اشاعتیں

فروری, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

شرم تم کو مگر نہیں آتی

تصویر

دو پاکستان

پرندہ تب پنجرے میں بند نہ تھا! یہ وہ زمانہ تھا جب وہ آزاد تھا۔ کھلی فضائوں میں اڑتا تھا۔ باغ تب ہرا بھرا تھا۔ کوئی صید تھا نہ صیّاد! درخت سرسبز تھے۔ فرش مخملیں تھا۔ آبِ رواں کے ہر طرف نظارے تھے۔ چہکار تھی اور مہکار ! فضا میں خوف نہ تھا۔ اعتماد تھا اور سکون! وہ زمانہ خواب و خیال ہو گیا۔ اب پرندہ پنجرے میں بند ہے۔ وہی باغ ہے مگر پرندے کی آنکھوں کے سامنے ہر روز کوئی نہ کوئی پنجرہ کھلتا ہے ۔ کسی پرندے کی گردن مروڑی جاتی ہے اور اس کی لاش باغ کے اس فرش پر پھینک دی جاتی ہے جو کبھی ریشم کا لگتا تھا اور اب کھردرا اور ویران ہے! ہر روز پرندے کو یوں لگتا ہے کہ آج اس کی باری ہو گی اور یہ دن اس کا آخری دن ہے۔ روشیں دلدل میں بدل گئی ہیں۔ درخت ٹنڈ منڈ ہیں جیسے نوحے پڑھ رہے ہوں۔ پھولوں کا نشان تک باقی نہیں۔ ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ‘ کانٹوں اور بدنما جھاڑیوں کا منظر ہے۔ باغ میں مکروہ چہروں والے بندوقچی ادھر ادھر دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ بندوقچی ہر اس شے کے دشمن ہیں جو زندگی کی علامت ہو۔ درختوں کے سبز پتے‘ پھول‘ سبزہ‘ پرندے‘ گیت‘ خوشبو‘ پانی‘ یہاں تک کہ خنک ہوا کا اِکاّ دکاّ جھونکا بھی انہیں گوارا نہیں...

کیا اب اونٹ کو خیمے سے نکالا جا سکے گا؟

تھائی لینڈ ملائشیا کے شمال میں واقع ہے۔ سمگلنگ دونوں ملکوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا تھا۔ 1970ء کے عشرے میں دونوں ملکوں نے اپنی اپنی سرحد پر دیواریں تعمیر کر دیں‘ یہ دیواریں کنکریٹ اور لوہے سے بنائی گئیں ‘اوپر خار دار تار لگائی گئی۔ کہیں کہیں لوہے کی باڑ بھی تھی۔ دونوں دیواروں کے بیچ میں جو فاصلہ رہ گیا تھا‘ سمگلروں اور منشیات کے سوداگروں نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔2001ء میں دونوں ملک پھر سر جوڑ کر بیٹھے۔ اب کے یہ طے ہوا کہ صرف ایک دیوار ہو گی اور وہ تھائی لینڈ کی زمین پر تعمیر ہو گی ۔ اڑھائی میٹر بلند یہ دیوار‘ نیچے سے کنکریٹ کی ہے اور اوپر سے لوہے کی ۔ دیوار بنانے کی جو وجہ بتائی گئی وہ سمگلنگ کا انسداد تھا مگر 1990ء اور 2000ء کے عشروں کے دوران جنوبی تھائی لینڈ میں بغاوت کی ہلچل تھی‘ چنانچہ سیکورٹی بھی ایک بڑا سبب تھا! دنیا کے بیسیوں ممالک ایسے ہیں جنہوں نے بارڈر پر دیواریں بنائی ہوئی ہیں یا لوہے اور تاروں کی ناقابل عبور باڑ لگا دی ہے۔ ارجنٹائن اور پیراگوئے کے درمیان دیوار زیر تعمیر ہے بوٹسوانا اور زمبابوے کے درمیان پانچ سو کلو میٹر لمبی دیوار بنائی گئی ہے چین اور شمالی کوریا کے درمیان ڈیڑھ...

