اشاعتیں

جولائی, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کیا ماڈل ٹاﺅن کا قتلِ عام بھی نادرشاہ نے کرایا تھا؟

کئی عشروں کے بعد اقتدار کا خاتمہ تو ہونا ہی تھا۔ میاں محمد نواز شریف کا اندازِ حکمرانی تیونس کے زین العابدین اور مصر کے حسنی مبارک سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ کروڑوں اربوں میں کھیل رہے تھے۔ ذوق کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلائی پر گھڑی کروڑوں کی تھی۔ جس دن کراچی میں کئی افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے‘ غالباً چیمبر آف کامرس والوں کے ہاں ظہرانہ تھا۔ وزیر اعظم نے لنچ کے ”کمزور“ ہونے کا شکوہ کیا۔ مشہور ہے کہ فائل خود کبھی نہیں پڑھی! اندازِ حکومت مکمل طور پر قبائلی تھا! پاکستان کی خوش بختی کہ اس ”دولت انگیز“ اقتدار کا خاتمہ اس طرح نہ ہوا جیسے حسنی مبارک، قذافی اور زین العابدین کا ہوا۔ عدلیہ نے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ اور اقتدار سے فارغ کر دیا۔ یوں پاکستان ان ملکوں کی صف میں کھڑا ہو گیا جہاں قانون کی حکمرانی ہے جہاں قانون کا صرف ضعیف اور نحیف پر نہیں طاقت ور پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد کا منظر نامہ دلچسپ ہے اور عبرت ناک بھی! زخم چاٹنے والوں میں وزراءکی فوج ظفر موج تو ہونا ہی تھی۔ ان کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا...

کیا آپ کا تعلّق اقلّیت سے ہے؟ ................کون سی اقلیت؟

اسلم سومرو ایک مغربی ملک میں مقیم ہے۔ اکثریت اس ملک میں سفید فام باشندوں کی ہے۔ اسلم کا رنگ گندمی بلکہ ذرا سا مائل بہ سیاہی ہے۔ گویا رنگت کے اعتبار سے وہ اکثریت سے نہیں‘ اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ مذہباً وہ مسلمان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں۔ غالب اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس حوالے سے بھی اسلم اقلیت کا رکن ہے۔ رنگ اور مذہب کو چھوڑ کر‘ اگر ثقافت کا پوچھا جائے تو اس پہلو سے بھی اسلم کا اکثریت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ناچ گھر جاتا ہے نہ شراب پیتا ہے۔ سو ¿ر کا گوشت بھی نہیں کھاتا۔ گھر سے باہر کھانا کھانا ہو تو حلال ریستوران تلاش کرتا ہے یا کسی انڈین ریستوران میں دال سبزی کھا لیتا ہے۔ وہ اکثریت کے تہواروں سے بھی عملاً لاتعلق رہتا ہے۔ عیدین‘ محرّم اور میلاد اس کے ثقافتی مواقع ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حوالے سے بھی وہ اقلیت میں ہے تو غلط نہ ہو گا۔ مگر حیرت ہے کہ اس کے باوجود اسلم کی شناخت اس ملک میں اقلیت کے حوالے سے نہیں! اسے کبھی کسی نے نہیں باور کرایا کہ تم یہاں اقلیت سے تعلق رکھتے ہو۔مذہب ‘ رنگ ثقافت ہر لحاظ سے اکثریت سے الگ ہونے کے باوجود کس...

کوئی ہے؟ جو سمجھائے!

نظم و نسق پاتال تک جا پہنچا ہے۔ ریاست اداروں سے چلتی ہے۔ ادارے معطل اعضا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بے بس! کارکردگی صفر سے کم۔ پیمرا کے سربراہ کے متعلق پرسوں جو کچھ عدالت عالیہ نے کہا‘ کیا اس کے بعد بھی حکمرانوں کی دوست نوازی کا دفاع کیا جاسکتا ہے؟ نہیں۔ مگر پھر بھی دفاع کرنے والے موجود ہیں۔ دلیل کوئی نہیں۔ ”میں اتفاق نہیں کرتا“، یہی واحد دلیل ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں طلوع ہوتا کہ ایک نہ ادارہ برسرعام برہنہ نہ ہو۔ ایک صاحب ولایت میں بوڑھوں کے لیے نرسنگ ہوم چلا رہے تھے‘ انہیں ریاست کے مرکزی بینک کا ڈپٹی گورنر لگا دیا گیا۔ کہا گیا کہ ان کے پاس فلاں ڈگری بھی ہے۔ کیا صرف ڈگری کی بنیاد پر مرکزی بینک کا دوسرا اہم ترین منصب دیا جاسکتا ہے؟ کیا تجربہ رکھنا ضروری نہیں۔ پھر نیشنل بینک آف پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ایس ای سی پی میں جو کچھ ہوا‘ سب کے سامنے ہے۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے مگر اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دانشور صحافی‘ لکھاری اس بدترین نظم و نسق کو بھی بہترین قرار دے سکتے ہیں۔ ثابت کرسکتے ہیں کہ نیشنل بینک‘ ایس ای سی پی اور لاتعداد دوسرے ادارے دوستوں‘ فرماں برداروں کو نہیں‘ ...

دو دن کی زندگانی میں کیا کیا کرے کوئی

تحریر میں کبھی کبھی کچھ تاریخی حوالے در آتے ہیں۔ ایسا غیر اختیاراتی طور  پر ہوتا ہے۔ لکھتے ہوئے کوئی ایسا تاریخی واقعہ یا حوالہ ذہن میں کوندنے لگتا ہے جو رواں صورت حال سے مشابہ نظر آتا ہے۔ کچھ عرصہ سے قارئین‘ انفرادی ای میلوں اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کے ذریعے تقاضا کر رہے ہیں کہ مطالعہ کے لیے کتابیں تجویز کی جائیں۔ شروع شروع میں کچھ حضرات کو جواب دیئے اور فرمائشوں کی تکمیل کی مگر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ پھیلتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ استفسارات کا فرداً فرداً جواب دینا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ کچھ گفتگو کتابوں کے ضمن میں کی جا رہی ہے۔ یہاں یہ وضاحت از حد ضروری ہے کہ کتابوں پر گفتگو کرنے اور کچھ موضوعات پر کتابیں تجویز کرنے کا مطلب کتاب دانی کا دعویٰ ہرگز نہیں۔ یہ سمندر ہے جس کا مکمل پیراک مشکل ہی سے ملے گا۔ بہت سے احباب کو اس سلسلے میں کالم نگار کی نسبت زیادہ اور کچھ کو بہت زیادہ معلومات حاصل ہوں گی۔ بہرطور‘ یہ تجاویز بہت سے قارئین کے لیے نئی بھی ہوں گی۔ برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے ابراہام ایرالی نے خوب کام کیا ہے۔ ابراہام کیرالہ میں پیدا ہوا۔ مدراس (موجودہ چنائی) پڑھاتا رہا۔ کچھ ...

یا نفاق! تیرا ہی آسرا

بھارتی نژاد سینو گپتا اپنے شوہر کے ساتھ لندن زیر زمین ریل میں سفر کر رہی تھی۔ گود میں تین ماہ کی بیٹی تھی۔ ریل ایک اسٹیشن پر رکی۔ ایک شخص سوار ہو کر‘ سینو گپتا کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے عورت سے مخاطب ہو کر کہا ’’تمہاری بچی یقینا خوبصورت ہے۔‘‘ پھر وہ ذرا ہٹ کر دوسرے مسافروں کے ساتھ کھڑا رہا۔ ایک ہاتھ سے اس نے چھت کے قریب والے ڈنڈے کو پکڑ رکھا تھا۔ سینو گپتا نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جو ہمارے بچے کی تعریف کر رہا تھا۔ شوہر نے بتایا کہ یہ برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔ بیوی نے سمجھا مذاق کر رہا ہے۔ شوہر نے سنجیدگی سے کہا کہ واقعی یہ وزیراعظم ہے۔ اس پر سینو گپتا سے نہ رہا گیا۔ وہ وزیراعظم کیمرون کے پاس گئی اور پوچھا۔ معاف کیجیے‘ کیا آپ وزیراعظم ہیں؟ اس نے جواب دیا‘ ہاں! سینو گپتا کی ہنسی نکل گئی۔ پھر اس نے وزیراعظم سے سوال پوچھنے پر معذرت کی۔ جنوبی ایشیا میں کوئی وزیراعظم‘ ٹرین میں کھڑا ہو کر سفر نہیں کرتا۔ کیمرون نے وضاحت کی کہ اس کا ٹائم ٹیبل بہت سخت اور مصروفیت سے اٹا ہوا ہے۔ ٹرین میں اس لیے سفر کررہا ہے کہ کار کی نسبت یہ جلد پہنچا دے گی۔ ساتھ صرف ایک باڈی گارڈ تھا۔ ایک بار و...

الماریوں میں بند ڈرائونے ڈھانچے

اگر اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقت ور ہے کہ وہی سب کچھ کر رہی ہے اور کرا رہی  ہے، اگر یہاں پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تو پھر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خاندان تیس سال سے برسرِاقتدار ہے، اس کی پشت پر یقینا اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔ تو پھر پانامہ لیکس بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کا کارنامہ ہے۔ تو پھر دو ججوں نے وزیر اعظم کے خلاف کیوں فیصلہ دیا؟ کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟ تو پھر یہ جو وکلاء برادری ہڑتال کر رہی ہے، کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کرا رہی ہے؟ تو پھر لاکھوں کروڑوں عوام جو ٹیلی ویژن سیٹوں کے سامنے بیٹھے ہیں اور جنہیں مقتدر خاندان کی جائیدادوں کے اعداد و شمار تک حفظ ہو چکے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بیٹھے ہیں؟ اگر اسٹیبلشمنٹ کا اثر، خدانخواستہ عدلیہ تک آ پہنچا ہے تو پھر یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نہیں کوئی اور تھا جو گھنٹوں آرمی ہائوس میں ڈٹا رہا۔ اب یہ ایک فیشن ہے کہ دلیل دیئے بغیر اسٹیبلشمنٹ کا نام لے دیں کہ سب کچھ وہی کرا رہی ہے۔ شہید بننے کے لیے ریت سے بنی ہوئی یہ بنیاد خوب ہے۔ معاملہ اور ہے۔ اقتدار کی پرستش کے کئی اسلوب اور کئی صورتیں ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا    ؎ براہیم...

تلاش ہے چلّو بھر پانی کی

کیا صنعت کار اپنی ذاتی فیکٹریاں اسی طرح چلاتے ہیں؟ نہیں! ایڈمنسٹریشن اور جدید تکنیک کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ایک افسر، ایک ایک ورکر، ایک ایک مزدور کے آنے اور جانے کا وقت نوٹ کیا جاتا ہے۔ پیداوار کے پیمانے مقرر ہیں۔ روز کا حساب روز ہوتا ہے۔ کل پر کوئی کام نہیں ٹالا جاتا۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی منیجر، کوئی فورمین، کوئی اکائونٹنٹ ریٹائر ہو جائے تو مہینوں اس کا جانشین نہ مقرر ہو۔ آسمان گر سکتا ہے مگر تساہل کاروبار میں نہیں ہو سکتا۔  لیکن مجرمانہ رویہ اس وقت جائز ہے جب معاملہ ریاست کا ہو اور عوام کا ہو۔ حکومتیں یوں چلائی جا رہی ہیں جیسے مذاق ہو۔ بنانا ری پبلک؟ نہیں! بنانا ری پبلک کے پھر کچھ اصول ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت، عدالت کے حکم پر کس طرح عمل کرتی ہے؟ دھوکہ دینے کی پوری کوشش! ایک ایسے افسر کو صوبائی پولیس کا سربراہ مقرر کرتی ہے جو تین ماہ بعد ریٹائر ہو رہا ہے۔ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرتی ہے۔ اسے بیک وقت عدالت کے ساتھ مذاق اور عدالت کی توہین قرار دیتی ہے۔ فرض کیجیے، صوبائی حکومت کے سربراہ کو عدالت اپنے حضور حاضر ہونے کا حکم دے اور وہ جب حاضر ہو تو پوچھے کہ ایسا کیوں کیا ہے...

