اشاعتیں

مئی, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

میری اور لال چند کی ایک ہی قوم ہے۔ پاکستانی قوم!!

لال چند ربڑی بدین(سندھ) کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا  ہوا۔ والد گڈریا تھا۔ ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ گیارہ بچوں میں لال چند پانچویں نمبر پر تھا۔ 2009 ء میں اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے ذہن میں کچھ خواب تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک دن اس نے گھر والوں کو بتائے بغیر بدین شہر کا رُخ کیا۔ اور پاک فوج میں بھرتی ہو گیا۔ بھرتی ہونے کی وجہ بے روزگاری تھی نہ کچھ اور۔ اس کی وجہ اس کے خواب تھے۔ مادرِ وطن کا دفاع کرنے کے خواب! دشمن سے لڑنے کے خواب! اس کے بھائی بھیمن کا کہنا ہے کہ جب اس کی تعیناتی وزیرستان میں ہوئی تو وہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو کچل دینے کے ولولے کے ساتھ  وہاں پہنچا ۔اس کا کہنا تھا’’جن عناصر نے میرے وطن کے لوگوں اور بچوں کو نقصان پہنچایا ہے‘ میں ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لوں گا!‘‘ اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ وہ بچپن ہی سے فوج میں بھرتی ہونے کا خواہش مند تھا۔ اس کی ہمت قابلِ رشک تھی۔ ارادے بلند تھے۔ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ پھرگریجوایشن کر...

جھوٹ!جھوٹ!جھوٹ

میز پر گلاس پڑا ہے۔ آپ پوچھتے ہیں یہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں۔ پیالی ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں آنکھ تک نہیں جھپکتا۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گلاس کو پیالی کا نام دیتا ہوں۔ یہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کا رویہ ہے۔ جھوٹ!جھوٹ! ہر معاملے میں جھوٹ! تعجب ہے یہ قوم صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جھوٹا کہتی ہے۔ دکاندار جھوٹ بولتا ہے۔ سفید جھوٹ! یہ تو ہماری خرید ہے۔ لے جائیے‘ اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ گارنٹی ہے۔ جب آپ تحریری گارنٹی مانگتے ہیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتا ہے۔ ماں باپ بچوں سے ‘ بچے ماں باپ سے‘ بیوی میاںسے‘ شوہر بیوی سے ‘ ملازم مالک سے‘ مالک ملازم سے ‘ اہلکار افسر سے‘ افسر اپنے سے سینئر افسر سے‘ ہر شخص ہر جگہ ہر وقت جھوٹ بول رہا ہے۔ مقررہ وقت پر نہ پہنچنا اور گھر بیٹھے ہوئے یہ کہنا کہ میں راستے میں ہوں۔ عام ہے‘ اس سب کچھ کے باوجود نمازیں روزے صدقے خیرات حج عمرے سب چل رہے ہیں۔ ساتھ پوری دنیا پر سازشی ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ بھارتی عورت ڈاکٹر عظمیٰ نے بھارت واپس جا کر میڈیا پر جو یاوہ گوئی پاکستان کے بارے میں کی ہے اور جسے اب بھارتی میڈی...

جی ڈی پی کا کیپسول

نہ جانے حسنِ اتفاق تھا کہ سوئِ اتفاق‘ اس سال بھی بجٹ آیا تو میں گائوں میں  تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ چاچا گاما ملا۔ اب وہ ہے تو میری ہی عمر کا مگر سارا گائوں اسے چاچا گاما کہتا ہے تو میں اور میرے ہم عمر بھی یہی کہتے ہیں۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا‘ ٹی وی پر بجٹ پڑھا جا رہا ہے اور تم یہاں گائوںمیں نمازیں پڑھتے پھر رہے ہو۔ کیا تم نے ٹی وی چینلوں پر بجٹ کی تعریفیں نہیں کرنا تھیں؟ چاچے گامے کی یہ پرانی خصلت ہے۔ بات بات پر طنز‘ بات بات پر چوٹ۔ اب مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے کیا بتاتا کہ بجٹ کی تعریفیں کرنے والے کون ہیں۔ اگر اسے بتاتا کہ تعریفیں کرنے والے اپنے خریدے ہوئے ملبوس نہیں پہنتے۔ خلعتِ شاہی زیب تن کرتے ہیں اور بیرونی دوروں پر ہم رکابی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس نے طنز کا کوئی نیاتیز چھوڑ دینا تھا۔ کہنے لگا‘ ساری باتیں یہاں نہیں ہو سکتیں‘ صبح ناشتہ ہمارے گھر آ کر کرو تمہاری چاچی بھی تمہیں یاد کر رہی تھی۔ چاچے گامے اور چاچی کے ساتھ ناشتہ کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر ان کا ایک عدد بھتیجا جو ان کے ساتھ رہتا ہے‘ قطعاً پسند نہیں۔ ایسی ایسی باتیں ک...