لاہور ہائیکورٹ کا حکم اور سی ایس ایس کا امتحان

لاہور ہائیکورٹ نے 2018ء سے سی ایس ایس کے امتحانات اُردو میں لینے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم پر تکنیکی اور ماہرانہ رائے تو ان اداروں کو دینا چاہیے تھی جو اُردو زبان کے نفاذ اور ترویج کے لیے تقریباً نصف صدی سے قائم ہیں‘ مگر ان کی طرف سے اس حکم کے قابلِ عمل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق گہرا سکوت ہے۔ مقتدرہ قومی زبان اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا لیکن تاحال یہ ادارہ تراجم اور وضعِ اصطلاحات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ شاید اسی لیے حکومت کو اس کا نام بدلنا پڑا۔ اس میں کیا شک ہے کہ تراجم اور وضعِ اصطلاحات کا کام‘ نفاذ اُردو کے راستے میں اہم سنگ میل کا مرتبہ رکھتا ہے مگر اصل کام اس سے آگے کا ہے! کیا فوراً سی سی ایس کے امتحانات اُردو میں لیے جا سکتے ہیں؟ کیا متعلقہ ادارے‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘ اس کے لیے تیار ہیں؟ ان سوالات کا حقیقت پسندانہ جواب ملنا ضروری ہے۔ پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اگر سی ایس ایس کے امتحانات اُردو میں شروع ہو گئے تو انگریزی کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا یا بین الاقوامی اہمیت کے پیشِ نظر اسے اہم کردار سونپنا ہو گا؟ ...

اپیل، وکیل نہ دلیل

گائوں میں قتل ہوتا تھا تو تھانیدار وہاں ڈیرہ ڈال لیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ انگریز ایس پی اس کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ ہم نے یہ ’’انگریزی‘‘ روایت ختم کر دی۔ پاکستان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں قتل پولیس کی کتابوں میں ’’نامعلوم‘‘ قاتلوں کے ساتھ درج ہیں۔ ریلوے کو دیکھیے‘ کس حالت میں سفید چمڑی والا سامراج چھوڑ کر گیا تھا۔ ہم سے پٹریوں کا لوہا تک بیچ کھایا۔حویلیاں تک انگریز ریلوے دے گئے تھے۔ ایبٹ آباد وہاں سے صرف دس بارہ میل ہے۔ جہاں تھی ریلوے لائن اب بھی وہیں تک ہے۔ ان دعووں پرنہ جائیے کہ ریلوے خنجراب تک یا چترال تک جائے گی! پنڈی سے مری تک بھی چلی جائے تو مٹھائی بانٹیے گا اور بکرا ذبح کیجیے گا! قانون کی عملداری پر غور فرمائیے۔ پاکستان بنا تو اس وقت… اور اس کے بعد بھی کئی عشروں تک‘ قانون کی حرمت قائم تھی۔ ملازمت کے لیے اگر عمر کی حد معین تھی تو بس معین تھی۔ اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا تھا۔ مگر پھرہم نے اس میں پاکستانیت داخل کی۔ اب سائل’’اوپر‘‘ پہنچتا ہے اور خصوصی حکم لا کر افسر کے منہ پر مارتا ہے! مگر افسوس انگریزوں کی چھوڑی ہوئی جو شے تبدیل کرنی چاہیے تھے‘ وہ وہیں کی وہیں رہی۔ گویا پطرس کے...

نوحہ

پھول بانٹنے پر پابندی ہے۔ لہو بہانے کی آزادی ہے    ع اے مری قوم! ترے حُسنِ کمالات کی خیر! جوان مارے جا چکے۔ زمین ہے کہ اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ چار ہزار کے لگ بھگ پولیس کے جوان اور افسر اپنے آپ کو نچھاور کر چکے۔ ہزاروں سویلین شہید ہو چکے۔ ہزاروں فوجی مائوں کو بے آسرا اور بچوں کو یتیم چھوڑ گئے۔ اے ارضِ وطن! اب اور کیا چاہیے؟ اے سرزمینِ وطن! تیری تو اپنی قسمت خراب ہے۔ ایسے ایسے تیرے فرزند تیرے سینے پر چل رہے ہیں جو تجھے ماں ہی نہیں مانتے۔ وہ گیہوں تیری کھاتے ہیں۔ پانی تیرا پیتے ہیں تیری چاندنی سے آنکھوں کی بینائی تیز کرتے ہیں۔ تیرے درختوں کی چھائوں میں‘ میٹھی ٹھنڈی چھائوں میں‘ بیٹھ کر مزے لیتے ہیں مگر جب تیرے سینے میں خنجر گھونپنے والوں کا ذکر آ جائے تو نفرین بھیجنے کے بجائے ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اگر‘ مگر ‘ اِف اور بَٹ لگاتے ہیں۔ تیرے دشمنوں کواپنے بچے کہتے ہیں۔ دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر! اے تیرہ بخت سرزمینِ وطن! تیرے فرزند ساری دنیا سے انوکھے ہیں۔ امریکہ میں نائن الیون برپا ہوا۔ ایک امریکی بھی ایسا نہیں جو ہلاکت برپا کرنے وا...

