اشاعتیں

ستمبر, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

فرض کیجئے ہمارے جسم شفاف ہوتے

شام ڈھلتی،رات کا دروازہ کھلتا تو دوستوں کی آمد شروع ہو جاتی،جام کھنکنے لگتے، ایک صراحی مے کی خالی ہوتی تو دوسری آجاتی،ہلکا ہلکا سرور،تیز نشے میں تبدیل ہوجاتا،پھر راگ رنگ کا دور آغاز ہوتا۔ موسیقی کی تانیں ابھرتیں اور سارے ماحول پر چھا جاتیں۔  رات بھر محفلِ رقص و سرور گرم رہتی،تھرکتے پیر وں اور اونچے سُروں کی آوازیں گھر کی حدود پار کرکے ارد گرد چھا جاتیں،صاحبِ خانہ پر کیفیت طارہ ہوجاتی اور وہ بلند آواز سے گاتا۔۔ اضا عونی و ای فتی اضا عوا لیوم کریھۃ و سداد  ثغر مجھے ان لوگوں نے ضائع کردیا اور کیسا جوان انہوں نے ضائع کردیا،جو لڑائی کے روز اور سرحد کی حفاظت کے وقت کام آتا۔   پڑوس میں جو صاحب رہتے تھے وہ رات بھر مطالعہ،تصنیف و تالیف،عبادت و تلاوت میں مصروف رہتے، یہی ان کا معمول تھا،اذکار و وظائف  یا پھر  تحقیق  و تصنیف، ایک دنیا ان سے مستفید ہورہی تھی، سینکڑوں ہزاروں  شاگرد،ایک اشارہ کردیتے تو راگ رنگ کیا،راگ رنگ کرنے والے ہی نظر نہ آتے،مگر پڑوس ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، برداشت کرتے اور اپنا کام کرتے رہتے۔  ایک را...

سیاسی پارٹیوں کے کھرب پتی مالک

‎سیاستدانوں کے دوغلے پن پر غور کیجئے تو گرہ کھل جاتی ہے کہ عام شہری کیو ں کہتا ہے کہ "اس سے تو مارشل لاء ہی بہتر ہے"،دوغلا پن!منافقت!اس قدر واضح اور برہنہ کہ ہنسی آتی ہے، اور رونا بھی، کیا اخلاقی پستی کا اس سے بدتر مظاہرہ ممکن ہے؟۔۔۔ ‎ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پارٹی گائیڈ لائن نہیں ملی، دوسری طرف کہتے ہی کہ سعد رفیق نے کہا کہ آپ کی کمانڈ سے بات ہوگئی ہے، ووٹ ہمیں دینا ہے، گویا آپ بچے ہیں کہ فوراً بات مان لی، پارٹی نے گائیڈ لائن نہیں دی تو فاروق ستار،میاں عتیق کیخلاف ایکشن کیسے لے سکتے ہیں؟۔۔میاں عتیق یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑے میں مرحوم کے ان پر احسانات تھے، ساتھ ہی وہ عدالتی فیصلے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور دلیل وہی ہے،جو مسلم لیگ نون کی ہے،ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ ووٹ ذاتی حیثیت میں دیا،پارٹی کیساتھ مخلص ہوں، پنجابی میں کہتے ہیں کہ صدقے جاواں تے کم نہ آواں، یعنی زبانی طور پرقربان ہو سکتا ہوں لیکن یہ توقع مت کیجئے گا کہ کام بھی آؤں گا۔ ‎اب حضرتِ واعظ کی طرف آئیے، مولانا سراج الحق اپنی پارٹی کی مرکزی مجلس ِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے ک...

خدا کے لیے ان فیکٹریوں کو بند کیجیے

​ ‎جاپان کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو یہ جنوب مغرب سے شمال کی طرف بڑھتی ہوئی لمبوتری سی شکل ہے،شما ل مشرق کے آخری کنارے پر واقع جزیرے کا نام ہکیڈو ہے۔اس دور افتادہ جزیرے پر،مزید دور افتادہ ایک جگہ ہے جس کا نام کامی شراتا ہے۔یہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ہے،ریل یہاں رکتی تھی،،2012میں ریل کمپنی نے نوٹ کیا کہ مسافروں کی تعداد یہاں تقریبا" صفر ہے، یہاں تک ریل کا آنا اور پھر واپس جانا نِرا گھاٹے کا سودا ہے،کیوں نہ یہ ریلوے اسٹیشن بند کردیا جائے،ریلوے کمپنیوں کے لیے اس طرح کے فیصلے معمول کی کارروائی ہیں۔چنانچہ انتظامیہ نے متعلقہ عملے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی،رپورٹ میں بتایا گیا کہ کامی شراتا کے اسٹیشن پر صرف اور صرف ایک لڑکی آتی ہے،صبح ٹرین پر سوار ہوتی ہے،سہ پہر کو واپس اترتی ہے۔ مزید تفتیش کی تو پتا چلا کہ یہ لڑکی کانا کسی دوسرے قصبے میں ٹرین کے ذریعے سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے، ٹرین بند ہو گئی تو اس کا جانا ناممکن ہو جائے گا۔ کمپنی نے فیصلہ کیا کہ جب تک لڑکی اپنی پڑھائی مکمل نہیں کر لیتی،ریل سروس بند نہیں کی جائے گی -تین سال - ۔ ‎جی ہاں۔۔پورے تین سال ریل اس اسٹیشن پر صرف کا...

