اشاعتیں

فروری, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

چار اشارے ۔بوجھو تو جانیں

میں سمجھا یہ بھی ایک ایسی ہی صبح ہوگی جو اکثر میرے نصیب میں ہوتی ہے۔مرجھائی ہوئی!گھٹی گھٹی! تھکی تھکی۔روح تازگی کو ترستی ہے۔ دل بجھا ہوا۔ ہر خبر یاس کا نیا دروازہ کھولتی ہوئی۔ کاغذ کا اخبار تو شدید مایوسی میں پھینکا بھی جاسکتا تھا۔ انٹر نیٹ کو کیسے پھینکیں ۔ اندازہ لگائیے!کیا ہورہا ہے اس دیارِ پاک میں !ایک ادارہ رہ گیا تھا ‘سول سروس کا! اسے بھی خود غرض حکمرانوں نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پنجاب کی سول سروس تین حصوں میں منقسم ہوکر رہ گئی ہے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس کے کچھ درجن ارکان جو شاہی خاندان کے درباری تھے ۔افسر کے بجائے نوکر بن گئے۔ اکثریت تاہم احد چیمہ کو ہیرو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ صوبائی سول سروس کے ارکان ان درباری نوکروں کی چیرہ دستیوں سے پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے۔ وہ بھی کورنش بجا لا نے والوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔ مایوسی کی وجہ سے صرف سول سروس کے ادارے کی تباہی نہیں ‘ اور وجوہ بھی ہیں !شریف برادران کو رضا ربانی کی شکل میں ایک حمایتی مل گیا ہے۔ فرماتے ہیں احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ سول بیوروکریسی ‘ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہیے۔اور یہ کہ نیب کی از سرِ نو تشک...

گنتی میں بے شمار تھے کم کردیے گئے

 فرض کیجیے   احد چیمہ بے قصور ہیں ۔  جو کچھ کہا جارہا ہے ۔سازش ہے۔پھر بھی لاہور افسر شاہی کا ردِ عمل ‘بیوروکریسی کے مقام اور مرتبے سے مناسبت نہیں رکھتا۔ سول سروس کی ایک روایت ہے۔اعلی سرکاری ملازمتوں کا ایک امیج ہے۔ پنجاب بیوروکریسی جو طرزِ عمل دکھا  رہی ہے اس سے احد  چیمہ کا کیس مضبوط نہیں ‘کمزور ہورہا ہے۔ یہ جو نیب کو کہا جارہا ہے کہ “اداروں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں “ تو اس سے خوف اور شدید احساسِ کمتری کی بُو آرہی ہے۔آپ کون ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں ؟آپ جہاں سے بھی آرہے ہیں ، قانون سے بالا تر تو نہیں ! افسر شاہی کے چند ارکان جس ردِ عمل کا اظہار کررہے ہیں ‘اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بیوروکریسی دو  گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ صوبائی سروس کے ارکان کو “برہمن “ گروپ نے ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکرٹری جنرل نوید شہزاد نے نشاندہی کی ہے کہ احدچیمہ صاحب نے ان کی سروس سے تعلق رکھنے والے 73 افسروں کو گرفتار کرایا۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ اب اپنی گرفتاری پر وہ صوبائی س...

“لاہور نوکر شاہی “کے نام کھلا خط

“لاہور نوکر شاہی “سے مراد سول سروس کے ایک خاص گروپ کے وہ چند افراد ہیں جنہوں نے اپنا مستقبل ریاست کے بجائے ایک خاندان سے وابستہ کررکھا ہے۔ لاٹ صاحب! تمہارے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ تم تاخیر سے پیدا ہوئے ۔تمہیں خلجیوں  ،لودھیوں ، تغلقوں یا مغلوں کے زمانے میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ تم درباری ہو مگر افسوس !صد افسوس! تم باضابطہ درباروں کے زمانے کو مِس کر بیٹھے ہو! تم ہمایوں کے زمانے میں ہوتے تو دن کو اس کے درمیان میں دست بستہ کھڑے رہتے ‘ سر شام اس کے جوتے صاف کرتے۔ پھر اس کے گھوڑے کو نہلاتے ۔مگر رات کے اندھیرے میں تم   شیر شاہ سوری کے سیکرٹری سے درخواست کرتے کہ   شیر شاہ سوری سے  دس منٹ کی ملاقات کرادے۔ شیر شاہ سوری تخت نشیں ہوتا توتم اس کے دربار میں بھی دست بستہ کھڑے ،ملتے !پھر تم اکبر کے دربار میں شیر شاہ سوری کے خلاف کتاب لکھنے کی پیشکش کرتے اور اس کام کے لیے کمپنی بناتے! اور کمپنی  کا حساب کتاب کبھی نہ ہونے دیتے  تم انگریزوں کے زمانے میں پیدا ہوئے ہوتے تو تمہارے ساتھ انگریز  باس وہی سلوک کرتے جو جان نکلسن نے مہتاب سنگھ ک...

