اشاعتیں

اکتوبر, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

واہ !سردار مہتاب عباسی صاحب ،واہ!

یہ صبح ساڑھے تین بجے کا وقت تھا،ابو ظہبی کے ائیر پورٹ پر پاکستان کی قومی ائیر لائن کا  جہاز پشاور  جانے کے لیے پر تول رہا تھا،غالب تعداد ان پاکستانیوں کی تھی جو محنت مزدوری کرنے آئے تھے،ان کا تعلق خیبر پختونخوا کی بستیوں اور قریوں سے تھا۔۔ ساڑھے سات بجے جہاز پشاور کی سرزمین پر اترا ،مسافر باہر نکلے  ،جنگلے  کے اس طرف ان کے  ماں باپ بیوی بچے دوست  احباب  بے تابی سے انتظار کررہے تھے، گھومتی ہوئی پٹی پر سامان آجارہا تھا۔،لوگ اپنا اپنا آئٹم پہچانتے اور ،بیگ اس  صندوق  اٹیچی کیس  یا کسی  بھی اور شکل میں ، اٹھاتے ،ٹرالی پر رکھتے اور باہر کا رخ کرتے۔ پھر پٹی چلنی بند ہوگئی، سامان ختم ہوگیا، تاہم تقریباً  اٹھارہ بیس  مسافر اب بھی  اپنے سامان کا انتظار کررہے تھے، وہ کھڑے رہے، ایک دوسرے  سے پوچھتے رہے، سول ایوی ایشن کے کچھ  ورکر نظر آرہے تھے ،ان سے پوچھا مگر وہ کیا بتاتے، پھر ان میں سےایک  دو نے ہمت کی،پی آئی اے  کے ایک اہلکار سے پوچھا ،اس نے نہایت اطمینان  سے جواب دیا، بھائی یہ جہاز چھوٹا ہے،...

ہم کس عہد میں جی رہے ہیں !

دکھ کی بات تھی  اور دل میں خؤشی بھی انگڑائی لے رہی تھی، خؤشی اس لیے کہ  دوست گرامی رؤف کلاسرہ کا پرسوں والا کالم پڑھ کر  بے اختیار  اقبال کا شعر یاد  آگیا۔۔۔ گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں ! پنجاب حکومت جس طرح  ٹامک ٹوئیاں  مار رہی  ہے،اس کی  وارننگ پہلی بار  اس کالم نگار نے اس وقت دی تھی  جب صوبے  کے حکمران اعلیٰ نے قصور ہسپتال  کا "معائنہ" کیا تھا۔ کچھ کو معطل  کیا،کچھ کو  جھڑکیاں دیں ، پھر کچھ عرصہ  بعد ایک  بار پھر "معائنہ "کیا ۔ مگر نتیجہ صفر نکلا۔ 13 اگست  2016 کو  ایک معروف  و مشہور انگریزی  معاصر  نے شہ سرخی جمائی۔ "قصور  ڈسٹرکٹ  ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ،چیف منسٹر کے  معائنوں  کے باوجود  کوئی تبدیلی نہ آئی"  ملازموں نے بتایا کہ سٹاف مریضوں کو  پرائیویٹ ہسپتال جانے کا  مشورہ دیتا ہے،ٹریفک پولیس تک کے  مریض  کو اٹنڈ نہ کیا گیا، ڈاکٹر غائب رہتے ہیں ،محکمہ صحت  کے ای ڈی  او ن...

میری کسی سے دشمنی ہے نہ رشتے داری۔

میری شرجیل میمن  صاحب سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے، میں نے تو انہیں  دیکھا تک نہیںِ،میرا اور زرداری صاحب کا کیا مقابلہ، مگر میں جب کائرہ صاحب اور فرحت اللہ بابر جیسے   نسبتاً صاف ستھرے حضرات کو آنکھیں  بند کرکے مدافعت کرتے دیکھتا ہوں تو  افسوس ہوتا ہے کہ  ،کیا ایک پارٹی کی رکنیت  کا یہ مطلب  ہے کہ سفید کو سفید اور سیاہ کوسیاہ نہ کہا جائے؟۔ میرا مریم صفدر صاحبہ سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ہماری رشتہ داری ہے نہ مشترکہ  جائیداد  کا تنازع۔ہمارے کھیت بھی ایک جگہ نہیں ، کہ درمیان میں پڑنے والی  پگڈنڈی  کا مسئلہ عدالت میں جائے۔ہماری حویلیاں ایک دوسرے سے متصل نہیں  کہ میرے پرنالے  کا پانی ان کے صحن میں یا ان کے پرنالے کا پانے   میرے آنگن میں گر رہا ہو۔ میرا ایسا کوئی  ارادہ  نہیں کہ  میاں نواز شریف  صاحب کے بعد پارٹی  کی زمام  سنبھال لوں یا وزیر اعظم  بننے کی کوشش کروں ۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں  کہ وہ پاکستان  کا  بڑا بننے کی کوشش نہ کریں ، وہ جب نصیحت  کرتی ہیں ک...

