اشاعتیں

دسمبر, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے

اس کا رنگ کالا ہے۔سفید فام دنیا میں کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔ پھر مالک نے اپنی شناخت کے لیے اس کے ماتھے  پر،رخساروں پر،اور ناک پر ،لوہے کی گرم سلاخوں سے خصوصی نشان بھی بنا رکھے ہیں ۔ بھاگنے کی کوشش کی تو کچھ ہفتوں بعد پکڑا گیا۔سزا کے طور پر ایک پاؤں  کاٹ دیا گیا۔ پھر ایک دن ایک سوداگر آیا غلاموں کو خریدنے اور بیچنے والا سوداگر ۔۔اسے اس کی بیوی پسند آگئی ۔اس نے مالک کو رقم دےی ۔اس کی بیوی کو باندھا اور گھوڑا گاڑی کے عقبی حصے میں  ڈال کر لے گیا۔ دونوں میاں بیوی چیختے ،چلاتے ،بلبلاتے ،ہچکیاں لیتے رہ گئے۔ یہ جسمانی غلامی تھی۔ اس غلامی میں  ایک خصوصیت بہر حال تھی اور وہ یہ کہ یہ جسمانی غلام بھاگنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ آزادی کی ایک چنگاری ان کے نہاں خانہ دل میں کہیں نہ کہیں روشن ضرور رہتی تھی۔سیاہ فام امریکی غلاموں کی تاریخ ان چنگاریوں ،ان شعلوں اور ان روشنیوں سے جگمگا رہی ہے۔ کبھی  آپ نے سوچا ہے کہ جسمانی غلامی کے مقابلے میں ذہنی غلامی ہزار ردجہ بدتر ہے؟ اس لیے کہ ذہنی غلامی سراسر رضاکارانہ ہوتی ہے، اس میں زنجیر ہے نہ رخساروں پر گرم سلاخوں سے بنے...

.ٹیپ ریکارڈ سے یوٹیوب تک

ٹیپ ریکارڈرپر سائنسدان کام تو ایک عرصہ سے کررہےتھے مگر ا س کا عام استعمال 1940 کے عشرے میں شروع ہوا۔ آپ نے ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر قائداعظم کی تقریر کے کچھ الفاظ ان کی اپنی زبانی سنے ہوں گے ان کی وفات 1948 میں ہوئی ۔اسکا مطلب یہ تھاکہ اس وقت برصغیر میں ٹیپ ریکارڈ 'جیسا بھی تھا آچکا تھا۔موسیقی میں اس کا استعمال خوب ہوا ۔اسی زمانے میں معروف و مشہور شعرا کاکلام بھی ریکارڈ کیاجانے لگا۔ جن لوگوں کو شوق تھا ‘انہوں نے اپنے پسندیدہ شاعروں کا کلام ان کی اپنی آواز میں ریکارڈ کیا یا کرایا۔ کراچی کے لطف اللہ خان صاحب نے تو آوازوں کا خزانہ جمع کیا ۔اسی کی دہائی میں وہ اس کالم نگار کے غریب خانے پر تشریف لائے اور غزل ریکارڈ کی۔تاہم یہ ریکارڈ شدہ آوازیں ‘غزلیں ‘نظمیں ‘تقریریں ‘انٹرویو ‘جن لوگوں کے پا س تھے ‘انہی کی دسترس میں رہے۔بہت ہوا تو ریڈیو یا ٹیلی ویژن نے ان میں سے مشہور اور تاریخی چیزیں مناسب مواقع پر نشر کردیں ۔جس نے سن لیا ‘سن لیا ،جومحروم رہا ‘اس کی ان ریکارڈ شدہ آوازوں تک رسائی نہ تھی۔ بہت سے مشہور شعرا اور نامور ہستیوں کو سننے کا موقع ملا یہ مواقع ہماری پوری نسل کو دستیاب ہوئ...

قوم کے لیے مژدہ جانفزا

ایک بہت بڑا کارنامہ جو میاں شہباز شریف نے سرانجام دیا ہے یہ ہے کہ “خونی انقلاب “ کی خونی اصطلاح کا آنجناب نے بندوبستِ دوامی کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا بندوبست ِدوامی کہ جس کی تاریخ ِ انقلاب میں نظیر ملنی مشکل ہے۔کارل مارکس کو جو اذیت چھوٹے میاں صاحب نے پہنچائی ہے ‘کسی گرز سے بھی کیا پہنچی ہوگی! سچ یہ ہے کہ یہ اصطلاح دشنام بن کر رہ گئی ہے۔محض یہ کہنا کہ مذاق بن کر رہ گئی ہے ،اس اصطلاح کے ساتھ بھی ظلم ہے’مذاق کے لفظ کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خود دشنام کے ساتھ بد سلوکی ہے۔ اس وقت اگر پاکستان میں چوٹی کے پانچ مراعات یافتہ ترین افراد کی فہرست بنے تو شہباز شریف کا نام ان پانچ میں ضرور ہوگا ۔تعجب نہیں اگر ان پانچ میں بھی وہ اولیں نمبر پر ہوں ۔ان کی کئی رہائش گاہیں ہیں ۔ہر رہائش گاہ ایک عالی شان محل ہے،ہر محل کو سرکاری سٹیٹس حاصل ہے۔ ہر محل کے ارد گرد اوپر نیچے آگے پیچھے سینکڑوں سرکاری پہریدار ہیں۔ ان پہریداروں کی تنخواہ اس کھرب پتی شخص کی جیب سے نہیں بلکہ اس بھوکی ننگی مفلس قلاش، مظلوم،معتوب،مقہور،بدبخت قوم کی انتڑیوں سے نکالے گئے ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہے۔ بیڑوں کے بیڑے قیمتی لیموزینو...

وائرس جس نے ہر پاکستانی کو بے چین کررکھا ہے۔

ٹریفک رینگ رہی تھی ۔آگے جاکر بالکل رُک گئی۔اس نے باس  کی معیت میں ایک میٹنگ کے لیے جانا تھا۔باس کو فون کیا اور صورتحال بتانے  کے بعد معذرت کی۔باس نے تسلی دی کہ ایسا ہوجاتا ہے۔کوئی بات نہیں ! چند دن کے بعد'چھٹی کے بعد وہ گھر واپس جارہا تھا۔پھر ٹریفک کی وہی حالت ہوگئی۔ہائی وے پر گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔اس نے بیوی کو فون کیا۔بیوی طنزیہ ہنسی ہنسی!زہر میں بجھی ہوئی ہنسی!"مجھے معلوم ہے آپ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں " یہ واقعہ ایک صاحب نے سنایا جو جرمنی میں رہتے ہیں ۔ اس تفاوت کا سبب کیا ہے؟باس یقین کرلیتا ہے۔مگر بیوی جو رفیقہء حیات ہے'جھٹلا دیتی ہے؟ کیوں ؟ یہ محض سوال نہیں 'یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اگرا س سوال کا جواب دریافت کر لیا جائے'پھر اس پر غور کرلیا جائے اور ہم میں سے ہر شخص اپنا رویہ اس سوال اور اس کے جواب کی روشنی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہی پاکستان جسے ہم رات دن کوستے ہیں 'جنت بن جائے۔ وجہ  جاننے کے لیے ستاروں کے علم کی ضرورت ہے نہ چلے کاٹنے کی۔باس جس ماحول میں پلا بڑھا 'اس میں جھوٹ بولنے کا رواج نہ تھا۔اسے بچپن میں جو...

نواز شریف کا نظریاتی تعلق کس کے ساتھ ہے۔

دل اور دماغ باہم بر سرِ پیکار ہیں ۔ دل کہتا ہے میاں نواز شریف اقتدار  کی دُھن میں ملک  دشمنی  کی  حد تک نہیں جاسکتے!دماغ کے پاس ثبوت ہیں ۔ حوالے ہیں  ۔شہادتیں ہیں ۔ گواہیاں ہیں ! دل کہتا ہے اس دھرتی نے میاں صاحب کے ان بچوں کو بھی کھرب پتی بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔اور عالمِ ارواح میں ہیں ۔تین بار وہ وزیراعظم بنے،تینوں بار  پنجاب نے یہ تاج ان کے سر پر رکھا۔کیا اب وہ ان عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کریں  گے جو  پاکستان بالخصوص پنجاب  کے دشمن ہیں ۔کُھلے دشمن 'ایسے کھلے دشمن کہ پوری دنیا جانتی ہے۔ایسےدشمن جو خود  دشمنی کا دن دھیاڑےڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتے ہیں !نہیں! ایسا نہیں  ہوسکتا!میاں صاحب ایسا نہیں کرسکتے! دماغ ہنستا ہے ۔طنزیہ ہنسی !قہقہہ لگاتا ہے!اخبارات سامنے رکھ دیتا ہے۔یوٹیوب لگا کر پوچھتا ہے  ۔اب بتاؤ! دل خاموش ہوجا تا ہے!یہ دنیا  جذبات کے سہارے نہیں چلتی !یہ ٹھوس شہادتوں 'حقیقی واقعات اور ناقابلِ تردید سچائیوں کے بل پر قائم ہے! بائیس دسمبر 2017 کے اخبارات کیا بتاتے ہیں ۔ "نواز شریف...

راجہ بھوج اور گنگو تیلی

کیا قدیم زمانے کا انسان بہت لمبے قد کا تھا؟ اس کا جواب سائنس دان یا محققین یا اینتھروپالوجی کے ماہرین ہی دےسکتے ہیں۔ہاں سب کی طرح ہم نے بھی سنا ہے کہ ہمارے مقابلے میں اس زمانے کے قد زیادہ لمبے ہوتے تھے۔اس کالم نگار کو اردن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قبر مبارک دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کی لمبائی دیکھ کر حیرت ہوئی ۔کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تھی۔ آج کے زمانے میں حالات دیکھیں تو یہ بات' قد کی لمبائی والی' درست ہی لگتی ہے۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قد کس قدر چھوٹے ہوگئے ہیں !جہاں شمشاد قد بیٹھتے تھے۔ وہاں بونے نظر آتے ہیں !جہاں دیو ہیکل تھے وہاں بالشتیے براجمان ہیں !تخت یا کرسی کے پایوں کے نیچے دو دو فٹ اونچی لکڑیاں رکھ کر بھی یہ بونے' یہ بالشتیے'یہ پستہ قد کردار'بلند قامت نہ ہوسکے۔ اس لیے کہ بلند قامتی مصنوعی اونچائی سے نہیں ملتی! ذوالفقار علی بھٹوسے شروع کیجیے۔منفی پہلو بہت تھے،آمرانہ رجحانات شخصیت کا حصہ تھے،دلائی کیمپ تاریخ میں ان کے ساتھ چپکا ہوا ہے مگر بطور لیڈر بھٹو بلند قامت تھے۔لباس کا کیا اچھا ذوق تھا!فرنگی ملبوس بہت رکھ رکھاؤ سے پہن...

معاف کیجیے!میں جلدی میں ہوں

سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت بنے! اس لیے کہ دفاع پاکستان کونسل میدان میں اتر چکی ہے۔ اس نے فیصلہ سنا دیا  ہے کہ امریکہ نے اعلان واپس  نہ کیا تو کھلی جنگ ہوگی!اور جو کام امریکہ کے افغانستان آنے پر نہیں  ہوا وہ  بیت المقدس میں ہو گا اور یہ کہ وزیراعظم اسلام آباد میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کا اعلان کریں اور مسلمان ممالک  امریکی سفارت خانے بند کرٰیں اور یہ کہ یمن اور عراق جنگ کے پیچھے یہودی سازشیں ہیں اور  یہ کہ ہمیں  امت کو جگانا ہے اور یہ کہ ٹرمپ کا اعلان کھلی جنگ ہے مسلم ملکوں کے سربراہ اس چیلنج کو قبول کریں ۔ مسلم حکمران بروقت اقدام اٹھائیں ورنہ علماء جہاد کا  فتویٰ دیں گے اور یہ کہ بیت المقدس کے دفاع کے لیے   سب سے پہلے ہمارا خون بہے گا! بیت المقدس کے اسرائیلی دارالحکومت بننے کا دور دور تک امکان نہیں ۔ کیونکہ دفاع پاکستان کونسل میدان میں اتر چکی ہے ۔ تاہم دفاع پاکستان کونسل سے مندرجہ ذیل سوالات نہ پوچھے جائیں۔  کھلی جنگ کیسی ہوگی؟کیا اب خفیہ جنگ ہورہی ہے؟یہ خفیہ جنگ کہاں ہورہی ہے؟...

باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور

الیگزینڈر برنس سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا  ۔سولہ سال کی عمر میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں  بھرتی ہوگیا۔ ذہانت خداداد تھی۔جلد ہی اردو اور فارسی میں مہارت حاصل  کرلی۔ 1822 میں کمپنی نے اسے سُورت میں  ترجمان مقرر کردیا۔ زبانوں میں مہارت کے باعث افغانستان اور وسط ایشیاء میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔یہ زمانہ گریٹ گیم کے عروج کا تھا۔روس جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا بارڈر ستلج تک لے آئی تھی۔دونوں استعماری طاقتیں  ایک دوسرے سے خائف تھیں اور گمان کر رہی  تھیں کہ گھمسان کا رن درمیان میں یعنی افغانستان میں پڑے گا۔برطانیہ نے برنس کو جاسوس بنا کر بخارا بھیجا جہا ں سے اس نے انتہائی کارآمد معلومات ارسال کیں ۔ 1831  میں برنس برطانیہ کے بادشاہ کی طرف  سے رنجیت سنگھ کے لیے گھوڑوں کا تحفہ لے کر لاہور آیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہانہ بنایا کہ گھوڑے خشکی کے راستے سفر نہیں کر پائیں گے 'چنانچہ سندھ پہنچ کر یہ گھوڑے دریائے سندھ کے ذریعے لائے گئے۔ اصل مقصد سندھ کا مشاہدہ کرنا اور دریائی راستے کا نقشہ بنانا تھا۔ برنس کو 1841 میں اف...

اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار

کیا یہ ممکن ہے کہ  ہم مذہب کو سیاست سے نکال کر اپنی زندگیوں میں لے آئیں ؟ اس وقت مذہب 'جسے ہم دین بھی کہتے ہیں  'ہماری زندگیوں سے کوسوں دور ہے'یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہماری زندگیاں ہمارے مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں ۔ہاں 'سیاست اور تجارت میں مذہب کا استعمال زوروں پر ہے!تجارت میں مذہب کو کیسے استعمال بلکہ غلط استعمال (misuse) کیا جارہا ہے اس پر کئی بار بات ہوچکی ہے ۔یہ اور بات کہ اس کا تذکرہ بار بار کرنا چاہیے یہاں تک کہ مسئلہ ذہنوں  میں اجاگر ہوجائے۔ تاہم سیاست میں مذہب کا استعمال 'تجارت میں مذہب کے  استعمال سے زیادہ  خطرناک ہے۔کئی گنا خطرناک!سب سے بڑا  سبب اس کا یہ ہے کہ عوام  مذہب پر جان چھڑکتے ہیں !بدعمل سے بدعمل مسلمان بھی مذہب کا احترام کرتا ہے اور مذہب کے حوالے سے'یا واسطے سے کوئی بات اس سے کی جائے تو اسے رد نہیں کرتا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسے رد کرے۔اسی لیے شاطر سیاستدان 'مذہب کا  لبادہ اوڑھتے ہیں ! وہ اپنے لیے نہیں 'مذہب کے لیے ووٹ مانگتے ہیں حالانکہ ان میں اور دوسرے سیاست دانوں میں ظاہری وضع قطع  کے سوا کوئی ...