اشاعتیں

نومبر, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

دامن خالی!ہاتھ بھی خالی!

فیض آباد دھرنا کس کے لیے چیلنج تھا؟ وفاقی حکومت کے لیے وفاقی حکومت کس کی تھی؟ مسلم لیگ نون کی! مسلم لیگ نون کا سربراہ کون ہے؟ میاں محمد نواز شریف قائداعظم ثانی! پارٹی میں ان کا نائب کون ہے؟ عملی اعتبار سے ان کی  دختر نیک اختر مریم صفدر! جنہوں نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں  وزیراعظم کا الیکشن لڑیں گی اور یہ کہ "جو لوگ میرے ارد گرد ہیں' بتاتے ہیں کہ ایک خاص  رول میرے لیے مخصوص ہے"دھرنا مسلم لیگ نون کی وفاقی  حکومت کے لیے چیلنج بنا تو یہ دونوں باپ بیٹی کہاں تھے؟ یہ دونوں پیش منظر سے غائب ہوگئے!انہوں نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بیان  سامنے آیا نہ ردِ عمل !مذاکرات کی کوشش کی  نہ اپنی پارٹی  کی حکومت کی کوئی مدد کی! دونوں باپ بیٹی کا 'دھرنے سے پہلے 'تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی بیان میڈیا پر جلی حروف اور بلند آواز  میں ضرور  دکھائی اور سنائی دیتا تھا۔ دھرنے کے دوران دونوں  مہر بلب رہے! اس خاموشی ' اس  تغافل ' اس بے نیازی 'اس عدم دلچسپی کی ممکنہ...

زندہ درگور بُڑھیا!

بال بکھرے ہوئے تھے۔چہرے پر خراشیں تھیں ۔ٹخنوں سے خون بہہ بہہ کرجوتوں میں جم گیا تھا۔گھٹنے زخمی تھے۔ہاتھوں کی کئی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں ۔چلی تو لنگڑا رہی تھی۔سانس فوراً پھول جاتا تھا۔ مجھے دیکھا تو  رُک گئی۔ اس حال میں بھی آنکھوں سے خیرہ کُن چمک شعاؤں  کی طرح باہر آرہی تھی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  بات کرنا ممکن ہی نہ تھا۔طنز بھرے لہجے میں بولی "تم نے بھی میرا ماتم ہی کرنا ہوگا کرلو!کہیں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جاؤ۔ میں نے اسے بٹھایا۔اور بتایا  کہ میں  اس لیے نہیں ڈھونڈ رہا تھا کہ تمھیں  موضوع سخن بنا کر کالم کا پیٹ بھروں۔میں تو تمھاری سننے آیا ہوں !سب تمھاری بات کرتے ہیں لیکن تمھاری سنتے نہیں!اپنی بات کرتے ہیں اور تمھارے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں !تم بتاؤ!میں سنوں گا کیا اس حال تک تمھیں عسکری مداخلت نے پہنچایا ہے؟ کاش ایسا ہوتا!ایسا ہوتا تو مجھے اپنے بالوں کے بکھرنے کا'دانتوں کے ٹوٹنے کا،گھٹنوں کے زخمی ہونے کا' چہرے کے مسخ ہونے کا رنج تو نہ ہوتا۔مجھے خوشی ہوتی کہ  میں نے اپنے آپ کو ایک مقصد کے لیے' ایک بڑے مقصد کے لیے خرچ کیا  ہے!مگر افسو...