تعلیمی ادارے یا اکھا ڑے

سنگاپور میں تین قومیتیں آباد ہیں؛ چینی، مَلے (ملائیشیا کے اصل باشندے) اور انڈین۔ چینی تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر مَلے اور اس کے بعد انڈین۔ انڈین تقریباً تمام تامل ہیں۔ سنگاپور کا پہلا صدر ایک مَلے تھا۔ یوسف بن اسحاق جو 1965ء سے 1970ء تک صدارت پر فائز رہا۔ چھٹا صدر انڈین تامل تھا، ایس آر ناتھن! آپ پورا سنگاپور گھوم جائیے، کوئی علاقہ، کوئی محلہ، کوئی سیکٹر ایسا نہیں ملے گا جہاں کسی ایک قومیت کے ماننے والے بھاری اکثریت میں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں علاقہ چینیوں کا گڑھ ہے، فلاں محلے میں مَلے رہتے ہیں اور انڈین لوگوں کی پاکٹ فلاں جگہ ہے۔ سنگاپور حکومت کی رہائشی پالیسی دنیا کی کامیاب ترین رہائشی پالیسیوں میں شمار ہوتی ہے۔ کسی بھی نئی آبادی کی منصوبہ بندی ہو تو وہاں تینوں قومیتوں کو سمویا جاتا ہے۔ نئے اپارٹمنٹوں پر مشتمل رہائشی بلاک زیر تعمیر ہوں تو ہر قومیت کے گھروں کی تعداد پہلے سے مقرر ہوگی۔ یعنی یہاں اتنے گھر چینیوں کے ہوں گے اور اتنے مَلے کے اور اتنے انڈین کے۔ اس پالیسی کے کئی فوائد ہیں۔ فسادات کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے کہ آبادی ہر...

ہم 1861ء میں جی رہے ہیں

بنیادی سوال یہ ہے کہ پولیس خدمت کے لیے ہے یا حکمرانی کے لیے؟ جن ملکوں میں پولیس کا کردار عوامی اور جمہوری ہے وہاں پولیس خود سائل کے پاس آتی ہے۔ ہمارے ہاں سائل کو تھانے جانا پڑتا ہے۔ 1857ء میں ہندوستان نے انگڑائی لی مگر بات نہ بنی۔ جنگ آزادی کی رہنمائی کے لیے کوئی مرکزی کمانڈ نہ تھی۔ مختلف محاذ کھلے ہوئے تھے جن کے اپنے اپنے کمانڈر تھے۔ دوسری طرف انگریزی حکومت ایک نظام‘ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت باغیوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ باغی شکست کھا گئے۔ پھر داروگیر کا طویل سلسلہ چلا۔ پھانسیاں دی گئیں۔ جائیدادوں پر ہل چلائے گئے۔ قید و بند کے سلسلے شروع ہوئے۔ چار سال بعد انگریزی حکومت نے پولیس کا 1861ء ایکٹ پاس کیا جس میں پولیس کو سامراج کی خدمت کا کردار دیا گیا۔ اس کا کام تھا مخبری کا نظام قائم کر کے مخالفین کو کچلنا۔ اس ایکٹ کے سیکشن 23 میں پولیس کے جن فرائض کا ذکر ہے، اس میں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ بغیر وارنٹ کے کسی بھی چار دیواری میں داخل ہو سکتی ہے۔ اسے اوپر سے موصول شدہ تمام احکام کو ماننا ہو گا اور خفیہ اطلاعات (انٹیلی جنس) کو جمع کرنا ہو گا۔ آج اگر پولیس کہے کہ اس کے علاوہ اس کے ف...

درست بات غلط جگہ پر

تصویر

سٹیٹس کو! سٹیٹس کو!

