اشاعتیں

جنوری, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

گھوڑے، حشم، حویلیاں، شملے، زمین، زر

پاکستان کو اپنے روایتی حریف بھارت پر جہاں دیگر بہت سے معاملات میں برتری حاصل ہے وہاں جاگیرداری کے ضمن میں بھی پاکستان زیادہ خوش قسمت واقع ہؤا ہے۔ ہائے! کیا رومانس ہے۔ زمینداری، گھوڑے، زمینیں، مزارع، ہاری، خادمائیں، حویلیاں، بندوقیں اور قتل! خدا سلامت رکھے ہمارے قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید احمد شاہ کو، دل خوش کر دیا انہوں نے! خبر آئی ہے کہ اپنی زمینوں کا معائنہ کرتے ہوئے آپ گھوڑے سے گر گئے اور چوٹ آئی! یہ دل خوش کن خبریں، یہ جاگیرداری کی باتیں، یہ گھڑ سواری، یہ زمینوں کے معائنے! واہ واہ! اس گئے گزرے زمانے میں بھی ہمارے پاس یہ نعمتیں موجود ہیں۔ بھارت نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ تقسیم کے فوراً بعد زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا۔ نوابیاں، راجواڑے، جاگیرداریاں سب بیک جنبشِ قلم ختم کر ڈالیں۔ کچھ راجے مہاراجے نواب ملک چھوڑ گئے۔ کچھ نے اپنے محلات میں ہوٹل کھول لیے۔ پھر بھارت نے زرعی ملکیت کی حد بھی مقرر کر ڈالی! پاکستان نے ایسی کوتاہ اندیشی کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں نہ جانے آج تک کیوں ہمارا نام نہ آسکا۔ جس قبیل کی سرداری اور جس نوع کی جاگیرداری ہمارے ہاں اِس...

حکومت کی بے بسی یا انکار

تصویر

ایک دن بھیس بدل کر سفر کیجیے

تیر کی طرح ایک ہرن درختوں کے جھنڈ سے نکلا اور بھاگ کھڑا ہوا۔  بادشاہ نے جب گھوڑے کو مہمیز لگائی تو ہرن کافی دور جا چکا تھا۔ بہرطور بادشاہ اس کا تعاقب کرنے لگا ہرن کی خوش قسمتی کہ فاصلہ اتنا کم نہ ہو پایا کہ بادشاہ تیر چلاتا۔ گھوڑا بگٹٹ بھاگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں محافظ‘ عمائدین ‘ شہزادے‘ لشکری سب پیچھے رہ گئے ۔سیاہ ابر پہلے سے موجود تھے۔ بارش شروع ہوئی اور پھراس قدر موسلا دھار کہ بادشاہ نے جائے پناہ کے لیے ادھر ادھر دیکھا۔ ایک طرف ایک جھونپڑاتھا کچی کوٹھری نظر پڑی۔ اسی طرف رُخ کر لیا آواز سن کر اندر سے ایک بوڑھا کسان نکلا اور مہمان کو اندر لے گیا۔ واحد چارپائی جس پر بیوی بچے بیٹھے ہوئے تھے خالی کرائی اور اُس کونے میں رکھی جہاں چھت ٹپک نہیں رہی تھی۔ بادشاہ چارپائی پر بیٹھا۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔ کونے میں کسان کی بیوی سمٹی بیٹھی تھی۔ ساتھ بچے‘ ٹپکتی چھت سے پانی کے قطرے ان کے قریب ہی گر رہے تھے۔ بارش رکی تو مسافر اٹھا اور چلا گیا۔  دوسرے دن ہرکارے آئے اور کسان کو اٹھا کر دربار لے آئے۔ بادشاہ نے رقم سے بھری تھیلی دی کہ جھونپڑی کو پکّے کمرے کی شکل دے دے۔ کسان نے تھیلی واپس ...