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا محمد اقبال

محمد اقبال نے جس دن وزارتِ داخلہ کی چھت سے کود کر خود کشی کی، ٹھیک اُسی دن، چند گز دور، وزارت خزانہ میں، کمرے ایئرکنڈیشنڈ تھے اور بابو ان ٹھنڈے کمروں میں، نکٹائیاں لگائے، کوٹ ہینگروں پر لٹکائے، اعداد و شمار کے پکوان تیار کر رہے تھے تا کہ عوام کو لٹا کر، ان کے گلے پر پائوں رکھ کر، یہ پکوان ان کے حلق سے نیچے اتارے جائیں۔ اعدادوشمار کے ان پکوانوں میں کوئی پکوان ایسا نہ تھا جو 35سال حکومت پاکستان کی چاکری میں گزارنے والے محمد اقبال کو دوکمروں کی ایک جھونپڑی دے سکتا۔ جس دن مملکت خداداد پاکستان کی تیس فٹ بلند چھت سے کودنے والے محمد اقبال نے حکومت پاکستان کی پیش کردہ شرط منظور کی، اس سے چند دن پہلے سعودی عرب اور یو اے ای کی برادر حکومتوں نے ٹرمپ کی بیوی کی این جی او کو دس کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ اگر ان دس کروڑ ڈالروں میں سے چند ہزار ڈالر محمد اقبال کو مل جاتے تو وہ خود کشی نہ کرتا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا محمد اقبال ایک سال بعد ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ صرف ایک سرکاری کوارٹر تھا جو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے واپس لے لینا تھا۔ اُس دن جب چند گز دور وزارتِ خزانہ م...

ہلاکو خان بطور مہمان خصوصی

مبارک ہو! مبارک ہو! عالم اسلام کو لاکھ لاکھ مبارک ہو کہ اسلامی ملکوں کے  سربراہی اجلاس میں ہلاکو خان مہمان خصوصی تھا! دجلہ کا پانی جس نے سرخ کیا۔ عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جس نے کارپٹ بمباری کی! عراق کو حصوں بخروں میں بانٹ کر مستقل خانہ جنگی کی دہکتی آگ میں دھکیلا اور اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے والے صدام حسین کے ساتھ وہی سلوک کیا جو سینکڑوں سال پہلے عباسی خلیفہ کے ساتھ چنگیز خان کے پوتے نے کیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ عباسی خلیفہ نام کا خلیفہ تھا جبکہ صدام حسین نے عراق کو اسرائیل کے مقابلے میں مجتمع کر کے رکھا ہوا تھا! اسی امریکہ کو‘ جو بغداد کے لیے ایک اور ہلاکو خان ثابت ہوا‘ عالم اسلام کی کانفرنس نے مہمان خصوصی کا اعزاز بخشا! مبارک ہو! مبارک ہو! اے مسلمانان عالم تمہیں بہت بہت مبارک ہو! جس امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ کوئی شاہراہ چھوڑی نہ پل‘ جس کے سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر افغانوں کی بے حرمتی کی‘ جس نے افغانوں کی دو نسلوں کو در بدر کیا‘ اس کا لیکچر اور وہ بھی دہشت گردی کے خلاف‘ اسی افغانستان کے صدر نے ریاض میں سر جھکا کر‘ آنکھیں نیچی کر کے...