بے نشانوں کا نشاں!

لاہور جب بھی جانا ہو،مین بلیوارڈ پر واقع کتابوں کی ایک دکان میں کچھ وقت ضرور بسر ہوتا ہے ۔، اس کی ایک بڑی وجہ،نواسی زینب خان اور اس کے دونوں چھوٹے  بھائیوں ہاشم خان اور  قاسم خان کی طرف سے شدید انتظار بھی ہوتا ہے کہ نانا ابو آئیں گے تو بک شاپ پر لے کر جائیں گے۔ یہ بچے وہاں گھنٹوں کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ، ہر بار  انہیں ایک ایک یا دو دو کتابیں نانا ابو کی طرف سے خرید کر دی جاتی ہیں ، یہ آٹھ آٹھ دس دس  کتابیں منتخب کرتے ہیں ، جن میں سے نانا ابو  تین کتابیں چنتے ہیں ، ایک اضافی  کشش بک شاپ میں واقع اس چھوٹے سے کافی ہاؤس کی وجہ سے بھی ہے، جہاں سے کتابوں کے ان ننھے شائقین کو  چپس کے پیکٹ  اور جوس کے ڈبے  لے کر دیے جاتے ہیں، انہیں وہاں سے نکال کر واپس لے آنا بڑآ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ان کا بس چلے تو رات وہیں کتابوں کے بیچ گزار دیں ۔ گزشتہ مئی جانا ہوا تو وہاں ایک کتاب پر نظرپڑی"بے نشانوں کا نشاں "۔۔۔ مصنف کا نام  دیکھا تو  مظہر محمود شیرانی، تھا۔ کتاب کو الٹا پلٹا تو معلوم ہوا کہ مشہور محقق  حافظ  محمود شیرانی ...

پنجاب : ناکامی کے اسباب!

پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جس المناک  صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں ،اس کاسنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے،نہ کہ ان کی بھد اڑانے کی ۔ یہ صورتحال المناک ہونے کے ساتھ ساتھ عبرتناک بھی ہے،پہلےرائے ونڈ  کے ہسپتال  میں ایک حاملہ  عورت نے بچے کو جنم دیا، اور پہلا بچھونا  جو اس نے  دنیائے آب و رنگ  میں  اس نومولود  کو نصیب ہوا  فرش خاک کا تھا، ابھی "پنجاب سپیڈ" کے  اس نمونے  کی گونج فضآ میں تھی  کہ گنگا رام ہسپتال میں ایک اور نومولود  ماں کے جسم  سے الگ ہوا اور راہداری  میں ہسپتال کے سربراہ کے دفتر کے عین سامنے  زمین پر  لیٹ  گیا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کی طرز پر بنائی گئی  "کمپنیوں " کی کارکردگی  کا سکینڈل  منظر عام پر آگیا، اور وزیر اعلیٰ  نے ان کمپنیوں  کے کئی  سربراہوں کو یکے بعد دیگرے  معطل کردیا ۔ وزیر اعلیٰ کی مثال اس عورت کی سی ہے جو ہنڈیا چولہے پر چڑھاتی ہے، نیچے آگ  جلاتی ہے اور چمچ ہلانے لگ جاتی ہے، کافی دیر کے بعد  جب وہ ہنڈیا نیچے ات...

