اشاعتیں

اگست, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

پردیس میں ناصبور ہے تو

گھر والوں کو چاہیے کہ جلدی کریں۔ دیر ہو رہی ہے۔ دُھلے ہوئے کپڑے نکالیں تاکہ تبدیل کروں، راستے کے لیے کھانا ساتھ دیں۔ ہم جب آبائی بستیوں میں مقیم تھے تو سفر پر جاتے ہوئے پراٹھے اور انڈوں کا خاگینہ کپڑے میں باندھ کر ساتھ رکھ لیتے تھے۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ بیٹی سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔  جانا ہے اور لازماً جانا ہے۔ اظہارِ افسوس کے لیے، کاش آج کی نسل کو بھی معلوم ہوتا کہ کچھ مواقع پر دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے پاس حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سماجی فرض ہے اور معاشرتی پابندی! دیہات کے کلچر میں کیا حُسن ہے۔ گائے بھینس مر جائے، تب بھی افسوس کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن مجھے ایک اور ہی سلسلے میں جانا ہے۔ دل قلق سے بھر گیا ہے۔ یوں لگتا ہے زخم ہے جو اندر ہی اندر رِس رہا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندر سے ہوک اٹھتی ہے۔ میں نے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما جناب اسفند یار کی خدمت میں حاضر ہونا ہے، اظہارِ افسوس کے لیے۔ ان سے گلے ملوں گا تا کہ سینہ چاک باہم اکٹھے ہو جائیں۔ افسوس کرنا ہے کہ وہ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں! ان کی حالت ...

مگر تم نے مری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے

امریکہ میں رہتے ہوئے بابر غوری کو کس چیز کا خوف تھا؟ الطاف حسین جب اس پر غرایا کہ پاکستان زندہ باد کیوں کہا تو وہ سہم گیا۔کیوں؟ پھر اس نے(میرے منہ میں خاک) پاکستان مردہ باد کہا، اس کی حالت اس بکرے کی سی تھی جسے قصاب پکڑ کر مذبح کی طرف لے جا رہا ہو۔ ہر کوئی حیران ہے کہ اب جب ’’بھائی‘‘ کی وحشت و بربریت کا زور کراچی میں بھی ٹوٹ چکا ہے تو بابر غوری قبیل کے لوگ امریکہ رہ کر کیوں لرزہ براندام ہیں؟ اس لیے کہ الطاف حسین ان کا(نعوذباللہ) پروردگار تھا۔ یہ جو امریکہ اور کینیڈا میں چند سو افراد اور ان کے خاندان بہترین شہروں کے گراں بہا محلوں میں رہ رہے ہیں، یہ الطاف حسین کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی ریستوران میں کسی زمانے میں ویٹر تھا اور اب امریکہ میں اس کے سو سے زیادہ پٹرول پمپ ہیں تو اسے ڈر ہے کہ الطاف حسین یہ کہہ نہ دے کہ ’’ابے! تیری حیثیت کیا تھی؟ تجھے میں نے بنایا، تجھے میں نے وزارتیں دلوائیں جن میں تو نے من مانی کی۔ میری وجہ ہی سے تو تُو لوٹ مار کرتا رہا۔ اتنی کہ آج امریکہ میں سیٹھ بنا پھرتا ہے۔ تیری یہ مجال کہ پاکستان زندہ باد کہے؟‘‘ ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا دولت تھی۔ دولت بٹورنے میں ا...

خواب

شہر کی بیرونی حدود شروع ہوتے ہی سرخ رنگ کی خوبصورتش عمارتیں نظر آنے لگیں۔ عمارتوں کا یہ ایک طویل سلسلہ تھا۔ درمیان میں سبزہ زار تھے اور درختوں کے ہجوم۔ گائیڈ مسلسل بتا رہا تھا۔۔۔۔ یہ آرٹس بلڈنگ ہے، یہ عظیم الشان عمارت سنٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن ہے، یہ سکول آف سائنٹیفک ریسرچ کی عمارت ہے، یہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ سرجری ہے، یہ عمارت صنعتی اقتصادیات کی تحقیق کے لیے مختص ہے اور دنیا میں انڈسٹریل اکنامکس کے حوالے سے سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس طرف تین کلو میٹر تک پروفیسروں کے رہائشی مکانات ہیں۔ دوسری طرف ہوسٹل ہیں۔ ان گیارہ ہوسٹلوں میں ہزاروں طلبہ رہ رہے ہیں جو دنیا بھر کے ملکوں سے فقط اس یونیورسٹی کی شہرت سن کر پڑھنے آئے ہیں۔ ان کی پشت پر شاپنگ سنٹر ہے۔ ملازمین کے بچوں کے لیے سکول اور کالج الگ بنے ہوئے ہیں۔  یونیورسٹی کیا تھی، پورا شہر تھا۔ سرفخر سے تن گیا۔ شہرِاقبال کے رہنے والوں نے کیا کمال کر دکھایا ہے۔ تاجروں نے دولت کو کس صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے! سبحان اللہ! مگر آہ! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ سب خواب ہے۔ جاگتے میں نظر آنے والا خواب! سیالکوٹ صنعت و حرفت کا گڑھ ہے۔ ا...

وینٹی لیٹر

وہ زندہ تھا۔ مگر لاش تھا! سانس چل رہی تھی۔ سیال غذا ٹیوب کے ذریعے معدے تک پہنچ رہی تھی۔ بیڈ کے ساتھ پلاسٹک کا بیگ لٹک رہا تھا اس میں بھی ٹیوب لگی تھی۔ ٹیوب کا دوسرا سرا مثانے تک جا رہا تھا۔ پیشاب اس بیگ میں جمع ہوتا رہتا ۔ نرسیں آتیں اور بیگ بدل جاتیں۔ لواحقین دیکھ بھال میں کمی کوئی نہیں رہنے دے رہے تھے۔ حجام دوسرے تیسرے دن آتا زندہ لاش کا شیو کرتا۔ کمرے کو صاف ستھرا رکھا جاتا۔ بڑا ڈاکٹر ہر روز آتا ساتھ تین چار جونیئر ڈاکٹر ہوتے اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی! … جلوس کی شکل کا یہ ’’رائونڈ‘‘ دس گیارہ بجے کے لگ بھگ ہوتا۔ اس سے پہلے لواحقین کو باہر نکال دیا جاتا۔ زندہ لاش کے تیمار دار‘ مگر موجود رہتے۔ سپیشل کیس کے طور پر‘ سٹاف انہیں باہر جانے کے لیے نہ کہتا۔ بڑا ڈاکٹر آنکھوں کے پپوٹوں کو اٹھا کر دیکھتا۔ پھر نبض پر ہاتھ رکھتا۔ دستانے میں چھپا ہاتھ مریض کے ہونٹوں اور ناک پر رکھتا۔ کبھی کبھی پنڈلیوں کی رگوں پر انگلیاں رکھ کر دیکھتا۔ پھر سینئر نرس کے ہاتھوں سے فائل لیتا۔ کاغذات الٹتا پلٹتا۔ بلڈ پریشر اور دل کی رفتار کا چارٹ ملاحظہ کرتا۔ پھر لواحقین کو دیکھ کر ذرا سا مسکراتا اور جلوس ک...

مفرور قاتل

پولیس جانتی تھی کہ قاتل کہاں ہے مگر اس کے ہاتھ بندھے تھے! وہ علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار کی حویلی میں تھا۔ پولیس کیا کرتی! پولیس کے افسر کی، جو ضلع بھر کا سربراہ تھا، تعیناتی ہی جاگیردار نے کرائی تھی۔ ایس پی تھا یا اُس سے بھی اُوپر، ایک ٹیلی فون کال کی مار تھا۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور زمینداروں کی حویلیوں میں قاتلوں کا چھُپ جانا اور پناہ لینا برصغیر کے معاشرے میں عام ہے۔ یہ ’’روایت‘‘ کم ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔ کتنے ہی ڈیروں میں آج بھی مجرم چھپے ہوئے ہوں گے اور وڈیرے، سندھ کے ہوں یا جنوبی پنجاب کے، یا بلوچستان کے سردار، ان کی حفاظت کر رہے ہوں گے۔ اس لیے کہ ان کے مفادات اِن مفروروں سے وابستہ ہیں۔ عالمی سطح پر اس غلیظ روایت کا آغاز برطانیہ نے کیا ہے۔ الطاف حسین برطانیہ کے ڈیرے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ برطانیہ اُس جاگیردار کا رول ادا کر رہا ہے جس سے ہر امن پسند شہری نفرت کرتا ہے۔ شدید نفرت! ڈاکؤوں کی وہ قوم کلائیو جیسے بد معاش جس کے بزرگ ہوں، شرافت کا مظاہرہ کر بھی نہیں سکتی۔ کون سی دغابازی، عہد شکنی اور کون سی گھٹیا، نیچ حرکت ہے جو موجودہ برطانیہ کے آباواجداد نے برصغیر میں نہیں...

محسن کُش

یہ جمعرات کی شام تھی۔ سرحدی افغان قصبے سپن بولدک کے گلی کوچوں میں جلوس نکالا جا رہا تھا۔ افغان ’’آزادی‘‘ کی 97ویں سالگرہ تھی! دلچسپ بات یہ تھی کہ ’’آزادی‘‘ کے اس جلوس میں بینر اور پلے کارڈ جن لوگوں نے اٹھا رکھے تھے، ان پر پاکستان کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے ان افغانوں نے ’’بابِ دوستی‘‘ پر چڑھائی کر دی۔ نعرے زیادہ بلند ہو گئے۔ پاکستانی سائڈ پر مودی کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا۔ اچانک افغانوں نے ایک پاکستانی سے پاکستانی جھنڈا چھین لیا اور اسے نذرِ آتش کر دیا۔ پاکستانی حکام نے سرحد بند کر دی۔ دس سے پندرہ ہزار افراد روزانہ یہ سرحد دونوں طرف سے عبور کرتے ہیں۔ گاڑیوں کی ایک طویل قطار ہے جو سرحد کھلنے کا انتظار کر رہی ہے۔ پاکستانی جھنڈے کو جلا کر، دل میں بھڑکتی ہوئی پاکستان دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کیا گیا۔ نعرے کیوں لگے اور پاکستانی پرچم کی یہ دلخراش اور ناقابلِ برداشت توہین کیوں کی گئی؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے امیر المومنین سیدنا علی المرتضیؓ کی چوکھٹ پر جانا پڑے گا۔ فرمایا: جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ پاکستانی قوم افغانوں پر 38سال سے احسان کر رہی ...

مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

یہ 1944ء کی بات ہے۔ سوویت یونین کے سائنس دانوں نے ایک خاص قسم کے بخار کا وائرس دریافت کیا۔ یہ دریافت کریمیا میں ہوئی۔ یوں بخار کا نام ’’کریمیا بخار‘‘ پڑ گیا۔ لیکن سوویت ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی تحقیق کسی منطقی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ کانگو، ایک افریقی ملک، اُس وقت بلجیم کی کالونی تھا۔ 1956ء میں کریمیا والا جرثومہ کانگو میں بھی پایا گیا۔ مزید تحقیق کے لیے اسے نیویارک کی لیبارٹری میں بھیجا گیا۔ پھر 1967ء میں ایک روسی سائنسدان میکائیل چماکوف کو سمرقند میں ایک مہلک وائرس ملا۔ اس نے بھی مزید تحقیق کے لیے اسے نیویارک لیبارٹری میں بھیجا۔ وہاں سے بتایا گیا کہ یہ وہی وائرس ہے جو کانگو میں پایا گیا تھا۔ بہر طور اس وائرس کا نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ پڑ گیا۔ یہاں سوویت یونین اور مغربی ملکوں کے سائنسدانوں کے درمیان کھٹ پٹ بھی ہوئی۔ مغربی ملکوں کے ڈاکٹر اس کا نام ’’کانگو کریمیا وائرس‘‘ رکھنا چاہتے تھے۔ روسی مُصر تھے کہ نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ پڑے۔ روسی جیت گئے۔ باضابطہ نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ ہی رکھا گیا۔ اس وائرس کی موجودگی یونان، پرتگال، جنوبی افریقہ‘ میڈاغاسکر، مراکش، دبئی‘ سعودی عرب، ...

سوراخ اُسی قدر ہیں پرانی جُراب میں

کیا خوش پوش نوجوان تھا! بادامی رنگ کے خوبصورت اوور کوٹ میں ملبوس۔ کاج میں پھول۔ سر پر ٹیڑھا رکھا ہوا ہیٹ۔ گلے میں سفید ریشمی مفلر۔ ہاتھ میں بید کی فیشنی چھڑی۔ جس دکان میں داخل ہوتا‘ سیلز مین اس کے آگے بچھنے لگتا۔ ہر خالی ٹیکسی اس کے قریب آ کر رکتی۔  ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے کچل دیا۔ اب ہسپتال میں نرسیں اُس کی لاش کا معائنہ کر رہی تھیں۔’’مفلر کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا‘ سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بہت بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے بوسیدہ اور میلا کچیلا بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلو بند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا۔ البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پائوڈر لگا ہوا تھا… پتلون کو پیٹی کی بجائے ایک پرانی دھجی سے ‘جو شاید کبھی نکٹائی ہو گی ‘ خوب کس کر باندھا گیا تھا۔ بوٹ خوب چمک رہے تھے مگر ایک پائوں کی جراب دوسرے پائوں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پ...

زہر میں بجھے تیر

ابھی بم ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ ایٹم بم نہ ڈیزی کٹر، لیکن ہلاکت موجود تھی۔ کیا آپ کو معلوم ہے اُس وقت تیر کمان اور بھالوں کا زمانہ تھا؟ اگر معلوم ہے تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ تیر زہر میں بجھے ہوتے تھے! تیروں کا وہ نوکیلا حصّہ جو دشمن کے جسم میں پیوست ہوتا تھا‘ زہر آلود کر لیا جاتا تھا۔ اس قدیم فن میں یوں تو افریقی بھی ماہر تھے‘ مگر اسے باقاعدہ صنعت کا درجہ وسطی اور جنوبی امریکہ کے وحشی قبائل نے دیا تھا۔ آسام، برما اورتھائی لینڈ کے جنگلوں میں رہنے والے نیم وحشی لوگ بھی اس فن میں طاق تھے۔ اس مقصد کے لیے زہر کے ذرائع دو تھے۔ پودے اور جانور۔ زہریلے پودوں کے پتوں اور پھلوں سے زہر حاصل کر کے تیر کے سرے پر لگا دیا جاتا تھا۔ زہریلے مینڈک بھی اس ضمن میں کام آتے تھے۔ کچھ قبیلے زیادہ جدت پسند تھے۔ سانپ یا زہریلی چھپکلی کو قید کر کے ساتھ گوشت رکھ دیتے تھے۔ پھر ’’قیدیوں‘‘ کو اتنا زچ کیا جاتا تھا کہ وہ بار بار گوشت کو کاٹتے تھے۔ یوں یہ گوشت زہر سے بھر جاتا تھا۔ اب تیر اس گوشت میں گاڑ دیے جاتے تھے۔ جب زہر تیروں کے نوکیلے سروں میں سرایت کر جاتا تب انہیں لڑائی میں استعمال کرتے تھے۔ یہ زہر اعصابی ن...

اس کے علاوہ کوئی حل نہیں

تصویر

گھر تو آخر اپنا ہے

قریشی صاحب سرکاری ملازم تھے۔ پاکستان ایئرفورس میں ایک باعزت عہدے پر فائز! سرکار کی طرف سے الاٹ شدہ گھروں ہی میں رہے۔ ہم نے کبھی نہ پوچھا کہ آبائی گھر کا کیا ہوا۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ بِک کر ورثا میں بَٹ جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ ریٹائرمنٹ سے سال پہلے ایک قطعۂ زمین سرکار کی طرف سے عطا ہوا یا خود خریدا، پھر وہ اس کی تعمیر میں جُت گئے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے، ایک ٹھیکیدار، عین وسط میں چھوڑ گیا۔ اس طبقہ کے لوگ عموماً یہی کرتے ہیں۔ بیچ منجھدار کے ایک کو چھوڑا، دوسرے کو پکڑا، دوسرے کو جل دے کر تیسرے کے ہاں کام شروع کر دیا۔ اس بے اصولی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اکثر بے برکتی کا شکار رہتے ہیں۔ قدرت کا ان دیکھا نظام انہیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔ بہرطور قریشی صاحب نے رات دن ایک کر کے گھر مکمل کیا۔ اس میں منتقل ہوئے۔ ہم مبارک دینے گئے تو ایک فقرہ انہوں نے کہا ایسا کہ یادداشت کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو کر رہ گیا۔ کہنے لگے، مسائل بہت سے ہیں۔ ایک کمرے کی دیواروں میں پانی آنے لگا ہے، بجلی کا کام تسلی بخش قطعاً نہیں ہوا۔ مگر جو کچھ بھی ہے، اپنا گھر ہے۔ کمبل اوڑھ کر، صوفے پر نیم دراز ہ...

کچھوے کے اوپر زرہ ڈال دی گئی ہے

بحری جہاز میں کچھ کوکیبن نما کمرے ملے ہوئے تھے۔ کچھ کو اعلیٰ درجے کی خواب گاہیں‘ کچھ عرشے پر تھے۔ مگر ہر شخص‘ جہاں بھی تھا‘ اپنی جگہ کی خوب دیکھ بھال کر رہا تھا۔ ملکیت کا احساس شدید تھا۔ کیبن نما کمروں والے‘ اپنے کمروں کو کل کائنات سمجھ کر ان کی خوب صفائی کرتے تھے۔ جنہیں اعلیٰ درجے کی خواب گاہیں الاٹ ہوئی تھیں‘ وہ اپنی برتری میں مست تھے اور اپنے اپنے مسکن کو زیادہ سے زیادہ پرتعیش بنانے میں لگے رہتے تھے۔ وہ جو عرشے پر تھے‘ وہ بھی اپنی بنچ نما نشستوں کو جھاڑتے پونچھتے رہتے تھے۔ اس بحری جہاز میں اگر کوئی محرومِ توجّہ تھا تو وہ خود بحری جہاز تھا! کسی کو ذرہ بھر فکر تھی نہ پروا کہ جہاز کا کیا حال ہے؟ اس کا تیل پانی کتنا رہ گیا ہے؟ اس کے انجن کی صحت کیسی ہے؟ اس کی تہہ میں سوراخ تو نہیں ہوا ہے؟ اس کے سب سے نچلے حصے کے اندر پانی تو نہیں آ رہا ہے؟ یہ کسی چٹان سے تو نہیں ٹکرانے والا‘یہ قزاقوں کے نشانے پر تو نہیں؟ کہیں سمندری طوفان کے آثار تو نہیں؟ جہاز کے کپتان سے لے کر‘ عملے کے جونیئر ترین رکن تک‘ مہنگی خواب گاہوں میں سونے والوں سے لے کر عرشے کے بنچوں پر بیٹھنے والوں تک‘ سب اپنی اپنی ملکی...

کاش! مہاتیر اور نیلسن منڈیلا کی طرح۔۔۔۔

کیا آپ نے غور کیا ہے کہ دنیا کے جن ملکوں کو ہم بالکل لائق توجہ نہیں سمجھتے‘ کبھی کبھی ان کے بارے میں بھی جاننے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایسا ہی دنیا کا ایک خطہ کیریبین  (Caribbean)  ہے۔ ساری دنیا سے الگ‘ امریکی ریاست فلوریڈا کی ناک کے نیچے‘ خلیج میکسیکو کے مشرق میں‘ بحر اوقیانوس کے گھٹنوں کے پاس! آپ نے کئی ملکوں کا نام اکثر سنا ہو گا۔۔۔ کیوبا‘ ہیٹی‘ جمیکا‘ جزائر بہاما وغیرہ، یہ سب کیریبین کے خطے میں ہیں۔ ان میں سے انگریزی بولنے والے ملکوں نے مشترکہ کرکٹ ٹیم بنا رکھی ہے جسے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کہا جاتا ہے۔ اگر یہ ٹیم جیت جائے تو پاکستانی اسے کالی آندھی کہہ کر دل کا غبار نکالتے ہیں۔ ایک ملک اس خطے میں ڈومِنیکن  (Dominican)  ریپبلک بھی ہے۔ ایک کروڑ آبادی میں پانچ چھ لاکھ مسلمان ہیں۔ وہ بھی زیادہ تر مسلمان ملکوں سے آئے ہیں! ایلکس مارل اسی ڈومنیکن ریپبلک میں پلا بڑھا۔ پھر امریکہ چلا آیا۔ نیو یارک کی سینٹ جان یونیورسٹی کے شعبہ فوٹو گرافی نے اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ یوں کہ اعلیٰ تعلیم فوٹو گرافی میں حاصل کی۔ پھر یہیں پروفیسر تعینات ہو گیا۔ ایلکس مارل کا شم...

گیارہ ڈالر کا بیگ

پاتھ لائٹ سنگاپور کا ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ اس میں ان بچوں کے ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو نفسیاتی حوالے سے نارمل نہ ہوں۔ بعض بچے توجہ مرتکز نہیں کر سکتے یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاتھ لائٹ میں ان بچوں کو فنونِ لطیف کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ انیس سالہ شنگ جی انہی بچوں میں شامل ہے۔ وہ توجہ مرتکز نہیں کر سکتا۔ دھیان بکھر جاتا ہے۔ جانے اس کے ذہن میں کیسی گرہ ہے کہ وہ صرف ڈائنوسار بنا سکتا ہے اور ان کی مصوری کر سکتا ہے۔ ان تصویریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سکول ان سے بیگ، پرس، کاپیاں اور کارڈ بناتا ہے۔ انہی میں سے ایک ہینڈ بیگ سنگاپور کی خاتونِ اوّل ہوچنگ نے آن لائن گیارہ ڈالر میں خریدا۔ پاکستانی حساب سے یہ رقم گیارہ بارہ سو روپے بنتی ہے۔ سنگاپور کے وزیر اعظم کی بیگم ہوچنگ صرف خاتونِ اوّل ہونے کی وجہ سے معروف نہیں۔ بذاتِ خود ان کی شہرت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ ہوچنگ نے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے 1976ء میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجوایشن کی۔ اسی مضمون میں امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ انجینئر کے طور پر سنگاپور کی وزارت دفاع میں ملازمت کا آغاز کی...