محض کوتاہ نظر ی ہے؟یا تہہ میں کچھ اور ہے؟؟

کاٹھ کی ہنڈیا چولہے پر کتنی بار چڑھ سکتی ہے؟ آمریت زدہ پنجاب حکومت  کاٹھ کی ہنڈیا ہے ۔اس کا انجام قریب ہے! رسی بہت دراز ہوچکی !اب یہ رسی کھینچی  جارہی ہے۔ اس رسی کےساتھ بندھے ہوئے طاقتور افراد، احد چیمہ اور فوا د حسن فواد جیسے طاقت ور افراد، رسی کے ساتھ کھنچے چلے آرہے ہیں !قامتیں دُہری ہورہی ہیں ! بدن کا سارا لہو کھنچ کر چہروں پر آرہا ہے۔ یہ ازل سے ہوتا آرہا ہے۔اقتدار کا عروج انسان کو اندھا کردیتا ہے اور بہرا کردیتا ہے اور گونگا کردیتا ہے۔ اس کا ذہن شل ہوجاتا ہے ،وہ کچھ سننے،سمجھنے اور دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ اقتدار کے  سنگھاسن پر بیٹھا ہوا شخص بظاہر طاقت ور ہوتا ہے مگر وہ ایک فالج زدہ اپاہج کی طرح ہوتا ہے۔اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اندھے اقتدار کی سلائی اس کی آنکھوں میں بھر جاتی ہے ۔ پھر اسے اس کے حواری لیے لیے پھرتے ہیں ، ان حواریوں کے  اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔ اقتدار کا پگھلا ہوا تانبا اس کے کانوں میں پڑتا ہے۔ پھر اس کی سماعت مختل ہوجاتی ہے۔ پھر وہ وہی کچھ سنتا ہے جو مفادات سنوانا چاہتے ہیں ۔ اللہ اللہ کیا غرور تھا ،سب سے ...

کوئی اور ہے

یہ ایک قصبہ تھا ۔چھوٹا نہ بڑا ۔بس اتنا کہ کوئی واقعہ رونما ہوتو گھر گھر بات فوراً پہنچ جاتی ۔یہاں ایک صاحب کالج میں لیکچرر تھے ۔شام کو کچھ گھروں میں جاکر ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے۔ایک ڈھلتی شام کو یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی کہ جس لڑکی کو پروفیسر صاحب ٹیوشن پڑھاتے تھے ،اس کےساتھ کورٹ جاکر انہوں نے شادی کرلی۔ اس کے بعد پروفیسر صاحب اور ان کی نئی اور پرانی بیوی کے کیا معاملے ہوئے ،اس سے غرض نہیں ۔بتانے والی بات یہ ہے کہ قصبے کے لوگوں نےاس واقعہ کے بعد کسی ٹیوٹر کو  ’ایک طویل عرصہ تک ‘کسی گھر میں داخل ہو کر “پڑھانے “کا موقع نہیں دیا اس سوفیصد سچے واقعہ کے بیان سے حاشاوکلا ہم کسی اور طرف اشارہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم یہ سبق بھی نہیں پڑھا رہے کہ کو ئی  روحانیت کی تلاش میں کسی گھر کے اندر جائے تو واپسی پر صاحبہ ء روحانیت کو ساتھ لیتا آئے۔ بہت سے امور ایسے ہیں جو شریعت کی رو سے ناجائز نہیں ،تاہم معاشرے کے رویے کو بھی خاطر میں لانا ضروری ہے۔ طلاق کی مثال لیجئے۔جائز ہے،مرد کا حق بھی ہے اور عورت کا بھی ہے۔ مگر معاشرتی پہلو سے اس کے اثرات نظر انداز کرنے والا احمق نہیں  تو غیر عقلمند ...