حکومت برطانیہ کی خدمت میں ایک عرضداشت

عالی قدر، گرامی مرتبت، غریب نواز محترمہ تھریسامے، وزیراعظم سلطنت برطانیہ اعلیٰ اللہ مقامہا! جیسا کہ جناب آگاہ ہیں‘ ہم درخواست گزاروں کا تعلق مملکت پاکستان سے ہے۔ حضور اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ مملکت پاکستان‘ برصغیر کا حصہ ہے اور برصغیر پر 1947ء تک برطانیہ کی حکومتی رہی ہے۔ جب اگست 1947ء کو حکومت برطانیہ ہم عوام کی رضا و منشا کے برخلاف برصغیر سے رخصت ہوئی تو یہ علاقہ دو آزاد ملکوں میں منقسم ہو گیا۔ جناب وزیراعظم! ہم درخواست گزار، مملکت پاکستان کے باشندے ہیں اور آج بھی حکومت برطانیہ کے کارنامے اور انصاف یاد کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ گورا بہادر کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رخصت ہوتے وقت حضور کی حکومت وہ گھاٹ اپنے ساتھ ہی لے گئی اور شیر و بکری کو چھوڑ گئی! عالی قدر وزیراعظم کو یاد ہو گا کہ انیسویں صدی کا تقریباً وسط تھا جب پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں ملکہ برطانیہ کی حکومت نے برصغیر میں ریلوے کا ڈول ڈالا۔ بنیادی طور پر ریلوے قائم کرنے کے دو مقاصد تھے۔ سرکاری فوج کی نقل و حرکت اور برصغیر کے اطراف و اکناف سے کاٹن اکٹھ...

کیڑے جو قومی جسد کو کھا رہے ہیں

تصویر

وزارتِ خارجہ کا قلمدان

کل ہم زخم چاٹ رہے تھے کہ پاسپورٹ کی رینکنگ میں ہم سب سے آخر میں ہیں سوائے ایک ملک کے جس کا نام افغانستان ہے۔ آج ایک اور سیاپا پڑ گیا ہے! یوں تو صدمے برداشت کرنا ہماری عادت ثانیہ ہو چکا ہے۔ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں! مرحوم اظہر سہیل ایک فقرہ کہا کرتے تھے کہ بات کر کے دیکھ لیتے ہیں‘ مانی گئی تو ٹھیک ورنہ ہماری کون سی پہلی بار بے عزتی ہو گی! صدر اوباما رخصت ہوئے۔ جاتے وقت وہ اپنی دوستیوں کو مستحکم کر رہے تھے۔ انہوں نے وزیراعظم مودی کو الوداعی ٹیلی فون کیا۔ شکریہ ادا کیا کہ بھارت امریکہ تعلقات کی گرم جوشی میں اضافہ کرنے کے لیے مودی صاحب نے اہم کردار ادا کیا اور امریکہ سے تعاون کیا۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ مودی کے علاوہ اوباما نے کسے فون کیا ہو گا؟ وزیراعظم پاکستان کو؟ نہیں! آپ کا خیال محض آپ کی خوش فہمی ہے۔ اوباما نے اس خطے میں صرف ایک اور ’’طاقت‘‘ کو اس قابل سمجھا کہ الوداعی فون کریں اور وہ طاقت افغانستان ہے! اوباما نے صدر اشرف غنی کو فون کر کے دو امور کا شکریہ ادا کیا۔ اوّل یہ کہ اوباما کے عہد میں افغانستان نے ترقیاتی منصوبوں پر خوب کام کیا۔ دوم یہ کہ دہشت گردی کو کم کر ...

غیر ملکی شکاری اور ہمارے اپنے مسیحا

غیر ملکی حکمران ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دال بندین پہنچا تو کیا آپ کو معلوم ہے اس کے استقبال کے لیے کون کون چشم براہ تھا؟ وزیر اعلیٰ کا مشیر برائے جنگلی حیات! مشیر برائے ٹیکس و ایکسائز! صوبائی سیکرٹری داخلہ اور چاغی کا ڈپٹی کمشنر! مشیر برائے جنگلی حیات کا منصب یہ ہے کہ وہ پرندوں اور جانوروں کی حفاظت کرے‘ مگر وہ تو شکاری کا استقبال کر رہا تھا! ستم ظریفی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ جس وزیر نے یہ دیکھنا ہے کہ ٹیکس ضرور ادا کیا جائے، وہ غیر ملکیوں سے ایک پائی وصول کیے بغیر انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔ سیکرٹری داخلہ کا کام صوبے کی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کا محافظ ہے! صرف یہی نہیں، ایف سی والے، پولیس والے اور لیوی والے دستوں کی شکل میں غیر ملکی شکاریوں کے جلو میں تھے! چاغی، خاران اور دوسرے ملحقہ علاقے نادر و نایاب پرندوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہاں سائبیریا سے آئے ہوئے مہاجر پرندے بھی ہیں۔ مہمانوں کو ہم فروخت کرتے رہے ہیں۔ ملّا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وہ تو پرندہ نہیں تھا! انسان تھا! اگر سائبیریا کے مہاجر پرندوں کے ہاتھ میں قلم اور منہ میں زبان ہوتی تو دنیا پڑھتی اور سنتی کہ ہ...

جب تخت گرائے جائیں گے

تصویر

متوازی ۔۔۔۔ سب کچھ متوازی

عزت مآب ہز ایکسی لینسی جناب رانا ثناء اللہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر قانون ہیں۔ پنجاب یوں سمجھیے ملک کا 75 فیصد حصّہ ہے۔ اس طرح عزت مآب رانا صاحب ملک کے 75 فیصد حصّے کے وزیر قانون ہیں۔ یہ خبر وحشت ناک تھی۔ خبر کا عزت مآب رانا صاحب کے قلمدانِ وزارت سے براہ راست تعلق تھا مگر عزت مآب رانا صاحب ایک طویل عرصہ سے جوڈیشل سسٹم کو ’’موثر‘‘ بنانے میں مصروف ہیں۔ جوڈیشل سسٹم کو ’’مضبوط‘‘ بنانے کے علاوہ عزت مآب رانا صاحب پراسیکیوشن کو بھی ’’موثر‘‘ بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ عزت مآب رانا صاحب کا اوڑھنا بچھونا قانون کا نفاذ اور قانون کی حکمرانی ہے! یہ مصروفیات ہمہ گیر ہیں اور عزت مآب رانا صاحب ان مصروفیات کے کیچڑ میں کمر تک نہیں‘ گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ بس یہ مجبوری ہے، جس کی وجہ سے یہ وحشت ناک خبر رانا صاحب تک نہیں پہنچ سکی۔ ہماری قابلِ صد احترام عدلیہ انصاف کو عوام کے دروازے تک پہنچانے میں رات دن مصروف ہے۔ اس مصروفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جُرم کے ثبوت کے بغیر زندانوں میں بند ہیں۔ عدلیہ کے انصاف کی وجہ سے کچھ لوگ پھانسی چڑھ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بے گناہ تھے۔ عد...

عزت جو ہمیں راس نہ آئی

تصویر

کیا دار الحکومت منتقل ہو رہا ہے

تصویر

محبت پاس سے گزرے تو کہُنی مار دینا

چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کا یہ میلہ اسلام آباد میں برپا ہوا۔ چار دن خوب گہما گہمی رہی۔ ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک جگہ جمع ہو کر کچھ کہنے اور کچھ سُننے کے مواقع ملے۔ اس موقع پر جنہیں نہیں بلایا گیا یا نہیں بلایا جا سکا‘ وہ اپنے اپنے مقام پر غم و غصّہ اتارتے رہے۔ جنہیں بلایا گیا‘ ان میں سے بھی کچھ ایسے تھے جو انتظامات پر تنقید کرتے رہے۔ شاید انسانی فطرت ہے کہ خوش مشکل سے ہوتی ہے  ؎ نہ مطمئن ہے فقیہِ حرم نہ رندِ خراب اِسے سزا کا ہے دھڑکا‘ اُسے جزا معلوم! ایک ادبی میلہ آرٹس کونسل کراچی والے بھی سال بہ سال منعقد کرتے ہیں۔ اس میں مگر فیصلے فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ایک ہی صاحب طے کرتے ہیں کہ کون شاعر ہے اور کون نا شاعر‘ اور کون ادیب ہے اور کون غیر ادیب! اکادمی ادبیات کا میلہ اس لحاظ سے غنیمت ہے کہ اس میں فیصلے فردِ واحد کے ہاتھ میں نہیں! اب کے متعلقہ وزارت کا قلم دان عرفان صدیقی کے پاس تھا۔ وہ خود کم و بیش اسی کوچے کے پرانے راہرو ہیں۔ تمام ممتاز اہل قلم سے ذاتی حوالے سے شناسائی رکھتے ہیں۔ ہر ایک سے ملتے ہیں، بات سنتے ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگی اپنی جگہ‘ مگر بنیادی ...

