اشاعتیں

نومبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تاریخ

آٹو بائیوگرافی یا خود نوشت عجیب و غریب صنف ہے۔ کچھ لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ اس میں سچ دوسروں کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ مارک ٹوئن نے انیسویں صدی کے آغاز میں خود نوشت لکھی اور وصیت کی کہ اسے ایک سو سال کے بعد چھاپا جائے تاکہ جن لوگوں کے بارے میں اس نے سچ لکھا ہے وہ پڑھ ہی نہ سکیں؛ چنانچہ یہ 2010ء کے لگ بھگ چھپی۔ یوں ایک سو سال میں اس ضعیفہ کے نوکیلے دانت سارے گر چکے تھے۔ اصل میں خود نوشت تاریخ کے ان اجزا پر مشتمل ہوتی ہے جو تاریخ میں نہیں پائے جاتے۔ پاکستان جیسے ممالک کی‘ جہاں تاریخ لکھنے والے اکثر و بیشتر جانبدار ہوتے ہیں یا سرکاری بھونپو‘ اصل تاریخ خود نوشتوں ہی سے تیار کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں سیاستدانوں کی آٹو بائیوگرافیاں پہلے نمبر پر آتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان سرکاری ملازموں کی خود نوشتیں جو کارِ سرکار میں کِسی نہ کِسی حوالے سے دخیل رہے۔ عبدالخالق سرگانہ صاحب‘ جن سے ہماری پرانی ملاقات ہے‘ ہمیشہ ایسے شریف اور نارمل انسان لگے جو خود نوشت لکھ کر دوسروں کا کچّا چٹھہ نہیں کھولتے۔ اس لیے چند دن پہلے جب انہوں نے اپنی خود نوشت عنایت کی تو تعجب ہوا۔ دل چاہا کہ شکریہ ادا کرن...

پیکیج ڈیل

اُس محفل میں وہ عقل مند شخص نہ ہوتا تو بحث ہرگز کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتی۔ بحث کے دوران وہ سب کو سنتا رہا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ بولے گا تو دونوں فریق سر ہلا کر سر جھکا دیں گے۔ کالی پتلون اور اورنج رنگ کے ٹویڈ کوٹ میں ملبوس اُس شخص نے سر پر وہ ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس سے ملتی جُلتی ہنری کسنجر کے سر پر نظر آتی تھی‘ یہ شخص عباسیوں یا سلجوقیوں کے زمانے میں ہوتا تو اس کے گھوڑے کی باگ پکڑنے کے لیے محل سے باہر سینئر ترین وزیر کھڑا ہوتا مگر یہ اُس زمانے کی بات ہے جب عزت کا سبب فراست تھی۔ اب فراست نہیں‘ دولت ہے جو عزت بخشتی ہے اور دولت ہی فراست کا قائم مقام ہے۔ اب زرداری صاحب جیسے افراد سیاست جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پڑھے لکھوں کی قیادت کرتے ہیں۔ اب حکمرانی کی مسند پر وہ لوگ متمکن ہیں جو دس منٹ کیا پانچ منٹ کسی مسئلے پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔ فریق دو تھے‘ ایک طرف کچھ امریکہ پلٹ حضرات تھے جو امریکہ‘ یورپ اور اُن تمام ملکوں کی برائیاں کر رہے تھے جہاں پاکستانی مقیم تھے۔ انہیں وہاں رہ کر اپنے وطن میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آ رہی تھیں۔ دوسرا فریق کہتا تھا کہ جینے کا لطف انہی ملک...