چڑھ جا بچہ سولی رام بھلی کرے گا

چوہدری صاحب کے بچوں نے پڑھنا لکھنا تو تھا نہیں ،ضرورت بھی نہیں تھی۔کھیت،زمینیں ،لمبی چوڑی جاگیر،جس کی پیمائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔گاڑیوں کے بیڑے،اسمبلی کی جدی پشتی ممبریاں ،وزارتیں سب کچھ تو میسر تھاایسے میں کالج، یونیورسٹی کی پڑھائیاں اور پابندیاں کون برداشت کرتا ۔ مگر یہ جو ان کے ہاری ،مولو کا بچہ پڑھائی میں ذرا تیز نکل آیا تو یہ ذرا ٹیڑھا معاملہ تھا۔بدبخت قصبے کے کالج تک پہنچ چکا تھا۔اگر وہاں سے بھی فارغ التحصیل ہو کر  مزید ترقی کرگیا تو چوہدری کے نیم خواندہ بیٹوں کی کیا عزت رہے گی۔ چوہدری صاحب کے زرخیز دماغ نے اس کا حل نکال لیا۔ پیار سے انہوں نے مولو کے بچے کو باور کرایا کہ وہ اس کے ہمدرد، مربی اور سرپرست ہیں اس کے دل میں یہ بات بٹھادی کہ اس کا باپ ہاری سہی مگر ہے تو کسان!کسانوں کی ذات اونچی ہوتی ہے۔اس  لیے کالج میں رعب داب اور ٹھسے سے رہا کرے۔دوسرے طلبا کی اکثریت اس کے مقابلے میں نیچ ذاتوں سے ہے۔مولو کے بچے کی گردن اکڑ گئی۔اس نے کالج میں کھڑ پینچی شروع کردی۔ آہستہ آہستہ کچھ اور  لڑاکے قسم کے طلبہ اس کے دائرہ اثر میں  شامل ہو گئے۔ مار کٹائی کے نتیجے میں  پ...

کوئی ہے جو وسطی پنجاب کو جگائے!

ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے اس ملک کے شہروں کو محاصروں  میں قید کردیا ہے، عوام  کو خانہ جنگی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ  کے بدترین دور سے گزر  رہا ہے۔ ملک کا  وزیراعظم ،وزیراعظم ہونے کا اقرار ہی نہیں کررہا۔اس کے خیال میں اس کا اپنا وزیرعظم کوئی اور ہے۔اس  کی کابینہ کے ارکان کا قبلہ کہیں اور ہے۔دارالحکومت یرغمال بنا ہوا ہے۔حکومت نظر  ہی نہیں آرہی۔ جڑواں شہروں  کے شہری سسک رہے ہیں ،بلک رہے ہیں ،ان کے اعصاب شل  ہوچکے ہیں ، ان کا کاربار تباہ و برباد ہوگیا ہے۔طلبہ  امتحان گاہوں میں نہیں پہنچ  پارہے۔ تاجروں کی دکانیں بند ہیں ۔مسافر ریلوےسٹیشنوں ،بسوں کے اڈوں اور ائیر پورٹوں تک جانے سے قاصر ہیں ۔ کوئی والی وارث نہیں۔ وزراء اپنے محلات میں آرام سے رہ رہے ہیں ۔ کم ہی ہیں ان میں سے جو ہر روز  اپنے دفاتر  میں حاضر ہوتے ہوں ، دوسرے لفظوں میں  یوں کہیے  کہ وہ اس عذاب سے بے خبر ہیں جس سے جڑواں شہروں  کے باشندے گزر رہے ہیں ۔ یہ اذیت ناک صورت حال شریف خاندان کو خوب راس آرہی ہے۔شریف خ...

میاں صاحب کا طرزِ حکومت۔تازہ ترین مثال

میاں محمد نواز شریف کے  عہدِ حکومت میں اداروں کی تباہی کی بات اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اس کا تذکرہ کرنا عبث لگتا ہے۔ دونوں بھائیوں  کو خدا سلامت رکھے 'اس قدر مستقل مزاج ہیں  کہ کسی احتجاج' کسی اعتراض کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔اس کا  ایک بڑا  سبب دو بزرگ ترین اداروں کا بے اثر ہوجانا ہے  یہ دو ادارے جو دوسرے تمام اداروں کی ماں کا درجہ رکھتے ہیں  'پارلیمنٹ اور کابینہ  ہیں 'اگر یہی خاموش ہوجائیں تو عوام کا احتجاج اپنی قدرو قیمت کھو بیٹھتا ہے۔ ان دونوں  اداروں کا گلا سب سے پہلے دبادیا گیا۔ کابینہ ربڑ کی مُہر بن کررہ گئی۔کئی کئی ماہ گزر جاتے تھے کہ میاں  صاحب کے دور میں وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہی نہیں ہوتا تھا ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ  کو وہ اس قابل ہی نہیں گردانتے تھے کہ اس میں آئیں 'اجلاس اٹینڈ کریں اور ارکان کے خیالات سے براہ راست استفادہ کریں ۔پنجاب میں  صورت حال اس سے بھی ابتر  ہے۔ جاتی امرا  کو وزیراعظم کے کیمپ آفس کا درجہ حاصل رہا  ۔ستر کروڑ چار دیواری پر لگ گیا۔ہزاروں  اہلکار وہاں تعینات ہیں تمام جم...