کہانی اور پس نوشت

بادشاہ کو حکومت کرتے برس ہا برس ہو گئے تو رعایا نے عرض کی کہ جہاں پناہ!  اب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں! چہرہ جھریوں سے اٹ گیا ہے! رخساروں پر کھال ڈھلک گئی ہے! ابرو سفید ہو گئے ہیں یوں لگتا ہے دو سفید چھجے آنکھوں پر دھرے ہیں! دو گز چلنا دوبھر ہے۔ کرم فرمائیے اب آرام کیجیے اور بادشاہت کا تاج کسی اور کے سر پر رکھ دیجیے۔ مگر بادشاہ کو کسی پر اعتبار ہی نہ تھا! وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتا تھا۔ چاہتا تھا کہ جب تک اس کے دم میں دم ہے‘ وہی تخت و تاج کا مالک ہو! رعایا صبر کر کے بیٹھ گئی! بادشاہ تخت پر براجمان رہا! زمانے گزر گئے! پھر ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا! دربار جانے کے لیے صبح صبح بادشاہ نے شاہی لباس پہنا۔ تلوار کمر سے لٹکائی۔ تاج سر پر رکھا۔ مگر تاج سر سے نیچے گر پڑا۔ بادشاہ نے تاج دوبارہ سر پر رکھا تاج پھر گر پڑا۔ بادشاہ نے ملکہ کو آواز دی۔ اس نے بھی تاج کئی بار شوہر کو پہنایا مگر ہر بار تاج سر سے گر جاتا۔یوں لگتا تھا کوئی غیبی طاقت‘ کوئی ان دیکھا ہاتھ‘ تاج کو سر سے اتارتا ہے اور نیچے پھینک دیتا ہے! بادشاہ کی عمر رسیدہ ماں نے بھی جسے سب بڑی ملکہ کہتے تھے‘ کوشش کی مگر کامیابی ن...

انشا جی! اُٹھو اب کوچ کرو

ہر خاندان کے عروج کی ایک مدت ہوتی ہے۔ شریف خاندان اپنا عروج دیکھ چکا! ابن خلکان کی روایت ہے سعید بن سالم سے لوگوں نے پوچھا برامکہ کے زوال کا سبب کیا تھا؟ کہا ان کا زمانہ طول پکڑ گیا تھا اور ہر طوالت کا انجام رنج و غم ہے۔ مگر جو رائے ابن خلدون نے برامکہ کے زوال پردی‘ وہ شریف خاندان پر زیادہ منطبق ہوتی ہے۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ برامکہ دولت عباسیہ کے خاندان پر قابض ہو گئے تھے یہاں تک کہ خلیفہ کو خزانے سے کچھ ملتا ہی نہ تھا۔ شریف خاندان ملک کے خزانوں پر قابض ہو چکا۔ فولاد سے لے کر مرغی اور مرغی کے گوشت تک ہر خزانے پر ان کا تصرف ہے۔ مگر ایک سبب شریف خاندان کے زوال کا ستاروں کی گردش ہے اور یہی اصل سبب لگتا ہے۔ ان کے بخت کا ماتھا‘ تنگ ہو چکا۔ ان کا چاند گہنا چکا۔ ہما ان کے سر پر تیس سال بیٹھا رہا۔ مگر اب وہ اڑ کر جا چکا۔ برامکہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ جعفر برمکی نے عالی شان قصر تعمیر کرایا۔ اس کا باپ یحییٰ دیکھنے آیا تو جعفر نے پوچھا محل میں کوئی عیب آپ کو نظر آیا؟ یحییٰ نے کہا ہاں! عیب ہے اور وہ یہ کہ تمہارے قرب و جوار والوں کو اس سے تکلیف ہوگی! لہٰذا ان کے روزینے مقرر کرو تاکہ زبانیں...