وارن ہیسٹنگز  ہندوستان کا پہلا باقاعدہ انگریز گورنر تھا۔ وہ 1772ء سے 1785ء تک اس منصب پر فائز رہا۔ آخری انگریز حکمران مائونٹ بیٹن تھا جس کے عہد میں بّرِصغیر تقسیم ہوا اور پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک وجود میں آئے۔ وارن ہیسٹنگز سے لے کر مائونٹ بیٹن تک کل 44 انگریزوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ ان 44 حکمرانوں میں کیا قدرِ مشترک تھی؟ سفید چمڑی رکھنے اور برطانوی ہونے کے علاوہ ان سب میں ایک صفت مشترک تھی۔ یہ سب ہندوستان میں صرف حکومت کرنے کے لیے آئے تھے۔ اس کے علاوہ بّرِصغیر میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی جائیدادیں‘ ان کا کاروبار‘ ان کے گھر‘ ان کے خاندان سب برطانیہ میں تھے۔ یہ ملکہ سے حکومت کرنے کا پروانہ وصول کرتے۔ بحری جہاز میں بیٹھتے‘ کلکتہ‘ ہگلی یا مدراس آ کر اترتے۔ دارالحکومت پہنچ کر چارج لیتے۔چند برس حکومت کرتے۔ پھر زمامِ اقتدار جانشین کے حوالے کرتے‘ جہاز میں بیٹھتے اور واپس برطانیہ پہنچ کر دم لیتے۔ ایک اور قدرِ مشترک یہ تھی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بّرِصغیر میں ان کا قیام عارضی ہے‘ ان حکمرانوں نے دل لگا کر کام کیا۔ خوب محنت کی۔ رات دن ایک کیا اور ملکہ سے اور برطا...

دُنیا میں سب سے بڑی تسلّی کیا ہے؟

دونوں لڑکوں نے ایک ہی بات کہی کہ بچوں کے لیے کھلونے لانے کی کوئی ضرورت نہیں! دلیل دونوں کی الگ الگ تھی۔ بڑے کا کہنا تھا کہ کھلونے گھر میں بہت ہیں۔ کمرے بھرے پڑے ہیں۔ بچوں کے نزدیک کھلونوں کی کوئی وقعت نہیں۔ آدھ گھنٹہ کھیلنے کے بعد بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگے ہیں اور کوالٹی بھی مشکوک۔ اس کا خیال تھا کہ وہ خرید کر ایئرپورٹ لے آئے گا اور ہم پہنچیں گے تو ہمیں دے دے گا، گویا کہ ہم لائے ہیں۔ مگر دادا نے کہ گرم و سرد چشیدہ تھا‘ بات نہ مانی! کھلونے پاکستان سے خریدے۔ چاروں کے ایک جیسے! حمزہ نے فرمائش کی تھی کہ کالے رنگ کی گاڑی ہو اور ریموٹ کنٹرول والی ہو۔ چنانچہ چاروں کے لیے گاڑیاں ہی لی گئیں۔ ہاں، رنگ مختلف تھے۔ حمزہ باپ اور ماں کے ساتھ ایئرپورٹ آیا ہوا تھا۔ تیمور اور اس کا باپ میلبورن سے ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر تھے اور ابھی راستے میں تھے۔ پھر وہی ہوا جو دادا کو معلوم تھا۔ پانچ منٹ صبر کرنے کے بعد حمزہ نے پوچھا: ’’میری کالی کار کہاں ہے؟‘‘۔ اُسے بتایا کہ سلیٹی رنگ کے اٹیچی کیس میں پڑی ہے۔ وہ اٹیچی کیس کے پاس گیا اور اسے ہاتھ لگایا۔ ’’گھر پہنچ کر اُسے چلاتے ہ...

ہمارے حال پر نئی مسدّس لکھی جائے!