ہم علما کے پیروں کی خاک ہیں

رائے ونڈ میں  عالمی تبلیغی اجتماع کی آمد آمد تھی۔نو نومبر کو مولانا طارق جمیل  جاتی امرا  میں سابق  وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس تشریف لے گئے ۔میڈیا  کی خبروں کے مطابق  انہوں نے وہاں ڈیڑھ گھنٹہ قیام کیا۔اسی  اثناء میں انہوں نے  تین کام کیے۔ اول میاں صاحب کو اجتماع میں  حاضر ہونے کی دعوت دی ۔دوم'ان کی بیمار اہلیہ کی صحت کے لیے دعا کی۔سوم'میاں صاحب کو  جو مشکلات درپیش ہیں ۔ان کے حل کے لیے وظیفہ تجویز  کیا۔  تبلیغی جماعت کے اکابر کا  خواص کے پاس خود چل کرجانا اور اجتماع  میں شرکت کی دعوت دینا ایک معمول کی کارروائی ہےمولانا طارق جمیل  مولانا فضل الرحمٰن  کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور  انہیں بھی شرکت کی دعوت دی۔ تاہم سوشل میڈیا میں جو ردِ عمل ظاہرہوا وہ ایک اعتبار سے منفی تھا۔عوام کی کثیر تعداد نے جو سوال اٹھایا وہ منطقی لحاظ سے ناروا نہ تھا ۔کیا کرپشن کے داغ اوراد وظائف سے دُھل جاتے ہیںَ عوام کو معلوم ہے کہ مولانا طارق جمیل ایک باخبر انسان ہیں ۔اندرون ملک اور  بیرون ملک ہر جگہ تشری...

بیواؤں کی آہ!

عمر پچھتر اور اسی کے درمیان ہوگی۔چہرے کے نقوش اب بھی لطافت کا پتہ دے رہے تھے۔لباس صاف پرانا لگ رہا تھا مگر اجلا۔پاؤں میں ربڑ کے سیاہ جوتے۔ہاتھ میں لاٹھی۔گاڑی سے نکل کر دکان کی طرف جارہا تھا کہ اس نے روکا۔ "یہاں کہیں"مرکزی قومی بچت" کا دفتر نیا نیا شفٹ ہوا ہے۔مجھے مل نہیں رہا۔" میں نے احترام سے جواب دیا ۔"جی مجھے نہیں معلوم 'پوچھ کر بتاتا ہوں۔" دکاندار سن رہا تھا۔اس نے آگے کی طرف  اشارہ کرکے بتایا کہ  چھ سات دکانیں چھوڑ کر دائیں طرف ہے۔عمر رسیدہ خاتون مڑی۔پتہ نہیں کیا ہوا'لاٹھی پھسلی یا پاؤں ٹیڑھا پڑا 'گر پڑی۔وہ تو حسنِ اتفاق تھا کہ  نیچے کچی زمین  تھی ورنہ اس عمر میں فریکچر ہونے کے لیے بہانہ چاہیے۔دکاندار اور میں دونوں آگے بڑھے اور اٹھایا۔خاتون کا سانس بھی یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ کچھ اکھڑ گیا ہو۔دکاندار اندر سے کرسی لے آیا۔بٹھایا پھر پانی کا گلاس  پیش کیا۔اٹھنے لگی تو میں نے کہا آئیے'میں آپ کو مرکزی قومی بچت تک چھوڑ آتا ہوں ۔  اس نے اپنے بڑھاپے اور اکلاپے کی باتیں شروع کردیں ۔یوں کہ  قومی بچت کے دفتر میں داخل ہوئے تو و...

