2016ء کا آخری سورج
ہم گزشتہ برس 31 دسمبر کو آنکھوں پر امید کے خنک برگ ہائے سبز باندھ کر سوئے تھے کہ 2016ء کا نیا سورج ہماری دستگیری کرے گا مگر اے آج غروب ہونے والے 2016ء کے آخری سورج ! تو نے ہماری کوئی امید بر نہ آنے دی۔ ہم نے آنکھیں کھولیں تو دھند نے روشنی کو اسی طرح نرغے میں لے رکھا تھا‘ جیسے سالہا سال سے‘ عشروں سے‘ صدیوں سے لے رکھا ہے۔ ہم نے ہر نئے سال سے توقعات وابستہ کیں۔ ہم نے نجومیوں سے پوچھا۔ فال نکلوائی‘ زائچے بنوائے‘ دست شناسوں کی خدمت میں پہنچے ؎ مرا ہاتھ دیکھ برہمنا! مرا یار مجھ سے ملے گا کب ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں کاہنوں سے پوچھا‘ سادھوئوں کے پاس گئے ؎ دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے مگر بخت جیسا سیاہ تھا ویسا ہی رہا ؎ یک فالِ خوب راست نہ شد برزبانِ ما شومیٔ چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط اُلّو کی نحوست کا علاج ہو سکا نہ ہی ہما ہمارے سر پر بیٹھا! ہم نے دوسروں کو پھلتے پھولتے دیکھا پھر اپنے آپ پر نظر ڈالی‘ پھر سر بہ زانو ہو کر روئے ؎ میں دیکھتا ہوں شتر سواروں کے قافلے کو پھر آسماں کو پھر اپنا اسباب ...