اشاعتیں

2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے پائوں پر کلہاڑی کیسے ماررہی ہے؟

جہلم شہر کی آبادی پونے دو لاکھ ہے‘ چکوال کی تقریباً دو لاکھ۔ اتنی ہی میر پور کی ہو گی۔ دینہ کی ساٹھ ہزار ہے۔ گوجر خان کی بھی ڈیڑھ لاکھ سے کیا کم ہو گی۔تحصیل کلر سیداں کی آبادی سوا دو لاکھ ہے۔ پھر کہوٹہ شہر اور تحصیل ہے۔ سوہاوہ ہے۔ مندرہ اور روات ہیں۔ یہ وہ قصبے ہیں جن کے نام ہمیں معلوم ہیں۔ ان سے متصل وہ سینکڑوں قریے ہیں جو جہلم‘ چکوال ‘ گوجر خان ‘ دینہ اور کلر سیداں کے اردگرد آباد ہیں۔ انسانوں کا جمِّ غفیر سورج طلوع ہونے کے ساتھ ان تمام قریوں بستیوں سے نکلتا ہے۔ ان میں طلبہ اور طالبات ہیں۔ دفتروں ‘کارخانوں ‘وزارتوں ‘سفارتوں ‘کالجوں ‘سکولوں‘ کمپنیوں ‘تجارت خانوں‘ سپر سٹوروں‘ دکانوں میں ملازم عورتیں اور مرد ہیں۔ یہ لاکھوں افراد جس شاہراہ کو دارالحکومت جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اسے ایکسپریس وے کہتے ہیں۔  مگر ایکسپریس وے پر صرف ان کی اجارہ داری نہیں‘ خود ایکسپریس وے کے دونوں طرف لاتعداد بستیاں آباد ہیں۔ بحریہ کے آٹھ فیز۔ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے پانچ فیز۔ پی ڈبلیو ڈی۔ میڈیا ٹائون۔ پولیس فائونڈیشن‘ ڈاکٹرز کالونی۔ کورنگ ٹائون۔ پاکستان ٹائون۔ غوری ٹائون۔ جناح ٹائون‘ نیوی ...

قائد اعظم ؒ

اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھیے  برصغیر میں مسلمان آبادی تین حصوں میں منقسم ہے۔ مغرب میں پاکستان ہے۔ تقریباً بائیس کروڑ آبادی ہے۔ مشرقی کنارے پر بنگلہ دیش ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں 90فیصد مسلمان ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان اپنی تقدیر کے مالک خود ہیں۔ وہ دوسرے ملکوں میں سفیر تعینات ہوتے ہیں۔ مسلح افواج میں شامل ہیں۔بریگیڈیئر اور جرنیل بنتے ہیں۔ فوجوں کی کمان سنبھالتے ہیں۔ عدالتوں کی سربراہی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی سول سروسز میں ان کا بھر پور حصہ ہے۔ ان کے پاس وزارتیں ہیں۔ انتخابی حلقوں کی بنیاد پر منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ قانون سازی کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مسلمان بچے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پھر ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔ تجارت ہے یا صنعت‘ زراعت ہے یا بنکاری‘ ہر شعبہ زندگی میں انہیں اپنے حقوق حاصل ہیں۔  پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بھارت ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ ہے جو کل آبادی کا پندرہ فیصد بنتی ہے۔ بھارت کے مسلمان اپنی آباد...

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں

بخار تھا کہ ٹوٹنا تو کیا‘ کم ہونے کا بھی نام نہ لیتا تھا۔ محلے کے ڈاکٹر نے کم مائگی کا اعتراف کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ہسپتال لے جائو۔ اُس وقت دارالحکومت میں ایک ہی ہسپتال تھا۔ پولی کلینک۔ مگر یہ پولی کلینک کے سنہری دن تھے۔ شہر کی آبادی محدود تھی۔ ہسپتال کی انتظامیہ چُست تھی اور ذمہ دار۔ پولی کلینک کی راہداریاں تب بھی چھلک رہی ہوتی تھیں مگر آج کی طرح ’’ٹریفک جام‘‘ نہیں تھا! یہ 1976ء یا 1977ء تھا۔ پولی کلینک کے جس ڈاکٹر نے والد گرامی کا معائنہ کیا‘ سرخ سفید رنگ کا تھا! وجیہہ شخصیت ۔ انداز مسحور کُن! …اردو پر میانوالی کا لہجہ غالب! اُس نے ایک ہاتھ والد گرامی کے کندھے پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے پہلے ہاتھ پر ایک یا دو بار ضرب لگائی۔ اور کہا پھیپھڑوں میں پانی ہے۔ نکالنا ہو گا۔ ہسپتال داخل کریں گے۔ علاج لمبا ہے۔ انشاء اللہ مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ معائنے ‘ تشخیص اور گفتگو سمیت سارا معاملہ دو منٹ میں نمٹ گیا۔ تین ماہ والد گرامی ہسپتال داخل رہے۔بھائی دونوں چھوٹے تھے۔ تیسرا ایک حادثے کی نذر ہو چکا تھا۔ بعد میں تو دونوں بھائیوں نے خدمت کا موقع ہی نہ دیا۔ وہ تین ماہ کالم نگار ...