دشت سے آئے ہیں اور شہر عجب لگتا ہے

تصویر

غلاظت کے لڑھکتے گولے

تصویر

ریزے…دسترخوان سے گرے ہوئے ریزے

ایوب جولاہا مرض کی شدت میں رو پڑا۔ گڑگڑایا۔ یاپروردگار! میں اس امتحان کے لائق نہیں! اے بیماری دینے والے اور اے بیماری کو تندرستی میں بدل دینے والے! میں ایوب جولاہا ہوں‘ ایوب پیغمبر نہیں! سو ہم تو ایوب جولاہے ہیں! کہاں کی شاعری اور کیا عظمت! جناب ہارون الرشید ہمیشہ سے فیاض ہیں۔ جب بھی آئیں جو بھی شے پاس ہو رُکیں تو یہیں چھوڑ جاتے ہیں، دسترخوان وسیع، دل اس سے زیادہ! تعریف کرتے ہیں تو اس میں غالب عنصر محبت کا ہوتا ہے۔ اگرچہ فیض صاحب ان کے لیے یہ بھی کہہ گئے تھے؎ آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں بھولے تو یوں کہ گویا کبھی مہرباں نہ تھے کچھ بھی نہیں! دامن میں کچھ بھی نہیں! سوائے اُن چند ریزوں کے جو دادا اور والد کے دسترخوان سے نیچے گرے اور اُٹھا کر منہ میں ڈال لیے۔ دسترخوان سے گرے ریزے! آہ! شہرۂ آفاق ناول نگار شیرلیٹ برونٹی یاد آرہی ہے۔ ادب اور تاریخ کے طلبہ کو اس کے وہ خطوط ضرور پڑھنے چاہئیں جو اس نے اپنے محبوب ہیگر کو لکھے تھے! ہماری درس گاہوں میں ان دونوں بہنوں کے تذکرے ان کے دو ناولوں تک محدود ہیں۔ جین آئر اور وُد رِنگ ہائیٹس! مگر درد اور کرب کا قصہ دوسرا ہے! یہ 1842ء...

لاہور سے آگے یا بہت پیچھے ؟

تصویر

’’ایک نصیحت ٹرمپ کے لیے بھی‘‘

طویل قامت علائو الدین کو اس کے پاکستانی دوست اللہ دین کہتے ہیں۔ وہ سوڈانی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے۔ آسٹریلیا آنے سے پہلے مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے ملک کے ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ پھر آسٹریلیا ہجرت کر گیا۔ بیگم بھی سوڈان سے ہے اور نفسیاتی مریضوں کی معالج ہے۔  ایک دعوت تھی جس میں اس سے ملاقات ہوئی۔ اُن دنوں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کا مسئلہ پیش منظر پر چھاپا ہوا تھا۔ پوچھا کہ اُس کے خیال میں مسئلے کی جڑ کہاں ہے: ’’تُم سوڈانی ہو اور مسلمان بھی! تُم نے دنیا دیکھی ہے، تُم کیا سمجھتے ہو کہ اِس بدقسمت تقسیم کی تہہ میں کیا ہے؟‘‘ ساڑھے چھ فٹ لمبے علائو الدین نے پاکستانی بریانی کو‘ جو وہ تناول کر رہا تھا‘ غور سے دیکھا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ اس کی آنکھیں پلیٹ پر تھیں مگر دیکھ کہیں اور رہی تھیں! چند لمحوں بعد اس نے عینک کے شیشوں کے پیچھے سے دیکھا۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا: ’’اصل سبب بتائوں یا ایسا جواب دوں جس سے تُم پاکستانی خوش ہوتے ہو‘‘۔ ایک نرم اور ملائم احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستانی یا غیر پاکستانی کا کیا سوال ہے؟ اور سوڈان کے حالات میں پاکستانیوں کے خ...