بلبلے جہاں پناہ بلبلے

‎پنجاب حکومت اپیل دائر کررہی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اخفا ہی میں رکھی جائے۔یہ دنیا کی عجیب و غریب درخواست ہوگی،لوگ درخواستیں اس لیے دیتے ہیں کہ فلاں خفیہ اطلاع بہم پہنچائی جائے،یہ کوشش کر رہے ہیں کہ رپورٹ پوشیدہ ہی رہے۔کیوں؟ وجہ ظاہر ہے،رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے یہ خائف ہیں،کس چیز کا خوف ہے؟کیا جان کا خوف ہے؟۔۔۔جان کا ہی ہو سکتا ہے،عزت تباہ ہونے کا خوف تو بے معنی ہے،ہر خاص و عام کو پتا ہے کہ عزت کس شمار میں ہے۔ ‎اصل بات یہ ہے کہ کیا رپورٹ خفیہ رکھنے سے خون معاف ہو جائے گا؟۔۔خون اس دنیا کی بے زبان چیزوں میں سے واحد چیز ہے جو ایک مقررہ وقت پر بول اٹھتی ہے،اور اتنا اونچا بولتی ہے کہ کانوں کےء پردے پھٹ جاتے ہیں،وہ جو قرآن میں "صیحہ "کا لفظ استعمال ہوا ہے،خون کی چیخ اس سے کیا کم ہوگی،شہباز شریف صاحب برسرِ اقتدار ہیں،برسرِ اقتدار رہتے ہوئے انسان ایک خواب آگیں کیفیت میں رہتا ہے،وہ صحیح دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے،ارد گرد سے بے خبر ہوتا ہے،باخبر ہوتابھی بے تو بےنیازی آڑے آجاتی ہے، اقتدار کا تخت ہوا میں اڑتا ہے،نیچے دیکھیں تو مکان ماچس کی ڈبیہ جتنے نظر آتے ہیں،شاہراہیں لک...

نفیریاں بجانے والیاں

کیا بخت ہے اس علاقے کا! پیدائش ان کی غزنی میں ہوئی،غزنوی سلطنت خود بھی ان دنوں وسیع و عریض تھی،پھر وہ اس سے باہر بھی نکلے،بغداد گئے،کچھ وقت نیشا پور بسر کیا۔جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا،دمشق گئے،یہ اس وقت کی معلوم دنیا کے بڑے بڑے مراکز تھے،مگر اس علاقے کا بخت کہ آخر کار لاہور آئے،اور ان کا مزار لاہور کے اس خوش بخت علاقے میں بنا،یہ مزار جو مرجع خلائق ہے،شہر کی سب سے بڑی،سب سے محترم شناخت ہے،شناخت کیا ہے،شہر پر اس سائبان کا،اس چھتنار کا سایہ ہے- جی ڈبلیو لائٹنر ہنگری میں پیدا ہوا،آٹھ سال کی عمر میں قسطنطنیہ آیا۔دس سال کا ہوا تو ترکی اور عربی زبانوں کا ماہر ہوچکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جنگ کریمیا میں انگریزوں کی طرف سے مترجم اور ترجمان مقرر ہوا۔23برس کی عمر میں کنگز کالج لندن میں عربی اور مسلم لاء کا فل پروفیسر تعینات ہو چکا تھا۔کُل پچاس کے قریب زبانوں پر اسے مہارت حاصل تھی۔ اس علاقے کی قسمت کہ لائٹنر یہاں آگیا۔شہرہ آفاق گورنمنٹ کالج کے لیے اسی علاقے کو منتخب کیا گیا۔یہی پروفیسر لائٹنر اس کالج کا پرنسپل مقرر ہوا۔ابتدا میں اس کالج کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا۔اس ...

