فرض کیجئے ہمارے جسم شفاف ہوتے
شام ڈھلتی،رات کا دروازہ کھلتا تو دوستوں کی آمد شروع ہو جاتی،جام کھنکنے لگتے، ایک صراحی مے کی خالی ہوتی تو دوسری آجاتی،ہلکا ہلکا سرور،تیز نشے میں تبدیل ہوجاتا،پھر راگ رنگ کا دور آغاز ہوتا۔ موسیقی کی تانیں ابھرتیں اور سارے ماحول پر چھا جاتیں۔ رات بھر محفلِ رقص و سرور گرم رہتی،تھرکتے پیر وں اور اونچے سُروں کی آوازیں گھر کی حدود پار کرکے ارد گرد چھا جاتیں،صاحبِ خانہ پر کیفیت طارہ ہوجاتی اور وہ بلند آواز سے گاتا۔۔ اضا عونی و ای فتی اضا عوا لیوم کریھۃ و سداد ثغر مجھے ان لوگوں نے ضائع کردیا اور کیسا جوان انہوں نے ضائع کردیا،جو لڑائی کے روز اور سرحد کی حفاظت کے وقت کام آتا۔ پڑوس میں جو صاحب رہتے تھے وہ رات بھر مطالعہ،تصنیف و تالیف،عبادت و تلاوت میں مصروف رہتے، یہی ان کا معمول تھا،اذکار و وظائف یا پھر تحقیق و تصنیف، ایک دنیا ان سے مستفید ہورہی تھی، سینکڑوں ہزاروں شاگرد،ایک اشارہ کردیتے تو راگ رنگ کیا،راگ رنگ کرنے والے ہی نظر نہ آتے،مگر پڑوس ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، برداشت کرتے اور اپنا کام کرتے رہتے۔ ایک را...