اندھے عقاب کی اڑان!

شام ڈھل رہی ہے۔ لائبریری میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں۔ املی اور کھجور کے درخت گم سم کھڑے ہیں۔ لمبے ہوتے سائے اداسی میں ڈوبے ہوئے لگ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے شام ڈھاکہ کے اوپر تاریکی نہیں، نا امیدی کی چادر تان رہی ہے۔ میرا بنگالی دوست آکر میرے پاس بیٹھتا ہے اس کے ہاتھ میں مغربی پاکستان سے شائع ہونے والا سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز ہے۔ وہ اس کا اداریہ میرے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اداریہ اعتراف کر رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے۔ کئی برسوں سے یہ کالم نگار ہر سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ پر کالم لکھتا رہا ہے۔ روتا رہا ہے! حقائق بتاتا رہا ہے۔ سوچا اب کے نہیں لکھتا! آہ و زاری، نالہ وشیون اور سینہ کوبی کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ ؎ شامِ غم جل جل کے مثلِ شمع ہو جائوں گا ختم صبح کو احباب آئیں گے تو دفنائیں گے کیا سو خاموش رہا! اور دیکھتا رہا کہ سولہ دسمبر کو اپنے پرائے کیا کیا لکھ رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اندھوں کا گروہ ہاتھی کے گرد کھڑا ہے۔ کوئی ٹانگوں سے لپٹا ہوا! کوئی سونڈ کو...

ایک قاصدالطاف بھائی کی طرف بھی!!

’’پی ٹی آئی اور نون لیگ انتشار چاہتی ہیں۔‘‘ یکم جولائی 2018ء ’’زرداری اور نیازی اکٹھے ہوگئے۔ عوام کسی بھول میں نہ رہیں۔ نیب میں حاضریاں صرف نون لیگ کی اور زرداری پاک صاف۔‘‘ 5 جولائی 2018ء ’’پی پی پی، پی ٹی آئی اور نیب مل کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ ہم گھبرانے والے نہیں۔‘‘ 8 جولائی 2018ء  ’’تیر اور بلے کو شکست دے کر نوازشریف اور مریم کو آزادکرائیں گے۔‘‘ 19 جولائی 2018ء  یہ ان بے شمار بیانات میں سے صرف چند بیانات ہیں جو جولائی 2018ء کے الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنمائوں نے مختلف مواقع پر جاری کئے۔ کچھ ان کی تقاریر کے حصے ہیں۔  دو دن پہلے زرداری صاحب نے شہبازشریف صاحب کو اطلاع دی ہے کہ اپوزیشن عمران حکومت کو گرانا چاہے تو وہ یعنی زرداری صاحب تیار ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سابق صدر نے حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن سے مدد مانگ لی۔ دونوں عظیم رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ عمران حکومت اپنی نااہلیوں کی وجہ سے آغاز میں ہی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اسے بآسانی گرایا جا سکتا ہے۔  آپ اگر اس کایا کلپ کو منفی انداز میں لے رہے ہیں تو ایسا ...

طاعون زدہ چوہے

یہ واقعہ کسی جنگل میں پیش آیا نہ کسی وحشی قبیلے کے ہاں۔ یہ کسی دور افتادہ، گائوں میں بھی نہیں ہوا۔ فاٹا کے کسی دور دراز گوشے میں نہ دیامیر اور چلاس کے پہاڑوں میں نہ چترال کی وادی بمبریٹ میں۔  انٹرنیٹ پر جائیے۔ پوچھئے ٹیکسلا اور اسلام آباد کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ کمپیوٹر جواب دے گا ساڑھے چونتیس کلومیٹر، گاڑی پر کتنا وقت لگے گا؟ انٹرنیٹ یہ بھی بتائے گا، انچاس منٹ۔ یہ وہی ٹیکسلا ہے جو ہزاروں سال سے تعلیم کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ چانکیہ سے لے کر (جسے کوتلیا بھی کہا جاتا ہے) پنینی تک کتنے ہی صاحبان علم یہاں ہوگزرے۔ آج بھی یہاں ایک سے زیادہ یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں، پاکستانی عساکر نے یہاں ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ تعمیر کردیا جس سے خلق خدا فض یاب ہورہی ہے۔ پھر ٹیکسلا دو ایسے شہروں کے درمیان واقع ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور خواندگی کی بلند شرح کے لیے معروف ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد دوسری طرف واہ! واہ کی شرح خواندگی حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی شرح کو چھونا چاہتی ہے۔ پھر، عجائب گھر کی وجہ سے ٹیکسلا کے باشندے پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں، غیر ملکی سیاح، مشرق بعید کے زائر،...

محاسب کا اپنا حساب لیروں لیر

نوجوان سرکاری ملازم کو دارالحکومت میں سر چھپانے کی جگہ درکار تھی۔ وفاقی وزارت ہائوسنگ کے چکر لگائے۔ ایک سرکاری ہوسٹل میں خالی کمرہ تلاش کیا۔ ہوسٹل کے انچارج نے اس کی درخواست وزارت کو روانہ کی۔ وزارت نے کارروائی کی اور درخواست وزیر کے معاون کو پہنچائی۔ وہاں سے نہ معلوم کیا ہوا‘ درخواست غائب ہو گئی۔ یہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا عہد تھا۔ نوجوان سرکاری ملازم کا اس کالم نگار سے بھی تعلق تھا۔ وزیر صاحب کے ہم زبان ایک صحافی سے عرضِ مدعا کیا۔ یہ عزت رکھنے والا اور عزت کرنے والا صحافی تھا۔ بنفس نفیس‘ چل کر‘ وزیر صاحب کے پاس گیا۔ ان سے کالم نگار کی بات کرائی۔ وزیر صاحب نے بہ کمال شفقت و کرم‘ ہدایت کی کہ درخواست ان تک پہنچائی جائے۔ بقیہ داستان‘ الم اور غم پر مشتمل ہے۔ کئی چکر وزارت کے لگائے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن دفتر آتے تھے۔ کوشش بسیار کے باوجود درخواست ان تک پہنچانے میں ناکامی ہوئی۔ معاونین‘ پرائیویٹ سیکرٹری اور ایک خصوصی ڈائریکٹر نے وزیر کے گرد ایسا حصار باندھ رکھا تھا کہ ایک سوئی تک اس حصار میں سے نہیں گزر سکتی تھی۔ ظاہر ہے یہ حصار معاونین ...

: شریعت خس و خار ہی کی چلے گی

جو قریوں اور بستیوں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے وہ جانتے ہیں کہ گائوں میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی میونسپل کمیٹی ہوتی ہے نہ خاکروب۔ صدیوں سے پریکٹس چلی آ رہی ہے کہ عورتیں گھروں کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر، گائوں سے ذرا باہر، کھیت میں ڈالتی جاتی ہیں۔ اس کوڑے میں جانوروں کا گوبر بھی شامل ہوتا ہے۔ ہوتے ہوتے یہ کوڑا ڈھیر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اب کالے رنگ کے بھینس کی کھال جیسی کھال رکھنے والے کیڑے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کیڑوں کو پنجاب کے مغربی حصے میں بھبھون کہا جاتا ہے۔ بھبھون غلاظت کا کھلاڑی ہے۔ اسی میں رہتا ہے، یہیں سے جو کچھ ملتا ہے، اس سے اپنا بل آراستہ کرتا ہے۔ طریق واردات اس کا یہ ہے کہ کمال ہنروری سے غلاظت کا گولہ بناتا ہے۔ سائز میں ماربل کی گولی (بنٹے) سے بڑا اور پنگ پانگ گیند سے چھوٹا۔ یوں صفائی سے تراشتا ہے جیسے سمرقند کے کاریگر مرمر تراشتے تھے ؎ مرمر سے جیسے ترشا ہوا تھا تمام باغ پیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئے مجال ہے جو گولائی میں ذراق فرق آئے۔ پھر وہ اسے لڑھکاتا ہے۔ غلاظت کا گولہ آگے آگے، بھبھون پیچھے پیچھے۔ جیسے ریڑھی بان ہو، کہاں لے جاتا ہے؟ گمان...

اگر سنگ میل ہی راستے کا پتھر بن جائے تو؟؟

مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار بیمار پڑے تو بہت سے لوگ عیادت کو آئے۔ ان میں ایک صاحب ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ فلاں ڈاکٹر کو ضرور دکھائیے۔  کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں کس فراخ دلی سے دخل انداز ہوتے ہیں؟ بچے کوفلاں سکول میں داخل کرائیے۔مکان فلاں آبادی میں تعمیر کیجئے۔ نقشہ فلاں معمار سے بنوائیے۔ اور اس طرح بنوائیے بیماری کے دوران جتنے مشورے ملتے ہیں ان سب پر عمل کیجیے تو آپ نہایت آسانی سے زندگی کا دورانیہ مختصر کر سکتے ہیں۔ کچھ احباب تو باقاعدہ نسخہ بھی تجویز کریں گے اور اصرار کریں گے کہ اپنے ڈاکٹر کو ایک طرف رکھیے بس یہ استعمال کیجیے۔  ان ہدایات پر عمل کرنے والوں کا حشر بھی دیکھا ہے۔ گائوں سے ایک بزرگ تشریف لائے ایک ڈاکٹر سے ان کے لئے وقت لیا۔ مقررہ وقت پر انہیں وہاں پہنچایا۔ انتظار گاہ میں کسی سے سنا کہ ٹیکسلا میں ایک زبردست حکیم ہے اور چند خوراکوں میں مریض شفا یاب ہو جاتا ہے‘ وہیں سے ٹیکسلا چلے گئے۔ وہاں کسی نے بتایا کہ حسن ابدال میں جو ڈاکٹر فلاں کلینک میں موجود ہے‘ اس کے آگے سب اطبا ہیچ ہیں۔ بزرگ وہاں تشریف لے...

کامیابی کی کنجی جوش نہیں ہوش ہے

سالہا سال سے بیساکھیوں پر چلنے والے سے اچانک بیساکھی لے لی جائے توگر پڑے گا۔ اسے بتدریج‘ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔  پاکستانی معیشت برسوں سے نہیں‘ عشروں سے بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ بیرونی قرضوں کی بیساکھیاں‘ اندرونی قرضے‘ اسحاق ڈار صاحب نے قومی بچت کے ادارے تک کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ بیوائوں اور بوڑھوں کے لیے منافع کی شرح کم کرتے گئے۔ یہاں تک کہ پہلے سے تقریباً نصف رہ گئی۔  اقربا پروری کی بیساکھیاں‘  دوست نوازی کی بیساکھیاں‘ قومی اداروں کو طاعون زدہ کردیا گیا۔ سب کچھ ظفر حجازیوں‘ محمد سعیدوں‘ توقیر شاہوں‘ خواجہ ظہیروں‘ سعید مہدیوں‘ وانیوں‘ ڈاروں اور بٹوں کے سپرد تھا۔ اس سے پہلے وہ دور بھی آیا کہ ٹیلنٹ کا ہر منبع‘ ہر مصدر‘ ملتان سے پھوٹتا تھا۔ اسامیوں کے اشتہار چھپتے اور کابینہ کی سیکرٹری صاحبہ کو بتا دیا جاتا کہ فلاں صاحب آ کر ملیں گے۔ انہیں ہی رکھنا ہے۔ دور کی نظر تو کمزور تھی ہی نزدیک سے بھی دکھائی دینا بند ہوگیا۔ خواجہ خیرالدین کے فرزند کو بنگلہ دیش میں سفیر مقرر کردیا‘ اس لیے کہ ملتان کا حوالہ تھا۔ اس حقیقت سے مکمل لاعلمی کے ساتھ کہ خواجہ خیرالدین ب...

زلف عنبر بار سے کژدم بکھیر اژدر نکال

’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور دینی مدارس امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ ایک مذہبی رہنما کے اس تازہ ترین بیان پر غور کیجئے۔ کیا دونوں فقروں میں کوئی باہمی تعلق ہے؟ پہلا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کس نے سودا بازی کی ہے؟ یا سودا بازی کی پیشکش کی ہے؟ نام بھی تو معلوم ہو؟ نعوذ بااللہ کیا ختم نبوت اور ناموس رسالت پر سودے بازی ہو سکتی ہے؟ کیا کسی میں اس کی جرأت ہے؟ میڈیا کے اس بدترین دور میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ پھر اپنے مطالبے کو‘ اپنی کمیونٹی کے مطالبے کو‘ اپنے گروہ کے مطالبے کو زور دار بنانے کے لیے ختم نبوت اور ناموس رسالت سے بڑھ کر اور کون سا کندھا بہتر ہوگا جس پر مفادات کی بندوق رکھ کر چلا دی جائے۔ کل کو کیا عجب آپ یہ بھی سنیں:۔ ’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جاسکتی اور ڈاکٹر امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ یا ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور تاجر امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ ۔ مولانا صاحب نے ساتھ ہی یہ خبر دی کہ ’’مدارس نے ملک میں م...