-‎شہری شعور؟کون سا شہری شعور؟

‎بات چار روپے کی نہیں،بات یہ ہے کہ کوئی زبردستی ایک روپیہ یا ایک پیسہ بھی کیوں رکھے،کسی نے لینا ہے تو مانگ کر لے،سو روپیہ دیں گے،استطاعت ہوئی تو ہزار بھی دیں گے۔دس ہزار بھی! ‎مگر سینے پر پاؤں اور گلے پر ہاتھ رکھ کر ایک روپیہ بھی چھینے گا تو نہیں دیں گے۔ ‎پانی کا بِل تھا،رقم زیادہ نہ تھی،ملازم کو دیا کہ محلے کے بینک میں جاکر جمع کروا آئے،محلہ تو نہیں کہنا چاہیے،رہائشی کالونی ہے،نظم و ضبط اور قائدے قانون والی،ملازم جمع کرا آیا،کہنے لگا کہ بنک کلرک نے پیسے واپس کیے،نہ کچھ بولا،بقیہ چار روپے مانگے تو ادائے بے نیازی بلکہ کچھ کچھ رعونت سے کہنے لگا کہ ٹوٹے نہیں ہیں میاں۔۔ ‎اس نے آکر بتایا تو کالم نگار کا شہری شعور پوری طرح بیدار ہو گیا، یوں کہیے کہ بھڑک کر بیدار ہوا،گھر والی کہتی ہے کہ بیرون ملک جتنا عرصہ رہتے ہو آرام سکون سے رہتے ہو،یہاں آئے دن کسی نہ کسی سے جھک جھک کررہے ہوتے ہو،فلاں نے وعدہ پورا نہیں کیا،فلاں وقت پر نہیں پہنچا،فلاں نے کہا تھا صوفہ پرسوں مرمت ہو جائے گا،پرسوں تو کیا،تین بعد جواب ملا کہ،جی بیمار ہو گیا تھا،بھائی بیمار ہوگئے تھے تو فون کردیتے۔وہ جی میں نے کہا کہ فون...

صبح گیا یا شام گیا۔

غریب الوطنی اور ایسی کہ آسمان آنسو بہاتا تھا، ایرانی شاہ طہماسپ نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی مگر مہمان جب کسی غرض کے لیے آیا ہو تو ایک پردہ ایک حجاب درمیان میں ضرور ہوتا ہے۔ایسا ہی پردہ ایسا ہی حجاب شاہ طہماسپ اور شہنشاہ ہمایوں کے درمیان تھا،ایک مہمان تھا،دوسرا میزبان۔۔ایک کا ہاتھ لینے والا تھا،دوسرے کا ہاتھ دینے والا،روایات بتاتی ہیں کہ میزبان کی طرف سے کوشش تھی کہ مہمان مسلک بدل لے،جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو یہ کوشش ہوئی کہ کم از کم ایک مخصوص ٹوپی ہی پہن لی جائے۔ ایسا ہی ایک اضطراب بھرا دن تھا،دونوں بادشاہ شکار کے لیے نکلے،ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا فیصلہ ہوا،قالین بچھایا گیا،میزبان پہلے بیٹھا،ہمایوں بیٹھنے لگا تو صورتِ حال یوں تھی کہ اگر وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو ایک زانو قالین سے ہٹ کر زمین کے ننگے فرش پر آتا۔ہمایوں کے ایک گارڈ نے بجلی کی سی تیزی دکھائی،خنجر سے ترکش پھاڑا اور اس کا کپڑا اناً فاناً یوں زمین پر بچھایا کہ زانو اس پر آیا۔ طہماسپ یہ سب دیکھ رہا تھا،بہت متاثر ہوا۔۔کہنے لگا،ایسے ایسے جاں نثار اور پھر بھی سلطنت چھن گئی۔۔۔کیوں؟ ہمایوں نے و...

یہ عذر تراشنے والے پرندے!

