔کانوں  میں پڑے بندے اور بالیاں  کھینچ رہی ہیں ۔ ایک جوان عورت نے ایک بوڑھی عورت کو  مکہ ایسا کھینچ  کر مارا ہے کہ بوڑھی عورت دہری ہوگئی ہے۔ چھڑانے والے اور شہ دینے والے الگ الگ پہچانے نہیں جارہے۔ سب ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہیں ۔ پورا ڈیپارچر لاؤنج میدا ن جنگ بنا ہوا ہے۔ اہلکار غائب ہیں  ،کچھ تماشا دیکھ رہے ہیں  اور کچھ بے بس نظر آرہے ہیں ۔ دوسرا منظر:جہاز ...

وہ تقریر جو مجھے سیمینار میں کرنا تھی

بہت محنت  کرکے  میں نے تقریر تیار کی جو سیمینار میں کرنا تھی۔مگر افسوس! میاں نواز شریف صاحب نے اپنے معرکہ آرا ء سیمینار میں مجھے مدعو  ہی نہیں کیا۔ اس عظیم الشان سیمینار کا موضوع “ووٹ کو عزت دو” تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میاں صاحب اس سیمینار میں مجھے ضرور بلائیں گے ۔نہیں بلایا تو قلق ہوا۔ مگر جب سیمینار کی روداد میڈیا میں پڑھی تو افاقہ ہوا اور ڈھارس بندھی! اس لیے کہ ان کے معروف جاں  نثاروں جناب دانیال عزیز، جناب زاہد حامد ،جناب امیر مقام اور محترمہ ماروی میمن کو بھی سیمینار میں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔میاں  نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ بھی اعلان کردیا کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ میاں صاحب نے جمہوریت کی اصل روح کو دریافت کرتے ہوئے پارٹی بدلنے والوں کو ٹکٹ نہ دینے کا اعلان کیا ۔اس کا واضح مطلب ہے کہ جو صاحبان پارٹی بدل کر ان کے ساتھ آ شامل ہوئے ،میاں صاحب نے ان کی اصلیت کو بلآخر پہچان لیا ہے۔ پارٹی بدلنے والوں میں تازہ ترین نام جناب مشاہد حسین سید کا ہے۔ قوم میاں صاحب کے اس عزم کی بھرپور ت...

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں سعدی

میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کے درمیان قائم مقدس اتحاد کے بارے میں پہلی  بار پارٹی کے اندر سے تحفظات کا اظہار ہوا ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ “میں شاید اس مسلم لیگ کے ساتھ نہ چل سکوں جو مسلم لیگ محمود اچکزئی گروپ ہے۔کہاں اچکزئی نظریہ کہاں  مسلم لیگ کا نظریہ 'کہاں ان کی سوچ کہاں ہماری سوچ، اگر مسلم لیگ کو اچکزئی کے افکار اور سوچ کے ساتھ مدغم کیا جائے گا تو مجھے شدید تحفظات ہیں “۔ یہاں دو سوالیہ نشان ہیں ۔ پہلا یہ کہ کیا یہ آواز واقعی مسلم لیگ نون کے اندرسے اٹھی ہے؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان پارٹی کے باہر نہیں تو اس وقت اندر بھی نہیں ،کیا ا س نعرہ پر ‘جو انہوں نے لگایا ہے ‘اقبال کے اس شعر کا اطلاق ہوتا ہے؟ ز برون در گز شتم ز درون خانہ گفتم سخنی نگفتہ را چہ قلندرانہ گفتم کہ میں باہر کے دروازے سے گزرتا ہوں اور گھر کے  اندر سے بات کہہ دی ہے ۔ناگفتہ بات کو قلندرانہ انداز میں واشگاف کردیا ہے۔ دوسرا سوالیہ نشان یہ ہے کہ جب 2 دسمبر 2017 کو میاں نواز شریف نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ “ محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہ...

الگ صوبہ صرف جنوبی پنجاب ہی کا کیوں

گاؤں چھوٹا تھا۔ ذات کے وہ ترکھان تھے،کئی نسلوں سے کچے مکانوں میں بیٹھے لوگوں کا کام کررہے تھے۔کبھی معاوضہ سال میں دوبار ہاڑی ساونی کی شکل میں ملتا تھا۔اب کچھ نقد بھی  ملنے لگا تھا۔ حیثیت وہی تھی کہ ترکھان تھے۔کمی کہلاتے تھے ۔پہلے مکان بھی زمیندار کے دیے ہوئے تھے ‘پھر ان لوگوں نے آہستہ آہستہ جوں توں کرکے اپنی زمینیں خریدیں اورچار چار پانچ پانچ مرلے کے ملکیتی گھر بنا لیے۔ انہی کی ایک لڑکی تھی جو سکول میں داخل ہوئی۔ ماں باپ نے ہمت کی ۔پڑھاتے رہے۔ دسویں جماعت پاس کی۔ پھر گھر بیٹھ گئی۔ پڑھنے کا ،آگے بڑھنے کا شوق تھا۔ پرائیویٹ ایف اے کا داخلہ بھیج دیا ۔پاس ہوگئی ،پھر بی اےکرلیا۔ پھر ایم اے کرلیا ۔ اب وہ چاہتی ہے کہ کوئی نوکری مل جائے۔ کہیں استانی لگ جائے ‘کسی دفتر میں کلرک ہوجائے ،شادی ہوگئی۔ میاں  بھی ایک دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ اس نے بھی کوشش کی مگر کہیں کام نہ بنا۔ انہی دنوں میں گاؤں گیا۔ لڑکی کے سسر نے بتایا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور نے آسامیاں مشتہر کی ہیں ۔کیا کیا جائے؟ کہا اشتہار کے مطابق درخواست دےدو۔ یاد آیا کہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ،پنجاب پبلک سروس کمیشن...

جب چینی صدر کا فون بار بار آرہا تھا

چوہدری شجاعت حسین کی کتاب”سچ تو یہ ہے “ میں کچھ واقعات دلچسپ ہیں اور  سبق آموز بھی۔ میاں نواز شریف نے کس بنیاد پر محمد رفیق تارڑ صاحب کو ملک کی صدارت کے لیے چنا ،سب کو معلوم ہے۔یہی وہ بنیاد تھی جس پر صدر ایوب خان نے ایک گمنام وکیل عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر تعینات کیا۔ سابق صدر محمد رفیق تارڑ نے صدارت کے لیے چنے جانے کا قصہ چوہدری شجاعت حسین کو “پُر جوش انداز” میں بتایا۔ چوہدری صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں (یہاں پنجابی سے اردو میں ترجمہ کرکے لکھا جارہا ہے) “شجاعت !میں اپنی پنشن لینے نیشنل بینک لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں مجھے اچانک ایک ٹیلی فون آیا۔ میں نے فون اٹھایا تو فون کرنے والے نے بتایا کہ تارڑ صاحب !میں نواز شریف بول رہا ہوں ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو ملک کا صدر بنادیا جائے، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس فون کا کیا مطلب ہے کیا یہ فون نواز شریف ہی کا ہے ۔یا کسی نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے ؟ میں نے فون کرنے والے کو کہا کہ میں آپ کو گھر جاکر فون کرتا ہوں ۔ گھر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ میں   کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اس بات کی تصدیق  کرنے کے لیے میں...