شہزادی بالائی منزل پر جاگزیں ہے

نہیں! حضرت گرامی جناب ہارون الرشید نہیں ۔یہ تین چار منٹ کی سیڑھیا ں چڑھنے اترنے کا مسئلہ نہیں ۔لائبریری گھر میں جب بھی بالائی منزل پر ہوگی ،دسترس سے دور ہی رہے گی۔ لائبریری کا مزہ اسی میں ہے اور اس سے استفادہ تبھی ممکن ہے جب یہ خواب گاہ کے ساتھ ہو ،کچن کے ساتھ ہو، نشست گاہ کے ساتھ ہو اور اس فلور پر واقع ہوجہاں دن اور رات کا اکثر حصہ گزرتا ہے۔ہم لوگ بھی کیا ظلم کرتے ہیں ،رسوئی ،مہمان خانہ،یہاں تک کہ لانڈری بھی سامنے ہو۔ رہی لائبریری تو لائبریری کا کیا ہے ،اوپر کی منزل پر لے جائیے۔ جناب ہارون الرشید نے اپنا رونا رودیا۔ یہاں اپنے زخم زار سامنے آگئے۔ آرزوؤں کو پانی دے کر ،تمناؤں کی گوڈی کرکے ،گھربنایا تھا، پس منظر خالص دیہی تھا اس لیے لازم تھا کہ بڑا ہو۔ جتنا بڑا استطاعت اجازت دیتی تھی۔ خالص دیہی پس منظر رکھنے والا تین معاملوں میں بے بس ہوتا ہے۔چائے میں پاؤڈر والا دودھ نہیں پی  سکتا۔بازار کے آٹے کی روٹی نہیں کھا سکتا۔ اس کے نزدیک یہ روٹی نہیں ،ربڑ ہے۔چھوٹے گھر میں نہیں رہ سکتا ۔اپارٹمنٹ تو اس کے لیے سانس گھٹنے کا سامان ہے۔ جیتی جاگتی موت۔ ڈیڑھ کنال پر جاپانی اسلوب کا باغ بنا۔ ا...

خدا نہ کرےبلند پہاڑوں میں رسول حمزہ توف مر جائے

رسول حمزہ توف ریا ست دا غستان کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوا۔2003ء میں ما سکو میں وفا ت پانے والےحمزہ توف نے سوویت یو نین کا پورا زمانہ دیکھا اور پھر سوویتیو نین کا اختتام  اور انہدام بھی ۔ اس کی معر کہ آرا کتاب’’ میراداغگستان ‘’دنیا کے کلا سیکی  ادب میں شمار ہو تی ہے۔بنیادی  طور پر وہ شاعر تھا۔اگر وہ اور کچھ بھی نہ لکھتا  تو اس کی ایک نظم ہی اسےشا عری اور محبت کی دنیا میں زندہ رکھنے کے لیے کا فی تھی۔ اگرایک ہزارمردتمہاری محبت میں مبتلا ہوں تو یقیناً رسول حمزہ توف ان میں سے ایک ہو گا اگرایک سو مرد تمہاری محبت میں مبتلا ہوں تورسول حمزہ توف ان میں،ظاہر ہے ،ضرور شامل ہوگا ! اگر دس مردتمہاری محبت میں مبتلا ہوں تو پھر بھی رسول حمزہ توف ان میں سے ایک ہو گا اور اگر صرف ایک مردتمہاری محبت میں مبتلا ہو تو پھر بھی رسول حمزہ توف کےعلاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ اور اگر تم تنہا ہو - اکیلی ہو اورکوئی بھی تمہاری محبت میں مبتلا نہیں تو یقین کر لینا کہ کہیں  بلند پہاڑوں میں رسول حمزہ توف مر گیا  ہے!   یہ نظم ایک خبر پڑھ کر یاد آئی۔خب...

خلل آنکھ کے اندر ہے

میں فقیر! میں فقیر ابنِ فقیر! میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر! مجھ سے ان لوگوں کی کیا دشمنی ؟ اہل عدل کا میں نے کیا بگاڑا ہے؟ اہل مذہب کیوں میری خوشی کے در پے ہیں ؟ پیمرا کے ساتھ میری جان نہ پہچان ،لین نہ دین ،واسطہ نہ غرض! کہاں میں جھونپڑی کے باہر فرش خاک پر آلتی پالتی مارے ،دھوپ میں بیٹھا ہوا  درویش ،کہاں  ہاتھی گھوڑے پرسواری کرنے  والا پیمرا! مگر پیمرا نے میرا نام لکھا،پھر میرے نام کے گرد سرخ روشنائی سے دائرہ لگا دیا، جیسا خروشچیف نے نقشے پر پشاور کے گرد لگایا تھا۔ آج اگر میرا یوم پیدائش پوری دنیا منا رہی ہے تو اس میں حسد سے جل مرنے کا تو کوئی سبب نہیں بنتا ، خدا کے بندو! عدل کے رکھوالو!دین کے متوالو!میڈیا کے تھرمو سٹیٹ کو کنٹرول کرنے والو!یہ تو سوچو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ کیا میں نے قدرت کو درخواست دی تھی کہ مجھے چودہ فروری کے دن پیدا کیا جائے ؟کیا اس میں میری پلاننگ ،کسی منصوبہ بندی کو دوش دیا جاسکتا ہے؟ میرے جدِ امجد مرحوم مغفور نے جب اپنی خاندانی ڈائری میں یہ نوٹ لکھا تھا ۔ “ تاریخ پیدائش عزیزم محمد اظہار الحق خلف الرشید حاجی محمد ظہو...