‎ ‎حضرت خواجہ فرید الدین عطار کے والد گرامی حضرت قطب الدین حیدر کے مرید تھے،جو مشہور مجذوب بزرگ تھے،خود خواجہ صاحب کو فقیر ی کا خرقہ حضرت مجددالدین بغدادی سے حاصل ہوا۔ ‎آپ نے طویل عرصہ سیاحت میں گزارا،حجاز،شام،مصر،خراسان،"(آج کا افغانستان اور کچھ حصہ ایران کا")وسط ایشیاء،چین اور ہندوستان کی سیر کی۔آخر میں نیشا پور مقیم ہوگئے،اس زمانے کا نیشا پور ایسا ہی تھا جیسا آج کا لندن اور پیرس یا نیویارک،زمانے بھرکے علوم و فنون کا مرکز، ‎انتالیس سال تک خواجہ صاحب صوفیا اور بزرگوں کے اقوال جمع کرتے رہے،مگر کسی حکمران کا قصیدہ لکھنا گوارا نہ کیا۔کم درجے کے گھسیارے اور پھسڈی شاعر درباروں میں قصیدے پیش کرکے جاگیریں اور انعامات وصول کر رہے تھے،مگر آپ اَکلِ حلال کے راہ راست سے ایک انچ نہ ہٹے،کیمسٹ تھے،عطریات اور خوشبوئیں بھی فروخت کرتے تھے، اس زمانے میں عطریات سے منسلک شخص کو عطار کہتے تھے۔ہر عطار دوا فروش بھی ہوتا تھا، میر کا مشہور زمانہ شعر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ‎میر کیا سادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب ‎اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں! ‎روایت ہے کہ ایک دن خواجہ صاحب د...

مسٹر بُکس والے یوسف صاحب چلے گئے!

سب سے پہلے،رات گئے فیس بک پر عقیل صاحب کی پوسٹ پر نظر پڑ ی، یقین نہ آیا کہ چند روز پہلے ہی تو بات ہوئی تھی،وہیل چیئر پر کاؤنٹر کے پاس بیٹھے تھے،گلے ملے تو حسبِ معمول چوما۔ ان کے نمبر پر فون کیا،کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،دو تین ان کے سیلز مینوں کے نمبروں پر جو نئی کتابوں کی اطلاع دینے کے لیے ایس ایم ایس کرتے رہتے ہیں،فون کیے۔۔جواب نہ دارد!بیگم سے خبر شیئر کی تو اس نے اتنی زور سے "ہائے"کی کہ اضطراب میں اضافہ ہوگیا۔دل بار بار کہتا تھا کہ عقیل عباس جعفری کراچی میں ہیں۔ کسی نے انہیں غلط خبر دی ہوگی،پھر کچھ دیر بعد رؤف کلاسرا صاحب کی پوسٹ دیکھی، وہ ایک باخبر صحافی ہیں،اب صحیح معنوں میں خبر کا  impact محسوس ہوا۔دل جیسے مٹھی میں جکڑا گیا،سینے کے اندرگھٹن سی محسوس ہونے لگی، یوسف صاحب چلے گئے؟وہ کیسے ہار گئے؟وہ تو ہار ماننے والے نہیں تھے۔وہ تو دو اجزاء کا مرکب تھے،شکر اور حوصلہ، ہر تکلیف پر شکر ادا کیا اور حوصلہ اتنا بلند رکھا کہ ان سے ملنے والوں کو تعجب ہوتا تھا،کہ یہ انسان ہے یا پہاڑ۔۔۔؟ یوسف صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی،ماہ و سال کی دھند میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا،اصل گپ شپ ان کے...

مغلوں کی نشات ثانیہ

‎بکھر گئے،مغل تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔ ‎کسے معلوم تھا کہ ان کا احیا 2017میں ہوگا۔وسطِ ایشیا میں نہیں!پاکستان میں  ‎زمانے کی چکی چلتی ہے،صدیوں سے حکومت کرتے خانوادوں کو پیس کر رکھ دیتی ہے۔  ‎پیستی جاتی ہے اک اک کو ظہور ‎آسیائے گردشِ لیل و نہار! ‎فرغانہ سے نکلے تو پالکیاں تھیں نہ تخت و طاؤس،گھوڑوں کی پیٹھیں تھیں ننگی سخت پیٹھیں،دشمن آگے بھی،دشمن پیچھے بھی۔ مدتوں سے بابر کو چین سے کھانا نصیب ہوا نہ سونا۔ ‎حالتِ جنگ میں آدابِ خورو نوش کہاں  ‎اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ! ‎ترکی کی زبان کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر مغل فارس کے چبوترے پر چڑھے،ازبکستا ن والے اس ترکی کو ازبک کہتے ہیں۔واہ رے زمانے واہ!تو نے زبانوں کو بھی چھوڑا،ترکی زبان بھی سامراج نے قومیتوں میں تقسیم کردی۔  ‎بنے گا کوئی تو تیغ ِ ستم کی یاد گاروں میں  ‎مرے لاشے کے ٹکرے دفن کرنا سومزاروں میں  ‎وہی ترکی ازبکستان میں ازبک بن گئی۔ ترکمانستان میں ترکمانی،قازقستان میں اور نام،چینی ترکستان یغور،آذر بائیجان میں آذری،رداغستان میں بھی یہی زبان ہے۔شمالی افغانستان کے ازبک ...