یہ سیاپا ایک دن کا نہیں! آئے دن وہاں سے گزرنا ہے۔ جب بھی گزرنا ہے‘ زخم ہرا ہونا ہے۔ بنکاک ایئرپورٹ پر ذہنی تنائو اس قدر اذیت دیتا ہے جیسے ابھی سر پھٹ جائے گا۔ ہر بار ایک ہی سوال کیا ہم ایسا ایئر پورٹ کبھی نہیں بنا سکیں گے؟ چار چاربالشت کے تھائی باشندے ! انگریزی سے تقریباً نابلد! ایشیا کا چھٹا مصروف ترین ہوائی اڈّہ چلا رہے ہیں اور ہر گھنٹے میں لاکھوں کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ اس ہوائی اڈے نے تھائی لینڈ کو دروازہ بنا دیا ہے۔ مشرقِ بعید کا دروازہ ‘ دنیا کے جنوب مشرقی حصّے کا دروازہ‘ چین اور ہانگ کانگ کے لیے‘ کوریا اور فلپائن کے لیے ڈیوڑھی ! گزشتہ برس ساڑھے پانچ کروڑ مسافروں نے اس ایئر پورٹ سے استفادہ کیا جن میں پونے پانچ کروڑ غیر ملکی تھے تیس لاکھ ٹن کارگو آیا اور گیا۔ ٹرمینل بلڈنگ دنیا کا چوتھا بڑا ٹرمینل ہے۔ (ہانگ کانگ‘ بیجنگ اور دبئی دیگر تین بڑے ٹرمینل ہیں) اس کا ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور دنیا کا سب سے اونچا کنٹرول ٹاور ہے! دو سال پہلے کے اعداد و شمار کی رُو سے اس ایئر پورٹ پر ایک دن میں آٹھ سو پروازیں اترتی ہیں یا روانہ ہوتی ہیں۔ شاید ہی دنیا کی کوئی ایسی ایئر لائن ہو گی جس کا ج...

ٹرمپ کو چھوڑیں گے نہیں!

گیدڑ کی موت آتی تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ ٹرمپ کی شامت آئی ہے تو اس نے مسلمانوں کو للکارا ہے۔ اس نے اپنی شکست کو آواز دی ہے۔ ہم مسلمان گاجر مولی نہیں کہ ٹرمپ کھیت سے اکھاڑے گا اور ہڑپ کر جائے گا۔ ہم دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی آبادی رکھتے ہیں۔ ہم پچپن آزاد خود مختار ملکوں کے مالک ہیں۔ ہمارے پاس بہترین افرادی قوت ہے۔ معدنیات کی دولت ہے۔ نباتات کی نعمت ہے۔ اس وقت آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک مسلمان ڈاکٹر چھائے ہوئے ہیں۔ ہم اگر آج ان ڈاکٹروں ہی کو واپس بلا لیں تو ایسا خلا پیدا ہو کہ ترقی یافتہ دنیا کے ہوش اڑ جائیں۔ ہم آج تیل کی برآمد بند کر دیں تو دنیا پتھر کے زمانے کو لوٹ جائے۔ ہم پچپن ممالک ‘ امریکہ سے سفیروں کو واپس بلا لیں اور سفارتی تعلقات ختم کر دیں تو امریکہ خوفناک تنہائی میں بے بس ہو کر رہ جائے! ٹرمپ یہ نہ سمجھے کہ صومالیہ سوڈان یمن ایران شام لیبیا اور عراق پر پابندی لگا کر اس نے صرف ان سات ملکوں کی دشمنی مول لی ہے۔ اس نے پورے عالمِ اسلام کوچیلنج کیا ہے! ہمارے لیے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا چنداں مشکل نہیں! ہم خاموش اس لیے ہیں کہ کچھ اہم امور طے کرنے میں مصروف ہیں ! ورنہ ...

کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی

قیامت کب آئے گی؟ بہت سوں نے پیش گوئیاں کیں۔حساب لگائے‘ تاریخیں دیں مگر کسی کا تخمینہ درست ثابت نہ ہوا۔ شاعر کی قیامت آ بھی چکی! اُس نے شدتِ غم میں کراہتے ہوئے کہا   ؎ قیامت سے بہت پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے ترا مل کر بچھڑ جانا قیامت اور کیا ہو گی کبھی شاعر نے یہ کام محبوب کی قامت کے سپرد کر دیا   ؎ کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی کلامِ پاک میں بتایا گیا ہے: ’’قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کون سا وقت ہے۔ کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا‘‘۔ اِسی آیت کے آخر میں دوبارہ کہا گیا: ’’کہہ دو اس کی خبر خاص اللہ ہی کے پاس ہے‘‘۔ (7:187) کبھی کبھی قدرتِ خدا وندی مہربان ہو جاتی ہے اور اپنے خاص بندوں کو ایسی اطلاعات دیتی ہے جو عام لوگوں کے علم میں نہیں سما سکتیں! ہمارے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی ایسے ہی برگزیدہ اشخاص میں سے ہیں۔ فرمایا ہے: ’’سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی کا آخری چانس ملا ہے‘‘۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ اگر سی پیک کے بعد پاکستان کو ڈیڑھ دو س...