اشاعتیں

جنوری, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

طوطے کا وطن اور بندروں کا دادا

باغوں اور باغیچوں کے اس شہر میں بحرالکاہل کی طرف خنک ہوا کے جھونکے چلے آئے جارہے ہیں ۔ درجہ حرارت جوکل اس وقت تیس سے اوپر تھا ‘اٹھارہ ہوچلا ہے۔۔سفر کی شام ہے۔ساعتیں بوجھل ہو رہی ہیں ۔شاید ہوا میں پانی کے قطرے ہیں جو وہ سمندر سے اٹھا لائی ہے۔ ایسے میں پروفیسر معظم طاہر منہاس یاد آرہے ہیں ۔ پروفیسر معظم طاہر منہاس ان چند انگلیوں پر گنی جا نے والی شخصیتوں میں سے ہیں جن سے کالم نگار اپنی زندگی میں انسپائر ہوا ہے۔جن کے ہر جملے سے کچھ سیکھا ہے۔ ہر نشست سے ثروت مند ہوکر اٹھے ہیں ۔ ایزرا پاؤنڈ سے لے کر ٹی ایس ایلیٹ تک سب کو پڑھ ڈالا تھا اور اپنی طرف سے خود ہی اپنی دستار بندی کر ڈالی تھی۔۔پھرزندگی کے ایک موڑ پر پروفیسر صاحب ملے ۔انہوں نے شکسپیئر سے لے کر ایلیٹ تک سب کے نئے معانی بتائے نئی پرتیں دکھائیں ۔ اسلام آباد کلب کی لمحہ لمحہ شام میں ‘جب سائے باہر لمبے ہورہے تھے ‘انہوں نے بتایا I have measured out my life with coffee spoons تو تب معلوم ہواایلیٹ اصل میں کیا کہنا چاہتا تھا۔! پروفیسر معظم منہاس نے بیس سال مڈل ایسٹ میں  انگریزی ادب پڑھایا۔ایک گرم صبح ان پر یہ حقیقت...

تارکین وطن کھائی کے کنارے پر

تارکین وطن ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہیں ۔ایک طرف  پہاڑ کی سر بفلک چوٹی ہے ۔دوسری طرف کھائی ہے۔مہیب گہری کھائی۔ واپس آئیں تو عزت نفس  سلامت ہے نہ مال اور جان کی سلامتی ۔پورا ملک ڈاکوؤ ں کے لیے خوانِ یغما ہے۔ چوریاں ، ڈاکے ،بھتے ،کاروں کی چوری روزمرہ کا معمول ہے۔ دارالحکومت سے ایک اطلاع کے مطابق تین گاڑیاں ہر روز چوری ہوتی ہیں ۔سینکڑوں کے حساب سے الگ الگ ڈاکے ڈالنے والے گروہ ہیں ۔پکڑنے والے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ بچے گھر سے باہر  نکلیں تو کوئی گارنٹی نہیں کہ سلامت واپس آجائیں ۔ امن و امان،جو کسی بھی حکومت کسی بھی حکمران کے لیے اولیں ترجیح ہونی  چاہیے ،ترجیحات کی فہرست ہی سے غائب ہے ۔لاہور کی امیر ترین آبادی چوروں کے نرغے میں ہے ۔کراچی کا حال بدترہے ۔حکمرانوں کے آگے پیچھے سینکڑوں حاجب،نقیب اور پہریدار ہیں ۔عام آدمی کس حال میں ہے،انہیں  پرواہ ہے نہ اندازہ۔ امن و امان واحد شعبہ نہیں جو تارکین وطن کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تاجر اور دکاندار گاہکوں کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں کرتے ہیں ،اس کا ترقی یافتہ ملکوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی حال پو...

مسکراہٹوں اور آنسوؤں کو بھی تولا جائے گا

جنرل کمال اکبر صاحب تشریف لائے،ضروری بات جو کرنا تھی کی  ،پھر کہنے لگے”بیٹھوں گا نہیں “ایک مہم درپیش ہے”۔ جنرل صاحب تھری سٹار جرنیل ہیں ۔مسلح افواج کے “سرجن جنرل”رہے۔مگر مزاج میں خالص درویش!ان کی ساری زندگی کا ماحصل دو لفظوں میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا۔”دوسروں کی خدمت”۔ ایک مکمل بے لوث اور بے غرض انسان .جسے ہر  وقت دوسروں کی فکر رہتی ہے۔ان پر ایک طویل مضمون لکھا جاسکتا ہے مگر پھر کبھی -اس وقت ایک اور معاملہ زیرِ بحث ہے۔پوچھا جنرل صاحب !کیا مہم درپیش ہے؟کہنے لگے یہ ایک خط فلاں سرکاری محکمے نے  غلطی سے میرے گھرکے ایڈریس پر بھیج دیا ہے۔ یہ انٹر ویولٰیٹرہے،اس بات کا امکان موجود ہے کہ امیدوار انٹرویو میں کامیاب ہوجائے۔ دوسری صورت میں اگریہ کال لیٹر نہ ملا تو اس کا بہت نقصان ہوگا۔ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے مشورہ دیا کہ ڈرائیور کو خط دیجئے ،وہ جاکر امیدوار کے گھر دے آئے۔اس پر انہوں نے بتایا کہ لفافے کے اوپر تو امیدوار کے بجائے ان کا (یعنی جنرل صاحب)کا ایڈریس ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ اندر،کال لیٹر پر،جو ایڈریس ہے ،وہ نامکمل ہے۔ہاؤس نمبر ہے مگر محلہ نہی...

ڈرامہ

آفریں ہے قصور کے لوگوں پر جنہو ں نے خادم اعلی کی پولیس کے مہیب،مکروہ دیوتا کے چرنوں میں شہریوں کی قربانی دی۔جو سڑکوں پر آئے،جنہوں نے احتجاج کیا ،اتنا احتجاج کہ پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔سوشل میڈیا آندھی کی طرح اٹھا اور اس نے پوری دنیا کے اوپر مظلوم زینب کا دریدہ ڈوپٹہ پھیلا دیا۔یہاں تک کہ وہ بے حس حکمران بھی ایکشن لینے مجبور ہوگیا جسے کسی کی جان کی پرواہ تھی نہ عزت کی۔جس نے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے رسوائے زمانہ پورنوگرافی کے سکینڈل میں ملوث مجرموں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا اور جو کم و بیش ایک درجن بچیوں کے قتل پر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔اسی حکمران کو پہلے صرف عمران خان ڈرامہ کہتا تھا،اب آزاد میڈیا نے بھی یہی کہنا شروع کردیا ہے۔ایک معروف صحافی نے 15 جنوری کو ایک ٹیلی ویژن چینل پر جو کچھ کہا ،اسے یوٹیوب پر لاکھوں افراد سن چکے ہیں اور سن رہے ہیں ۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ معروف صحافی کیا کہتے ہیں ۔آپ بھی سنیے۔ “ان کا اپنا ایک سٹائل ہے۔میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو پانچ سات آدمیوں کو پہلے سے کھڑا کردیتے ہیں کہ یہ سوال کرو،یہ  سوال کرو،کوئی کام کا س...

تارکین وطن شیر کی سواری کر رہے ہیں

اردو کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔لاس اینجلز ہو یا ناروے ‘جاپان ہو یا بارسلونا’ اردو بولنے والے سمجھنے والے لکھنے والے ہر جگہ موجود ہیں ۔ اردو کی بستیاں کرہ ارض کے ہر گوشے میں پائی جاتی ہیں  ۔ سڈنی بھی انہی گوشوں میں سے ایک ہے۔ جب بھی سڈنی جانا ہوتا ہے۔ ایک تازگی کا ایک نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا ایک ایک گروہ اس سخت مشینی اور خود کار زندگی کے جکڑ دینے والے بندھنوں سے اپنے آپ کو چھڑا کر ‘اردو کے لیے جو بن پڑتا ہے کرتا ہے اور مسلسل کررہا ہے ،شاعر ارشد سعید ان میں نمایاں ہے۔ غزلیں کہتا ہے۔نظمیں لکھتا ہے۔ تقریبات منعقد کرتا ہے۔ گھر اس کا بیک وقت گھر اور مہمان خانہ بھی۔ اب دوسرا شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے۔ ڈاکٹر کوثر جمال نے پی ایچ ڈی تو چینی زبان میں کی۔ پھر ترجمے اور ترجمانی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے مگر اردو کی خدمت پر وہ بھی کمر بستہ ہیں ۔افسانے اور مضامین لکھتی ہیں ۔تقریر خوب کرتی ہیں  اور تقاریب کے اہتمام و انصرام میں پیش پیش رہتی ہیں ۔سعید خان اور نوشی گیلانی کی جوڑی سڈنی کی اس دنیا میں جو اردو کی دنیا ہے ‘ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ...