‫نیک نیتی سے پیش کی جانے والی ایک تجویز!‬

‫ ‬ ‎‫رضا شاہ ماژندران کے ایک ضلع "سوادِ کوہ"میں پیدا ہوا ،ماں جارجیا کی مسلمان مہاجر تھی، باپ کا نام عباس علی خآن تھا جو فوج میں میجر تھا ۔ اس کا انتقال ہوا تو رضا شاہ مشکل سے آٹھ ماہ کا تھا، بیوہ ماں اپنے بھائی کے گھر تہران منتقل ہوگئی جلد ہی اس نے دوسری شادی کرلی اور بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کردیا ۔ماموں نے بچے کو ایک دوست کے ہاں بھیج دیا جو فوج میں افسر تھا ۔ رضا شاہ سولہ سال کا ہوا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔‬ ‫ ‬ ‎‫ ایران پر اس وقت خاندان قاچار کی بادشاہت تھی، رضا خان نے مشین گن چلانے کی خصوصی مہارت حاصل کرلی۔ پہلے کپتان اور پھر کرنل ہوا۔پھر بریگیڈئر بنا دیا گیا۔قسمت رضا خان کا ساتھ دے رہی تھی ۔1917 کا بالشویک انقلاب آیا تو روسیوں کی نظر تہران پر تھی، ادھر برطانیہ کو فکر تھی کہ روسی جنوب کی طرف آئے تو ہندوستان خطرے میں گِھر جائے گا ۔رضا خا ن نے برطانیہ کی شہہ پر چار ہزار فوجیوں کے ساتھ تہران پر قبضہ کرلیا ، نئی حکومت بنی تو رضا خآن کمانڈر ان چیف بھی بنا اور وزیر جنگ بھی بنا۔برطانوی اسے اسلحہ دے رہے تھے،تہران سے برطانوی سفارت خانہ اس کے بارے میں مثبت رپوٹیں بھیج ر...

خوراک کا عالمی دن

یہ واشنگٹن کا ایک ریستوران تھا گاہک آجارہے تھے -کچھ کھانے میں مصروف تھے،ایک کونے میں پاکستان سے آئے ہوئے اعلیٰ سطح کے وفد کو عشائیہ دیا جارہا تھا ،عشائیہ کیا تھا؟پہلے سب کو ایک ایک پلیٹ میں سلاد پیش کیا گیا ،اس کے بعد مچھلی،اصل کھانا یہی تھا ، آخر می میٹھا تھا ، ہر مہمان کو اختیار تھا کہ چاکلیٹ لے یا پنیر کا کیک، آپ کا کیا خیا ل ہے،واشنگٹن سے وفد آئے تو پاکستان میں اس کا عشائیہ اسی طرح کا ہوگا؟ ہم میں سے اکثر کو معلوم ہے کہ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے وا)اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، جو عالمی خوراک سے متعلق ہے۔ 1979میں ایف اے او نے فیصلہ کیا کہ سولہ اکتوبر کا دن عالمی یومِ خوراک کے طور پر منایا جائے گا ۔ہر سال اندازہ لگایا جاتا ہے کہ زیادہ ضرورت کس پہلو کی ہے، اس خاص پہلو کو سامنے رکھ کر اس سال کا مرکزی خیال یا موضوع چنا جاتا ہے۔پھر اس کی تشہیر کی جاتی ہے ،اور اس سال کا عالمی یوم خوراک اسی حوالے سے منایا جاتا ہے، کچھ برسوں کے موضوعات یا مرکزی خیال دیکھیے۔۔۔ 2001،غربت کم کرنے کے لیے بھوک کم کیجئے! 2002،پانی،خوراک کا ذریعہ پانی ہے! 2003،بھوک کا مقابلہ عالمی اتح...

ککی اور میں

جنوری 2013 کی ایک ٹھٹھرتی شام تھی،جب ڈین شمالی فرانس سے جنوبی فرانس کے ساحلی شہر گراسے پہنچی،اسکے ساتھ اس کا بہترین دوست دس ماہ کا بلا ککی تھا ۔ ڈین شاعرہ تھی اور آرٹسٹ ،جہاں کام مل جاتا وہاں چلی جاتی ۔مستقل قیام نارمنڈی میں تھا جو فرانس کا شمالی علاقہ ہے۔اگر نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسے جنوب مشرق سے اور نارمنڈی شمال مغرب میں یعنی دونوں مقامات کے درمیان جتنا زیادہ سے زیادہ فاصلہ فرانس کے طول و عرض کے حساب سے ممکن ہے۔اتنا ضرور ہے۔ گر اسے میں ڈین نے تین ماہ کے لیے ہوٹل میں کمرہ لے لیا ، ککی کا زیادہ وقت کمرے ہی میں مالکن کی معیت میں گزرتا تھا۔بہت دنوں بعد ایک دن ڈین کو خیال آیا کہ ہر وقت کمرے میں بند رہ رہ کر ککی بور ہو رہا ہوگا چنانچہ اس نے اسے باہر نکالا اور باہر چھوٹے سے صحن میں چھوڑ دیا ۔ بدقسمتی انتظار کررہی تھی،ککی وہاں سے گم ہوگیا ،یہ مارچ کا ساتواں دن تھا ۔ ڈین پر قیامت گزر گئی،روتی اور ککی کو ڈھونڈتی تھی،مقامیڈ اخبارات میں اشتہارات دیے ، گلی گلی پوسٹر لگائے۔ بینر نصب کرائے ۔ ہوٹل والوں نے بھی پوری ہمدردی کا اظہار کیا ، مگر ککی نے نہ ملنا تھا،نہ ملا ۔اب ڈین کا قیام ...

