تاریخ
آٹو بائیوگرافی یا خود نوشت عجیب و غریب صنف ہے۔ کچھ لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ اس میں سچ دوسروں کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ مارک ٹوئن نے انیسویں صدی کے آغاز میں خود نوشت لکھی اور وصیت کی کہ اسے ایک سو سال کے بعد چھاپا جائے تاکہ جن لوگوں کے بارے میں اس نے سچ لکھا ہے وہ پڑھ ہی نہ سکیں؛ چنانچہ یہ 2010ء کے لگ بھگ چھپی۔ یوں ایک سو سال میں اس ضعیفہ کے نوکیلے دانت سارے گر چکے تھے۔ اصل میں خود نوشت تاریخ کے ان اجزا پر مشتمل ہوتی ہے جو تاریخ میں نہیں پائے جاتے۔ پاکستان جیسے ممالک کی‘ جہاں تاریخ لکھنے والے اکثر و بیشتر جانبدار ہوتے ہیں یا سرکاری بھونپو‘ اصل تاریخ خود نوشتوں ہی سے تیار کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں سیاستدانوں کی آٹو بائیوگرافیاں پہلے نمبر پر آتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان سرکاری ملازموں کی خود نوشتیں جو کارِ سرکار میں کِسی نہ کِسی حوالے سے دخیل رہے۔ عبدالخالق سرگانہ صاحب‘ جن سے ہماری پرانی ملاقات ہے‘ ہمیشہ ایسے شریف اور نارمل انسان لگے جو خود نوشت لکھ کر دوسروں کا کچّا چٹھہ نہیں کھولتے۔ اس لیے چند دن پہلے جب انہوں نے اپنی خود نوشت عنایت کی تو تعجب ہوا۔ دل چاہا کہ شکریہ ادا کرن...