ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے
اس کا رنگ کالا ہے۔سفید فام دنیا میں کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔ پھر مالک نے اپنی شناخت کے لیے اس کے ماتھے پر،رخساروں پر،اور ناک پر ،لوہے کی گرم سلاخوں سے خصوصی نشان بھی بنا رکھے ہیں ۔ بھاگنے کی کوشش کی تو کچھ ہفتوں بعد پکڑا گیا۔سزا کے طور پر ایک پاؤں کاٹ دیا گیا۔ پھر ایک دن ایک سوداگر آیا غلاموں کو خریدنے اور بیچنے والا سوداگر ۔۔اسے اس کی بیوی پسند آگئی ۔اس نے مالک کو رقم دےی ۔اس کی بیوی کو باندھا اور گھوڑا گاڑی کے عقبی حصے میں ڈال کر لے گیا۔ دونوں میاں بیوی چیختے ،چلاتے ،بلبلاتے ،ہچکیاں لیتے رہ گئے۔ یہ جسمانی غلامی تھی۔ اس غلامی میں ایک خصوصیت بہر حال تھی اور وہ یہ کہ یہ جسمانی غلام بھاگنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ آزادی کی ایک چنگاری ان کے نہاں خانہ دل میں کہیں نہ کہیں روشن ضرور رہتی تھی۔سیاہ فام امریکی غلاموں کی تاریخ ان چنگاریوں ،ان شعلوں اور ان روشنیوں سے جگمگا رہی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جسمانی غلامی کے مقابلے میں ذہنی غلامی ہزار ردجہ بدتر ہے؟ اس لیے کہ ذہنی غلامی سراسر رضاکارانہ ہوتی ہے، اس میں زنجیر ہے نہ رخساروں پر گرم سلاخوں سے بنے...