کھڑکیاں سمندر کی طرف کھلتی ہیں

میں تو ایک جھیل ہوں ۔جاڑا آتا ہے تو کونجیں اترتی ہیں ،دور دور سے آئی ہوئی،سائبیریاسے،صحرائے گوبھی کے اس پار سے برف سے، مستقل ڈھکے پہاڑوں سے،آکر میرے کناروں پر بیٹھتی ہیں ، باتیں کرتی ہیں ۔میرے ترسے ہوئے نیلے پانیوں کو اپنی  ٹھنڈی چونچوں  سے بوسے دیتی ہیں ، پیاس بجھاتی ہیں۔پھر  رُت بدلتی ہے۔ وہ ڈاروں کی صورت اڑتی ہوئی واپسی کا راستہ لیتی ہیں ۔ میرے پانی، میرے کنارے انہیں جاتے ہوئے حسرت سے دیکھتے ہیں ،مگر روک نہیں پاتے۔بس پوچھتے ہیں ۔کیا تم سائبیریا واپس جا کر ہمیں یاد کرو گی؟"تم اگلےسرما ضرور آنا ہم یہیں تمھارا انتظار کریں گے" میں تو ایک باغ ہوں اپنے فرش کو اس سبزے سے آراستہ کرتا ہوں جو مخمل  کی طرح ہے۔ روش روش  پھول کھلاتا ہوں  کنج کنج آراستہ کرتا ہوں ۔فوارے چلاتا ہوں ۔نہر کا پانی باغ کے راستوں سے گزارتا ہوں ۔پانی میں رنگین مچھلیاں  پالتا ہوں پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں  کہ نرم خنک ہوا چلے۔ٹہنیاں جھومیں  ۔پھول رقص کریں یہ سب کس لیے؟ان بچوں کے لیے جو دن چڑھے باغ میں آتے ہیں  ۔ان پرندو ں کے لیے جو مختلف  رنگوں کے ہیں اور...

دو قومی نظریے پر کلیدی خطبہ گاندھی جی دیں گے

ہمارے دوست معروف دانشور  ،جناب خورشید ندیم تحریر میں کم خواب و پرنیاں جیسے الفاظ  استعمال کرتے ہیں ،گفتگو میں بھی نرم ہیں اور بعض اوقات امیدیں قائم کرنے میں بھی ضرورت سے زیادہ فیاض۔ دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ۔۔ "تدریجاً" یہ ادارہ ایک جدید  مدرسہ بنتا چلا گیا۔ زیادہ سے زیادہ مخصوص مذہبی  تعبیرات کا تبلیغی مرکزیا ایک مذہبی  سیاسی جماعت کے وابستگان کے لیے روزگار کا وسیلہ۔ علمی کم  مائیگی کی ایک وجہ  یہ رہی کہ یہاں علمی تحقیق کے لیے حوصلہ افزا فضا میسر نہ ہوسکی، ادارہ تحقیق  اسلامی کو  یونیورسٹی سے وابستہ کردیا گیا۔مگر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذکر پر پابندی  رہی،جن کی علمی وجاہت کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں  اب یونیورسٹی نے سر سید احمد خان کو دو روزہ کانفرنس کا موضوع بنایا  تو میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا" جس یونیورسٹی کو خورشید  ندیم صاحب جدید مدرسہ کہہ رہے ہیں ،وہ مدرسہ تو ہوسکتا ہے، جدید ہرگز نہیں ۔کئی دارالعلوم اکٹھے کئے جائیں تو  تنگ نظری  اور مخ...

کتاب فروش اور میں !

کتاب فروش سے اردو کی بی اے کی کتابیں طلب کیں اور وضاحت کی کہ اردو کے مضمون کے لیے بی اے کی وہ کتابیں درکار ہیں جو خواتین کے لیے ہیں ،اس نے  کتابوں  کا  ایک  سیٹ دیا، اب اردو کی وہ کتابیں مانگیں جو بی اے میں مردوں کے لیے مخصوص ہیں ، اس نے کتابوں کا ایک اور سیٹ دیا۔دونوں کھول کردیکھے تو  ایک سے ہی تھے۔ وہی کتابیں اور اتنی ہی کتابیں ۔ اب ایم اے اردو خواتین کے لیے   کتابیں مانگیں  ،تو ایک سیٹ کاؤنٹر پر رکھ دیا گیا۔ پھر ایم اے اردو مردوں کے لیے کتابوں کا مطالبہ کیا۔ کتاب فروش  نے ایک اور سیٹ دے دیا۔ ان دونوں سیٹوں کو کھول کردیکھا تو  یہ بھی ایک جیسے ہی تھے۔ پوچھا ،خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ کتابیں کیوں نہیں ؟ ۔دنکاندار پڑھا لکھا تھا۔ عجیب دلیل دی۔ کہنے لگا  اردو شاعروں  ادیبوں  نے ادب  تخلیق کرتے وقت یہ تخصیص کب کی تھی کہ یہ تخلیق عورتوں کے لیے ہے اور  فلاں مردوں کے لیے؟۔ اب آپ بتائیے فسانہ ء  آزاد یا دیوان غالب یا باغ و بہار کیا  صرف مردوں کے لیے لکھے  گئے  ہیں ؟ یا صرف عو...