اشاعتیں

جون, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر خاندانی تسلط چھایا ہوا ہے۔ جب بھی اس  خاندانی تسلط پر اعتراض کیا جاتا ہے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ آخر امریکہ میں بھی بش خاندان اور کینیڈی خاندان کئی پشتوں سے سیاست میں دخیل ہیں۔ اس سے زیادہ مغالطہ آمیز دلیل شاید ہی کوئی ہو۔ چلیے، یہ نہیں کہتے کہ یہ دلیل گمراہ کن ہے۔ شاید گمراہ کن کا لفظ سخت ہے۔ مگر نرم ترین الفاظ میں بھی اسے خلطِ مبحث ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر شریف خاندان، بھٹو خاندان، ولی خان خاندان اور مفتی محمود خاندان قابض ہیں۔ یہ قبضہ نسل درنسل چلا آ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی پارٹی کی سربراہ بنی۔ پھر اسی راستے سے وہ وزیر اعظم بنیں۔ پھر ان کے شوہر پارٹی کے سربراہ بنے۔ اسی حوالے سے پانچ سال وہ ملک کے صدر رہے۔ اب پارٹی کے سفید سرسیاست دان صاحبزادے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہی اجارہ مسلم لیگ ن پر مسلط ہے۔ محمد خان جونیجو کو کہنی مار کر راستے سے ہٹا دینے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ کی سربراہی سنبھالی اور اب اس سربراہی کو کم و بیش تین عشرے ہونے کو ہیں۔ پانامہ کا معاملہ جب سے پیش منظر پر چھ...

اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا

سخاوت یہ نہیں کہ عید کے موقع پر آپ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور  جوتے خریدیں‘ بھتیجوں اور بھانجوں کو عیدی دیں‘ بیگم صاحبہ کو نیا سوٹ خرید کردیں اور اقربا اور احباب کی ضیافت کریں! سخاوت کا دارومدار اس سلوک پر ہے جو عید کے موقع پر آپ اپنے ملازموں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ کیا آپ انہیں نئی پوشاک مہیا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ دس بارہ ہزار یا پندرہ سولہ ہزار روپے میں ان کا مہینہ کس مشکل سے گزرتا ہے؟ کیا آپ انہیں کچھ رقم تنخواہ کے علاوہ دیتے ہیں تاکہ وہ کم از کم عید کے موقع پر اچھا کھانا کھا سکیں؟ ان کے دستر خوان پر کچھ پھل آ جائیں! دنیا میں انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ فیاض اور کنجوس! عربوں کا مقولہ ہے کہ سخاوت تلے کئی عیب چھپ جاتے ہیں‘ یعنی سخی کی بہت سی کمزوریاں پس پشت ڈالنا پڑتی ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت یا کنجوسی کا سب سے زیادہ علم گھر میں کام کرنے والے ملازم‘ خاکروب‘ ڈرائیور اور چوکیدار کو ہوتا ہے۔ وہ مروت کے سبب‘ یا رعب کی وجہ سے‘ یا خوف کے باعث اس موضوع پر بات کبھی نہیں کرے گا مگر وہ ’’صاحب‘‘ کی فطرت اور عادات پر بہت کچھ کہہ سکتا ہے۔ وہ خاندانی پس منظر بھی جان جاتا ...

پی ٹی آئی‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی راہ پر

حال ہی میں جس دن پیپلزپارٹی کے ایک معروف سیاست دان نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا‘ اسی دن 92 نیوز چینل کے پروگرام ’’نیوز روم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالم نگار نے پوچھا کہ کل عمران خان وزیراعظم بنے تو کیا اس سیاست دان کے بھائی کے خلاف کارروائی کر پائیں گے؟ یہ بھی عرض کیا تھا کہ عمران خان ان لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں جنہوں نے ’’برگر فیملی‘‘ اور ’’ممی ڈیڈی‘‘ کے طعنے سنے مگر کھاتے پیتے گھروں کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مہینوں عمران خان کے دھرنے میں فرشِ زمین پر بیٹھے رہے۔ دو قسطوں میں ایک معروف کالم نگار نے کرپشن کی جو دماغ سوز روداد بیان کی ہے اسے پڑھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع اب وہ کہانی عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا اس حیرت انگیز داستان امیر حمزہ کے الگ الگ اجزا‘ بہت حد تک میڈیا سے تعلق رکھنے والوں اور باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کو پہلے سے معلوم تھے مگر اب اس رپورٹ میں سے پوری کہانی منظر عام پر آ گئی ہے جو ایف آئی اے کی وساطت سے سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ’’ہم نے ان اٹھارہ ڈیلز میں 71 (اکہتر) کروڑ روپے رشو...

وطنِ اصلی، وطنِ اقامت اور دیگر معاملات

جب بھی عید آتی ہے، اخبارات اس قسم کی سرخیاں ضرور لگاتے ہیں۔ ’’دارالحکومت خالی ہو گیا‘‘ ’’پرندے اُڑ گئے‘‘ ’’لوگ عید منانے اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے‘‘ فقہ میں وطن اصلی اور وطن اقامت کا ذکر ہوتا ہے۔ وطن اصلی وہ ہے جہاں سے آپ کا اصل تعلق ہو، آپ کی جائیداد، گھر، عزیز و اقارب، دوست احباب وہاں ہوں۔ اس کے مقابلے میں وطن اقامت وہ ہے جہاں آپ روزگار یا کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ یہ امتیاز، وطن اصلی یا وطن اقامت میں اس لیے بھی برقرار رکھا جاتا ہے کہ وطن اقامت میں قیام پندرہ دن سے کم ہو تو غالباً نماز قصر کی پڑھنا ہوتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عید اکثر و بیشتر لندن میں مناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد سے لوگ عید منانے اپنے اپنے آبائی گھروں کو یعنی وطن اصلی کو چلے جاتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو بات سمجھ میں یوں آتی ہے کہ پاکستان ہمارے حکمرانوں کا وطن اصلی نہیں، وطن اقامت ہے۔ حکمرانوں سے مراد صرف میاں محمد نواز شریف نہیں، بلکہ وہ طبقہ ہے جو ہم پر حکومت کر رہا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب سے لے کر عشرت العباد صاحب تک، حسین نواز سے لے کر بلاول تک۔ سب ہمارے ح...

تم بھی انتظار کرو ہم بھی کرتے ہیں

قسمت کا دھنی اور مقدر کا سکندر کون ہے؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا! ہم کون ہیں  کرنے والے! اور آپ کس طرح کر سکتے ہیں؟ خوش قسمتی کی تعریف کیا ہے؟ معیار کیا ہے؟ کیا اقتدار کی طوالت خوش نصیبی کی علامت ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر معمر قذافی اور حسنی مبارک سے زیادہ خوش قسمت کون ہے! عوام کو ان پڑھ رکھیے۔ اداروں کو طاعون زدہ کر دیجیے۔ پولیس کو گھر کی باندی کے طور پر استعمال کیجیے یوں کہ آئی جی آپ کے ذاتی ملازم کی طرح انگلی کے اشارے کا غلام ہو، خزانے کا منہ کھول کر صحافیوں، دانشوروں، اخبار نویسوں، رائے سازوں اور تشہیر کنندگان کو خرید لیجیے، کوئی آپ کا راستہ روکنے والا نہ رہے۔ کوئی چیلنج کرنے والا نہ رہے۔ اقتدار طویل سے طویل تر ہوتا رہے، اگر یہی خوش نصیبی ہے تو پھر تو تاریخ خوش نصیبوں سے بھری پڑی ہے۔  پھر تو ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کی قسمت خراب تھی اور ان بادشاہوں کی اچھی تھی جنہوں نے انہیں کوڑے مارے، جسمانی اذیتیں دیں، یہاں تک کہ شہید ہی ہو گئے۔ اس وقت بھی درباریوں نے یہی کہا ہو گا کہ جہاں پناہ! مقدر آپ کے ساتھ ہے، یہ حاسد، یہ کیڑے نکالنے والے، یہ نام نہاد فقیہہ، زندگی ہی سے ہا...

کہیں ہماری ملّی غیرت سو تو نہیں گئی؟

ہر جیت سنگھ سجن بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ والد  پولیس میں کانسٹیبل تھا۔ ہرجیت سنگھ چھ سال کا تھا جب اس کے کنبے نے کینیڈا کا رخ کیا۔ وہاں ہر جیت کا باپ لکڑی کاٹنے کی مل میں اور ماں ایک زرعی فارم میں ملازمت کرتے رہے۔ ہر جیت بڑا ہوا تو فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کینیڈا کے جو فوجی افغانستان تعینات تھے ان میں ہر جیت بھی تھا۔ پنجابی اور اردو سے آشنا ہونے کی وجہ سے اسے افغانوں سے بات چیت کرنے میں دوسروں پر برتری حاصل تھی۔ کینیڈا واپس ہوا تو اس کے ان افسروں نے جنہوں نے افغانستان میں اس کی کارکردگی دیکھی تھی‘ اسے ’’کینیڈا کی انٹیلی جنس کے لیے بہترین سرمایہ‘‘ قرار دیا۔ فوج کی طرف سے تمغہ دیا گیا۔ پھر وہ اپنے صوبے ’’برٹش کولمبیا‘‘ کے گورنر کا اے ڈی سی رہا۔ داڑھی کی وجہ سے ملٹری گیس ماسک پہننے میں دقت کا سامنا ہوا تو ہرجیت نے ایسا گیس ماسک ایجاد کیا جو داڑھی کے ساتھ چل سکتا تھا۔ اس نے اس ایجاد کو اپنے نام کے ساتھ رجسٹر بھی کرا لیا۔ طویل قصے کو مختصر کرتے ہیں۔ ملازمت سے فارغ ہو کر ہر جیت نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس نے چینی نژاد مدمقابل کو شکست ...

کیا ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟

عرب بہار آئی‘ عربوں کو اجاڑ کر خزاں کا تسلط قائم کر کے واپس چلی گئی۔ لیبیا اجڑ گیا۔ مصر کی تیس سالہ آمریت ختم ہوئی مگر آج وہاں فوجی ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔ بشارالاسد کی حکومت دمشق تک محدود ہے۔ کیا ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا اس بہار کے نتیجہ میں ہمیں اصل جمہوریت ہاتھ آئے گی یا وہی جمہوریت جاری رہے گی جس میں دو تین خانوادے اپنی باریاں لیتے ہیں؟ ویسے مسلم دنیا کا بخت عجیب ہے! کہنے کو وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی جمہوریت ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں۔ صدر کے مقابلے میں کسی ماتحت کو کھڑا بھی کیا جاتا ہے مگر عشروں پر عشرے گزرتے ہیں‘ حکمران وہی رہتا ہے۔  پاکستان کی جمہوریت مصر‘ شام‘ ازبکستان اور قازقستان کی جمہوریت سے کتنی مختلف ہے؟ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب برطانیہ اور امریکہ کی طرح ہماری پارٹیوں کی قیادت مسلسل تبدیل ہو گی؟ پیپلزپارٹی کی تشکیل کو نصف صدی ہورہی ہے۔ ایک ہی خاندان اس پارٹی پر مسلط ہے۔ باپ کے بعد بیٹی‘ بیٹی کے بعد بیٹی کا شوہر‘ شوہر اب اپنے بیٹے کو تیار کررہا ہے! پنجاب میں تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ ایک ہی خاندان تخت پر متمکن ہے۔ مسلم لیگ نون میں ...

پڑھے لکھے گنّوار

سوٹڈ بوٹڈ عمائدین کا خواتین کو کبھی ٹریکٹر ٹرالی اور کبھی ڈمپر کہنے سے اور جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان سے تشبیہہ دینے سے کم از کم ایک بات ضرور واضح ہو گئی ہے کہ گنّوار پن صرف اس طبقے کی میراث نہیں جسے یہ حضرات نچلا طبقہ کہتے ہیں۔ اب جانگلی زبان صرف وہ افراد نہیں استعمال کرتے جنہوں نے چپل پر کھلے پائنچوں والی شلوار پہنی ہو اور گرمیوں میں بھی گلے میں رنگین مفلر ڈالا ہوا ہو جس کے دونوں سرے مختلف سمتوں میں لہرا رہے ہوتے ہیں۔ میرؔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک بیل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں یہی ذریعۂ آمدو رفت تھا۔ بیل گاڑی میں اور بھی مسافر تھے۔ شاعر نے سارا راستہ کسی سے بات نہ کی کہ عامیانہ لہجے سے زبان نہ متاثر ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے امرا، ٹریکٹر ٹرالی، ڈمپر اور قصائی کی دکان جیسے الفاظ جن کی زبان پر اکثر و بیشتر آتے ہیں، اس بیل گاڑی میں ہوتے تو میرؔ کی کیا حالت ہوتی؟ شمالی ہندوستان کے شہروں میں بچوں کو تہذیب و تربیت کے لیے رقص و سرودوالی عورتوں کے سپرد کیا جاتا تھا۔ شرفا گالی بھی دیتے تھے تو حد ادب کے اندر! فیروز دہلوی نے اپنے مضمون ’’دلی اور دلی والے، چند تہذیبی...