ایک ورق سجاد میر کے لیے

جناب سجاد میر نے عسکری صاحب کا ذکر کیا تو اُس زمانے کا کراچی یاد  آگیا۔ جب کراچی کراچی تھا اور ابھی بیروت نہیں بنا تھا۔ عسکری صاحب کو نہیں دیکھا وہ اردو ادب کی عہد ساز شخصیت تھے۔ سجاد میر صاحب کی خدمت میں عرض کی ہے کہ حضور! یادداشتیں قلم بند کیجیے۔ ادب کے طالب علم کو ان یادداشتوں میں بہت کچھ ملے گا۔ سیاسی کالموں میں کچھ نہیں دھرا۔ ستر کی دہائی کا آغاز تھا جب یہ چوبیس سالہ نوجوان‘ سی ایس ایس کر کے‘ کراچی میں تعینات ہوا۔ قیام و طعام کے بندوبست سے فارغ ہوتے ہی مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کی سوجھی۔ ان کی ایک کتاب کا ان دنوں شہرہ تھا۔ بیمار تھے۔ گزر اوقات کے لیے چھت پر مرغیاں پال رکھی تھیں۔ جس مذہبی پارٹی سے وہ وابستہ رہے تھے‘ غالباً اس نے ان کی اس کٹھن زمانے میں کوئی مدد نہیں کی۔ سلیم احمد صاحب کے گھر کئی بار حاضری دینے کا موقع ملا۔ غلطی یہ ہوئی کہ ان حاضریوں کی (ملاقاتوں کی نہیں) روداد نہ لکھی! شعر سناتے تو ساتھ ساتھ بائیں ران پر ہاتھ مارتے جاتے    ؎ کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار لومڑی نے کب کوئی دوہا سنا آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا آج کی شام ت...

اک بھڑکتے ہوئے شعلے پر ٹپک جائے اگر

یہ 1993ء کا واقعہ ہے۔ سنگاپور میں عجیب و غریب سلسلہ رونما ہونے لگا۔ کاروں کی صورت بگاڑی جانے لگی۔ پارکنگ میں کھڑی ہوئی گاڑیوں پر کوئی آ کر ڈنڈے چلا جاتا‘ ان پر رنگ چھڑک جاتا۔ آگے پیچھے سے ڈینٹ پڑے ہوئے ہوتے! ٹیکسیوں کے ٹائر تیز دھار آلوں سے پھاڑ دیئے جاتے۔ ایک شخص نے بتایا کہ اسے اپنی کار چھ ماہ میں چھ بار ورکشاپ لے جانا پڑی‘ پولیس سرگرداں ہو گئی۔ بالآخر معلوم ہوا کہ ’’سنگاپور امریکی سکول‘‘ کے غیر ملکی طلبہ اس میں ملوث ہیں۔ ان کے ساتھ مقامی لڑکے بھی شامل تھے۔ سب سے بڑا مجرم اٹھارہ سالہ امریکی مائیکل فے تھا۔ جرم ثابت ہوگیا۔ سنگاپور کی عدالت نے سزا سنا دی۔ چار ماہ قید! ساڑھے تین ہزار سنگاپوری ڈالر جرمانہ اور بَید کی چھ ضربیں۔ بَید کی سزا سنگاپور کے قانون کا حصہ ہے۔ بَید کی سزا کا سن کر امریکہ میں جیسے بھونچال آ گیا۔ اُس وقت بل کلنٹن صدر تھا۔ اس نے ذاتی مداخلت کی اور سنگاپور حکومت سے کہا کہ چھڑیاں مارنے کی سزا ہٹا دی جائے۔ دو درجن سے زائد امریکی سینیٹرز نے سنگاپور حکومت کو مکتوب بھیجا اور مائیکل فے کو سزا سے استثنیٰ دینے پر زور دیا۔ سنگاپور نے جواب دیا کہ جو کوئی جرم کرے گا اسے سنگ...