کیا یہ تحفہ ہمارے رویّے بھی تبدیل کرے گا؟

لڑکا سفر پر نکلا تو جنگل میں ایک بابا جی ملے۔ انہوں نے تین تحفے دئیے۔ پہلا تحفہ ‘ لکڑی کی ایک چھوٹی سی ماچس کی ڈبیا جتنی میزتھی جو جیب میں رکھی جا سکتی تھی۔ دوسرا تحفہ ایک ڈنڈا تھا۔ تیسرا کپڑے کا ایک تھیلا تھا۔ بابا جی نے بتایا کہ جب بھی بھوک لگے‘ جیب سے میز نکالو اور زمین پر رکھو۔ یہ بڑی ہو جائے گی۔ پھر جو کھانے کو دل کر رہا ہو‘ اسے بتائو‘ فوراً میز پر وہی ڈش ظاہر ہو جائے گی۔ کھانے کے بعد میز کو اٹھانے لگو گے تو پہلے کی طرح چھوٹی ہو جائے گی۔ ڈنڈا اس لیے ہے کہ کوئی تمہیں تنگ کرے یا دشمنی پر اتر آئے تو ڈنڈے کو حکم دینا‘ یہ اس شخص پر برسنا شروع ہو جائے گا۔ جدھر وہ بھاگے گا‘ ڈنڈا بھی اُدھر کا ہی رخ کرے گا اور مارتا رہے گا جب تک تم منع نہیں کرو گے۔ تھیلے میں دو لڈو ہیں۔ ایک وقت میں ایک لڈو نکالنا ہے نکالتے ہی لڈو پھر دو ہو جائیں گے۔ اس طرح ایک ایک کر کے تھیلے سے سینکڑوں لڈو نکالے جا سکیں گے۔ معلوم نہیں‘ خوش قسمت لڑکا ان طلسمی تحفوں سے کتنا لطف اندوز ہوا مگر ایک جادو کا تحفہ ہمیں بھی ہاتھ آگیا ہے۔ شمال کے پہاڑوں کے اُس پار رہنے والے بابے کی یہ عطائے خاص ہے۔ اب ہمارے سارے دلدّر دور ہ...

آبرو کس چڑیا کا نام ہے؟

جمرود پاکستانی قصبہ ہے جو پشاور سے سترہ کلو میٹر مغرب کی طرف واقع ہے۔  رنجیت سنگھ کی سکھ افواج اور درانیوں میں لڑائی اسی مقام پر ہوئی۔ افغانی جمرود پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہ 1837ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد جب بھی انگریزی حکومت نے مغربی بارڈر پر کوئی کارروائی کی جمرود اس کارروائی کا ہیڈ کوارٹر رہا۔ طورخم کی سرحد جمرود سے اڑتیس کلو میٹر دور ہے! اڑتیس کلو میٹر کا یہ علاقہ پاکستان کا حصہ ہے۔ یہ جمعرات کا دن تھا مئی 2017ء کی اٹھارہ تاریخ تھی جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ ہی کے ایک رکن نے دعویٰ کیا تھا کہ جمرود سے طورخم تک کا علاقہ پاکستان کا ہے نہ افغانستان کا۔ دلیل یہ تھی کہ ایسا انگریزوں اور افغان حکومت کے درمیان طے ہوا تھا۔ یہ شخص کون تھا؟ اس کا نام محمود خان اچکزئی ہے؟یہ اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد رکھنے کے لیے چادر اوڑھتا ہے۔ علم اس کا کتنا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اگر انگریز حکومت جمرود سے طورخم تک کا علاقہ ہندوستان کی ملکیت سے باہر سمجھتی تھی تو پھر لنڈی کوتل کو جو اسی علاقے میں واقع ہے اس نے خیبر رائفلز کا ہیڈ کوارٹر...

ہمارے سفارت خانے یا کس دینے والے شکنجے!

