پردیس میں ناصبور ہے تو
گھر والوں کو چاہیے کہ جلدی کریں۔ دیر ہو رہی ہے۔ دُھلے ہوئے کپڑے نکالیں تاکہ تبدیل کروں، راستے کے لیے کھانا ساتھ دیں۔ ہم جب آبائی بستیوں میں مقیم تھے تو سفر پر جاتے ہوئے پراٹھے اور انڈوں کا خاگینہ کپڑے میں باندھ کر ساتھ رکھ لیتے تھے۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ بیٹی سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔ جانا ہے اور لازماً جانا ہے۔ اظہارِ افسوس کے لیے، کاش آج کی نسل کو بھی معلوم ہوتا کہ کچھ مواقع پر دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے پاس حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سماجی فرض ہے اور معاشرتی پابندی! دیہات کے کلچر میں کیا حُسن ہے۔ گائے بھینس مر جائے، تب بھی افسوس کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن مجھے ایک اور ہی سلسلے میں جانا ہے۔ دل قلق سے بھر گیا ہے۔ یوں لگتا ہے زخم ہے جو اندر ہی اندر رِس رہا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندر سے ہوک اٹھتی ہے۔ میں نے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما جناب اسفند یار کی خدمت میں حاضر ہونا ہے، اظہارِ افسوس کے لیے۔ ان سے گلے ملوں گا تا کہ سینہ چاک باہم اکٹھے ہو جائیں۔ افسوس کرنا ہے کہ وہ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں! ان کی حالت ...