منہ اور کھر کی بیماری

آپ کا کیا خیال ہے پاکستانی پنجاب کا سب سے زیادہ بد قسمت ،سب سے زیادہ بد نصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے؟ آپ کے ذہن میں سب سے پہلے جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی پٹی کا نام آئے گا ۔ مگر آپ کا جواب درست نہیں ! سرائیکی پٹی کے سیاست دان تو وزیر اعظم رہے،صوبے کی گورنری ان کے پاس رہی ،وزیر اعلی رہے مصطفی کھر سے لے کر صادق قریشی تک ،یوسف رضا گیلانی سے لے کر کئی مخدوموں تک ۔سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ سرائیکی پٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جنوبی پنجاب اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ رؤف کلاسرہ جیسی طاقت ور آواز اس کے لیے اٹھتی رہتی ہے ۔رؤف کلاسرہ صحافیوں کے اس روباہ صفت طبقے سے نہیں جو فروختنی  ہیں  اور اپنے  ماتھے پر پرائس ٹیگ چسپاں کر کے اقتدار کی دہلیز پر حاضر ہوتے ہیں ۔چونکہ وہ بے غرض ہے اس لیے اس کی آواز بلند ہے اور سنی جاتی ہے ۔مگر شکوہ اس سے یہ ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے علاوہ ،ادھر ادھر کہیں نہیں دیکھتا ۔پنجاب کے پسے ہوئے وہ حصے بھی، جو جنوبی پنجاب میں نہیں ،رؤف کلاسرہ کی آواز کے محتاج ہیں۔ تو پھر آپ کا کیا خیال ہے ،پنجاب کا سب سےزیادہ بد قسمت ،سب سے زیادہ بدنصیب اور ...

زندگی کی سب سے بڑی غلطی

زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ ان پر بھروسہ کرلیا ، دیکھنے میں یہ صاحب مناسب لگ رہے تھے ،پابند صوم صلٰوۃ ،علم کا دعویٰ تھا ،تقویٰ کا بھی اور سب سے بڑھ کر یہ یقین دہانی کہ وہ میری رہنمائی فرمائیں گے اور ان کا اصرار کہ وہ رہنمائی کرنے کے اہل ہیں ۔ میں نے سب کچھ ان پر چھوڑ دیا ۔،انہوں نے کہا دین کا تقاضا ہے کہ شمال کی طرف چلو ،میں نے بیگ اٹھایا اور شمال کی طرف چل پڑا، چلتا رہا’ چلتا رہا ۔ منزل نہ آئی، انہوں نے کہا ‘نہیں شمال کو چھوڑو ‘مشرق کی طرف چلو۔ میں نے مشرق کی طرف چلنا شروع کردیا ۔پھر انہوں نے کہا تیز چلو۔ میں نے رفتار بڑھا دی !پھر فرمایا آہستہ چلو ۔میں سبک خرام ہوگیا ۔ کہا یہ لباس نہیں ‘وہ لباس پہنو’ میں نے ان پر بھروسہ کرتے ہوئے جو لباس پہنا ہوا تھا، اتار پھینکا۔ ان کی تجویزکردہ پوشاک زیب تن کرلی ۔ایک عرصہ بعد کہنے لگے ‘وہ پہلے والا بھی پہن سکتے ہو! میری سپردگی ‘میری فرماں برداری ‘اور میرا ان پر مکمل انحصار ۔یہ سب ان کے فخرو اطمینان کا باعث بن گیا۔ وہ اپنے آپ کو حاکم اور مجھے محکوم سمجھنے لگے۔ ،میں ان کی نظر میں موم کی ناک سے زیادہ کچھ نہ تھا۔اب وہ میری زندگی کے ہر پ...