واہ !سردار مہتاب عباسی صاحب ،واہ!
یہ صبح ساڑھے تین بجے کا وقت تھا،ابو ظہبی کے ائیر پورٹ پر پاکستان کی قومی ائیر لائن کا جہاز پشاور جانے کے لیے پر تول رہا تھا،غالب تعداد ان پاکستانیوں کی تھی جو محنت مزدوری کرنے آئے تھے،ان کا تعلق خیبر پختونخوا کی بستیوں اور قریوں سے تھا۔۔ ساڑھے سات بجے جہاز پشاور کی سرزمین پر اترا ،مسافر باہر نکلے ،جنگلے کے اس طرف ان کے ماں باپ بیوی بچے دوست احباب بے تابی سے انتظار کررہے تھے، گھومتی ہوئی پٹی پر سامان آجارہا تھا۔،لوگ اپنا اپنا آئٹم پہچانتے اور ،بیگ اس صندوق اٹیچی کیس یا کسی بھی اور شکل میں ، اٹھاتے ،ٹرالی پر رکھتے اور باہر کا رخ کرتے۔ پھر پٹی چلنی بند ہوگئی، سامان ختم ہوگیا، تاہم تقریباً اٹھارہ بیس مسافر اب بھی اپنے سامان کا انتظار کررہے تھے، وہ کھڑے رہے، ایک دوسرے سے پوچھتے رہے، سول ایوی ایشن کے کچھ ورکر نظر آرہے تھے ،ان سے پوچھا مگر وہ کیا بتاتے، پھر ان میں سےایک دو نے ہمت کی،پی آئی اے کے ایک اہلکار سے پوچھا ،اس نے نہایت اطمینان سے جواب دیا، بھائی یہ جہاز چھوٹا ہے،...