اشاعتیں
اپریل, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
اسلام کے قلعہ میں انسانی جان کی قدر و قیمت
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ ایک احاطہ تھا۔ تین اطراف میں دکانیں تھیں۔ ایک طرف سے باہر آنے جانے کا راستہ تھا۔ صفدر ایک سٹور سے خریداری کر کے نکلا اور اپنی گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھنے لگا۔ اچانک اُسے پیچھے سے کمر پر دھکا لگا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک صاحب گاڑی ریورس کر رہے تھے۔ ریورس کرتے کرتے انہوں نے گاڑی کے عقبی حصے کو صفدر کی کمر کے ساتھ جا لگایا تھا۔ درد تو ہوا مگر کچھ ہی دیر میں صفدر کو محسوس ہوا کہ درد غائب ہو چکا ہے۔ اتنی دیر میں گاڑی والا شخص، سفید فام امریکی، گاڑی سے اُتر کر صفدر کے پاس پہنچ چکا تھا اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کر رہا تھا۔ صفدر نے خوش دلی سے بتایا کہ کوئی بات نہیں۔ بس معمولی سا دھکا لگا ہے۔ سفید فام شخص ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔ صفدر نے غیر شعوری طور پر نوٹ کیا کہ وہ اُسی سٹور میں داخل ہو گیا جہاں سے ابھی صفدر خریداری کر کے نکلا تھا۔ صبح بیدار ہوا تو صفدر کی کمر میں شدید درد تھا۔ حرکت بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ٹیسٹ ہوئے، معلوم ہوا کہ مسئلہ ٹیڑھا ہے اور علاج میں وقت لگے گا۔ اخراجات کا معلوم ہوا تو صفدر پریشان ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اخراجات اُس شخص کو ادا کر...
تو پھر شہزادی بھی ہم پر حکومت کرکے دیکھ لے !!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
2000 ء تک واضح ہو چکا تھا کہ جمال مبارک اپنے باپ کا جانشین ہو گا۔ نائب صدر کا عہدہ موجود ہی نہیں تھا۔ عملاً جمال ہی نائب صدر تھا۔ سرکاری جماعت نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی55 کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل وہی تھا اور پالیسی کمیٹی55 کا طاقت ور منصب بھی اُسی کی جیب میں تھا۔ حُسنی مبارک نے ربڑ نما پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم بھی کروائی کہ جمال کا راستہ صاف ہو جائے اور وہ اگلا حکمران بنے۔ مگر ساری ترکیبیں، سارے منصوبے دھرے رہ گئے۔ تختہ الٹ دیا گیا۔ پھر کرپشن کے الزامات لگے۔ جیل کی سلاخیں، فوٹو گرافروں کے چبھتے کیمرے، دنیا بھر کے میڈیا میں تذلیل ! کوئی ہے جو عبرت پکڑے۔ کہاں ہے حسنی مبارک اور کہاں ہے ولی عہد جمال مبارک ؟؟ 2012ء کا موسم گرما قذافی کے بیٹے محمد قذافی نے لندن کی خنک ہوائوں میں گزارنا تھا مگر بھاگ کر الجزائر میں چھپنا پڑا۔ سیف الاسلام ، قذافی کے دوسرے بیٹے کو جیل جانا پڑا۔ تیسرے بیٹے موسیٰ کو نائجر میں پناہ لینا پڑی۔ نائجر، جہاں اس کے جانور بھی رہنا پسند نہ کرتے۔ ہنی بال، ایک اور بیٹا، جو پیرس کی شاہراہوں پر نشے میں دھند کاریں چلاتا تھا آج کسی کو نہیں معلوم ، نہ پرواہ ہے، کہ کہاں ہے؟ ...
فراز! راحت جاں بھی وہی ہے! کیا کیجے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یورپی ملکوں کے سفیروں کو شاہ عباس صفوی کے دربار میں ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ وہ گھنٹوں، قالین پر، آلتی پالتی مار کر، نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ دربار میں سلطنت عثمانیہ کا سفیر بھی موجود تھا۔ اس نے ایرانی بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ قسطنطنیہ میں یورپی تاجروں کے گھروں میں جاتا رہتا ہے اور وہاں اس نے یہ نوٹ کیا ہے کہ انگریز سٹول پر بیٹھتے ہیں۔ بادشاہ نے یورپی سفیروں کو دربار میں سٹول پر بیٹھنے کی اجازت تو دے دی مگر ترک سفیر کی مداخلت اسے پسند نہ آئی۔ یوں بھی وہ ترک سفیر کے سامنے سلطنت عثمانیہ کی تضحیک کا کوئی موقع گنواتا نہ تھا۔ یورپی سفیروں کو جام صحت تجویز کرتے ہوئے اس نے کہا میں ایک نصرانی کے جوتے کی بھی بہترین ترک کی نسبت زیادہ عزت کرتا ہوں۔ شاہ عباس اول کا عہد حکومت ء سے ء تک رہا۔ یہ زمانہ ہندوستان میں اکبر اور جہاں گیر کا تھا۔ شاہ عباس تاریخ میں مضبوط عہد حکومت اور اصلاحات کی وجہ سے عباس اعظم (عباس بزرگ) کے طور پر جانا جاتا ہے مگر تین کام اس نے اور بھی کئے۔ اول۔ مسلک کو سرکاری طور پر اپنایا اور سنیوں کی کثیر تعداد کو اپنے مسلک پر، جیسے بھی، جس طرح بھی، لا کر رہا۔ د...