‎وسیلے غیب کے لیکن ہمارے ہاتھ میں ہیں

‎وزیر اعلیٰ اگر برا نہ مانیں اور کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس جائیں تو کیا عجب اس اذیت سے چھٹکارا پا لیں، جس میں وہ مبتلا ہیں،گرسنگی سے تنگ آئے ہوئے قلاش نےچاند ستارو ں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ‎بابا مجھے تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں۔۔  ‎وزیر اعلیٰ کے اعصاب پر عمران خان سوار ہیں۔ لگتا ہے عمران خان کی لیڈری کی چمک دمک قائم ہی اسی لیے ہے کہ شہباز شریف صاحب اسے ہمیشہ خبروں میں رکھتے ہیں۔ ‎"جو پشاور میں کچھ نہ کرسکے،ہمارے منصوبوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں " ‎"منافقت چھوڑو،اشتہار بازی سے قوم کو گمراہ نہ کرو" ‎ "مخالفین کو ڈر ہے اورنج ٹرین بن گئی تو انہیں لاہور سے ووٹ نہیں ملیں گے" ‎"نیازی صاحب کو جھوٹے الزامات کا جواب دینا پڑے گا" ‎"اپنے صو بے میں صحت عامہ ٹھیک کر سکے نہ میٹرو ٹرین" ‎یہ سرخیاں تو پرنٹ میڈیا کی ہیں،عارضے کا اصل رنگ دیکھنا ہو تو ٹی وی پر بولتے سنیے،تین چار دن پہلے ایک اینکر پرسن انٹرویو لے رہا تھا ،بیچارہ بار بار کوشش کرتا کہ وزیر اعلیٰ اس کے سوالوں کے جواب دیں مگر سوئی تھی کہ نیازی صاحب پر اٹکی ہوئی تھی، بالآخ...

جناب جسٹس جاوید اقبال !

‎سرسبز و شاداب رہیے، ‎ہریالی آپ کے گرد بادِ نسیم کے جھونکو ں سی رقص کرے،  ‎جہاں جائیں جھومتی شاخیں، خوشبو چھڑکتے پھول استقبال کریں،  ‎دعا کا یہی برگِ سبز تحفہ درویش ہے،اور ذرا سی عرضگزاری بھی جو مسندِ انصاف کے سامنے جہاں آپ تشریف رکھتے فرما ہیں،دست بستہ کھڑے ہو کر،کرنی ہے۔۔ ‎اس تنگدلی پر تاسف کا اظہار بھی کرنا ہے جو اہلِ دانش نے اور اربابِ نشر و اشاعت نے دکھائی ہے، ان کا کہنا کہ آپ نے ماضی میں کوئی طوفان انگیز یا حشر برپا کردینے والا فیصلہ نہیں کیا، قرین انصاف نہیں، معاملے کا اصل پہلو یہ ہے کہ آپ نے کوئی ایسا فیصلہ بھی صادر نہیں کیا جس سے آج ندامت ہو اور جس کا دفاع کرنا پڑے،تیس عشرو ں سے زیادہ مدت پر محیط ایک باعزت عرصہ کارکردگی آپ نے بسر کیا ہے، اس میں کیا شک ہے کہ نشیب و فراز زندگی کا جزو لاینفک ہیں،ہمیشہ ایک معیار پر تو اقطاب اور بطال بھی قائم نہ رہ سکے، جیسا کہ سعدی نے فرمایا۔۔۔ ‎یکی پرسید آن گم کردہ فرزند ‎کہ ای روشن گہر پیرِ خرد ‎زمصرش بوئی پیراہن شنیدی ‎چرا در چاہ کنعانش ندیدی ‎بگفت احوال ِ ما برق ِ جہان است ‎دمی پیدا و دیگر رم نہان است ‎گہی بر...