بچائو

تصویر

کچھ شرم تو پتھر کی آنکھ میں بھی ہوتی ہے

ٹرمپ جیت گیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے برا ہوا۔ ہیلری ہار گئی ہے۔ یہودی اس کی حمایت کر رہے تھے۔ ہیلری جیت جاتی تو ٹرمپ سے کم نقصان دہ ثابت ہوتی۔ ٹرمپ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دے گا۔ ٹرمپ تباہی مچا دے گا۔ ہیلری اور ٹرمپ میں بس اتنا فرق ہے کہ ایک کھلم کھلا مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا اظہار کر رہا ہے۔ دوسری دل کے نہاں خانے میں مسلمانوں کے خلاف عناد رکھتی ہے۔ یہ اور اس قبیل کے تبصرے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں کیے جا رہے ہیں! سوشل میڈیا پر، اخبارات میں، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے، مراکش سے لے کر مصر تک، مصر سے لے کر سوڈان تک‘ مالی سے لے کر سینی گال تک‘ ترکی سے لے کر جزیرہ نمائے عرب تک‘ ایران سے لے کر مسقط و عُمان تک‘ پاکستان سے لے کر ڈھاکہ تک۔ ہر جگہ امریکی انتخابات پر اور ان انتخابات کے نتائج پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کچھ فلاں کی مخالفت میں ہیں۔ کچھ فلاں کی حمایت میں! اگر یہ ہار جاتا تو یہ ہو نا نہ ہوتا اور اگر وہ جیت جاتی تو ایسا ضرور ہوتا!! مگر افسوس! صد افسوس! امریکی انتخابات سے جو سبق سیکھنا ہے، اس کی طرف ہم مسلمان نہیں آتے۔ اس لیے کہ اپنے گریبان میں جھانکنا مسلمانوں نے سینکڑوں برس...

سامانِ عبرت

کھڑکی سے پردہ ہٹائیے۔ آپ کی کھڑی کے ساتھ درخت ہے۔ سبز پتوں سے بھرا جھومتی شاخوں سے لہلہاتا۔ ایک شاداب ٹہنی پر چڑیا بیٹھی ہے۔ کان لگا کر سنیے کیا ہی میٹھا گیت گا رہی ہے۔ مجید امجد نے کہا تھا   ؎ ننھی چونچ پہ چوں چرچوں چرچوں کی چونچل بانی کرن کرن پر ناچ رہی ہے اس کے من کی کہانی کیا گاتی ہے کیا کہتی ہے کون اس بھید کو کھولے جانے دُور کے کس ان دیکھے دیس کی بولی بولے یہ چڑیا‘ یہ ننھی سی جان‘ کس قدر معصوم ہے! کیا یہ جھوٹ بول سکتی ہے؟ کیا یہ دھوکہ دے سکتی ہے؟ کبھی نہیں! دنیا میں اس سے زیادہ معصوم کون ہو گا؟ آپ یہی کہیں گے ناکہ کوئی نہیں! مگر ایک شخص اس چڑیا سے بھی زیادہ معصوم ہے! کیا دودھ پیتے بچّے سے بھی زیادہ معصوم کوئی ہو گا؟ سانپ کے سر کو مٹھی میں جکڑ لے۔ دہکتا کوئلہ پکڑ کر منہ میں ڈالنا چاہے! طفلِ شیر خوار!! اقبالؔ نے اس کے بارے میں کہا تھا۔  میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاّتا ہے تو مہرباں ہوں میں‘ مجھے نامہرباں سمجھا ہے تو پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم چھو نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے کھیل...

BASE? …کون سی BASE ؟

یہ انگریزوں کا زمانہ تھا۔ اُن کے افسر‘ اُن کے مجسٹریٹ‘ اُن کے ڈپٹی کمشنر‘ ہمارے افسروں کی طرح صرف افسر نہیں تھے‘ کام کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے۔ صرف ہر ضلع کے گزٹ (GAZETTEER) ہی کو دیکھ لیجیے۔ تاریخ سے لے کر ایک ایک معاشرتی پہلو تک‘ تحقیق کی اور ضلع وار اس تحقیق کو کتابی شکل دی۔ گھوڑوں پر دور دراز علاقوں کا سفر کیا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ اس کی قبر آسام کی دور افتادہ پہاڑیوں میں‘ یا نیپال کی گھاٹی میں‘ یا وانا اور ٹانک کی بے رحم وسعتوں میں یا رنگون کی اجنبی گلیوں میں بننی ہے۔ مگر وہ اپنے ملک کے لیے‘ اپنی ملکہ کے لیے‘ اپنے پرچم کے لیے‘ دیارِ غیر میں مرنے کے لیے تیار ہوتا تھا۔ ایسا ہی ایک ڈپٹی کمشنر تھا۔ گھوڑے پر جا رہا تھا۔ اپنے علاقے کا معائنہ کرنے! راستہ بھول گیا۔ شام پڑ گئی۔ ایک گوٹھ دکھائی دی۔ کسان نے اس کے گھوڑے کو چارہ ڈالا‘ اور مہمان کو چارپائی اور بستر پیش کیا۔ کسان کے پاس بہترین کھانا اُس دن باجرے کی روٹی تھی جو اس کی بیوی نے تنور پر پکائی تھی۔ کھیتوں کھلیانوں میں پلنے والے قارئین کو معلوم ہو گا کہ باجرے کی اور مکی کی بھی‘ جو روٹی تنور میں پکتی ہے سخت ہوتی ہے۔ ر...

