اشاعتیں

اگست, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ناقہ سوار کی آنکھوں میں ریت پڑ چکی

​ سینے میں پھانس ہے۔سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔پانی جوں جوں نزدیک ہوتا دکھائی دے رہا ہے سراب کا خوف دامن گیر ہو رہا ہے۔ ناقہ سوار جو عدالت عظمیٰ سے نکلا تھااس کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ،کچھ دیکھ نہیں پا رہا -ایک تنگ سی پگڈنڈی نخلستان کو جا رہی ہے دوسرا راستہ صحرا کی اس وسعت کی طرف لے جا رہا ہے جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں اور ہڈیاں!ناقہ سوار اس دوراہے پر،اونٹنی کو بٹھائے،آنکھیں مل رہا ہے،خلقِ خدا اوپر کا سانس اوپر رکھے نیچے کا نیچے ناقہ سوار کو دیکھ رہی ہے کہ کدھر کا رخ کرتا ہے! زوال کا زمانہ بھی اتنا بے حیا نہ تھا۔میر نے کہا تھا ؎ نیزہ بازانِ مثرہ میں دل کی حالت کیا کہوں  ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا  جنوب کے مرہٹوں کے لیے ،جو ڈاکوؤں کی طرح شمالی ہند میں دندناتے پھر رہے تھے میر صاحب نے دکھنیوں کا لفظ استعمال کیا ہے،ہم مغربی پنجاب والے جنوب کو دکھن کہتے ہیں اسی سے دکن نکلا۔ بدامنی تھی اتنی کہ شرفا،مرہٹوں کو 'جومانگتے 'دے کر جان چھڑاتے۔ اس ابتری اور حد درجہ پراگندگی کے عہدِ سیاہ میں بھی لچے لقندرے،شرفا کے منہ پڑتے تو کوئی نہ کوئی ٹوکنے والا ہوتا۔مگر،آہ! اس دو...

ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا۔

پہلے چند سطروں پر مشتمل انگریزی میں لکھا ہؤا یہ خط پڑھیے  ‏Respected sir, ‏I am arrive by passenger train,Ahmadpur station and my belly is too much swelling with jackfruit.I am therefore went to privy.Just i doing the nuisance that guard making whistle blow and train to go off and i am running with lotaah in one hand and dhoti in the next.When i am fall over and expose all my shocking to man and female women on platform.I am got leaved at Ahmadpur station.This too much bad,if passenger go to make dung that damn guard not wait train five minutes for him.i am there fore pray your honor to make big fine on the guard for public sake.Otherwise i am making big report to paper. ‏Your faithful Servent, ‏Okhil Chandra Sen. زبردست انگریزی میں لکھا ہوا یہ خط اوکھیل چند کا ہے جو اس نے جولائی 1909میں ریلوے حکام کو لکھا تھا،اس نے یہ رونا رویا ہے کہ وہ احمد پور ریلوے اسٹیشن پر حوائج ضروریہ کے لیے اترا،ابھی اس کا کام ادھورا تھا کہ ریل چل پڑی،اس نے ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑا،دوسرے سے دھوت...

ایک درد ناک قتل

تبلیغی جماعت کے ایک ستر سالہ رکن کو سوتے میں پھاوڑے سے قتل کردیاگیاہے۔دوسرا شدید زخمی ہے۔  تبلیغی جماعت کے طریقہ کار میں یہ بھی شامل ہے کہ گھر گھر جاکر تبلیغ کی جائے۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے میں مصروفِ عمل اس جماعت کے ارکان کا تعلق کراچی سے تھا۔میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے پروگرام کی رُو سے اس نے سیالکوٹ سے اپنے پروگرام کا آغاز کیا تھا اور چنیوٹ پہنچی تھی،غالباً پروگرام یہ تھا کہ شمال سے روانہ ہو کر،سال بھر میں جنوب تک پہنچا جائے گا۔ گھر گھر دستک دینے کے طریقے کار کے مطابق یہ جماعت اس مکان پر پہنچی جہا ں دو بھائی اکرام اور عمران رہتے تھے۔یہ دونوں بھائی کسی مدرسہ میں پڑھتے تھے۔ یا وہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔بہر طور یہ طے ہے کہ ان کا تعلق دوسرے مسلک سے تھا۔ گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے تبلیغی جماعت کو دیکھ کر ان سے بحث مباحثہ شروع کردیا۔ بات بڑھ گئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیو ں نے اپنے کسی عالم سے بات کی، پھر دونوں نے رات کو آکر حملہ کردیا۔ ایک کو قتل کر دیا دوسرے کو زخمی۔ ہم جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا آغاز شمالی ہند کے علاقے میوات سے ہوا تھا۔ میواتی برائے ...

انسانوں کی ایک قسم۔

خراسانی جب بھی عمرے یا زیارت پر جاتا تو عراقی دوست کے ہاں بغداد میں ضرور ٹھہرتا۔عراقی خوب خاطر مدارت کرتا،دعوتیں منعقد کرتا۔بغداد کی سیر کراتا۔شام کو کشتی میں دجلہ کے نظارے کراتا،خراسانی ہفتوں اس کے ہاں قیام کرتا۔وہ اکثر اپنے دوست کو کہتا کہ کبھی خراسان آنا ہو تو مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع دیجئے۔مگر افسوس!اس علاقے میں نہ آپ کا کاروبار ہے،نہ مقدس مقامات ہیں،تاہم حسرت ہے کہ کبھی آپ غربت کدے پر تشریف لائیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی خوشنودی ء طبع کے لیے کیا کیا کرتا ہوں۔ رَے سے خربوزے منگواؤں گا،نیشا پور کے انگور،سبحان اللہ!بلخ کے بازار وں میں سمرقند کے سیب بکتے ہیں،بہشتی مٹھاس والے۔ہرات سے ایرانی کھجوریں خصوصی طور پر منگواکر پیش کروں گا۔۔برس ہابرس بیت گئے۔عراقی کے لیے خراسان بارہ پتھر باہرتھا۔خراسانی ہر سال آتا رہا،قیام کرتا رہا۔خاطر تواضح ہوتی رہی،اس کے گھوڑے کا بھی خیال رکھا جاتا۔ قسمت نے سمت بدلی،عراقی کو سفر درپیش ہوا،خراسان سے گزر کر اس نے ماوراالنہر کے علاقے میں جانا تھا۔ قافلے سے جدا ہوگیا کہ کچھ روز اپنے دوست خراسانی کے ہاں ٹھہرے گا،آخر کتنی بار حسرت سے خراسانی نے خواہش ظاہر کی ت...

ٹشو پیپر

آپ ریستوران میں کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں،بیرا کپڑے کا بنا ہوا نیپکن لاتا ہے، آپ کھاتے ہوئے اس نیپکن کو اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں۔ تاکہ کھانے کے ٹکڑے یا سالن کے قطرے آپ کی پوشاک پر نہ گریں۔  پھر بیرا ایک پلیٹ میں چند کاغذی رومال لاتا ہے،ان سے آپ ہاتھ پونچھتے ہیں۔ آپ کی گاڑی میں ٹشو پیپر کا ایک ڈبہ پڑا ہے، کچھ کھانے کے بعد آپ ڈبے سے ایک ٹشو کھینچتے ہیں،ہاتھ صاف کرکے پھینک دیتے ہیں، پسینہ آئے تو ایک اور ٹشو نکالتے ہیں،پیشانی پونچھتے ہیں اسے بھی پھینک دیتے ہیں۔  آپ کا اس نیپکن سے،اس کاغذ ی رومال سے،اس ٹشو پیپر سے کیا رشتہ ہے،کتنی دیر کا تعلق ہے؟ پھینک دینے کے بعد کیا آپ فکرکرتے ہیں،کہ اس کا کیا بنا؟کون سا خاکروب لے گیا؟کوڑے کرکٹ کے کس ڈھیر پر پہنچا؟نہیں!آپ کا تعلق اس نیپکن سے اس کاغذی رومال سے،اس ٹشو سے محض چند لمحوں کا ہے،استعمال کیا،پھینک دیا۔ غور کیجئے کہ نیب نے شریف خاندان کے افراد پیش ہونے کے لیے حکم نامے بھیجے۔کوئی بھی نہ پیش ہوا۔۔ایسا ہی ایک حکم نامہ نیب نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو بھیجا،سعید احمد کی وہ اہمیت،وہ شان و شوکت،وہ جاہ وجلال وہ حیثیت نہ تھی...

وزیر اعظم قبرستان میں

احاطے کے اندر داخل ہوتا ہوں۔ احاطہ قطعوں میں تقسیم ہے۔ ہر قطہ کو پلاٹ کہتے ہیں۔ پلاٹ قبروں میں منقسم ہیں۔ قبروں پر کتبے ہیں۔ چھوٹے بڑے۔ گول،چوکور، مستطیل۔ کتبوں پر نام ہیں۔ کہیں اشعار، کہیں دعائیہ کلمات۔ گائوں کا قبرستان یاد آ جاتا ہے۔ جنازہ جس کی طرف آہستہ آہستہ رواں دواں ہے۔ جنازے میں شریک لوگ، لَے میں لَے ملا کر، دلکش لحن میں پڑھ رہے ہیں۔ پڑھ لا الٰہ الااللہ محمدؐ پاک رسول اللہ کالی قبر تے گھپ ہنیرا اے جتھے کیڑے مکوڑیاں دا ڈیرا اے ایہہ کلمہ نور سویرا اے پڑھ لا الٰہ الااللہ نصف صدی پیشتر جب دارالحکومت کا قبرستان بنا تھا تو بنانے والوں کا عزم تھا کہ یہ ان دیہی اور قصباتی قبرستانوں جیسا ہولناک قبرستان نہیں ہو گا جہاں جھاڑ جھنکار کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ درختوں پر کپڑوں کے چیتھڑے لٹک رہے ہوتے ہیں اور اندر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ چنانچہ دارالحکومت کے قبرستان کو پلاٹوں میں تقسیم کیا گیا۔ درمیانی راستوں کو فٹ پاتھوں کی طرح پختہ کیا گیا۔ اندر سڑکیں بنائی گئیں۔ سینکڑوں مالی اور ملازم رکھے گئے جو خود رو گھاس کو ٹھکانے لگاتے تھے اور قبروں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ مگر پھر وہی ہوا جو ا...

آنکھوں دیکھا جُھوٹ

اپنی نو سو سالہ تاریخ میں یونیورسٹی نے اتنی سراسیمگی نہیں دیکھی تھی! صرف سراسیمگی نہیں‘ جوش و خروش بھی تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا کوئی کالج‘ کوئی شاہراہ کوئی ہوسٹل ایسا نہ تھا جہاں یہی موضوع زیر بحث نہ ہو۔ کیا اساتذہ‘ کیا طلبہ‘ کیا لڑکیاں‘ کیا لڑکے‘ کیا سٹاف‘ کیا عام شہری‘ سب پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کوئی دوسری یونیورسٹی اس معاملے میں سبقت نہ لے جائے۔یہ یونیورسٹی کی عزت اور روایت کا معاملہ تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے تعلیم سائنس، ٹیکنالوجی، ایجادات، دریافت ہر میدان میں اپنی برتری کے جھنڈے گاڑے تھے۔ اب یہ معاملہ جو آن پڑا تھا‘ اس معاملے میں کیوں پیچھے رہے! یہی صورت حال کیمبرج یونیورسٹی میں تھی وہ بھی اس معاملے میں پیچھے رہنے کو کسی صورت تیار نہ تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک بہت ہی سینئر پروفیسر ‘ جب آکسفورڈ کے میئر کے ہمراہ جہاز میں بیٹھا تو اُسے یہ دیکھ کر زبردست دھچکا لگا کہ چند نشستیں چھوڑ کر‘ کیمبرج یونیورسٹی کا رجسٹرار بھی اسی جہاز میں بیٹھا تھا۔ یہی ہلچل‘ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار‘ دنیا کی عظیم الشان امریکی درس گاہ ہارورڈ میں برپا تھی۔ وہ تمام دوسری یونیورسٹیوں سے اس معاملے...

”مجھے تو یہی بتایا گیا تھا“

”انہوں نے مجھے ایک شام وزیراعظم ہاﺅس میں بلا لیا۔ وزیراعظم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور انہوں نے گفتگو کے آغاز ہی میں یہ وضاحت پیش کردی کہ میں بڑا نظریاتی آدمی ہوں۔ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ میری حکومت نے مشرف کو سپریم کورٹ حکم پر ملک چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔ میں نے وزیراعظم صاحب سے اختلاف کیا اور بتایا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم کو برقرار تو رکھا لیکن اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ وفاقی حکومت مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کا مقدمہ جاری رکھنے اور ان کی نقل و حرکت کے با رے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ یہ سن کر وزیراعظم صاحب نے حیرانی ظاہر کی تو میں نے عرض کیا کہ جناب سپریم کورٹ کا فیصلہ منگوا لیں۔ کچھ ہی دیر میں فیصلہ آ گیا جو صرف دو صفحات پر مشتمل تھا۔ میں نے وزیراعظم کو یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنا پڑے گا۔“ یہ پیرا گراف ایک معروف صحافی کے کالم کا حصہ ہے جو سات اگست کو شائع ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کیس میں سپر...

