کیا ماڈل ٹاﺅن کا قتلِ عام بھی نادرشاہ نے کرایا تھا؟
کئی عشروں کے بعد اقتدار کا خاتمہ تو ہونا ہی تھا۔ میاں محمد نواز شریف کا اندازِ حکمرانی تیونس کے زین العابدین اور مصر کے حسنی مبارک سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ کروڑوں اربوں میں کھیل رہے تھے۔ ذوق کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلائی پر گھڑی کروڑوں کی تھی۔ جس دن کراچی میں کئی افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے‘ غالباً چیمبر آف کامرس والوں کے ہاں ظہرانہ تھا۔ وزیر اعظم نے لنچ کے ”کمزور“ ہونے کا شکوہ کیا۔ مشہور ہے کہ فائل خود کبھی نہیں پڑھی! اندازِ حکومت مکمل طور پر قبائلی تھا! پاکستان کی خوش بختی کہ اس ”دولت انگیز“ اقتدار کا خاتمہ اس طرح نہ ہوا جیسے حسنی مبارک، قذافی اور زین العابدین کا ہوا۔ عدلیہ نے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ اور اقتدار سے فارغ کر دیا۔ یوں پاکستان ان ملکوں کی صف میں کھڑا ہو گیا جہاں قانون کی حکمرانی ہے جہاں قانون کا صرف ضعیف اور نحیف پر نہیں طاقت ور پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد کا منظر نامہ دلچسپ ہے اور عبرت ناک بھی! زخم چاٹنے والوں میں وزراءکی فوج ظفر موج تو ہونا ہی تھی۔ ان کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا...