اشاعتیں

ستمبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خمسہ

اس طالب علم کو اگر غالب یا اقبال پر یا سعدی یا حافظ پر لکھنا ہو تو‘ معیار سے قطع نظر، کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جیتے جاگتے غالب‘ اقبال‘ سعدی یا حافظ تو دیکھے ہی نہیں! سروکار صرف ان کی تصانیف سے ہے! مگر ظفر اقبال پر لکھتے وقت معاملہ مشکل یوں ہو جاتا ہے کہ شاعر کی شخصیت اور شاعر کی شاعری، دونوں گڈمڈ ہو جاتی ہیں! یہ 1966ء تھا۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اب اُس طالب علم کا نام یاد نہیں جو کالج میں ہم سے سینئر تھا۔ کینٹین میں ایک دن اس نے شاعری کی ایک نئی کتاب کا ذکر کیا۔ یہ ظفر اقبال کی گلافتاب تھی۔ اُس کے اور دوسرے سینئر طلبہ کے درمیان دھواں دھار بحث ہوئی۔ ایک طرف ظفر اقبال کی مخالفت تھی اور دوسری طرف موافقت! ہم جونیئر انتہائی دلچسپی اور انہماک سے یہ گفتگو سنتے رہے۔ غالباً یہی وہ دن تھا جب خلاقِ عالم نے یہ طے کر دیا کہ جہاں بھی اُردو شاعری کے دو پڑھنے والے ہوں گے‘ وہیں دو گروپ بن جائیں گے۔ ایک پرو ظفر اقبال اور دوسرا اینٹی ظفر اقبال۔ یہ تقسیم کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک، آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک، بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ہر جگہ، ہر گھر میں اور ہر ا...

کوئی ہے سننے والا؟

ڈاکٹر ریحان جب بھی صبح گھر سے نکلتے، آدھ گھنٹے کا مارجن ضرور رکھتے تاکہ ٹریفک کا کوئی مسئلہ تاخیر کا سبب بنے تو وقت میں گنجائش ہو۔ اس دن انہوں نے یہ گنجائش چالیس منٹ کی رکھی‘ اس لیے کہ ایک نازک آپریشن کرنا تھا۔ مریض کو رات سے خالی پیٹ رکھا گیا تھا۔ ایک مقررہ وقت پر سرجری کا آغاز ہونا تھا۔ وہ فیض آباد کے قریب پہنچے تو ٹریفک بلاک تھی۔ دوسروں کی طرح انہوں نے بھی انتظار کرنا شروع کر دیا۔ خیال یہی تھا کہ دس پندرہ منٹ کی بات ہو گی۔ مگر آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر ڈیڑھ گھنٹہ‘ اور پھر دو گھنٹے۔ ان کا مریض، ان کا سٹاف، ان کے مریض کے لواحقین سب انتظار کر رہے تھے۔ وہ انہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بتا سکتے تھے کہ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ کیوں رُکی ہوئی ہے؟ یہ نہیں معلوم۔ اس رُکے ہوئے اژدہام میں ایک اور گاڑی بھی پھنسی ہوئی تھی‘ جس میں نصیر صاحب مسلسل قے کر رہے تھے۔ وہ دل کے مریض تھے۔ ان کے بیوی بچے رُکی ہوئی گاڑی میں آیت الکرسی کا ورد کر رہے تھے اور نصیر صاحب کا منہ اور چہرہ ہر قے کے بعد ٹشو پیپر سے پونچھ رہے تھے۔ گاڑی کے فرش پر ٹشو پیپروں کا ڈھیر بڑھتا جا رہا تھا۔ نصیر صاحب کی ا...

None Of Your Business

اس نے پلائو کی فرمائش کی۔ بیگم نے کہا آپ اچھا سا گوشت لے آئییِِ، میں پکا دیتی ہوں۔ میاں لے آیا۔ بیگم نے پکانا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیگر گزری تھی کہ میاں باورچی خانے میں آیا۔ لُونکی سے دھنیا اور نمک نکال کر بیگم کو دیا کہ یہ بھی پلائو میں ڈالنا ہو گا۔ بیگم نے تعجب سے دیکھا تاہم خاموش رہی۔ پھر پوچھنے لگا پیاز کتنے ڈالو گی؟ گھی ڈال دیا ہے یا نہیں؟ یخنی کہاں ہے؟ بیگم نے ایک ہولناک تیوری اپنے ماتھے پر ٹانکی اور ڈانٹ کر کہا، آپ نکلیں باورچی خانے سے۔ آپ کو پلائو چاہیے نا؟ پسند نہ آیا تو گلہ کیجیے گا لیکن میرے کام میں مداخلت نہ کیجیے۔ اگر بیوی انگریز ہوتی تو ایک ہی فقرہ کہتی: It is none of your dirty Business معلوم نہیں گائودی میاں کو بات سمجھ میں آئی یا نہیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ چپ کر کے باورچی خانے سے نکل گیا ہو گا۔ مگر یہ سادہ سا نکتہ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ آج پاکستان جس حال کو پہنچا ہوا ہے، جس کھائی میں گرا ہوا ہے اور قوموں کی برادری میں جس عبرت ناک مقام پر کھڑا ہے، اس کا اصل سبب جاننا ہو تو صرف یہ دیکھ لیجیے کہ جمعہ کے دن وزیر اعظم آفس اور دارالحکومت ...

توازن

مشرق وسطیٰ کے ایک اہم اور مرکزی حیثیت رکھنے والے ملک میں خواتین کے لیے گھروں سے باہر عبایا پہننا لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عبایا سیاہ رنگ کا ہو۔ حال ہی میں ایک عزیز وہاں سے واپس آئے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ شاپنگ مال میں تنہا مرد نہیں جا سکتے۔ ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ پابندی سارے ملک میں ہے یا صرف دارالحکومت میں۔ فرض کیجیے ایک غیر ملکی خاتون کالے رنگ کا عبایا پہننے سے انکار کر دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کا طرز عمل درست ہے؟ یقیناً نہیں! وہ جس ملک میں آئی ہے‘ اس کے اپنے قوانین ہیں۔ یہ قوانین جیسے بھی ہیں‘ زمینی حقیقت ہیں۔ یہ بحث تو کی جا سکتی ہے کہ غلط ہیں یا صحیح‘ مگر ان کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی خاتون انکار کرے گی تو اسے ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اور ہاں! یہ بھی کہا جائے گا کہ کیا ہم نے آپ کو بلانے کے لیے ہرکارہ بھیجا تھا؟ آپ عبایا کی پابندی گوارا نہیں کر سکتیں تو اس ملک میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ فرض کیجیے‘ حکومتی قانون نہیں ہے، یہ صرف اس ملک کی ثقافت کا تقاضا ہے۔ تب بھی اس کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر وہاں کا رسم و روا...

سوار کا انتظار

​ ایسا نہیں کہ لیڈر نہیں ملے۔ لیڈر ملے۔ ذہین لیڈر! مگر بخت نے یاوری نہ کی۔ قسمت دو نقطوں والے قاف سے نہیں، ’’ک‘‘ سے تھی! یہ وہی ’’ک‘‘ ہے جس سے ایک جانور کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔ہمیں بھٹو جیسا لیڈر ملا۔ ولولے اور جوش سے بھرپور۔ صرف ذہین نہیں، نابغہ! دنیا کے کسی بھی رہنما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ یہ جو آج ہم رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، تو بھٹو کتابیں پڑھتا تھا اور کتابیں لکھتا بھی تھا۔ وہ چاہتا تو پاکستان کے لیے چرچل بن سکتا تھا۔ ڈیگال بن سکتا تھا۔ مہاتیر بن سکتا تھا۔ لی بن سکتا تھا۔ مگر وہی بات کہ ہماری قسمت قاف سے نہیں تھی۔ جاگیرداروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا۔ قومیانے کی جس پالیسی نے سوویت یونین کو کھوکھلا کر رکھا تھا، اس انتہائی غیر دانش مندانہ پالیسی کو پاکستان پر مسلط کیا۔ انڈسٹری، تعلیمی ادارے، سب کچھ بیورو کریسی کی نذر ہو گیا۔ کارخانے نوکرشاہی کے ایسے کارندوں کے ہاتھ چڑھ گئے جو اینٹوں کا بھٹہ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اسی پر بس نہ کیا بھٹو صاحب قتل و غارت پر اُتر آئے۔ مخالف لیڈروں کو قتل کرایا۔ دلائی کیمپ قائم کیا۔ م...

2018ء

کھلا میدان تھا۔ دو سانپ تھے۔ ایک نے دوسرے کی دُم منہ میں دبائی۔ دوسرے نے پہلے کی! دونوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو ہڑپ کر گئے۔ میدان صاف تھا۔ میدان صاف ہے۔ مسلم لیگ نون کو چیلنج کرنے والی کوئی فیصلہ کن قوت میدان میں نہیں۔ اگر کوئی معجزہ نہ برپا ہؤا۔ اگر الیکشن کے روز آسمان سے پتھر نہ برسے، اگر اُس دن زمین نہ دھنسی، اگر اُس دوپہر کو سورج کے بجائے روشنی بکھیرنے کے لیے چاند نہ مامور کر دیا گیا اور اگر کسی تیز چیخ نے دلوں کا رُخ پھیر نہ دیا تو 2018ء میں بھی مسلم لیگ ہی فتح کا پرچم لہرائے گی۔ شاعر نے کہا تھا؎ علم اے حُسن! تیری فتح کے لہرا رہے ہیں بریدہ سر ہیں عاشق اور واپس آرہے ہیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی دُم ایم کیو ایم کے منہ میں ہے ۔کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سندھ کارڈ نہیں چل سکتا نہ چلے گا۔ رہا اندرون سندھ، تو سید، مخدوم، پیر، جاگیردار جو صدیوں سے حکمران ہیں، 2018ء میں بھی کامیاب ٹھہریں گے۔ جہاں عوام بینائی واپس لانے کے لیے جھروکے سے درشن دینے والی شخصیت کا روئے مبارک دیکھنا کافی سمجھیں وہاں ووٹ دیتے وقت بھی یہی عقل بروئے کار آئے گی۔ مسلم لیگ نو...

کھارا اور میٹھا

جھاڑ جھنکار تھے اور زمین پر بکھری ہوئی خشک چٹختی ٹہنیاں! ستمبر اُدھیڑ عمر کو چھو رہا تھا مگر دھوپ کی حدت نوجوانی پر اصرار کر رہی تھی۔ پیشانیاں پسینے سے بھری تھیں۔ کوئی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کی نگاہیں ایک طرف تھیں۔ کبھی کبھی کوئی شخص کھویا ہوا سوال کرتا، نزدیک کھڑا شخص مختصر سا جواب دیتا اور پھر اُس طرف دیکھنے لگتا جدھر سب دیکھ رہے تھے۔ فیروز بشیر انصاری کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا۔ ایک نیک نام، سادہ اطوار شخص، اس کی آخری تعیناتی ٹیکس محتسب کے ادارے میں وفاقی سیکرٹری کی تھی۔ غیبت سے احتراز کرنے والے فیروز نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ والد بشیر انصاری اس خطے کے چوٹی کے وکیل تھے۔ امارت کو اس نے اپنی شخصیت کا حصہ کبھی نہ بنایا۔ اور ہؤا کیا؟ وہ کار چلا رہا تھا نہ ہوائی جہاز میں تھا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے سڑک کے ایک کنارے پر پیدل چل رہا تھا۔پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آیا۔ وحشت ناک رفتار تھی۔ سیدھا اُس کی کمر سے ٹکرایا۔ پھر سوار، سامنے، اوندھے منہ گرا۔ پھر دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مقتول بھی اور قاتل بھی! قاتل بھی! جی ہاں! قاتل! کیا کسی کو پرو...

بندوق اور قلم

ان دنوں اس کتاب کا بہت شہرہ تھا۔  مصباح الاسلام فاروقی نے  Jewish Conspiracy and Muslim world تصنیف کی جو دیکھتے ہی دیکھتے پیش نظر پر چھا گئی۔ مجھ جیسے ہزاروں نوجوان اس کے اسیر ہوئے۔ سازشی تھوریاں یوں بھی مسلمانوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کا سورج نصف النہار پر رہا ان سازشی تھیوریوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ جب زوال آیا‘ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہے‘ دین اور دنیا کے علوم کے درمیان لکیر کھینچ دی، تب سازشی تھیوریاں بھی بازار میں بکنے لگیں۔ آج بھی عوام میں مقبول ترین نظریہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی ساری ذمہ داری اغیار پر ہے۔ یہودی اور ہندو‘ امریکہ اور یورپ سازشیں کرتے ہیں۔ جیسے اپنا کچھ قصور نہیں۔ سازشی تھوریاں ماننے کا مطلب بالواسطہ اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ ہم اتنے بے بضاعت، ضعیف، جاہل اور سادہ لوح ہیں کہ دوسروں کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ مومن دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا کھاتا ہے۔ ملازمت کا آغاز ستر کی دہائی میں کراچی سے کیا۔ وہاں پہنچے تو مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کا شوق دل میں چٹکی...

دھچکا

برف کا دیو ہیکل پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا اور نیچے کی طرف بڑھنے لگا.... یہ سیاچن کا گیاری سیکٹر تھا دیو ہیکل گلیشیر کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی۔ اس نے پاکستانی مستقر کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ایک سو تیس فوجیوں کو ہڑپ کر گیا۔  یہ سیاچن‘ یہ کارگل‘ یہ گیاری برف اور پتھروں سے نہیں قائم۔ یہ اس خون کی قوت سے کھڑے ہیں جو پاکستانی مائوں کے جوان بیٹوں نے ان پہاڑیوں کو دیا ہے‘ پاکستانی قوم سلام کرتی ہے اپنے جوانوں کو جو دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر برفانی ہوائوں کا سامنا کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ایسی برفانی ہوائیں جن کی شدت سے جسم کے اعضا صرف شل نہیں ہوتے‘ جھڑ جاتے ہیں۔ جو آنکھوں کی بینائی لے اُڑتی ہیں پاکستانی قوم شہیدوں کی ان میتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو کارگل کی چوٹیوں سے واپس اپنے قریوں‘ اپنی بستیوں میں آتی ہیں۔ اور زمین میں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ شہید‘ پاک پوّتر بارش کے وہ قطرے ہیں جو آسمان سے اترتے ہیں اور زمین کے اندر چلے جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام احسان نہیں بھولتے۔ اُنہیں چونڈہ کا میدان آج تک یاد ہے۔ جہاں بھارتی ٹینکوں کے آگے پاکستانی فوج کے جوان لیٹ گئے تھے۔ ٹینک ...

مہرباں کیسے کیسے

صدراشرف غنی نے پاکستان کو دھمکی دی۔ اس پر بھارتی پریس نے شادیانے بجائے۔ بجانے ہی تھے۔ یہ ان کا حق تھا۔ مگر ان پاکستانیوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا جو افغان مہاجرین کے لیے مرے جا رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی دلچسپی پاکستان میںکم اور افغانستان میں زیادہ ہے؟ اس ماہ کی چودہ تاریخ کو صدر اشرف غنی نے بھارت کی یاترا کرنی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کو دھمکی دینا، بھارت یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا۔ بھارت کی چاپلوسی کرنے کا اس سے بہتر اسلوب اور کیا ہوسکتا ہے! برطانیہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان اوون جینکن سے ملاقات کے دوران افغان صدر ممیائے۔ شکایت کی کہ پاکستان افغان میوہ جات بھارت نہیں لے جانے دیتا۔ اس چغل خور بچے کی طرح، جو اپنی کارستانیاں چھپاتا ہے اور دوسروں کی چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے رہنما، افغان مہاجرین پر فدا ہونے کے لیے تیار ہیں، مگر افغان صدر کی یاوہ گوئی کا نوٹس نہیں لیتے۔ افغان مہاجرین بھی سیانے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی طرف داری کون کرے گا۔ دفاع پاکستان کے لیڈروں کے سامنے انہوں نے اپنے’’معصوم‘‘ مطالبات دھرے۔ ٭ جن افغانوں کے پا...

ہلکی ہلکی آنچ

ترمذ کی خنک شام تھی۔ ہم سب غیر ملکی مندوب ایک کھلے میدان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ سامنے، کچھ فاصلے پر سٹیج تھا۔ سٹیج پر کوئی کرسی یا ڈائس نہیں تھا۔ بیٹھے ہوئے گھنٹہ بھر ہو گیا تو بڑھتی ہوئی سردی میں کچھ مندوبین اپنی گاڑیوں اور بسوں سے اوورکوٹ لینے کے لیے اُٹھے تو سکیورٹی کے افراد نے بتایا کہ اب کوئی شخص اِس جگہ سے اُٹھ کر باہر نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے مندوبین سے ملنے آنا ہے اور ان کی آمد پر سکیورٹی کا یہی انداز ہوتا ہے۔ ساتھ ایرانی مندوب بیٹھا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کا ایک نیا جھونکا آیا اور اس نے بے ساختہ منوچہری دامغانی کا شعر پڑھا ؎ خیزد و خز آرید کہ ہنگامِ خزاں است بادِ خنک از جانبِ خوارزم وزان است اُٹھو، ریشمی چادر اوڑھو کہ خزاں آن پہنچی۔ خوارزم کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ ترمذ کا شہر! خنک شام! پچھلی رات خوارزم سے واپس پہنچے تھے۔ ایسے میں ایک ایرانی کی زبان سے برمحل، بے ساختہ شعر، سبحان اللہ سبحان اللہ! تیر کی طرح دل میں پیوست ہو گیا۔ پاک و ہند میں فارسی پڑھنے پڑھانے والوں نے منوچہری دامغانی کو کبھی کوئی خاص لِفٹ نہیں دی۔ واپس ...

جونکیں

بستی کے ہر تیسرے باسی کو ملیریا ہو رہا تھا۔ ہسپتال تو وہاں تھا نہیں۔ ڈاکٹر قصبے سے لایا جاتا۔ دوا دیتا، پیسے جیب میں ڈالتا، ٹیکسی کا کرایہ بستی والوں سے الگ لیتا۔ یہ سلسلہ ایک مدت سے چل رہا تھا۔ ایک نوجوان، جو بستی ہی کا تھا اور کراچی ملازمت کرتا تھا، چھٹی آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کے بندو! یہ جو گلی گلی پانی ٹھہرا ہوا ہے، اس میں مچھروں کی نسلیں پرورش پا رہی ہیں۔ اس متعفن، غلیظ پانی سے جان چھڑائو۔ جوہڑوں میں دوا ڈالو۔ ڈاکٹر نے پیسے بٹورنے ہیں‘ اسے کیا ضرورت ہے کہ پانی کے بارے میں ہدایات دے۔ وزیر اعظم کا دفتر اگر اِن خطوط پر غور کر رہا ہے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ پورے کا پورا منتخب میئر کے سپرد کیا جائے تو یہ فیصلہ درست سمت میں ہو گا۔ ترقیاتی ادارہ ٹھہرا ہوا متعفن پانی ہو چکا ہے جس میں مچھر پرورش پا رہے ہیں۔ ٹھہرا ہوا پانی؟ جی ہاں! اس لیے کہ کچھ ادارے بند گلی کی طرح ہیں۔ جو شخص سی ڈی اے میں یا ایل ڈی اے میں یا پی آئی اے میں بھرتی ہو گیا، اب چھتیس سال وہ اسی ادارے میں رہے گا۔ اگر وہ بددیانت ہے اور شاطر ہے، تو اپنی معلومات کو منفی سمت لے جائے گا۔ گروہ بندیاں اسی طرح بنتی ہیں۔...

Container

یہ کینیڈا کا شہر ہے۔ شہری حسبِ معمول بسوں اور اپنی کاروں میں گھروں سے نکلے مگر آج ٹریفک ہر طرف رکی ہوئی ہے۔ گھنٹے ہو گئے، لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی سڑکیں کنٹینروں سے بند ہیں۔ چھوٹے راستے گاڑیوں سے اٹے ہیں۔ وہ دیکھیے، اُس طرف سے جلوس آ رہا ہے۔ ایک بہت بڑے ٹرک پر حضرت شیخ الاسلام طاہرالقادری کھڑے ہیں۔ ان کے اردگرد ان کے عقیدت مند اور مرید حصار باندھے ہیں۔ پیچھے سینکڑوں گاڑیوں کا جلوس ہے۔ ہر طرف بینر لگے ہیں۔ ان پر مختلف نعرے لکھے ہیں۔کسی پر لکھا ہے:’’حکومتِ پاکستان سے بات کی جائے‘‘  کسی پر لکھا ہے: ’’میں کینیڈین شہری ہوں، پاکستان میں میری تنظیم کے ارکان سے زیادتی ہوئی ہے‘‘۔ اب یہ جلوس شہر کے مرکزی چوک پر پہنچ گیا ہے۔ اس چوک پر چار بڑی شاہراہیں آ کر ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ چاروں شاہراہوں پر ٹریفک بند ہے۔ وسط میں کئی فٹ اونچا بہت بڑا سٹیج بنایا گیا ہے۔ شیخ الاسلام تقریر کر رہے ہیں۔ اُس دن شہری جو گھروں سے صبح کے وقت نکلے تھے، سارا دن پریشان رہے۔ ٹریفک تقسیم ہو کر گلی کوچوں میں پھیل گئی۔ ایک ایک سٹریٹ میں گاڑیاں رینگتی رہیں، پھنستی رہیں اور نکلتی رہیں۔ بچے سکولوں...