احسان؟ کون سا احسان؟

امیرالمومنین عمر فاروقؓ اور امیرالمومنین علی مرتضیؓ عدالتوں میں پیش ہوتے  رہے۔ کیا کبھی انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ایسا کر کے امت پر احسان کر رہے ہیں؟ خاتون وزیر نے کہا کہ وزیراعظم پیش ہو کر تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ فراق گورکھپوری یاد آگیا   ؎ جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مسئلۂِ سود و زیاں ہے کہ جو تھا ایک گروہ ہے مفاد اٹھانے والوں کا…  Beneficiaries  کا‘ جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ وزیراعظم پیش ہو کر قوم پر احسان کر رہے ہیں! نہیں‘ایسا کر کے وزیراعظم اپنے آپ پر احسان کر رہے ہیں۔ تاریخ انہیں سنہری لفظوں سے یاد کرے گی کہ عدالت میں پیش ہو کر ملک کی سیاسی تاریخ کو ارتقا کی طرف لے گئے۔ ہم پختگی   Maturity)  (کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاسی حکومت کے تختے الٹے جاتے تھے۔ ایک وقت یہ ہے کہ حکومت کا سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہورہا ہے۔ تمام مہذب‘ ترقی یافتہ‘ جمہوری ملکوں میں ایسا ہوتا ہے۔ نہیں‘محترمہ وزیر صاحبہ! ادب کے ساتھ عرض ہے کہ تاریخ تو کب کی رقم ہو چکی۔ یہ زید بن ثابت کی عدالت تھی جس میں امیر...

ممیاتی‘ سرہلاتی بھیڑیں

بھیڑیں یہاں ہیں اور چرواہا سات سمندر پار! آتا ہے تو بھیڑیں اس کے گرد اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ وہ انہیں سبز چرا گاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ بھیڑیوں کے خلاف تقریریں کرتا ہے۔ دلکشن‘ لاجواب‘ موثر‘ وجد آفریں تقریریں! بھیڑیں اس کی تقریریں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں۔ نعرے لگاتی ہیں۔ مال پڑتا ہے۔ دھمال ڈالتی ہیں۔ ’’میں بھیڑیوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جن بھیڑوں کو بھیڑیوں نے ہلاک کیا تھا‘ ان کا قصاص لوں گا۔ قصاص لیے بغیر یہاں سے ایک انچ نہیں ہٹوں گا۔‘‘ بھیڑیں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں‘ ممیاتے ممیاتے نعرہ لگاتی ہیں! چرواہے کے ہاتھ چومتی ہیں۔ گھٹنوں کو چھوتی ہیں۔ قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتی ہیں۔ ایک دو ماہ گزرتے ہیں۔ چرواہا اس اثنا میں پوٹلیاں باندھتا ہے۔ سامان سے بھری ہوئی پوٹلیاں! تازہ گھاس کے گٹھے‘ سبز پتوں کے انبار! بھوسے کے ڈھیر! غلے سے بھری بوریاں! تازہ پھل! پھر ایک صبح وہ یہ ساری پوٹلیاں سر پہ رکھے‘ بغل میں دبائے‘ ہاتھوں میں پکڑے‘ اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے۔ اڑ کر سات سمندر پار جا پہنچتا ہے جہاں اس کا اصل ٹھکانہ ہے! جہاں چراگاہیں شاداب ہیں‘ پانی مصفیّٰ ہے‘ آسمان شفاف نیلا ہے۔ جہاں بحرالکاہل کے بہشت آسا ساحل ہیں۔...

بی بی تھریسامے کی کس مپرسی

برطانیہ میں الیکشن ہوئے۔ خاک الیکشن ہوئے۔ سچ پوچھیے تو  ذرا مزہ نہیں آیا۔ انگریز بہادر ہندوستان میں وارد ہوا تو شروع شروع میں اس نے اپنے طور کوشش کی کہ گھل مل جائے۔ نوابوں کا طرزِ زندگی اسے یوں بھی خوب بھایا۔ چنانچہ بہت سے صاحب بہادروں نے انگرکھا اور پاجامہ پیش کیا۔ قالین بچھائی ‘گائو تکیے رکھے ۔ حقہ پینا شروع کیا اور تو اور‘ شادیاں بھی مقامی خاندانوں میں کیں۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی میں ہر تین انگریزوں میں سے ایک کی بیگم ہندوستانی تھی ۔ ایسے انگریزوں کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح وضع کی گئی۔ ’’وائٹ مغل‘‘ یعنی وہ برطانوی جو ہندوستانی بادشاہوں اور نوابوں کے رنگ میں رنگے گئے۔ یہ لارڈ ولز لے تھا جس نے آ کر اس رجحان کے آگے تکبر اور استعمار کا بند باندھا۔1797ء میں وہ ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو یہ ’’چونچلے‘‘ اسے پسند نہ آئے۔ اس کا اصول صاف اورواضح تھا: حاکم حاکم ہے اور محکوم محکوم! کون سے ہندوستانی اور کیسی شادیاں! قالینوں‘ حقوں‘ انگرکھوں چوڑی دارپا جاموں‘ پان کی گلوریوں اور پازیب پہنے تھرکتے پیروں کا انگریزی تہذیب سے کیا تعلق! ولز لے نے اپنے قیام کے دوران نہ ص...