وہم کی چار ٹانگیں اور ایک دم

میں آپ کو بیو قوف سمجھتا ہوں ۔ نہ صرف بیوقوف بلکہ گاؤدی! میرے دائیں ہاتھ میں گلاس ہے۔گلاس میں پانی ہے،میں پانی پیتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں گلاس ہے نہ پانی! میں نے سویٹر پہنی ہوئی ہے۔سویٹر کےاوپر کوٹ ہے۔سر پر گرم چترالی ٹوپی ہے۔رضائی بھی اوڑھی ہوئی ہے۔ کمرے میں ہیٹر بھی جل رہا ہے تاہم آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ گرمی کا موسم عروج پر ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎سنا ہے کہ میرٹھ میں الو کے پٹھے رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں تو میں رگِ گل سے بلبل کے بال و پر باندھ رہا ہوں ۔میں شبنم کا پانی اکٹھا کرکے مٹکا بھررہا ہوں ۔آپ کے مسلسل بہتے آنسوؤں کو جمع کرکے ڈیم بنا رہا ہوں ۔پرسوں میں نے تین سالہ پوتی کے لیے پانچ سو میں کار خریدی ہے۔آج میں اس کار میں آپ کو بٹھا کر لاہور سے کراچی لیے جارہا ہوں ۔میں مشرق کی طرف جارہا ہوں اور آپ کو تسلی دے رہا ہوں کہ ہم کعبہ کی طرف سفر کررہے ہیں ۔میں ہنزہ میں راکا پوشی چوٹی کے دامن میں کھڑا ہوں اور آپ کو بحرالکاہل دکھا رہا ہوں ۔میں ویٹی کن کا رُخ کیے ہوئے ہوں ۔تاکہ اسلامی فقہ اور تفسیر کے علوم پوپ سے حاصل کروں !اسرائیل جا رہ...

پارسائی کے پیکر

بے لوث،بے غرض،نیکوکاروں کا یہ گروہ ملک ملک پھرا،دیس دیس گھوما،ہر براعظم کی خاک چھانی،تمام بڑے بڑے ملکوں میں گیا مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔ پھر ایک دن تھک ہار کر اس گروہ کے ارکان بیٹھ گئے۔مایوس،نامراد۔ان کے سربراہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ تم اس زمانے میں جس بلند سطح کے اولیا کو ڈھونڈ رہے ہو ان کا ملنا نا ممکنات میں سے ہے۔ تم کہتے ہو ہمیں ایسے پارسا لوگ دیکھنے کی حسرت ہے جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔جو جھوٹ نہ بولتے ہوں،چوری نہ کرتے ہوں،جو فرش خاک پر سوتے ہوں جو دنیا اور دنیا کے مال و اسباب کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے ہوں ایسے لوگ اس زمانے میں نہیں مل سکتے۔تم ان کی تلاش میں اپنی زندگی کے دن گنوا رہے ہو۔ مگر مستقل مزاج درویشوں کا یہ گروہ اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ درویشوں کے اس گروہ کو پوری امید تھی کہ دنیا میں قرون ِ اولیٰ کے نیکوکاروں جیسے لوگ اب بھی موجود ہیں ورنہ دنیا ختم ہوچکی ہوتی ان کا اس بات پر پختہ ایمان تھا کہ جب تک دنیا میں ایک بھی پارسا موجود ہے۔دنیا کا سلسلہ چلتا رہے گا۔انہوں نے تلاش جاری رکھی۔انہوں نے کینیڈا اور سائبیریا کے برف زار چھانے۔برازیل   اور ...

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

میلبورن کے ایک پر رونق بازار برگنڈی سٹریٹ کی ایک دکان سے جنوبی ایشیا کا سودا سلف مل جاتا ہے۔یوں تو آسٹریلیا کے تمام بڑے شہروں میں پاکستانی،بھارتی اور بنگالی بساطی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں مگر کوشش سب خریداروں کی یہی ہوتی ہے کہ گھر کے نزدیک کوئی دکان مل جائے یا دور بھی ہو تو ایسی کہ ہر شے وہاں میسر ہو۔ برگنڈی سٹریٹ کی دکان سے محفوظ شدہ بھنڈی بیسن اور اسی قبیل کی اشیا لے کر کاؤنٹر پر قیمت دے رہا تھا کہ اچانک نظر ساتھ رکھے لڈوؤں پر پڑی جن پر جلی حروف میں لکھا تھا "بوندی لڈو"ایک غیر مرئی طاقت یا شاید شوق نے میرے ہاتھوں کو ان لڈوؤں کی طرف بڑھایا اور ڈبہ اپنے سودے میں شامل کرلیا۔ کچھ عرصہ تک بوندی عام ملتی تھی۔بوندی والے لڈو بھی۔پھر دونوں غائب ہوتے گئے اور اب شاید ہی کہیں نظر آتے ہوں۔ موتی چور اور بیسن کے لڈو عام ہیں۔ پیڑے بھی لڈو کی شکل کے ہیں۔ بدایوں کے پیڑے مشہور تھے۔ مردان میں ایک صاحب نے شروع کیے جو اب پورے ملک میں معروف ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے کھانے زیادہ تر وسط ایشیائی اصل کے ہیں جب کہ مٹھائیاں مقامی ہیں۔اس کی ایک وجہ تو سامنے صاف نظر آرہی ہے کہ مسلمان گوش...