سی پیک معاہدے میں کچھ مزید شقیں ڈالنا ہوں گی

کبھی گملوں میں بھی باغ لگتے ہیں؟ کیا ترقی کی رفعتیں‘ دوسروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر حاصل ہوتی ہیں؟ کیا سی پیک ہمارے رویوں کو بھی بدل ڈالے گا؟ کیا سی پیک ہماری شرح خواندگی کو بڑھا سکے گا؟ کیا ہماری نیتیں درست ہو جائیں گی؟ کیا سی پیک مکمل ہونے کے بعد‘ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم ایک دیانتدار قوم بن جائیں گے؟ کیا ہمارے پارلیمانی لیڈر‘ ہمارے سیاست دان‘ سی پیک کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ بنے اور وہ قانون پسند ہو جائیں ۔ کیا سی پیک مکمل ہو جانے کے بعد ہمارے بیورو کریٹ غلط احکام ماننے سے انکار کر دیں گے کہ جناب! اب نہیں! اب سی پیک بن گیا ہے! آج ہی روزنامہ دنیا نے خبر دی ہے کہ جنوبی پنجاب کی 163 ترقیاتی سکیموں کے لیے رکھے گئے دو ارب روپے‘ لاہور کینال روڈ کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ منتقل اس لیے کئے گئے ہیں کہ لاہور کی سڑکوں کو وسعت… یعنی مزید وسعت… دی جائے۔ رولز ریلیکس کئے گئے۔ بنیادی طور پر یہ فنڈز جنوبی پنجاب کے اضلاع لیہ‘ ڈی جی خان‘ بہاول نگر‘ وہاڑی‘ خانیوال‘ راجن پور وغیرہ کے دیہی و شہری علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت‘ سکولوں ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی‘ سیوریج کے...

اگر پوری قوم انگریز بن جائے!!

عاصمہ جہانگیر مشہور خاتون اوروکیل ہیں۔ سیاسی اور سماجی حوالے سے  Activist بھی ہیں ۔ سپریم کورٹ بار کی سیاست میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ وکلاء برادری میں ان کا اپنا ایک گروپ ہے۔ مشہور ہونے کے ساتھ وہ متنازع بھی ہیں۔ ان کے مخالفین وکلاء میں بھی موجود ہیں اور اہلِ سیاست میں بھی! بھارت کی طرف جھکائو رکھتی ہیں۔ مسلح افواج کے لیے بھی ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ جو طبقہ خواتین کے ہاتھ پائوں باندھ رکھنا چاہتا ہے وہ بھی ان پر تنقید کرتا رہتا ہے۔ مذہبی حوالے سے جب کچھ نازک موضوعات پر بات چھڑے تو اُس وقت بھی اُن کا ذکر ہوتا ہے۔ جوڈیشل مارشل لاء کے ضمن میں جو کچھ چند دن پہلے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا‘ اس پر کمنٹ دیتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ اس بیان میں کوئی صداقت نہیں!انہوں نے صاف صاف کہا کہ رواں منظر نامے میں آمریت کی حمایت کرنے والا کوئی جج نہیں۔ اس بیان میں چیف جسٹس ناصر الملک کے بارے میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کسی کا دبائو نہیں لیتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انگریز جج تھے۔ غور کیجیے کہ کثیر تعداد میں مخالفین ہونے کے باوجود‘ عاصمہ جہانگیر پر کسی نے تنقید کی ...

ہماری زندگیاں ڈکٹیٹ نہ کیجئے

چرواہا‘ اردگرد سے بے نیاز‘ اپنے پروردگار سے ہم کلام تھا۔ ''تو کہاں ہے؟ میرے پاس آ کہ چاکری کروں۔ تیرے سر میں کنگھی کروں۔ تیرے ہاتھ چوموں۔ پائوں ملوں‘ سونے کا وقت آئے تو بستر بچھا دوں۔ اے میرے خدا! میری جان تجھ پر قربان‘ میری آل اولاد اور مال و دولت تجھ پر نثار۔ میں ساری بکریاں تجھ پر قربان کر دوں۔ تو بیمار پڑے تو غم خواری کروں‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ سب باتیں سنیں تو ناراض ہوئے، فرمایا : کیا کفر بک رہے ہو۔ منہ میں روئی ٹھونسو۔ چرواہا پریشان ہو گیا، کہنے لگا، موسیٰ آپ نے میرا منہ تو سی ہی دیا‘ شرمندگی سے میری جان بھی خاکستر کر دی‘ یہ کہہ کر گڈریے نے کپڑے پھاڑے اور روتا پیٹتا جنگل میں گم ہو گیا۔ اس پر حضرت موسیٰ کو وحی آئی کہ ہمارے بندے کو توُ نے ہم سے جدا کر دیا ؎ تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن آمدی تُو ملانے کے لیے مبعوث ہوا نہ کہ جدائیاں ڈالنے کے لیے۔ ہم اندر باہر کا سب حال جانتے ہیں۔ پھر حضرت موسیٰ نے اس گڈریے کو ڈھونڈا اور صورتِ حال سے آگاہ فرمایا۔  گڈریا خوش قسمت تھا کہ پیغمبر وقت پر وحی اتری اور وہ باعزت بری ہو گیا۔ آج کے زمانے میں ہوتا تو کیا کر...