میٹھی لسی کے گلاس اور پیزا

ماش کی دال پکی تھی۔ دوپہر والے کریلے بھی حاضر تھے۔ مگر گیارہ سالہ بچی نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ’’نانا ابو میں نے پیزا کھانا ہے۔‘‘ نانا ابو کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ اس وقت پیزا کہاں سے اور کیسے آئے گا۔ بچی نے خود ہی مسئلہ حل کردیا۔ ’’سی سیکٹر والا ’’پیزا ہائوس‘‘ گھر میں پہنچا دے گا۔ بس آپ اسے فون پر بتادیجئے۔‘‘ یہ کالم نگار قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا۔ گویا تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی پہلی نسل ابھی زمین پر موجود ہے۔ اس نسل کی زندگی کے دوران ہی زمین و آسمان سب کچھ بدل گیا۔ اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی اوپر ہو گئی۔ وہ جو پیشگوئی تھی کہ ع محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی تو وہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔ تب ناشتے میں ڈبل روٹی کا کوئی تصور نہ تھا۔ کارن فلیکس بھی نہ تھے۔ صبح اٹھنے کے بعد سکول جانے تک‘ وقت اتنا فراخ ہوتا تھا کہ اباجی مجھے اور میری بہن کو قرآن پاک پڑھایا کرتے تھے۔ اتنے میں امی جان ہمارے لیے پراٹھے پکالیتی تھیں۔ پراٹھے کے اوپر درمیان میں گوبھی یا پسے ہوئے شلغموں کا سالن یا دال رکھی ہوئی ہوتی تھی۔ پراٹھے کا س...

کتنے میجر علی سلمان؟کتنے سپاہی عبدالکریم؟

روشیں لہو سے بھر گئی ہیں! سفید گلاب کے تختے سرخ ہو گئے ہیں! باغ کے درمیان چلتی نہر کی تہہ میں سنگِ مر مر نہیں‘ گوشت کے لوتھڑے نظر آتے ہیں۔ ماتم کر کر کے تھک گئے ہیں! ہمارے نوجوان ہیں کہ شہید ہوئے جا رہے ہیں! مسلسل! مادرِ وطن لہو مانگے جا رہی ہے! مسلسل! خاک ہے کہ سرخ سے سرخ تر ہونا چاہتی ہے! میجر علی سلمان کا جنازہ پرسوں شام اُس کے  دلگیر باپ نے پڑھا اور الحمد للہ کہا! حوالدار غلام نذیر‘ حوالدار اختر‘ سپاہی عبدالکریم کے بچے یتیم ہو گئے! مائیں کلیجوں پر پھول کاڑھ رہی ہیں! سہاگ اپر دیر کی مٹی میں مل گئے‘ شفق سرخ تھی۔ پھر یہ سرخی غائب ہو گئی۔افق پر زمین اور آسمان ایک ہو گئے۔ خاکِ وطن کی نہ مٹنے والی پیاس نے چار جوان عورتوں کو آن کی آن میں بوڑھا کر دیا! یہ سب کیوں؟ یہ سب کس لیے؟ کارگل اور سیاچین کی چوٹیوں پر‘ ان برفانی مقتلوں میں جہاں موت اپنا پرچم لہرائے کھڑی ہے‘ سفید برف کو دیکھ کر آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔ ہاتھ جھڑ جاتے ہیں! راتوں کو قیامت خیز طوفانی ہوائیں خیمے اکھاڑ لے جاتی ہیں! جوان وہاں قائم ہیں! پتھر کی سلوں کی طرح! خیرہ ہوتی آنکھوں اور جھڑے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ!کس لیے؟ ...

ناپختگی صرف سیاسی تو نہیں!

کتنے ہی سال ہو گئے تھے جان فرانسس کو نیویارک میں رہتے ہوئے۔ ایک سیٹ روٹین تھا۔ مقررہ معمولات تھے۔ بیگم خوش تھی۔ بچے دنوں اپنی اپنی تعلیم میں مصروف تھے۔ ایک معتدل دوپہر تھی‘ سردی نہ گرمی‘ جب اسے اطلاع دی گئی کہ کمپنی نے اسے لاس اینجلز والے دفتر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گھر کا سامان اکٹھا کرنے اور پیک کرنے کا کام اس خاندان کے لیے ڈراﺅنا سپنا بالکل نہ ثابت ہوا۔ جان فرانسس ہمیشہ تین قمیضیں اور تین پتلونیں رکھتا۔ جب بھی چوتھی قمیض خریدتا‘ تین میں سے ایک ”سالویشن آرمی“ کو ہدیہ کردیتا۔ سالویشن آرمی بین الاقوامی خیراتی ادارہ ہے جسے چرچ چلاتا ہے۔ اسی طرح اس کی بیوی کے پاس بھی چار پانچ جوڑے تھے۔ کچھ کتابیں تھیں! ایک چھوٹا سا کارٹ (چھکڑا) انہوں نے اپنی گاڑی کے پیچھے باندھا۔ سامان رکھا اور چار ہزار کلومیٹر دور لاس اینجلز چل پڑے۔ ہاں! ان ملکوں میں یہ سہولت ہے کہ گھر جب کرائے پر لیتے ہیں تو اس میں ڈش واشر‘ کپڑے دھونے کی مشین‘ چارپائیاں اور دیگر ضروری سامان موجود ہوتا ہے۔ یوں بھی‘ سامان فروخت کرنا اور استعمال شدہ گھریلو سامان خریدنا چنداں مشکل نہیں۔ کچھ ماہ پہلے آسٹریلوی پارلیمنٹ کے حزب اختلاف...