کیا پنجاب صرف ایک شہر کا نام ہے؟

ضلع اٹک میں داخل ہونے کے چھ بڑے راستے ہیں۔ پہلا ٹیکسلااور حسن آباد کے ذریعے۔دوسرا راولپنڈی سے ترنول کے ذریعے۔تیسرا کے پی سے آتے ہوئے دریائے سندھ پار کرکے۔چوتھا کوہاٹ سے آتے ہوئے خوشحال گڑھ کے ذریعے(یاد رہے کہ خوشحال گڑھ کے مقام پر دریائے سندھ پر بنے ہوئے نئے پل کی تعمیر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اکتوبر2011میں شروع ہوئی تھی)پانچواں تلہ گنگ اور ڈھوک پٹھان سے ڈھلیاں موڑ کے راستے۔چھٹا ایبٹ آباد سے آتے ہوئے حسن ابدال کے ذریعے۔یوں تو موٹر وے بھی ضلع اٹک کو جھلک دکھاتی ہے مگر صرف چند کلو میٹر کے لیے! میں تحصیل فتح جنگ اٹک کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں۔میں ان چھ راستوں سے اپنے پسماندہ غریب اور مفلوک الحال ضلع میں داخل ہوتا ہوں تو پوری کوشش کرتا ہوں کہ کوئی تبدیلی نظر آئے۔ترقی کا کوئی مظہر دیکھ سکوں۔ضلع میں کوئی نئی شاہراہ،کوئی ہسپتال،کوئی مثالی تعلیمی ادارہ،کوئی آئی ٹی کا تربیتی مرکز کہیں نظر آئے تو اس کی تعریف کروں مگر ایسی کوئی تبدیلی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔وہی شکستہ خاک اڑاتی سڑکیں،وہی دھول سے اٹے کچے راستے ضلع کے اطراف و اکناف میں سسکتے وہی سرکاری سکول، جن میں بیٹھنے کے لیے ٹا...

سوالات جن کے جواب شاید کبھی نہ ملیں

عمران خان میں کمزوریاں بہت ہیں اور نادانیاں بھی کم نہیں!غلط کام غلط وقت پر اور صحیح کام بھی غلط وقت پر کرنا اس کا معمول ہے ۔ابھی حضرت نے رومی اور ابنِ عربی کو سمجھنے کے لیے جو استاد چنا ہے ‘اس پر رومی اور ابنِ عربی خود حیران ہوں گے۔ مگر ان سارے منفی پہلوؤں کے باوجود ایک عنوان اس نے زبردست باندھا ہے ۔پنجاب کے حکمران اعلیٰ کو اس نے   ڈرامہ قرار دیا ہے تو اس سے زیادہ برمحل اور مناسب نام شاید فیضی’ابوالفضل ‘نظیری اور صائب بھی اٹھ کر آجاتے تو نہ دے پاتے ۔ ڈرامے کا تازہ ترین ایکٹ دیکھیے وزیراعلٰی نے بچوں کے تحفظ کے لیے وزیر قانون رانا ثنا اللہ  کی   سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ۔ وزیراعلٰی کی جانب سے تشکیل دی گئی بیس رکنی کمیٹی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ۔کمیٹی کے دیگر اراکین میں وزیر تعلیم ‘چیئر پرسن چائلڈ پروٹیکشن اور آئی جی پنجاب بھی شامل ہیں ۔کمیٹی بچوں کے تحفظ،پولیس کے کام کا جائزہ اور آگہی مہم کے لیے سفارشات تیار کرے گی۔” اب ڈرامے کا دوسرا ایکٹ دیکھیے: “اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا اب تک کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہوں ۔زینب کے...