جنوری کا مہینہ اپنے آخری دن گن رہا تھا جب یہ کالم نگار جنوب کے ساحلی  شہر میلبورن میں اترا۔ نصف کرۂ جنوبی میں، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے لے کر، جنوبی افریقہ، برازیل اور چلّی تک جنوری میں موسمِ گرما عروج پر ہوتا ہے مگر میلبورن کے موسم گرما کا کیا کہنا! دو دن ٹمپریچر اگر تیس کے اوپر ہے تو تیسرے دن بیس سے کم! ہر کوئی اپنے بیگ میں کم از کم ایک سویٹر یا جیکٹ ضرور ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ایک نیم ادبی اور نیم سماجی تقریب تھی جس میں چند نوجوان ملے اور اپنے اُس مسئلے کا رونا رویا جس کے سبب وہ پریشان تھے۔ دو خاص طور پر اس لیے کہ ان کی بیویاں پاکستانی نہیں تھیں۔ نوجوانوں کا دعویٰ تھا کہ حکومتِ پاکستان کی جاری کردہ ویزا پالیسی کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کی غیر پاکستانی بیویوں کو پانچ سال کا ملٹیپل (Multiple) ویزا دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک سال تک پاکستان میں قیام کر سکتی ہیں لیکن کینبرا کا پاکستانی ہائی کمیشن ملٹیپل کے بجائے سنگل انٹری ویزا جاری کرتا ہے۔ بسا اوقات فیس پانچ سال کی چارج کر لی جاتی ہے مگر ویزا ایک سال کا دیا جاتا ہے اور وہ بھی سنگل انٹری، یعنی صرف ایک بار کے لیے! ان...

انقلابوں کا انقلاب

سر کے اوپر ایک چھلنی لگی ہوئی ہے۔ اور دیوار میں ایک پیچ ہے۔ جہاں اس پیچ  کو پھرایا چھلنی میں سے مینہ برسنا شروع ہوا ۔اس کے نیچے کھڑے ہو کر پھر خوب نہا لیے اور اس کا پیچ بند کر دیا (بیت الخلا میں) مثل کموڈ کے ایک چیز بنی ہوئی ہے مگر ایک عمدہ بات یہ ہے کہ اس کے پاس ایک برنجی حلقہ لگا ہوا ہے۔ بعد رفعٰ حاجت اس حلقے کو اٹھایا اور کموڈ کے ظرف چینی میں پانی آیا اور سب میلے کو بہا لے گیا اور وہ ظرفِ چینی بالکل صاف ہو گیا یہ دونوں پیراگراف سرسید احمد خان کی تحریر ہیں۔1869ء میں لندن جانے کے لیے بحری جہاز میں سفر کیا تو یہ دونوں حیرت کدے دیکھے جسے چھلنی کہہ رہے ہیں کہ جس سے پانی بارش کی طرح برستا ہے باتھ روم کا شاور ہے۔ ظرف چینی میں پانی آنے سے مراد کموڈ کو فلش کرنا ہے۔ ظاہر ہے ہندوستانیوں کے لیے یہ دونوں چیزیں نئی تھیں۔ بحری جہاز میں انہوں نے پہلی بار دیکھیں اور ہم وطنوں کو اس حیرت میں شریک کیا۔ وہ 1869ء تھا آج 2017ہے ۔ان ڈیڑھ سو برسوں میں اہل مغرب نے ایجادات اور دریافتیں کر کر کے باقی دنیا کو حیران پریشان کر دیا ہے۔ نامور ادیب ذکاء الرحمن مرحوم سے ایک بار بات ہو رہی تھی کہ بہ...

اخفش کی بکریاں

اچھی بھلی تھی۔ نہلا دی گئی۔پانی ٹھنڈا بھی نہیں تھا۔ بس نہلائے جانے کے بعد گھٹڑی بن گئی۔ گردن نہیں اٹھا رہی تھی۔ یوں لگتا تھا توانائی جسم میں نہیں رہی۔ گھنٹہ دو گھنٹے گزر گئے۔ اب مریضہ کو تشویش لاحق ہونے لگی۔ پریشانی بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ڈاکٹر کی تلاش شروع ہوئی۔ اس علاقے میں حیوانات کا ڈاکٹر(بیطار) نزدیک نہیں تھا اور اگر تھا تو اس کا علم نہیں تھا۔ ایک عزیز فوج میں میجر صاحب تھے اور اسی شعبے کے ڈاکٹر تھے۔ انہیں فون کیا گیا۔ انہوں نے علامات پوچھیں اور تفصیلات جانیں۔ پھر دوا تجویز کی جو فوراً خرید کر شروع کرائی گئی۔ خوراک میں مرغی کی یخنی بتائی۔ جو باقاعدگی سے دی جاتی رہی۔ دو دن کے بعد مریضہ کی حالت سنبھلی اور لڑکی کی جان میں جان آئی۔ مِسّی ہے تو مرضیہ کی، مگر جلد ہی گھر بھر کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ کہتے ہیں بلیاں اتنی وفادار نہیں ہوتیں جتنا کتے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے مِسّی بھی اتنی وفادار نہ ہو مگر سوشل ضرور ہے۔کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کی نگاہِ التفات مجھ پر زیادہ پڑنے لگی۔ جہاں بیٹھتا، آ کر گود میں بیٹھ جاتی۔ یا پہلو میں بیٹھ کر جسم کو مَس کرتی۔...

ہم ارتقا کا سفر طے کر رہے ہیں

تاریخ پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے اس لیے کہ قدرت یہی چاہتی ہے۔ تاریخ کا اپنا عمل ہے۔ پروسیس ہے۔ اس کی بھٹی سے ملکوں اور قوموں کو گزرنا ہوتا ہے۔ پاکستان بھی تاریخ کی بھٹی سے گزر رہا ہے۔ فوج نے اگر کہا کہ وزیر اعظم فائنل اتھارٹی ہیں۔ جو حکم دیں عمل ہونا چاہئے تو کسی فرد یا کسی شخصیت کے لیے نہیں کہا وزیر اعظم پاکستان کے لیے کہا ہے۔فوج نے پاکستان کے مستقبل میں اپنا مثبت حصّہ ڈالا ہے۔ یہ فوج کا کنٹری بیوشن ہے۔ ہم تاریخ کے عمل سے مرحلہ وار گزر رہے ہیں۔ ہم  Process میں ہیں۔ یہ عمل پست ترین سطح سے شروع ہوا۔ ایوب خان نے سول حکومت کو چلتا کیا۔ نام نہادعشرۂ ترقیاس قوم نے بھگتا۔ اس ملک نے یحییٰ خان اور ضیاء الحق کو سہا۔ پرویز مشرف کی وردی کو جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے برداشت کیا۔ ارتقا اسی کو کہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے جس طرح پرویز مشرف کو چلتا کیا یہ تاریخ کا ضروری عمل تھا۔ پھر جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ہم ارتقا کی جانب بڑھتے رہے۔ یہ سہرا جنرل قمر باجوہ کے سر بندھا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی اتھارٹی تسلیم کر کے اس ملک کو واقعتاً جمہوری ملکوں کی صف...

ڈکشنری پر تو ہاتھ صاف نہ کیجیے

گھر بہت اچھا تھا۔ کمرے لائونج رسوئی اور باتھ روم! عمدہ ٹائلیں لگی تھیں۔ دیواریں براق کی طرح سفید! چھتوں پر عمدہ کام! دروازے خالص لکڑی کے اور کیا چاہیے تھا! مگر گھر والوں کو کچھ اور بھی چاہیے تھا ؎ بھرا نہ اطلس و مر مر سے پیٹ خلقت کا یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی تھی بیوی کچن کا رونا روتی مہنگائی کا شکوہ کرتی تو چودھری صاحب کمرے میں دوسرا ایئرکنڈیشنر لگوا دیتے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ اٹھتا تو چودھری صاحب ایک اور خوبصورت کمرہ تعمیر کرا دیتے! صحت کی انشورنس پر بات ہوتی تو کہتے باتھ روم میں شاور ولایتی لگوانا ہے۔ ان پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ گھر ٹاپ کلاس ہونا چاہیے۔ کمرے ایسے ہوں جیسے جادو کے ہوتے ہیں۔ باتھ روم میں داخل ہونے والا ششدر رہ جائے۔ چھت کی طرف دیکھے تو دیکھتا رہ جائے۔ گھر والے صحت تعلیم سکیورٹی اور تربیت کی بات کرتے۔ دو متوازی لکیریں چل رہی تھیں۔ ایک چودھری صاحب کی ایک گھر والوں کی۔ دونوں مل ہی نہیں رہی تھیں۔ دو روز قبل ننکانہ صاحب میں وزیراعظم کی تقریر سن کر بے اختیار چودھری صاحب کے گھر کا قصہ یاد آ گیا۔ کیا ترقی صرف شاہراہوں اور پلوں کا نام ہے؟ وہ جو ماڈرن لوگ کہ...