ناقہ سوار کی آنکھوں میں ریت پڑ چکی
سینے میں پھانس ہے۔سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔پانی جوں جوں نزدیک ہوتا دکھائی دے رہا ہے سراب کا خوف دامن گیر ہو رہا ہے۔ ناقہ سوار جو عدالت عظمیٰ سے نکلا تھااس کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ،کچھ دیکھ نہیں پا رہا -ایک تنگ سی پگڈنڈی نخلستان کو جا رہی ہے دوسرا راستہ صحرا کی اس وسعت کی طرف لے جا رہا ہے جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں اور ہڈیاں!ناقہ سوار اس دوراہے پر،اونٹنی کو بٹھائے،آنکھیں مل رہا ہے،خلقِ خدا اوپر کا سانس اوپر رکھے نیچے کا نیچے ناقہ سوار کو دیکھ رہی ہے کہ کدھر کا رخ کرتا ہے! زوال کا زمانہ بھی اتنا بے حیا نہ تھا۔میر نے کہا تھا ؎ نیزہ بازانِ مثرہ میں دل کی حالت کیا کہوں ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا جنوب کے مرہٹوں کے لیے ،جو ڈاکوؤں کی طرح شمالی ہند میں دندناتے پھر رہے تھے میر صاحب نے دکھنیوں کا لفظ استعمال کیا ہے،ہم مغربی پنجاب والے جنوب کو دکھن کہتے ہیں اسی سے دکن نکلا۔ بدامنی تھی اتنی کہ شرفا،مرہٹوں کو 'جومانگتے 'دے کر جان چھڑاتے۔ اس ابتری اور حد درجہ پراگندگی کے عہدِ سیاہ میں بھی لچے لقندرے،شرفا کے منہ پڑتے تو کوئی نہ کوئی ٹوکنے والا ہوتا۔مگر،آہ! اس دو...