کیا اس خاکستر میں ایک چنگاری بحی نہیں

تصویر

زبانیں گھی ٹپکاتی اور دل پتھر جیسے سخت!

کرنل فرانسس ریمنڈ سلوتری تھا! حیوانات کا ڈاکٹر! میرٹھ اور بمبئی میں انگریزی افواج کا حصہ رہا، بنگال ویٹنری کالج کا پرنسپل بھی رہا۔ آپ کا کیا خیال ہے انگریزی عہد میں کتنے سلوتری فوج میں ہوں گے؟ بے شمار! مگر کرنل فرانسس ریمنڈ کا نام تاریخ میں زندہ ہے۔ اس کا سبب اس کا بیٹا ہے۔ نام اس کا بھی ریمنڈ تھا، مگر جیمزہیڈلے چیز کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہؤا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں گھر سے نکل آیا۔ کتابیں بیچنا شروع کردیں، گھر گھر، دروازہ کھٹکھٹاتا اور کتابیں بیچتا۔ دو سال میں ایک لاکھ دروازوں پر دستک دی۔ اس کام میں اسے یہ معلوم ہو گیا کہ عوام کس قسم کی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس نے ناول نگاری پر کمر باندھ لی۔ یہ دوسری بین الاقوامی جنگ سے پہلے کا زمانہ تھا۔ عالمی کسادبازاری (گریٹ ڈیپریشن) نے لوگوں کو پاگل کر رکھا تھا۔ شکاگو میں زیرِ زمین گینگ بن گئے، جو جرائم کرتے اور روپیہ کماتے۔ جیمز ہیڈلے چیز نے ابتدا میں انہی کو موضوع بنایا، سو سے زیادہ، جرم و سزا پر ناول لکھے۔ پچاس سے زیادہ ناولوں پر فلمیں بنیں۔ پوری دنیا میں پڑھا گیا۔ دلچسپ ترین حصہ اس کے ناولوں میں، کہانی کا اختتام ہوتا ہے...

قربانی کے جانور کا بے عیب ہونا!

جناب پرویز رشید پر پہلی بار ترس اُس وقت آیا تھا جب اُنہوں نے لندن کے اُس محلّے کی برائی کی جہاں بقول ان کے عمران خان کے بچے رہتے ہیں۔ ’’صرف اُس ایریا کا نام لے لیں جہاں خان صاحب کے بچے پل رہے ہیں۔ میں اُس ایریا کا نام نہیں لوں گا کیونکہ مسلمان کی زبان پر وہ نام آ جائے تو وضو کرنا پڑتا ہے۔ صرف اتنا بتاتا ہوں آپ کو‘ لیکن خان صاحب سے پوچھیے گا کہ اُس ایریے کا نام کیا ہے۔ خان صاحب اگر وہ نام بتا دیں تو انہیں بھی وضو کرنا پڑ جائے اگر وہ وضو کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ یہ ایریا مڈل سیکس کائونٹی ہے جو مغربی لندن میں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کائونٹی میں دو سے تین لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ مسجدیں بھی اسی تناسب سے ہیں۔ جناب پرویز رشید کا یہ بیان فوراً وائرل ہو گیا۔ لاکھوں آدمیوں نے یو ٹیوب پر دیکھا۔ دوسرے دن ایک صحافی نے مڈل سیکس کائونٹی کے رہنے والے مسلمانوں سے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا : جناب پرویز رشید صاحب کے دیئے ہوئے فتویٰ پر ان لوگوں نے جو تبصرے کیے‘ وہ سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں نقل نہیں کیے جا سکتے۔ ترس اس لیے آیا کہ ذہنی پستی کی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی ...